
فہرست | الطاہر شمارہ 49، محرم 1429ھ بمطابق فروری 2008ع |
درس حدیثاہمیت حدیثفقیر محمد جمیل عباسی طاہری
جب انسان نے ارتقائی منازل طئے کیں اور ترقی کی مدارج کو حاصل کیا، اس کے ساتھ ذرائع نقل و حمل بھی آسان ہوئے تو انسان ایک دوسرے کے علائقوں تک آسانی سے پہنچنے لگا اور اس نے قومی و لسانی تعصبات سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ جب اس کا ذہن میل میلاپ اور دیگر تہذیبوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد اس عالمگیر شریعت کا بار اٹھانے کے قابل ہوا تب اللہ عزوجل نے اپنے ارادہ ازلی کی تکمیل کے لیے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی صورت میں اسلامی تعلیمات دیکر اس زمین پر بھیجا اور اعلان کیا الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِینًا ترجمہ: ہم نے آج کے دن آپ کے دین کو مکمل کردیا، آپ کے اوپر نعمتوں کی تکمیل کردی اور آپ کے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔ اس فرمان میں خدا تعالیٰ نے اپنے ارادہ ازلی کی تکمیل کا اعلان فرمادیا۔ اب تمام تر انسانوں پر واضح ہوجانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے مقصد حیات میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ان کے لیے قرآن کریم کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ ضرورت حدیث: جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ نسل انسانی کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لیے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں مذہبی، اخلاقی و سماجی اصول بیان فرمائے ہیں تو انسان پر لازمی ہے کہ وہ ان اصولوں پر عمل کرنے کے لیے قرآن مجید کو سمجھے۔ اب جب قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے اس کی تشریح و توضیح کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان رہنما اصولوں کو اجمالاً ذکر کیا ہے اور ان کی تعبیر و توضیح حدیث نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم کے بغیر مکمل نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم میں شرعی احکامات کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں عربی لغت کے اعتبار سے انکی معانی وہ نہیں کی جاتی جو شرعی اعتبار سے ہمیں مطلوب ہیں۔ مثلاً صلواۃ (نماز) ادا کرنے کے لیے قرآن کریم میں کئی جگہ پر تاکیدی حکم ارشاد فرمایا گیا ہے جس طرح کہ فرمان باری تعالیٰ ہے اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ۔ یعنی نماز قائم کرو۔ اب اس اہم ترین اسلامی فرض کو قائم کرنے کے لیے ہمیں صلواۃ ادا کرنی ہے۔ جب ہم عربی زبان کے اعتبار سے صلوٰۃ لفظ کی معنیٰ تلاش کرتے ہیں تو عربی لغت میں اس کی مندرجہ ذیل معانی ملتی ہیں:
تو اب اس قرآنی حکم پر عربی لغت کے اعتبار سے عمل کیا جائے تو وہ کس طرح ممکن ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے صلوٰۃ قائم کرو یعنی گوشت بھون کر کھاؤ یا صرف تعریف کرکے سمجھ لو کہ ہم نے حکم کی تعمیل کردی یا دعا کرکے سمجھ لو کر ہم نے فرض ادا کردیا۔ تو ان باتوں پر غور کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآنی احکامات کا کماحقہ سمجھنا آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ حیات پر ہی انحصار کرتا ہے اور ان کے احادیث کے بغیر صرف عربی لغت سے واقف ہونے یا عقل و سمجھ رکھنے کے باوجود بھی کوئی شخص احکام شریعت کی تعمیل نہیں کرسکتا۔ کیونکہ (الصلوٰۃ جس کی ادائیگی کے لیے قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ اس کی شرعی و اصطلاحی معنیٰ جو خدا تعالیٰ کی مطلوب ہے) یہ ہے کہ الصلٰوۃ عبادۃ فیہا رکوع و سجود۔ یعنی نماز کی شرعی حقیقت یہ ہے کہ ایسی عبادت جس میں رکوع و سجود ہوتے ہیں اور صلوٰۃ کی یہ معنیٰ احادیث نبی اور افعال نبی سے ہی واضح ہوئی ہے اور کلام عرب سے اس کی مطابقت صرف یہ ہے کہ صلواۃ کی معانی دعا ہے اور اس عبادت میں دوسری چیزوں کے ساتھ دعا بھی شامل ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں اٰتو الزکوٰۃ یعنی زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے۔ اس حکم پر عمل کرنے کے لیے جب ہم عربی لغت سے رجوع کرتے ہیں تو عربی لغت ہمیں بتاتی ہے زکوٰۃ کی معانی پاکیزگی، نشوونما، یا کسی چیز کا پھیلانا یا جھڑنا ہوتی ہے۔ اب ان معانی کی تناظر میں اگر ہم اپنے عقل کے ذریعے اس حکم کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ ہم اس حکم کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔ کیونکہ عربی لغت کے اعتبار سے ہم اٰتو الزکوٰۃ کا یہ مفہوم نکال پائیں گے کہ پاکیزگی دو یا برکت دو۔ حالانکہ زکوٰۃ کا شرعی مفہوم بالکل مختلف ہے۔ احادیث نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم سے ہی اس حکم کی حقیقت ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ اٰتو الزکوٰۃ کا شرعی مفہوم یہ ہے کہ اپنے مال میں سے کچھ حصہ ملت کے ان افراد کی کفالت و مدد کے لیے استعمال کرو جو کسب معاش سے مختلف وجوہات کی بنیاد پر محروم ہوچکے ہیں۔ مثلاً پیدائشی معذوری، یتیمی کی وجہ سے والدین کی کفالت سے محرومی، شوہر کی وفات کے بعد بیوگی کا حصول یا کسی حادثے یا ناموافق تجارتی حالات کی وجہ سے سرمائے سے محرومی۔ تو احادیث کی روشنی میں ہی صاحب نصاب انسان مرد یا عورت اٰتو الزکوٰۃ یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی کے حکم پر عمل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح حج کی ادائیگی کے لیے قرآن کریم میں فرمایا گیا اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ یعنی حج کے ماہ مقرر ہیں۔ ان مہینوں میں شوال، ذی القعد اور ذی الحج شامل ہیں۔ اب اس حکم میں کہیں بھی ذی الحج کا تعین نہیں کیا گیا کہ فلاں مہینہ میں فلاں فلاں دن ان ارکان کی ادائیگی کو حج کا نام دیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس حکم کے تحت زندگی میں صرف ایک بار حج ادا کرنا ہے یا ہر سال ان مہینوں میں حج ادا کرنا لازم ہے۔ تو اس حکم خداوندی پر عمل کرنے کے لیے بھی ہمیں احادیث نبوی کی رجوع کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اور بھی بے شمار ایسے احکامات ہیں جن کو احادیث کی مدد کے بغیر صرف لغوی اعتبار سے سمجھنے میں ہم ناکام ہو سکتے ہیں۔ مثلاً تیمم جس کی عربی لغت میں معنیٰ پسند و ارادہ کی جاتی ہے۔ حالانکہ اس کی شرعی معنیٰ اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے علاوہ عمرہ جس کی لغوی معنیٰ آباد مکان کا ارادہ کرنا ہے۔ حالانکہ شریعت میں عمرہ کی مطلوبہ معنیٰ لغوی معنیٰ سے بالکل علیحدہ ہے۔ تو اس طرح کے کئی دیگر احکامات سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کے احکامات جو خدا تبارک و تعالیٰ کے ارادہ ازلی یعنی تکمیل شریعت سے تعلق رکھتے ہیں ان کا سمجھنا اور ان پر عمل کرنا احادیث نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم کے مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں، اور انسانی ذہن چاہے کتنی ہی ترقی کیوں نہ حاصل کرلے مگر احکامات خداوندی کے حقیقی مفہوم و روح تک اس کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ انسان احادیث نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم کے بغیر خدا تعالیٰ کے ارادہ ازلی یعنی تکمیل شریعت کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ تو ثابت ہوا کہ نسل انسانی کی دینی، دنیوی، اخلاقی و معاشرتی کامیابی کے لیے احادیث نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم ضروری و لازمی حیثیت رکھتی ہیں۔
سالگرہ مبارکادارہ الطاہر پوری جماعت کی طرف سے سالار سلسلہ نقشبند، مجدد دوراں، شیخ العلماء، ولی ابن ولی حضرت خواجہ محمد طاہر المعروف محبوب سجن سائیں مدظلہ العالی کی خدمت میں 21 مارچ 2008 کو ان کی پینتالیسویں سالگرہ پر مبارک باد پیش کرتا ہے۔ ہماری دلی دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو ہمیشہ صحت کاملہ عطا فرمائے اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پر صدا سلامت رکھے۔
|