
فہرست | الطاہر شمارہ 49، محرم 1429ھ بمطابق فروری 2008ع |
ہمارے تعلیمی نظام کے نقائصجناب محمد حسن اوٹھو طاہری
انسان کو خلیفۃ اللہ ہونے اور ملائکہ پر بھی برتری حاصل ہونے کا اعزاز علم کی بدولت نصیب ہوا۔ سیدنا حضرت آدم علیہ السلام وہ پہلے اور برگزیدہ انسان و پیغمبر تھے جن کی تعلیم خداوند قدوس نے خود فرمائی۔ عَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّہَا سکھائے آدم علیہ السلام کو ان سب چیزوں کے نام، عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ سکھایا انسان کو جو وہ نہیں جانتا تھا، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ اور سکھایا قلم کے ساتھ۔ اس طرح کے قرآنی ارشادات اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ علم کی عظیم دولت سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عظمت عنایت فرمائی۔
نبی اکرم نور مجسم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انما بعثت معلما۔ تحقیق
مجھے (معلم) سکھانے والا کرکے بھیجا گیا ہے۔ علم حاصل کرنے والے پہلے انسان سیدنا
حضرت آدم علیہ السلام تمام انسانوں کے دادا اور اللہ عزوجل کے اولوا العظم پیغمبر
تھے، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ علم کو آگے انسانوں تک پہنچانے کی
کوشش کی۔ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری
نبی، تمام جہانوں کے لیے رحمت اور معلم بناکر بھیجے گئے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ
علم سکھانے والی ہستیاں نہایت ہی مقدس تھیں۔ انہی کی ان پاکیزہ اوصاف کو علم کی
روشنی کو پھیلانے والے اساتذہ اور طلباء میں پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس عاجز کے مضمون کا عنوان ہے ”ہمارے تعلیمی نظام کے نقائص“ اس عنوان پر الطاہر کے پہلے شماروں میں اور دیگر کتب و رسائل میں کافی کچھ لکھا جاچکا ہے۔ مگر یہ عاجز ایک استاد ہونے کے ناتے سے جو نقائص اپنے اندر محسوس کرتا ہے یا تعلیمی اداروں کے ماحول سے محسوس کیا ہے وہ چند باتیں تحریر کرنے پر اکتفا کروں گا۔ ۱۔ دینی علوم کے مدارس ہوں یا دنیوی علوم جدید کی درسگاہیں، ان کے اساتذہ اور طلباء کو سکھانے اور سیکھنے کا حقیقی جذبہ، ذوق و شوق اور خلوص کا ہونا اشد ضروری ہے، جس کی کمی نظر آتی ہے۔ ہم نے علم کو صرف ذریعہ معاش ہی سمجھا ہے۔ جبکہ ہمارے آقا و مولیٰ پیغمبر علیہ الصلواۃ والسلام کے سکھانے کے سلسلے میں قرآن پاک کا یہ اعلان ہے کہ ”لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرِی“ میں تم سے اس کا کوئی اجریا بدلہ نہیں طلب کرتا۔ ۲۔ دینی اور دنیوی علوم کے مراکز یعنی دینی مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی تعلیم اور اس کا طریقہ کار ایک دوسرے کے متصادم محسوس ہوتا ہے، جسے ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔ تمام تعلیمی اداروں کے طلباء ایک دوسرے کو محبت کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے ایک دوسرے سے متنفر نظر آتے ہیں۔ جب کہ تمام علوم کے حصول کا حکم بھی قرآن پاک سے ہی ملتا ہے۔ اس لیے نفرت کو محبت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ۳۔ دینی مدارس کے طلباء کو غیر مہذب تصور کیا جاتا ہے بلکہ موجودہ دور میں تو ”دہشت گرد“ کے لیبل بھی انہیں پر لگائے جارہے ہیں۔ دوسری طرف اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے طلباء کو دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں تصورات ختم کرنا ضروری ہیں۔ ۴۔ دینی یا دنیوی تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار میں کمی واقع ہوچکی ہے۔ جسے پہلے والے معیار تک لانے کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ دور کی تقاضاؤں کے مطابق تعلیمی معیار مزید بہتر کرنے کی کوشش کی جائے۔ ۵۔ نہایت افسوس کے ساتھ تحریر کرنا پڑتا ہے کہ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہونے کے باوجود حکمرانوں کی جانب سے اسلامی تعلیم کے فروغ کے لیے مناسب تحرک نہیں لیا جاتا۔ دینی تعلیم کے فروغ کا کام لوگوں کے لیے چھوڑ رکھا ہے جن کے پاس مالی وسائل کی بہت ہی کمی ہے۔ ۶۔ عوام الناس میں علم حاصل کرنے کے ذوق و شوق میں کمی واقع ہوچکی ہے۔ جس کا اہم سبب تو کالج، یونیورسٹیوں کی فیس اور دیگر اخراجات میں اتنا تو اضافہ کیا گیا ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے تو تعلیم حاصل کرنا محال ہوچکا ہے۔ اس وجہ سے بہت ہی ذہین اور ہوشیار بچے اعلیٰ تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ سیلف فنانس اسکیم کی سہولت سرمایہ دار لوگوں کے ان بچوں کو دے کر اعلیٰ کلاسوں میں داخلے دیے جارہے ہیں جو انٹری ٹیسٹ کبھی بھی پاس نہیں کرسکتے۔ جب ایسے بچوں کے داخلے ہوں گے تو تعلیم کا معیار تو گرتا ہی جائے گا۔ ۷۔ طلباء میں علم حاصل کرنے کے ذوق و شوق کی کمی کی اہم وجہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ جائز مقام، عزت اور اہمیت کا نہ حاصل ہونا بھی ہے۔ نہ تو ان کو اپنی تعلیم کے مطابق معاوضہ ملتا ہے نہ ہی ترقی کے مناسب مواقع ان کو مہیا کیے جاتے ہیں۔ جبکہ دوسرے اکثر ممالک میں تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو زیادہ اہمیت، عزت اور معقول معاوضہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے ہمارے ملک میں اچھے تعلیم یافتہ افراد استاد بننے کے بجائے ایسی نوکری کی تلاش میں ہوتے ہیں جہاں پر ان کو مالی فائدہ کے ساتھ ساتھ ظاہری عزت بھی ملتی ہے۔ ۸۔ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو انکی ضروریات کے مطابق ماہانہ معاوضہ نہ دینا اور طلباء کے لیے تعلیمی اداروں میں ضروری سہولتیں میسر نہ کرنا ہمارے تعلیم کے نظام کا اہم نقص ہے۔ جب تک اساتذہ اور طلباء کی ضروریات کو پورا کرکے ان کی پریشانیوں کو دور نہ کیا جائے گا تب تک تعلیم کا معیار بلند نہ ہوگا۔ تمام تر فکرات سے اساتذہ اور طلباء کے ذہن، دل و دماغ بلکل فارغ ہونے چاہییں۔ ۹۔ دینی مدارس میں تو حکومت کے عدم تعاون اور توجہ کی وجہ سے اساتذہ اور طلباء کے لیے بڑی پریشانیاں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کے دینی مدارس کی تعلیم سے توجہ اور رجحان میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ ۱۰۔ حکومت کی جانب سے دنیوی تعلیمی اداروں کی تعمیر خصوصا پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولوں کی بلڈنگیں نامناسب مقامات پر تعمیر کرنا اہم نقص ہے۔ جس وجہ سے بنیادی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے اور وہ اثرات یونیورسٹیوں تک محسوس ہوتے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر بلڈنگیں بناکر حکومتی خزانہ اور بچوں کی تعلیم کو برباد کیا جارہا ہے۔ اسکولوں کی بلڈنگیں وڈیروں کی اوطاقیں اور گودام کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ ۱۱۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا تقرر سیاسی اور رشوت کی بنیادوں پر کرنا ہمارے تعلیمی نظام کا بڑا نقص ہے۔ ایسے اساتذہ میں نہ تو پڑھانے کی صلاحیت ہوتی ہے نہ وہ ڈیوٹی پر جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ سیاسی سہارے اور منتھلی رشوت کی وجہ سے ان کی ملازمتیں اور تنخواہیں تو بحال رہتی ہیں مگر مستقبل کے معمار قوم کے بچے تعلیم کے زیور سے محروم رہتے ہیں۔ ملک اور قوم کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہوتا ہے۔ ۱۲۔ اساتذہ کی صحیح تربیت کا نظام نہ ہونا ہمارے تعلیمی نظام کا اہم نقص ہے۔ فاصلاتی معقول نظام کے ذریعے تعلیم اور تربیت کرنے والے بورڈ اور یونیورسٹیاں پیسا کمانے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ طلباء اپنی ترقی اور انکریمینٹ حاصل کرنے کے ہی فکر میں رہتے ہیں۔ مناسب ٹرینرس نہ ہونے کی وجہ اور سپر وژن نہ ہونے کی وجہ سے فقط سندیں بانٹی اور حاصل کی جاتی ہیں۔ باقی اساتذہ کے معیار اور پڑھانے کے طریقہ کار کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اساتذہ کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے ریگولر ٹریننگ سینٹر اور کالجز ہی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ ۱۳۔ یکساں تعلیمی نظام کا نہ ہونا ہمارے تعلیم کے نظام کا بڑا نقص ہے۔ معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے امیر اور غریب کے لیے یکساں نظام کا ہونا اشد ضروری ہے۔ غریب طلباء سے احساس محرومی بھی کم ہوگا اور معیار تعلیم بھی بلند ہوگا۔ ۱۴۔ کمسن بچوں پر کتابوں کا بھاری بوجھ رکھنا بھی ہمارے تعلیمی نظام کا اہم ترین نقص ہے۔ کورس کے کتابوں کا وزن بچوں کی عمر کے لحاظ سے ہونا چاہیے۔ زیادہ بوجھ سے بچوں کے ذہن کند ہوجاتے ہیں۔ ۱۵۔ تمام تعلیمی اداروں میں طلباء کے لیے جسمانی سزا بھی تعلیم سے محروم رہنے کا بڑا سبب ہے۔ طلباء کو کال کوٹھڑی کی طرح کمروں میں بند رکھنا، پولیس کی طرح پٹائی کرنا یہ ایک اچھے استاد کے لیے بدنما داغ کی مانند ہے۔ پیغمبر علیہ الصلواۃ والسلام نے خود محبت اور حکمت عملی سے سکھایا بلکہ آج کے اساتذہ کی مذکورہ بالا حرکت نے کئی طلباء کو جسمانی معذور اور ذہنی طرح مفلوج کرکے علم کی دولت سے محروم کردیا ہے، جس کے کچھ اساتذہ ذمہ دار ہیں۔ اب یہ روش ختم ہونی چاہیئے۔ ۱۶۔ طلباء کو ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں نہ دینا بھی ہمارے تعلیمی نظام کا نقص ہے۔ Literate Person (لکھا پڑھا آدمی) کی تعریف ہی یہ ہے کہ ”اپنی مادری زبان میں پڑھنا، لکھنا اور بولنا جانتا ہو“ جو اپنی مادری زبان میں لکھنا، پڑھنا اور بولنا نہیں جانتا تو وہ Educated (تعلیم یافتہ) کیسے بن سکے گا۔ انگریزی یا دیگر زبانوں پر عبور حاصل کرنا چاہیے مگر ابتدا میں طلباء اپنی مادری زبان میں زیادہ آسانی کے ساتھ لکھ پڑھ کر بات کو اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا سکتے ہیں اس نقص کی طرف توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔ ۱۷۔ پرائمری تعلیم کی طرف عدم توجہی ہمارے تعلیمی نظام کا بڑا نقص ہے۔ اگر بنیادی تعلیم مضبوط نہ ہوگی تو مزید تعلیم کی منزلیں تعمیر کرنا ناممکن اور بیوقوفی والی بات ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچوں کا تعلیمی معیار دن بدن گرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اوپر والے کلاسوں میں آنے کے بعد طلباء نقل کی طرف رجحان کرتے ہیں۔ ۱۸۔ دیہات کے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اپنے سپروائیزرز اور دیگر افسران کے توسل سے انہیں یہ مراعات حاصل ہوتی ہیں کہ ہفتہ میں باری باری جاکر مسٹرول پر اپنی اور دیگر اساتذہ کے دستخط کرکے واپس آجاتے ہیں۔ اس طرح سے غریب دیہاتی بچوں کو علم حاصل کرنے سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس چیز کا ازالہ کرنا اشد ضروری ہے۔ ۱۹۔ تمام تعلیمی اداروں میں ضرورت کے مطابق فرنیچر اور دیگر سائنس وغیرہ کے آلات، چارٹس، لیٹرین باتھ روم اور صاف پانی میسر نہ کرنا بھی ہمارے تعلیمی نظام کا اہم نقص ہے۔ اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ بڑی رشوت کے عیوض ناقص مٹیریل کی سپلائی ہوتی ہے۔ ضرورت ہو یا نہ ہو بس حکومت کے طرف سے دیے گئے فنڈز کو متعلقہ افسران اور ٹھیکیدار اس طرح چاٹ لیتے ہیں جس طرح کوئی نیک شخص سالن کے برتن کو چاٹ کر صاف کرلیتا ہے۔ کئی مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ اسکولوں میں فرنیچر رکھنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی، باہر دھوپ اور برسات میں پڑا ہوا ضایع ہوجاتا ہے۔ اس کا سدباب ہونا چاہیے۔ ۲۰۔ ہمارے تعلیمی نظام کا یہ بھی بڑا نقص ہے کہ جب کوئی صاحب درد ایسی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے مثلاً اسکول کی بلڈنگ، فنڈز اور فرنیچر وغیرہ کا غلط استعمال ہونے کی شکایت بھی کرتا ہے تو ذمہ دار افسران میں کوئی بھی اس پر قانونی تحرک لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ تعلیمی ادارے اور ان کے دفتر جن کو دوسرے محکموں کے مقابلے میں نہایت پاکیزہ تصور کیا جاتا تھا وہ اب سب سے زیادہ کرپٹ لگتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ نہ ہوگا کہ اب کرپشن کے پھیلاؤ میں محکمہ تعلیم کے دفاتر اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کو کنٹرول کیے بغیر تعلیم معیار کو بلند کرنا نہایت ناممکن ہے۔
|