فہرست الطاہر
شمارہ 51، جمادی الاول 1429ھ بمطابق جون 2008ع

محبوب سجن سائیں شریعت و طریقت کے آئینے میں

حافظ علی بخش پنہور طاہری

قسط نمبر 3۔ (گذشتہ قسط)

 

قارئین کرام! اس باب میں ہم ایک خاص لفظ پر نظر ثانی کریں گے کہ لفظ ’’پیر‘‘ کے معنیٰ کیا ہیں اور پیر کی کیا ضرورت ہے لفظ پیر کے معنیٰ امام، پیشوا یا سرپرست کے ہیں جیسا کہ علامہ اقبال کے اس شعر سے صاف واضح ہے

حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے

یعنی حرم کی عزت ورفعت اس کی سرپرست قوم کی کم نگاہی کی وجہ سے رسوا ہورہی ہے جیسا کہ ابھی اگست 2007 میں بعض غیر مسلم حلقوں کی موشگافیاں سننے میں آئی ہیں کہ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہے تو ان کے مقدس مقامات کعبۃ اللہ اور مدینے پر حملہ کرنا ہوگا۔ یہ کرنے کے بعد ہمیں اور زیادہ محنت نہ کرنا ہوگی کیونکہ روح مسلم کی قوت اور ایمان کی تقویت ان مقدس مقامات سے وابستہ ہے۔ ان کا جذبہ ایمان ان کی بدولت۔ جب یہ مقامات ہی نہ رہیں گے تو ان کی کمر ٹوٹ جائے گی اور ان کے ایمان کی حرارت میں کمی واقع ہوجائے گی جس سے ہمیں بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا لہٰذا ان کو جلد ختم کردیا جائے تاکہ(نعوذبا اللہ ) نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ کیونکہ یہاں مغربی روش کے پھندے انہیں جتنا بھی جکڑ لیں مگر سرزمین مکہ ومدینہ پہنچ کر ان کی خودی مٹ جاتی ہے اپنے وجود اور حیثیت کو حقیر جانتے ہیں، ان کی آنکھوں سے اشکوں کے ہار باربار چھلک جاتے ہیں۔ ان آنسوؤں سے ان کے سب گناہ دھل جاتے ہیں ان کے گلشن ایمان کی سسکتی کلیوں میں تازہ تازہ بہار آجاتی ہے۔ ان کے سر خم ہوجاتے ہیں۔ ان کے دل، ہوش جان اور عقل وخرد سے یہ صدائیں نکل آتی ہیں کہ جس کی ترجمانی کسی شاعر نے یوں کی ہے کہ :

اے میرے روح جناں آہستہ چل
یہ مدینہ ہے یہاں آہستہ چل

روح نہ پرواز کر جائے یہاں
اے میری عمر رواں آہستہ چل

سرزمیں کعبۃ اللہ کے تقدس کی حفاظت خود اللہ نے کی ہے جب کوئی ابرہ جیسا بڑھنے کی کوشش کرے گا مٹی میں مل جائے گا۔ لہٰذا قصہ مختصر لفظ پیر کی معنیٰ سرپرست ہے جیسے خدا تک پہنچنے کے لیے پیغمبر کی ضرورت ہے ایسے ہی رسول تک پہنچنے کے لیے پیر کی ضرورت ہے۔ نفس کتے کے گلے میں کسی پیر ومرشد کا پٹہ چاہیے۔ نفس کتا ہے اسے آزاد نہ رہنے دو۔ اس کے گلے میں زنجیر ڈال کر کسی کے حوالے کردو، زنجیر میں کڑیاں ہوتی ہیں۔ آخری کڑی پٹہ میں ہوتی ہے اور پہلی کڑی مالک کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ شجرہ مشائخ اس زنجیر کی کڑیاں ہیں جس کی پہلی کڑی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میں ہے اور آخری کڑی ہمارے نفس کے گلے میں۔ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم رحمت کی بارش ہیں اور مرشد تالاب، جو کوئی بارش نہ پائے وہ تالاب سے پانی لیکے اپنے ایمان کی کھیتی کو سیراب کرلے۔ تو حضرات میرے پیر سجن سائیں ایک عظیم پیرو مرشد ہیں اور بلند پائے کے شیخ بھی ہیں جنہوں نے اس فیشن اور ماڈلنگ کے پرفتن دور میں سنت نبوی کو زندہ کردیا۔ ہرطرف دیکھیں کہ ان کے مریدوں کے سروں پر عمامے شریف سجے ہوئے ہیں آج ہر کوئی فیشن ہیئر کٹنگ کاشائق ہے لیکن جو بھی میرے پیر سے وابستہ ہو وہ سنت نبوی پر حریص بنتا گیا۔ اس کی مثال ہم پر خلیفہ حافظ بشارت احمد طاہری کی صورت میں موجود کچھ اس طرح ہے کہ اس سال 2007 جولاء میں ریکارڈ توڑ گرمی تھی اور تو اور جسم پر کپڑے بھی پریشان کررہے تھے لیکن حافظ بشارت احمد طاہری اس وقت بھی پسینے سے شرابور ہونے کے باوجود سرپر عمامہ شریف پہنے ہوئے تھے اور شدید گرمی ان کے چہرے کی نورانیت اور سکونیت کو ضرر نہ پہنچاسکی اب سوچنے کی بات ہے کہ میرے پیر کی نگاہ کرم کتنی بااثر اور استقامت عطاکردینے والی ہے کہ ان کے مریدین سنت نبوی پہ عمل پیرا تو ہوتے ہیں مگر باالاستقامت، یہاں میں نے قبلہ حافظ بشارت ایک خصوصیت طوالت کے خوف کے وجہ سے ذکر کی ہے لیکن ایسی بہت سی خصوصیات ان میں پائی جاتی ہیں یہ سب فیضان ان پر میرے پیر کی نگاہ کرم کا ہے کہ ان کی زندگی کا ہرلمحہ دین کی خدمت میں گذر رہا ہے بقول ایک شاعر کہ

کوئی اندازہ کرسکتا ہے ان کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

قارئین حضرات! ہر تنظیم کی ترقی وعروج کا مدار تبلیغ پر ہوتا ہے اور مبلغ کا کردار تبلیغ کو مؤثر بنانے میں اہم ہوتا ہے اور مبلغ کے لیے دوران تبلیغ یہ بات ضروری ہے کہ اس کا انداز بیان اچھا ہو اور کلام میں حکمت ہو۔ انداز بیان کے درست ہونے سے بھی تبلیغ میں کافی فرق پڑتا ہے جیسے ایک حکمت آموز بات پیش کی جاتی ہے کہ ایک بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے سب دانت ٹوٹ گئے ہیں صبح اس نے نجومیوں کو بلوایا اور ایک نجومی سے اس کی تعبیر پوچھی تو اس نجومی نے بڑے روکھے انداز میں جواب دیا کہ اے بادشاہ تیرے سب رشتہ دار تجھ سے پہلے ہی مرجائیں گے۔ یہ جواب سنتے ہی بادشاہ کو غصہ چڑھ گیا اور حکم دیا کہ اس گستاخ کو ختم کردو چنانچہ اسے پھانسی پر لٹکادیا گیا، پھر بادشاہ نے دوسرے نجومی کو بلوایا اور اس سے اس کی تعبیر پوچھی جو بڑا عقل مند اور بہترین انداز بیاں رکھتا تھا اس نے کہا حضور آپ کو مبارک ہو آپ اپنے خاندان کے موجودہ سب افراد سے بڑی اور طویل عمر پائیں گے یہ سننا تھا کہ بادشاہ خوش ہوگیا اس کے سامنے انعامات وتحائف کے ڈھیر لگادیے اور کہا کہ جو تیرا جی چاہے اٹھالے ہم تم سے بہت خوش ہیں۔ اب دیکھئیے کہ دونوں کا مقصد ایک ہی تھا لیکن پہلے کو پھانسی ملی اس وجہ سے کہ اس کا انداز بیاں بغیر حکمت کے روکھا تھا اور دوسرا انعام پاگیا اس وجہ سے کہ اس کا انداز بیاں درست تھا۔ اس قصے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ تبلیغ کے لیے مؤثر کلام وہ ہے جو سامع کے روم روم میں اتر جائے جیسے کہ میرے پیر سجن سائیں کا کلام دل نشین ہے جس کی تاثیر یہ ہوتی ہے کہ سامعین کے اذہان کو اپنے طرف کھینچ کر متوجہ کردیتی ہے اور اتنا سرور اور راحت میسر کرتی ہے کہ دل کی کلیاں مہک اٹھتی ہیں چمن دل میں خوشیوں کی بہار آجاتی ہے ہونٹوں پہ مسکراہٹ کی بارش رم جھم کرکے برس پڑتی ہے قلوب میں عقیدت ومحبت کی ندیاں رواں ہوجاتی ہیں رنگوں میں نکھار آجاتا ہے الجھنوں میں سنوار آجاتا ہے اور بے چین دل کو قرار آجاتا ہے۔

قارئین کرام! اب ہم فرمان حضور قبلہ عالم کی طرف بھی آتے ہیں حضور قبلہ عالم تواضع وانکساری کو بہت اچھا گردانتے ہیں جیسا کہ ہم اس کا ذکر پہلے بھی کر چکے ہیں اس کے بارے میں میرے پیر کے دوسرے فرمان کو ملاحظہ کریں کہ یہ کتنا دل کش ہے وہ فرماتے ہیں ’’اپنے آپ کو حقیر جانو یہ بزرگان دین کا پسندیدہ مشغلہ ہے اسی میں تمہاری بلندی ہے ‘‘ پھر اس پر ایک مثال بھی دیتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کہیں سے جارہے تھے سامنے ایک پولیس والا آیا۔ اس نے آپ سے پوچھا کہ اے بابا کیا یہاں کوئی آبادی بھی ہے کہ یا نہیں؟ تو اس اللہ والے نے حقیقی آبادی کا لحاظ رکھتے ہوئے قبرستان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ وہ آبادی نظر آتی ہے۔ اس بات پر پولیس والے کو سخت غصہ آیا وہ آپ کو مارنے لگا تو جواب میں حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے سخت عاجزی وانکساری سے کام لیا اور اسے کچھ نہ کہا۔ کسی نے اس پولیس والے کو کہا کہ اے ظالم تجھے پتہ تو کسے مارہا ہے یہ تو اللہ کے کامل بندے ابراہیم ہیں۔ یہ بات سننی تھی کہ پولیس والا آپ سے معافی مانگنے لگا، آپ نے کہا کس بات کی معافی مانگ رہے ہو تم نے تو ہمیں فائدہ پہنچایا ہے۔ پولیس والے نے حیرت میں آکر پوچھا حضور وہ کیسے؟ فرمایا تو نے مجھے مارا اس سے کیا ہوگا میرے گناہ کم ہوں گے اور میرے گناہ کم ہوئے تو کیا ہوگا مجھے جہنم سے نجات ملے گی اور جنت میں داخل کیا جائے گاجو شخص مجھے جنت میں پہنچائے وہ میرے لیے فائدہ مند اور جو مجھے فائدہ دے وہ بھلا مجھ سے معافی کیوں مانگے لہٰذا تمہیں مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔ اب اس حکایت کو لے کر کچھ نکات نکالیں گے وہ اس طرح کہ میرے پیر نے ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کی اس ادا کو ’’کہ انہوں نے دنیا کو فنا سمجھتے ہوئے اس میں ملنے والی تکلیف کو غیر بقادار اور غیر مستحکم کہاہے ‘‘ پسند فرمایا ہے گویا کہ انہوں نے بھی دنیا کو فنا کہا ہے اور اس کے بقا کی نفی کی ہے اور جب بقا کی نفی ہوگئی تو اسکی محبت مبعوث ہوگئی اور جب محبت عبث ہوگئی تو اس کے حصول کی طلب کی نفی ہوئی اور جب اس کے حصول کی طلب کی نفی ہوئی تو اس کے حصول میں جدوجہد کرنے کی بھی نفی ہوگئی اور جب معاملہ اس طرح سے ہے تو یہ بھی ایک فرمان نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ ہے فرمان مبارک یہ الدنیا جیفۃ وطالبہا کلاب یعنی دنیا ایک گندگی ہے اور اس کے طالب کتے ہیں۔ یہ مقام مسرت وفرحت ہے کہ میرے پیر کے ہر فرمان میں جانے کتنی ہی حکمتیں پائی جاتی ہیں۔ تو جناب والا یہ صورت تو اس وقت ہوگی جب حضور قبلہ عالم کے فرمان کے دوسرے جز’’ میرے پیر نے بقاکی نفی ہے ‘‘ کی تشریح کی جائے مگر جب پہلے جز فنا کی نفی کو دیکھا جائی تو دنیا کو فنا کہنے کی صورت میں گویا اس کو دارمجاز کہا جارہا ہے اور جب دنیا کو دار مجاز کہاجارہا ہے تو اس کے استقراء دائمی کی نفی ہوئی اور جب استقراء دائمی کی نفی ہوئی تو استقراء عارضی کو ثبات حاصل ہوا۔ استقراء عارضی کے ثابت ہونے سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ دنیا عارضی گھر یہاں کی زندگی کا گذرنا اصلی گھر یعنی آخرت کی طرف سفر ہے اور جب یہ بات اس طرح سے ہے تو یہ بات معلوم ہوئی کہ دنیا میں رہنے والے سب مسافر ہیں کیونکہ یہاں سب آخرت کی طرف سفر کررہے ہیں اور جب یہ ثابت ہوا کہ یہاں سب مسافر ہیں تو گویا اس فرمان سے اس حدیث شریف کی طرف بھی اشارہ ہے کن فی الدنیا کانک غریب اوعابر سبیل حاصل تقریر یہ ہے کہ میرے پیر سجن کی نگاہ کرم کا فیضان بہت بڑا ہے اس کو احاطے میں نہیں لایا جاسکتا، لیکن یہ فیض تو اسی کو محیط ہوگا جو اس ادا سے آئے گا کہ اس کو یہ یقین ہوکہ میرے پیر کا فیض مجھ کو ملے گا میں جیسا بھی گندہ ہوں لیکن اس کی نگاہ مجھے بہتر کردے گی جیسا کہ حکایت میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ حضرت بایزید بسطامی نے ایک دیوانے کو دیکھا کہ وہ کہہ رہا تھا اے اللہ مجھ پر نظر فرما۔ حضرت بایزید بسطامی نے پوچھا کہ تونے کونسا ایسا نیک عمل کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی نظر تیری طرف ہوجائے۔ تو اس نے جواب دیا کہ جب اس کی نگاہ میری طرف ہو جائے گی تواعمال خودبخود اچھے ہوجائیں گے۔ تو جناب میرے پیر کی دربار میں آنے سے پہلے یہ یقین رکھنا ہوگا کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے سینے مبارک سے فیض کے چشمے رواں ہیں اور میرے پیر کے سینے میں داخل ہورہے ہیں اور ان کی توجہ سے میرے سینے میں یہ فیض منتقل ہورہا ہے کیونکہ دوجہاں پہ میرے سرکار مدنی کے فیضان کا اثر برابر ہے کیونکہ خدا کا در یہی ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفر مفر
جو وہاں سے ہو یہاں آگے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں