
فہرست | الطاہر شمارہ 49، محرم 1429ھ بمطابق فروری 2008ع |
محبوب سجن سائیں شریعت و طریقت کے آئینے میںحافظ علی بخش پنہور طاہری
جب فسق و فجور کی رسمیں عروج پر پہنج جاتی ہیں، جب قلب مومن مردہ بن جاتا ہے، استقراء الٰہی کی وہ پاکیزہ جگہ جب افسردہ باتوں کا مجمع بن جاتی ہے، مشاہدات دلائل الٰہی رکھنے والی آنکھیں جب جدید ٹیکنالاجی کے پھندے میں پھنس جاتی ہیں، جب قطع رحمی کا سلسلہ عام ہوجاتا ہے، لوگ آپس میں ملنے کے وقت گالیوں سے ایک دوسرے کا استقبال کرنے لگتے ہیں، ہر کام سنت نبوی کے خلاف ہونے لگتا ہے، مطلب کہ آئین محمدی کا دستور العمل اور اسوہ رسول کا دامن ہاتھوں سے بعید تر ہوجاتا ہے تو نگاہیں منتظر ہوتی ہیں کہ ہے کوئی جو ہمیں آئین مصطفوی کا طلبگار بنائے؟ ہمارے مردہ دلوں کو شناس حق سے مزین کرے اور آنکھوں کو برہان الٰہی کی حقیقتوں سے آشنا کردے؟ امت مسلمہ کو جدید ٹیکنالاجی کے حقائق سے باخبر کرے کہ کس پہلو کی بنیاد پر اس سے استفادہ حاصل کیا جائے اور کس پہلو کی رُو سے اس سے اعراض کیا جائے۔ کچھ لوگ اس سے انحراف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور کچھ لوگ تو اس روش پر اس طور پہ چلے کہ دامن دین ہاتھ سے جاتا رہا۔ ہے کوئی اس وصف اعلیٰ کا حامل کہ ان زبانوں سے گالیاں اور فحش گانے مٹا کے ذکر اللہ کا ورد جاری کرادے؟ ہے کوئی ایسی معزز شخصیت کہ جو ہمیں بدامنی و فتنہ بازی سے معمور ساحل بیکراں سے کھینچ کر قواعد شریعت محمدی کے چہکتے مہکتے گلشن میں پہنچاکر سراپا کردار بنادے؟ ہے کوئی ایسا مرد مجاہد جو رب کے بچھڑے بندوں کو رب سے ملائے؟ ہے کوئی جو ان کی اخلاقی تعمیر کرے اور مجازی محبتوں سے نفرت دلاکر عشق مصطفی کے حقیقی حصول کی منزل کی تلاش میں کوشاں کردے؟ ہے کوئی جو یہ رونقیں لوٹادے؟ پھر ان لبوں سے یہ بے ساختہ نکل پڑا کہ خدا کی قسم میرے پیر سجن سائیں کی خدمت اقدس میں اک بار حاضر ہوکر تو دیکھیے، ان کے میخانے میں ہونے والی پند و نصائح اور ذکر و فکر کی محفلوں میں تھوڑی دیر بیٹھ کر تو دیکھئے، محفل مراقبہ کی بے حساب لذتوں کو چکھ کر تو دیکھئے، دیدار حضور قبلہ عالم کے وقت فقراء کے وجد و استغراق کے عالم کو محسوس تو کرکے دیکھئے، پیر کامل کا اپنی انگلی مبارک کو اللہ اللہ کہتے ہوئے مریدین کے قلوب پر رکھنا تو دیکھئے، تو تمہیں بالیقین میرے مرشد کی محفل دنیا کی محفلوں سے اچھی اور من موہ لینے والی لگے گی۔ تمہیں اپنے دل سے تکبر و غرور کی جڑیں قطع ہوتی معلوم ہوں گی اور بے ساختہ زبان سے یہ نکل پڑے گا کہ
اللہ اللہ کا مزہ مرشد کے میخانے میں ہے اب آئیے ہم حضور سجن سائیں کے ارشادات کی رو سے کچھ حقائق کو معلوم کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھیں کہ یہ پند و نصائح کس قالب میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ صرف شریعت کے قالب میں یا طریقت کے قالب میں یا ان دونوں میں ملحوظ و مستقر ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ میرے مرشد نے ارشاد فرمایا ”اعتدال پسندی سے کام لیا کرو، کچھ لوگ کہتے ہیں دنیا فنا ہے اور اس کی ہر شے فانی ہے، اس لیے اس سے قطع تعلق اور ترک تعلق ہی بہتر ہے۔ اور کچھ لوگ دنیا کی محبت میں فریفتہ ہوکر آخرت کی فکر نہیں کرتے۔ لیکن تمہیں دنیا سے بھی لاتعلقی اختیار نہیں کرنی اور آخرت کی بھی فکر کرنی ہے۔ کیونکہ آخرت کے لیے سفر کی راہ دنیا سے ہی شروع ہوتی ہے۔“ پھر اس معاملے کو سلجھانے کے لیے قرآن پاک کی ایک مثال بھی دی کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے فرماتا ہے تم مجھ سے کچھ اس طرح عرض کروکہ ”اھدنا الصراط المستقیم“ یعنی اے پروردگار ہمیں سیدھی راہ پہ چلا۔ اس سے دنیا کی راہ مراد ہے یعنی ہمیں دنیا میں اچھی، غیر التفات والی اور انعام یافتہ راہ کا سالک بنا، جس سے دنیاوی اور اخروی کامیابی حاصل ہوجائے۔ اس آیت کریمہ میں دیکھا جائے تو دنیا و آخرت دونوں کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ دنیا سے قطع تعلق کرکے اخروی کامیابی حاصل کرنا بڑی بات نہیں، بلکہ دنیا سے تعلق رکھ کر پھر فلاح دارین حاصل کرنا یہ بڑی بات ہے۔ اب ہم نظر غائر سے دیکھیں تو میرے مرشد کا یہ فرمان آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی اس پیاری حدیث مبارکہ کی تشریح بھی ہے کہ جب تین شخص حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی روز مرہ کی عبادت کے بارے میں پوچھنے گئے۔ جب انہیں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے اس کو اپنے گمان میں بہت قلیل سمجھا اور پھر کہا کہ وہ تو اللہ کے رسول ہیں اور اللہ نے انہیں گناہوں سے پاک اور معصوم کردیا ہے اور ہم میں یہ بات کہاں۔ تو ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ہمیشہ پوری رات عبادت کروں گا، ایک نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، تیسرے نے کہا اب میں ہمیشہ عورتوں سے جدا رہوں گا اور کبھی بھی شادی نہیں کروں گا۔ جب یہ بات آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟ خدا کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والا ہوں اور سب سے زیادہ متقی ہوں لیکن کچھ اس طریقے سے کہ میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں یعنی کبھی رکھتا ہوں اور کبھی جسم کا حق بھی ادا کرتا ہوں۔ میں عبادت بھی کرتا ہوں اور نیند بھی کرتا ہوں اور میں شادی بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے روگردانی کی وہ میرا امتی نہیں ہوسکتا۔ اس حدیث سے میرے مرشد کا فرمان کہ ”دنیا سے اعراض مت کرو، دنیا کی جھمیلوں میں رہ کے زندگی کو اسلامی تعلیمات کے آئین کے قالب میں ڈھال کر شریعت کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور طریقت کی راہ پر چلتے ہوئے زندگی گذارا کرو“ عیاں ہوگیا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ آدمی کو جتنی شریعت کی ضرورت ہے اتنی ہی طریقت کی بھی ضرورت ہے۔ صرف شریعت اپنانا اور طریقت سے اعراض کرنا یہ بھی غلط ہے اور طریقت کا دامن پکڑنا شریعت سے منحرف ہوجانا بھی درست نہیں۔ اسی وجہ سے میرے پیر سجن سائیں اکثر فرماتے رہتے ہیں کہ شریعت و طریقت کے آئین میں رہ کر ہر کام کرنا اصل کامیابی ہے۔ آئیے ہم اب اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہمارے لیے صرف شریعت کے ہی قانون کی پاسداری رکھنا ضروری ہے یا طریقت کے آداب کو بجالانا بھی لازمی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے فقیہ اعظم امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک حکایت جس میں انہوں نے شریعت کے ساتھ طریقت کا دستور العمل بھی اپنایا ہے۔ ایک مرتبہ آپ کے کپڑوں پہ کچھ کیچڑ لگ گیا۔ آپ اس کو دھونے کے لیے دریا دجلہ کے کنارے چلے گئے۔ کسی نے عرض کیا حضور آپ نے تو شریعتِ محمدی کے مطابق فتویٰ دیا ہے کہ نجاست خفیفہ کپڑے کے چوتھے حصے جتنی معاف ہے یعنی اس کے ہونے سے عبادت میں کوئی فرق نہیں پڑتا تو آپ کو کس بات نے اس مشقت اٹھانے پہ مجبور کیا کہ آپ چل کر آئے اور دھو ڈالا؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ میرا فتویٰ تھا اور یہ میریٰ تقویٰ ہے۔ یعنی وہ شریعت کا تقاضہ تھا یہ طریقت کا تقاضہ ہے جس نے مجھے اس سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے پر مجبور کیا۔ اس حکایت سے کچھ فائدے حاصل ہوئے کہ امام اعظم ابوحنیفہ بھی شریعت کے ساتھ طریقت کے بھی پاسدار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری پوری راتیں عبات الٰہی میں بسر کرتے تھے اور توحید و مشاہدات کے بحر میں مستغرق رہتے تھے۔ دوسرا فائدہ یہ کہ فقیہ اعظم کا یہ فعل ان کے مقلدین حضرات پر لازم کرتا ہے کہ وہ شریعت کے ہمہ پہلو کے ساتھ طریقت کے رموز و قواعد کو اپنائیں اور کردار و عمل کے میدان میں کمر بستہ رہیں اور یقین محکم، عمل پیہم سے تخلیق وجود کے سبب پر پورا پورا اتریں۔ اکثر حضور قبلہ عالم امت مسلمہ کے تعلیم کی غرض سے فرمایا کرتے ہیں ”اگر کوئی شخص پانی کی طلب رکھتا ہو تو اسے کنویں پہ جانا پڑے گا اور جب کنویں سے پانی بھرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو برتن بھی ساتھ لے جاتا ہے تو اسی طرح اللہ کے ولیوں اور بزرگوں سے فیض لینے کا ارادہ ہے تو برتن بھی ساتھ لاؤ یعنی نیت یہ ہو کہ ہمیں کچھ نہ کچھ ضرور ملے گا“ میرے پیر کو عاجزی و انکساری کی زندگی بہت ہی دلفریب لگتی ہے اور عاجزی تو محبان خدا کا پسندیدہ شیوہ ہے۔ جیسا کہ سالار سلسلہ نقشبندیہ حضرت بایزید بسطامی ایک روز کہیں سے گذر رہے تھے کہ ایک نوجوان ساز بجا رہا تھا۔ آپ نے لاحول ولاقوۃ پڑھا کہ یہ اپنی عاقبت برباد کررہا ہے۔ اس نوجوان نے غصے میں آکر وہ باجا آپ کے سر پر ماردیا۔ آپ کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا اور باجا سر پر لگ کر ٹوٹ گیا۔ آپ نے عاجزی سے کام لیا، اس نوجوان کو کچھ نہ کہا۔ آپ جلدی سے آستانے پر آئے اور خادم کو کچھ پیسے دیتے ہوئے فرمایا کہ فلاں نوجوان کو یہ پیسے دے کر آؤ اور اس سے کہنا کہ ہمیں معاف کرنا آپ کا باجا ہمارے سر پر لگنے کی وجہ سے ٹوٹا ہے ہم اس کی قیمت تمہیں دے رہے ہیں۔ آپ کی اس عجز و انکساری سے بھرپور ادا سے اس نوجوان پہ ایسا گہرا اثر پڑا کہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر معافی مانگ کر دست بیعت ہوگیا۔ اس تقریر کا حاصل یہ ہے کہ میرے پیر کا دامن شریعت و طریقت کا رنگا رنگ گلشن ہے جس کے ہر پھول سے عجز و انکساری، حیا و حلم، ادب و علم کی پرکشش مہک دل کے باغات کو خوشبوؤں سے مشکبار بناتی ہے اور جس کی ہر پتی سے نعت مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کی صدائیں آتی ہیں۔
|