فہرست الطاہر
شمارہ 49، محرم 1429ھ بمطابق فروری 2008ع
خطاب مبارک
سیدنا مرشدنا حضرت خواجہ محبوب سجن سائیں مدظلہ العالی

فوائد درود النبی صلّی اللہ علیہ وسلم

گذشتہ سے پیوستہ

ان تعبد اللہ کانک تراہ

تو ایسے عبادت کر جیسے تو اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ ایک اللہ والے کا واقعہ ہے کہ اس نے ایک عالم دین سے پوچھا کہ حضور جنتی جب جنت میں جائیں گے تو کیا جنت میں بھی نماز پڑھی جائے گی؟ اس عالم دین نے جواب دیا کہ قبلہ عمل تو دنیا میں ہے، دنیا دار العمل ہے اور جنت دار الجزا ہے۔ یہاں پر جو عمل کیا سو کیا۔ نمازیں پڑھیں، صلوٰۃ التسبیح پڑھیں، روزے رکھے۔ مگر قبلہ وہاں پر اللہ کی طرف سے عیش و آرام ہوگا، باغات، میوات اور ہر طرح کا سامان ہوگا۔ یہ سن کر بزرگ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ روکر کہنے لگا کہ عالم صاحب اگر جنت میں نماز نہیں ہوگی تو ہمارا وقت کیسے گذرے گا۔ اس بزرگ کی نظر جنت کی حور و غلمان پر نہیں تھی، جنت کے ثمرات پر نہیں تھی، وہ محل اسے پسند نہیں آئے جن کی دیواریں سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنائی گئی ہیں، جن میں مشک و عنبر استعمال کیا گیا ہے۔ اس طرف توجہ نہیں کہ عالیشان باغ ہوں گے جو تاحد نگاہ نظر آئیں گے۔ دودھ اور شہد کی میٹھی اور ٹھنڈی نہروں کی طرف بزرگ کی توجہ نہیں گئی۔ اس کی توجہ صرف نماز کی طرف گئی، کیونکہ اسے نماز میں وہ لطف اور مزہ آتا ہے جو جنت کی تمام چیزوں میں نظر نہیں آتا۔ اس لیے کہ بزرگ کو نماز میں اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوتا تھا۔ یہ اندازہ لگائیں کہ تمہاری اور ہماری نماز میں کتنی دل لگتی ہے۔ ہمارے ایک دوست نے ہمیں بتایا کہ ایک مسجد میں خطیب سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے کہا سائیں سچی بات بتاؤں؟ میں نے کہا بتاؤ۔ خطیب نے کہا اگر میں امام نہ ہوتا اور جو چار پیسے تنخواہ مجھے ملتی ہے اگر نہ ملتی تو شاید مجھے نماز نصیب نہ ہوتی۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ آج ہماری حالت کیا ہے؟ کیا ایسے کاموں سے تم اللہ کے حبیب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی رضا کو حاصل کرو گے؟ یہ تمہارا عشق ہے؟ یہ تمہاری محبت ہے؟ احباب کے ساتھ گھنٹوں کے گھنٹوں باتیں کرتے ہو۔ بازاروں میں گھوم سکتے ہو۔ فلموں میں اور سینماؤں پر جاکر وقت برباد کرسکتے ہو حالانکہ وہ گناہ کبیرہ ہے۔ اور تمہیں یہ توفیق نہیں ہوئی کہ مسجد میں جاکر خدا کا فرض ادا کریں۔ کیا یہ تمہاری محبت ہے اللہ تعالیٰ سے؟ یہ تمہاری محبت ہے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے؟ جبکہ ہمارے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی اپنے امتیوں سے کتنی محبت ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چند صحابہ کرام ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ گفتگو کرتے کرتے انبیاء کرام کا تذکرہ آگیا۔ اتنے میں حضور صلّی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے۔ صحابہ کرام کی گفتگو جاری ہے۔ ایک صحابی نے کہا سیدنا آدم علیٰ نبینا علیہ السلام کتنے برگزیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء میں سے آپ کو پسند کیا اور امتیازی شان عطا فرمائی۔ دوسرے صحابی نے کہا سیدنا آدم علیٰ نبینا علیہ السلام کے بعد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بلند مرتبہ عطا ہوا اور اللہ نے آپ کو اپنا دوست کہہ کر بلایا۔ کیا مقام ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا کہ کافر آپ کو کہتے ہیں آپ اللہ کی تبلیغ سے رک جائیں، اسکی دعوت سے رک جائیں، ہمارے بتوں کو برا بھلا نہ کہیں، ان کی عبادت اور پوجا سے نہ روکیں، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے سامنے ہوجاتے ہیں، ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ کافر نمرود، اپنے وقت کا بادشاہ آپ کو عذاب دینے کے لیے اپنی رعیت کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لکڑیاں جمع کی گئیں، آگ لگائی گئی ہے۔ قرآن مجید میں یہ واقعہ موجود ہے کہ آپ کو آگ کے الاؤ میں پھینکنے کے لیے منجنیق بنائی گئی۔ آگ اتنی گرم ہے کہ کوئی پرندہ اوپر سے اڑ نہیں سکتا، کوئی قریب نہیں جاسکتا۔ جب حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکنے کا وقت قریب آیا تو ملائکہ نے عرض کی یا رب العالمین یہ تیرا خلیل آگ میں ڈالا جارہا ہے، کیا ہمیں اجازت ہے کہ ہم اس کی مدد کریں؟  اللہ تعالیٰ تو علیم خبیر ہے، دلوں کے رازوں کو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تمہاری مدد قبول کرتا ہے تو کرو۔ جبرئیل امین علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے۔ یا خلیل اللہ میں آپکا خدمتگار دوست ہوں، یہ کافر آپ کو نہیں چھوڑیں گے، آپ کو آگ میں پھینکنے والے ہیں، مجھ کو حکم دیں ایک پر سے انہیں نیست و نابود کردوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اجازت دے دی ہے مگر آپ کی اجازت سے مشروط ہے۔ یا حضرتا مجھے اجازت دیں تو آپ کو کسی محفوظ مقام پر لے جاؤں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے جبرئیل مجھے تیری مدد اور تعاون کی ضرورت نہیں ہے، میرے لیے اللہ جلشانہ کافی ہے۔ تو دیکھتا ہے مگر تجھ سے زیادہ اس وقت مجھے  اللہ دیکھ رہا ہے۔ تیری مجھ سے محبت ہے مگر تجھ سے زیادہ اللہ کی محبت میرے ساتھ ہے۔ جس نے مجھے خلیل بنایا۔ کیا وہ مجھے ضایع کریگا؟ اگر مجھے آگ میں پھینکنے میں اس کی رضا ہے تو میں راضی ہوں۔ حضرت میکائیل علیہ السلام نے  اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا یارب العالمین یہ تیرا برگزیدہ بندہ ہے، تیراخلیل ہے، مجھے اجازت دو میں ا س کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں۔ حضرت میکائیل کو اجازت مل گئی۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی یا حضرتا، اللہ تعالیٰ کے پیارے پیغمبر آپ کا خادم حاضر ہے۔ مجھے صرف حکم دیں میں ایک بادل کو حکم دیتا ہوں وہ اتنا پانی برسائے گا کہ آگ ختم ہوجائے گی اور کبھی بھی نہ جلے گی یا حضرتامجھے اجازت دیں تو میں آپ کو دوسری جگہ منتقل کردوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وہی جواب دیا اے میکائیل کیا تجھے رب سے زیادہ میرے ساتھ محبت ہے؟ اگر خدا کی رضا اس میں ہے کہ میں آگ میں پھینکا جاؤں تو میں راضی ہوں۔ ایسے فرشتے آتے رہے سب لوٹتے رہے ہیں۔  اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے دوست کو آزما رہا تھاپھر آپ کواس آگ کے درمیا ں پھینکا گیا۔ ہم اور آپ اگر آگ میں انگلی لگا ئیں تو پتہ چلتا ہے کہ کیا اس کی تپش ہے لیکن اتنے بڑے الاؤ کے درمیان حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پھینکا گیا پھر بھی آپ کے ہونٹوں، چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ آپ مسکرارہے تھے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آگ اللہ تعالیٰ کی پیداکردہ ہے۔ میں بھی خدا کا بندہ ہوں۔ اگر آگ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے تو یہ مجھے جلائے گی۔ اگر خدا راضی ہے تو میں خوش ہوں۔ اگر آگ کو حکم نہیں ہے جلانے کا تو پھر اسے طاقت نہیں ہے کہ مجھے جلائے۔ اس آگ کے درمیان حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی رضا کو حاصل کیا۔

اے میرے بھائی اے میرے دوست تو تو تھوڑی سی مشکلات میں، تو تھوڑی سی تکلیف میں صبر چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ابھی میرے لیے راستہ ہی نہیں بچا۔ کبھی اس کی طرف بھاگتا ہے کبھی اس کی طرف بھاگتا ہے۔ پھر تیرے دل میں یہ خواہشات پیدا ہوتی ہیں کہ یہ تکلیفیں میرے مولیٰ مجھ پر ہی کیوں؟ اے انسان تو یاد رکھ صرف تجھ پر ہی مصیبت نہیں آئی ہے، تجھ سے زیادہ مصیبتیں ان پر آئی ہیں جو خدا تعالیٰ کو زیادہ پسند ہیں، تجھ سے زیادہ خدا کے محبوب ہیں۔ جتنا زیادہ انہیں قرب عطا کیا گیا اتنا زیادہ ہی انہیں آزمایا گیا۔ آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنا مجھے آزمایا گیا، جتنی مجھے ایذا دی گئی اتنی دنیا میں کسی نبی کو ایذا نہیں دی گئی۔

میں عرض کررہا تھا ان صحابہ کرام نے اپنے تذکرے کو جاری رکھا۔ دوسرے نے کہا موسیٰ علی نبینا علیہ السلام کو یہ مقام عطا ہوا کہ براہ راست اللہ سے ہمکلام ہوئے۔ تیسرے نے کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کلمۃ اللہ، روح اللہ کا مقام، اعزاز، شرف اور شان عطا ہوا۔ حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم یہ سب باتیں سنتے رہے اور مسکراتے رہے۔ آخر میں صحابہ کرام کو فرمایا جو کچھ تم نے کہا وہ برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنا برگزیدہ بنایا اس میں شک نہیں ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا اس میں بھی شک نہیں ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا کلیم بنایا، اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا اس میں بھی کوئی شک نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کلمۃ اللہ اور روح اللہ کا شرف بخشا اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن اے صحابیو! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اعزاز عطا فرمایا ہے کہ مجھے اپنا حبیب اللہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ اعزاز عطا فرمایا ہے کہ قیامت کے دن جب تمام انبیاء محشر کے میدان میں ہوں گے، سب اللہ تعالیٰ سے اپنی جان کی امان مانگ رہے ہوں گے۔ اس وقت میں اللہ تعالیٰ مجھے حمد والا جھنڈا عطا فرمائے گا جو میں ہاتھ میں اٹھاؤں گا۔ اس جھنڈے کے سائے میں نہ صرف میرے امتی آئیں گے بلکہ تمام انبیاء بھی آئیں گے۔ تمام انبیاء کی امتیں بھی آئیں گی اور سب سے پہلے شفاعت کے لیے بارگاہ خداوندی میں عرض میں کروں گا اور اللہ تعالیٰ میری التجاء کو قبول کرتے ہوئے شفاعت کا دروازہ کھول دیں گے۔ میں اپنی امت کی قطاروں کو لے کر سب سے پہلے جنت کے دروازے پر پہنچوں گا۔ سب سے پہلے جنت کے دروازے کی زنجیر کو ہلانے والا میں ہوں گا۔ حضرت آدم علیہ السلام موجود ہوں گے، حضرت ابراہیم علیہ السلام موجود ہوں گے، موسیٰ علیہ السلام موجود ہوں گے، تمام انبیاء کرام موجود ہونگے لیکن یہ تمام اعزاز اللہ تعالیٰ مجھے عطا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ میری اس زنجیر کی آواز پر اپنی جنت کے دروازے کھول دے گا اور تمام انبیاء سے پہلے میرے پیچھے میرے غریب امتی ہوں گے، فقیر مسکین امتی ہوں گے۔

اے غریب مسکین تجھے اس بات کا دکھ نہیں ہونا چاہیے کہ تو غریب اور مسکین ہے۔ یہ تیرے لیے اعزاز ہے کیونکہ میرے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی تھی اللّٰہم احیینی مسکینا وامتنی مسکینا واحشرنی فی زمرۃ المساکین۔

اے میرے مولیٰ مجھے مسکینوں میں ہی زندہ رکھ، مجھے موت آئے تو میں مسکینوں میں ہی ہوں اور قیامت کے دن مجھے مسکینوں کی جماعت کے ساتھ اٹھانا۔ آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں میری امت کے مسکین امیروں اور رئیسوں سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے۔ یہ امیر یہ رئیس انتظار میں ہوں گے اور میرے غریب امتی پہلے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ اس سے تم اندازہ لگاؤ کہ غریبوں اور مسکینوں سے میرے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کو کتنی محبت تھی۔ تو بھی سراپا محبت بن جا۔ سراپا شفقت بن جا۔ تجھے بھی اپنے ماں باپ سے پیار ہو۔ اپنے گھر والوں سے پیار ہو۔ پڑوسیوں سے اچھا سلوک کر۔ جمیع امت کے ساتھ محبت ہونی چاہیے۔ اگرکوئی گنہگار ہے اسے تو گنہگار سمجھتا ہے مگر اس سے بھی تجھے پیار ہونا چاہیے کیونکہ ممکن ہے جسے تو گنہگار سمجھتا ہے، اس سے نفرت کرتا ہے مستقبل میں وہ نیک بن جائے۔ اللہ تعالیٰ تو بڑا مہربان ہے وہ نیک اور پرہیزگار بن جائے۔ اور یہ بھی تو ممکن ہے معاذ اللہ تو اور میں شیطان کے جال میں آجائیں اس راہ سے ہٹ کر گناہ کے راستے پر آجائیں۔ اس لیے گنہگاروں سے تمہیں کبھی بھی نفرت نہیں کرنی چاہیے۔ الخلق عیال اللہ، جمیع مخلوق خدا کا کنبہ ہے۔ میرے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ جمیع مخلوق سے محبت کرو۔ چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ہو۔ ایک صحابی فرماتا ہے کہ ہم مدینہ منورہ میں ایک جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم رونق افروز تھے۔ اچانک چند لوگ جنازہ لے کر گذرتے ہیں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی نظر جب پڑی تو آپ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہم آپ کی اطاعت میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور حیران ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم یہ یہودی وہ ہے جسکا جنازہ جارہا ہے جو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے، جو دین اسلام کا مخالف ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ یہودی ہے تو کیا ہوا۔ انسان تو ہے اور انسان ہونے کے ناطے ہمارا حق بنتا ہے۔ اس سے اندازہ لگاؤ کہ میرے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کو مخلوق کے پیار سے اللہ تعالیٰ نے کتنا لبریز کردیا تھا۔ وہ طائف کے انسان جنہوں نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے۔ جنہوں نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر کتے چھوڑے۔ جنہوں نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف اور ایذا دیں۔ اپنے لوفر لڑکوں کو بھیجا جو آپ کے پیچھے سیٹیاں بجاتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں مذاق اڑاتے ہیں، اتنی تکلیف اور ایذا کسی دوسری جگہ تبلیغ کی وجہ سے نہیں ملی تھی جتنی طائف کے میدان میں آپ کو دی گئی۔ لیکن آپ کا حوصلہ دیکھیں، آپ کی محبت دیکھیں، آپ کی شفقت دیکھیں، فتح مکہ کے دن جب مکہ مکرمہ کے ارد گرد رہنے والے تمام قبیلے قطار در قطار اسلام میں داخل ہورہے ہیں، طائف کے وہ لوگ جو آپ کے دشمن تھے، جنہوں نے آپ کو تکلیفیں دی تھیں۔ ان میں سے کچھ لوگ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ صحابہ کرام کا لشکر دس ہزار سے زیادہ فوج پر مشتمل ہے۔ اس سے بھی زیادہ فوجِ مسلم موجود ہے۔ کسی کو ہمت نہیں کہ آپ کے سامنے کچھ کہے۔ طائف والے ایک چھوٹے علائقے، ایک چھوٹے قبیلے کے رہنے والے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں کو بھلادیا کہ ان لوگوں نے طائف میں ہمارے ساتھ کیا کیا تھا۔ پینے کے لیے پانی نہیں دیا تھا بلکہ پتھر برسائے تھے۔ کتے چھوڑے تھے، ان آوارہ لڑکوں کو چھوڑا جو حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی دل آزاری کررہے تھے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں سے زیادہ طائف والوں کو پیار دیا۔ حرم کعبہ کے قریب صحن میں بڑا خیمہ لگاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ طائف والوں سے خاص ہے۔ وہ طائف والے جو آپ پر ظلم کرتے تھے اور پتھر برساتے تھے وہ اس خیمہ میں رہتے ہیں۔ ہر وقت اپنی نگرانی میں آپ کھانا بھیجتے ہیں۔ تحفے بھیجتے ہیں۔ کچھ دن رہنے کے بعد آپ کے اخلاق مبارک، محبت و شفقت دیکھ کر وہ اتنے متاثر ہوئے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہ اخلاق نبوی ہے۔

اے مسلمان تجھ میں وہ اخلاق پیدا ہونا چاہیے، تجھ میں وہ صبر و تحمل و بردباری پیدا ہونی چاہیے، اس کے سوا تو کبھی کامیابی اور کامرانی حاصل نہیں کرسکتا۔ جو تم دعویٰ کرتے ہو کہ فلاں ملک کو فتح کردیں گے، وہاں اسلام کا جھنڈا سربلند کردیں گے۔ یہ اسلحے اور بندوقوں سے نہیں ہوگا بلکہ یہ اخلاق نبوی سے ممکن ہے۔ جب تک تمہارے اندر وہ اخلاق پیدا نہیں ہوتا۔ جب تک تمہارے دل میں رحم والا مادہ پیدا نہیں ہوتا تب تک تم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ابوسفیان کی اہلیہ جسکا نام ہندہ ہے۔ جس نے میرے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے پیارے چچا حضرت امیر حمزہ کی وفات کے بعد آپ کے جسم اطہر کی بے حرمتی کی کہ آپ کو جسم اطہر کو چاک کرکے دل مبارک نکال کر چباتی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ دشمنی کی انتہا کیا ہے؟ جب وہ ہندہ نامی عورت حرم کعبہ میں میرے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوتی ہے تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم وہ تمام باتیں بھول کر اسے محبت و شفقت سے نوازتے ہیں۔ اس موقعہ پر آپ نے عورتوں کو مختلف طریقوں سے بیعت فرمایا جیسے کچھ روایتوں میں آتا ہے کہ بڑا برتن لایا گیا جس میں پانی رکھا گیا۔ اس موقعہ پر ہندہ نامی عورت بھی موجود تھی آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس پانی میں اپنی انگلی مبارک ڈالی دوسری عورتوں نے بھی اپنی انگلیاں ڈالیں اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی دعائیں پڑھاکر انہیں دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے انسان ذات سے کتنی محبت و شفقت عطا کی۔ میرے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ آج اپنے بھی کرتے ہیں، غیر بھی کرتے ہیں۔ انگریز ہوں، یورپ میں رہنے والے عیسائی ہوں، امریکا کے رہائشی یہودی ہوں، ان کو میرے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے نام کا پتہ ہے اور آپ کا نام لیتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اتنا اعزاز اور شان عطا فرمایا۔ آپ کو حسن اخلاق سے نوازا، آپ کو خوب صورت اور خوب سیرت بنایا۔ یہ اوصاف تم اپنے اندر پیدا کرو تاکہ تم خدا کی رحمت کے حقدار بن جاؤ۔

جو آیت کریمہ میں نے تلاوت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ رحمت ذاتی میں اس وقت اپنے بندوں کو عطا کروں گا جب وہ کثرت سے ذکر کریں گے۔ اس ذکر کے طریقے کو دل و جان سے تم حاصل کرو۔ بائیں طرف انسان کی دل ہے۔ یہ ذکر خفی ہے، حضرات نقشبند کا ذکر ہے۔ جیسے اس عاجز نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا کہ آپ کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں حضور اس سے ہم کو حصہ عطا ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ذکر کرو، ذکر کثیر کرو، ذکر کثیر زبان سے ہر وقت نہیں ہوسکتا۔ ذکر قلبی سے ہوسکتا ہے۔

جس طریقے کا بھی ہمارا دوست ہو، جس بھی سلسلے سے وابستہ ہو ان کو اس وظیفے کی عام دعوت ہے۔ مرید جس کے بھی ہو اسی کے رہو، یہ ذکر اسم ذات کرتے رہیں، انشاء اللہ آپ کا قلب روشن ہوجائے گا، دل باخدا ہوجائے گا، تحمل و بردباری کا مادہ پیدا ہوگا، محبت و پیار پیدا ہوگا، دل میں عجز و انکساری پیدا ہوگی، اپنے گناہوں کا احساس پیدا ہوگا۔ پھر تم اللہ کی رحمت کوحاصل کرو گے اس کی مغفرت پاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق ذکر بخشے۔