فہرست الطاہر
شمارہ 49، محرم 1429ھ بمطابق فروری 2008ع

حدود اللہ

مشتاق احمد پنہور
قسط نمبر 3

 

خلافت راشدہ سے ایک مثال

دور فاروقی میں ایک نومسلم مسیحی حکمران جبلہ طواف کعبہ کررہے تھے، ان کی چادر کا پلو نادانستہ ایک اعرابی کے پاؤں کے نیچے آگیا۔ جبلہ نے (اپنے زعم میں) غریب اعرابی کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ اعرابی نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے اس کی شکایت کی اور فریاد خواہی کی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جبلہ کو فرمایا کہ اعرابی کو راضی کرلو یا قصاص میں تھپڑ کھانے کے لیے تیار ہوجاؤ، نیز آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: الاسلام جعلک وایاہ واحدا۔ اسلام نے تجھے اور اسے ایک جیسا بنادیا ہے۔

(شرعی سزائیں: از مفتی عبدالقیوم صفحہ ۲۹، ۳۰)

اسلام کا قانون سب کے لیے برابر ہے۔ چاہے وہ معزز ہو یا غیر معزز، شریف ہو یا بدچلن، امیر ہو یا غریب، حاکم ہو یا محکوم، چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت سب کے لیے ایک ہی قانون ہے۔

حدود اسلامی کے نفاذ میں نرمی

اسلامی حدود و تعذیرات جس قدر شدید ہیں اسی قدر ان کے نفاذ میں نرمی اور احتیاط ہے۔ حضرت رحمت للعالمین صلّی اللہ علیہ وسلم کے چند واضح ارشادات:

۱۔ حضرت ابن عباس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو حدود کو مؤخر کردو۔ (ابن ماجہ)

۲۔ اس سلسلہ میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاں تک ممکن ہو مسلمانوں سے حدود کو ساقط کردو، اگر تم کوئی راہ پاتے ہو کہ وہ حد سے بچ جائے تو اس کا راستہ چھوڑدو، کیونکہ معاف کرنے میں امام و حاکم کی طرف سے غلطی سرزد ہونا اس کے سزا دینے میں غلطے کرنے سے بہتر ہے۔
(ترمذی، حاکم و بیہقی)

۳۔ اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی یہ روایت ہے۔ ”جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ تعالیٰ کے بندوں سے حدود اور قتل کی سزا کو ٹال دو (ساقط کردو)۔“ (طبرانی)

۴۔ حدود اور تعزیرات کے نفاذ کے سلسلہ میں خلیفہ ثانی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے ”شبہات کی موجودگی میں حدود قائم کرنے کی نسبت میرے لیے یہ زیادہ بہتر ہے کہ شبہات کے بناء پر حدود کے نفاذ کو ساقط کردوں۔“ (احکام الحکام، جلد چہارم صفحہ ۱۵۷)

چنانچہ تمام فقہائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ شبہ کی صورت میں حدود ساقط ہوجاتی ہیں۔

مجرم کا از خود اعتراف جرم

اسلام کا شاندار کارنامہ: اسلام کی تعلیمات کا ایک بہت بڑا اور شاندار کارنامہ یہ ہے کہ اسلام نے یہ تعلیم دی کہ انسان سے گناہ سرزد ہوجائے اور وہ حکم الٰہی کے مطابق اس کا کفارہ ادا کرے یا سزا پالے نیز سچے دل سے توبہ کرلے تو اب وہ کسی نفرت اور حقارت کا مستحق نہیں رہا۔ وہ اس طرح پاک و صاف ہوگیا ہے گویا اس سے کوئی غلطی سرزد ہی نہیں ہوئی تھی۔ اس تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں بھی اور جب بھی اسلامی نظام قائم ہوا اور اسلام سزائیں جاری ہوئیں مجرموں نے از خود آکر اپنے جرموں کا اعتراف کیا تاکہ وہ پاک ہوجائیں، اس دنیا میں سرخرو ہوں اور آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔ تاریخ اسلام سے صرف چند مثالیں درج ذیل ہیں۔

۱۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک مسلمان حاضر ہوا اور اس نے با آواز بلند کہا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں زنا کر بیٹھا ہوں مجھے پاک کردیجیے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ وہ شخص پھر سامنے آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زنا کا جرم سرزد ہوگیا ہے۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ چار بار ایسا ہی ہوا۔ جب اس نے چار بار زنا کا اعتراف کرلیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے اسے قریب بلا کر دریافت کیا۔ کیا تم دیوانے (پاگل) ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ پھر حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا ہاں۔ یہ سن کر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو حکم دیا کہ اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔(شرح صحیح مسلم از مولانا غلام رسول سعیدی جلد رابع، کتاب الحدود صفحہ ۷۶۸)

غور کیجیے نہ کسی نے جرم کرتے دیکھا، نہ کسی نے پکڑا، نہ کوئی رپورٹ اور نہ کوئی گواہ موجود ہے، مجرم ازخود اعتراف کررہا ہے اور بار بار کررہا ہے۔

(ب) حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک اسلمی حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور زنا کا مرتکب ہوگیا ہوں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم (مجھ پر زنا کی حد جاری کرکے) مجھے پاک کردیجیے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک کو واپس کردیا۔ دوسرے روز دوبارہ حضرت ماعز حاضر خدمت ہوئے اور پھر عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں زنا کر بیٹھا ہوں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس کو واپس کردیا۔ اور اس کی قوم کی طرف پیغام بھیجا کہ کیا تم ماعز کی عقل میں کچھ فتور پاتے ہو؟ کیا تم اس کی کوئی بات بدلی ہوئی دیکھتے ہو؟ اہل قوم نے جواب میں عرض کیا، بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ ایک کامل عقل والے انسان ہیں۔

اس کے بعد حضرت ماعز بن مالک پھر تیسرے دن حاضر ہوئے۔ رسول اللہ نے پھر ان کی قوم کی طرف پیغام بھیجا اور ان کے متعلق لوگوں سے دریافت کیا۔ اہل قوم نے پھر یہی کہا کہ اس میں کوئی کمی نہیں ہے اور نہ اس کی عقل میں کوئی فتور ہے۔

جب وہ چوتھے روز آئے تو اس کے لیے گڑھا کھودا گیا۔ اور اس کے بعد حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ رجم (سنگسار ) کردیے گئے۔ سنن ابن ماجہ اور ترمذی میں مزید یہ بیان ہے کہ جب حضرت ماعز بن مالک کو سنگسار کیا جارہا تھا تو وہ پتھروں کی تکلیف سے بھاگنے لگے اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے مار ڈالا۔ جب حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا؟“ یا یوں فرمایا ”تم نے اسے کو چھوڑ کیوں نہ دیا، ہوسکتا ہے وہ توبہ کرلیتا اور اللہ کریم جل شانہ اس کی توبہ کو قبول کرلیتا۔“ (مشکوٰۃ، کتاب الحدود)

اس واقعہ کا خاص قابل غور یہ حصہ ہے کہ مجرم سزا کا مطالبہ ان الفاظ میں کررہا ہے کہ ”مجھے پاک کردیجیے“ گویا اس کو یقین ہے کہ سزا گناہ کو مٹا دیتی ہے۔ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ سزا کے دوران بھی حضور صلّی اللہ علیہ وسلم اس کے بچاؤ کو پسند کرتے ہیں۔

(ج) حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک غامدیہ عورت حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں نے زنا کیا ہے، مجھے پاک کردیجیے۔ رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واپس کردیا۔ دوسرے دن وہ پھر آئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے کیوں واپس کرتے ہیں؟ شاید آپ مجھے ایسے ہی لوٹا رہے ہیں جیسے آپ نے ماعز بن مالک اسلمی کو واپس کردیا تھا۔ اللہ کی قسم میں تو زنا کے نتیجہ میں حاملہ ہوچکی ہوں۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو اپنے بیان سے رجوع نہیں کرتی تو بہرحال ابھی نہیں، اب چلی جا یہاں تک کہ بچہ پیدا ہوجائے۔ راوئ حدیث کہتے ہیں کہ جب اس کا بچہ پیدا ہوگیا تو ایک کپڑے میں بچہ کو لپیٹے ہوئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پھر حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ہے۔

آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ابھی نہیں جا اور اس کو دودھ پلا یہاں تک کہ تو اس کا دودھ چھڑالے۔ چنانچہ وہ پھر بچہ کو لے کر حاضر خدمت ہوئی اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا بھی تھا۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم میں اس کا دودھ چھڑا چکی ہوں اور اب یہ روٹی بھی کھانے لگا ہے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ مسلمانوں میں سے ایک شخص کو (پرورش کرنے کے لیے) دے دیا۔ پھر اس عورت کے متعلق حکم دیا۔ اس کے لیے اس کے سینے تک گڑھا کھودا گیا۔ اس کے بعد رجم (سنگساری) کا حکم دیا تو لوگوں نے سنگسار کرنا شروع کردیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی ایک پتھر لے کر سامنے آئے اور اس کے سر پر مارا۔ اس سے ان کے چہرے پر خون کے چھینٹے گرگئے۔ انہوں نے عورت کو برا بھلا کہا۔ جب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا خالد ٹھہرو (اسے سخت سست نہ کہو) اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اس عورت نے بلاشبہ ایسی توبہ کی ہے کہ اگر کوئی (ظلماً) ٹیکس والا بھی ایسی توبہ کرے تو اس کی مغفرت ہوجائے گی۔

اس کے بعد حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی تیاری کا حکم دیا اور نماز جنازہ ادا فرمائی اور اسے دفن کردیا گیا۔ (مشکوٰۃ، کتاب الحدود)

غور کیجیے! اس عورت سے گناہ ہوگیا۔ نہ کوئی دیکھنے والا تھا، نہ شکایت کرنے والا، نہ پکڑنے والا تھا۔ وہ خود سر عام دردناک سزا پانے کے لیے حاضر ہوگئی۔ محض اس تصور سے کہ سزا اسے پاک کردی گی اور اس سے اس کی عاقبت سنور جائے گی۔

اسلامی سزاؤں کا مقصد مجرم کی اصلاح اور معاشرہ میں جرائم کا انسداد ہے۔ سزائیں شدید ہیں لیکن ان کے نفاذ میں حد درجہ احتیاط اور کڑی شرائط ہیں:
سچی توبہ اور اسلامی سزا مجرم کو پاک کردیتی ہے۔ لہٰذا توبہ کرلینے والے اور اپنے جرم کی سزا پالینے والے شخص سے حقارت اور نفرت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلامی نظام عدل کی بنیادی بات یہ ہے کہ جرم ثابت ہوجانے کے بعد کسی عدالت اور کسی بھی فرد کو حدود اللہ میں تخفیف اور تبدیلی کا اختیار نہیں۔ الَّا یہ کہ مقتول کے وارث خون بہا قبول کرنے پر راضی ہوجائیں یا ازخود معاف کردیں۔

چند حدود کے بیان سے قبل اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ حدود اللہ اور تعزیرات یعنی سزاؤں کا نفاذ عدلیہ کے اختیار میں ہے، کسی فرد کو از خود کسی صورت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں۔ اس معاملہ میں ہرگز کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے قوانین میں اور اللہ تعالیٰ علیم و خبیر کے بھیجے ہوئے احکام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

انسان کا علم محدود ہے۔ وہ جو کچھ سوچتا ہے اپنے ذاتی یا قومی مفاد کے لیے سوچتا ہے یا علاقائی، ملکی اور گروہی فوائد کو مدنظر رکھتا ہے۔ اگر عالمی مقاصد بھی اس کے سامنے ہوں تو وہ وقتی اور ہنگامی ہوتے ہیں کیونکہ مستقبل کا علم اور غیب کی خبر صرف عالم الغیب اللہ کو ہے کہ وہ سب کا مالک ہے، سب کا خالق ہے اور سب کا رب ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب دائمی ہے۔ وہ قیام قیامت تک کے لیے ہے اور اسلامی احکام بھی دائمی ہیں عارضی اور وقتی نہیں ہیں۔

اسی طرح اسلامی تعزیرات تمام نوع انسانی کی بھلائی اور اقوام عالم کی اصلاح کے لیے ہیں۔ اسلامی سزاؤں سے مقصود محض انتقام یا بدلہ اور تعزیر نہیں بلکہ یہ سزائیں مجرم کی اصلاح، دوسروں کی عبرت، معاشرہ کی تطہیر اور مستقبل میں جرائم کی روک تھام کے لیے ہیں۔