اے خاصۂ خاصان رُسل
اک محشرِ طغیاں ہے کہ عالم میں بپا ہے
ایک سرکشی و ظلم سے معمور فضا ہے
جو بیکس و مظلوم ہے وہ وقفِ بُکا ہے
جو چور ہے وہ زندگی کا راہنما ہے
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
جس سمت نظر کیجیے اصنام گری ہے
اوہام پرستی کی وبا عام ہوئی ہے
جو اَحمق و اَجہل ہے وہ ابدال و ولی ہے
جو مکر میں یکتا ہے مشیخت کا دھنی ہے
جو دورِ شرافت تھا وہ اب بیت گیا ہے
اے خاصۂ خاصان رُسل وقتِ دعا ہے
غارت گری و قتل ہے، چور کہیں ڈاکے
اغوا کے کہیں کیس، کہیں بم کے دھماکے
سازش کہیں تہمت کہیں تخریب کے خاکے
فائر کی دَنادَن بھی ہے پولیس کے بھی ناکے
ہر خطۂ ارضی میں تصادم کی فضا ہے
اے خاصۂ خاصان رُسل وقتِ دعا ہے
وحشت کی چڑیلیں ہیں کہ رقصاں ہیں فضا میں
اک زہرِ تعصب ہے کہ پھیلا ہے ہوا میں
اک جورِ مسلسل ہے کہ عریاں ہے خلا میں
تاثیر کوئی اب نہ دوا میں نہ دعا میں
لگتا ہے کہ انساں سے خدا روٹھ گیا ہے
اے خاصۂ خاصان رُسل وقتِ دعا ہے
واعظ نے ہے تکفیر کی تلوار سنبھالی
ملت کے خطیبوں کی زباں پہ ہے گالی
جو اہل عقیدت ہیں بجاتے ہیں وہ تالی
اس امت مرحوم کا اللہ ہی ہے والی
اخلاق و شرافت نے بھی سر پیٹ لیا ہے
اے خاصۂ خاصان رُسل وقتِ دعا ہے
اب وحدتِ ملّت کا تصور بھی نہیں ہے
ہم وہ ہیں کوئی جن میں تدبر بھی نہیں ہے
یہ حال ہے پر دل میں تکدّر بھی نہیں ہے
اب ذلت و عصیاں سے تنفّر بھی نہیں ہے
اک مذہب نفرت نیا ایجاد کیا ہے
اے خاصۂ خاصان رُسل وقتِ دعا ہے
(کمال سالاپوری) |