فہرست الطاہر
شمارہ 51، جمادی الاول 1429ھ بمطابق جون 2008ع

جماعت اصلاح المسلمین

تعارفی جائزہ اور کارکردگی

رفاقت علی عاصی طاہری

 

قیام: یہ جماعت۱۹۷۱ میں ایک ولی کامل، مجدد دین، صاحب دل و نظر، غمگسارِ امتِمحمدیہ علی صاحبہاالصلٰوۃوالسلام حضرت علامہ الحاج اللہ بخش المعروف سوہنا سا ئیں نقشبندی مجددی کے ہاتھوں قائم ہوئی اور الحمد اللہ آج پاکستان کے کونے کونے بلکہ بیرون ممالک بھی اس کی برانچز قائم ہیں

وجہ قیام: حضرت سوہنا سا ئیں جو سچے عاشقِ رسول صلّی اللہ علیہ وسلم اور امت کے بہی خواہ تھے۔ امتِ محمدیہ کی خراب کردار اور زبوں حالی کو دیکھ کر کڑہتے تھے۔ اسی لیے جماعت اصلاح المسلمین کا قیام فرمایا۔

مقصد و مشن: تزکیہِ نفس اور اصلاح احوال بذریعہ ذکرِقلبی۔ قران پاک کی آیت مبارکہ’’ تحقیق کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اپنا تزکیہ کرلیا اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور نمازپڑھتا رہا۔ ‘‘ کی روشنی میں امتِ مسلمہ کو کامیابی کی طرف گامزن کرنااور اسکی فلاح و بہبود کے لیے کوشش کرنا۔ اس جماعت کا نعرہ’’ میرا ارادہ صرف اصلاح کرنے کا ہے جہاں تک میری استطاعت ہے اور میری توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ ‘‘

طریقہ کار: اس مقصد کے حصول کے لیے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کی تعلیمات کی روشنی میں قلبی ذکر کی دعوت کو عام کرنا اور سر پرستِ اعلیٰ اور ان کے خلفاء کے ذریعے لوگوں کو ذکرِقلبی سکھانا اور اسکا عادی بنانا۔ ذکرِقلبی کا مراقبہ کرانا۔ جماعت اصلاح المسلمین کا ہر رکن ذکرِ قلبی کی دعوت کو عام کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ لوگوں کودعوت دے کر سر پرستِ اعلیٰ حضرت علامہ مولانا محمد طاہر المعروف سجن سائین دامۃ برکاتہم العالیہ اور آپکے خلفاء کرام، جو ذکرِقلبی سکھانے کے مجاز ہیں، کے پاس لے کر آتا ہے۔ ان کو ذکرِقلبی سکھایا جاتا ہے اور ذکرِقلبی اور مراقبہ کرنے کا طریقہ کار سمجھایا جاتا ہے۔

جماعت اصلاح المسلمین کا ڈھانچہ: تنظیمی لحاظ سے جماعت کے نظام کو اس طریقے سے ترتیب دیا گیا ہے۔

ا۔ مرکزی باڈی

ب۔ صوبائی باڈیز

ج۔ ضلعی باڈیز

د۔ علاقائی برانچز

ذمہ داریاں: مرکزی، صوبائی اور ضلعی باڈیز دستورالعمل کے مطابق اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے رہی ہیں یہاں صرف علاقائی برانچزجن کو مراقبہ سنٹر، دعوتی مرکز اور علاقائی فلاحی اداروں کا درجہ دیا گیا ہے کی ذمہ داریوں کو زیر بحث لایا جائیگا۔ برانچز کی ذ مہ داریاں مندر جہ ذیل ہیں اور انہی کے حصول کے لیے وہ کام کررہی ہیں۔

۱۔ تبلیغ کے لیے باہمی مشاورت سے خلیفہ صاحب کے تبلیغی شیڈول کا نظام ترتیب دینا۔

۲۔ روزانہ مراقبہ کا نظام قائم کرنا۔

۳۔ فلاحی اور سماجی کاموں کے لیے کوشش کرنا۔

۴۔ جماعت کی ممبرشپ کو عام کرنا

۵۔ ممبران سے ماہانہ فیس وصول کرنا

۶۔ اپنی سرگرمیوں کا ریکارڈ رکھنا

۷۔ ضلعی باڈی کو ماہانہ فیس کی باقاعدگی سے ادائیگی کرنا

۸۔ اپنی کارکردگی کی رپورٹ ضلعی باڈیز کو پیش کرنا۔

خلفاء کرام کی ذمہ داریاں: ہر برانچ کے سر پرست علاقے کے خلیفہ صاحب ہوتے ہیں۔ گویا علاقے کی برانچ کو خلیفہ صاحب چلارہے ہیں۔ خلفاء کرام تبلیغی مصروفیات کے ساتھ تنظیمی امور میں برانچز کے طے کردہ شیڈول کی پابندی خود بھی کرتے ہیں اور برانچز سے کرواتے ہیں۔ اسی طرح اپنی برانچ اور فلاحی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھتے ہیں اور جہاں ضروری ہو ہدایات بھی دیتے ہیں۔

ادارے: عامۃالناس کی اصلاح کے لیے تبلیغی نظام کے ساتھ ساتھ جماعت کے سر پرستِ اعلیٰ کی فکر کے پیشِ نظر پاکستان کے مختلف شہروں میں مراکز اور مدارس قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں حفظِ قرآن اور درسِ نظامی کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ طلباء کی صحت اور جسمانی ورزش وغیرہ کا انتظام بھی ہے۔ انکی ذہنی اور اخلاقی تربیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

مالی نظام: جماعت کا ہر رکن رضاکارانہ طور پر جماعت کے تنظیمی اخراجات اور فلاحی کاموں کی انجام دہی کے لیے ممبر شپ فیس (دس روپے ماہانہ)، زکوۃ، صدقات، فطرانہ اور چرمِ قربانی جماعت کے فنڈز میں جمع کرواتا ہے اور مخیر حضرات سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جما عت اصلاح المسلمین کے سر پرستِ اعلیٰ کی فکر اور ہدایات کے مطابق جماعت کے اراکین اپنے وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرتے ہیں۔

جماعت کے اراکین: جماعت کے سر پرستِ اعلیٰ کے تمام مریدین کے لیے جماعت کی ممبرشپ حاصل کرنا لازم ہے۔ اس طرح سرپرست اعلی۔۔ تمام مریدین جماعت کے اراکین ہیں۔

معاون اراکین: جماعت کا مشن چونکہ اصلاح احوالِ امتِ محمدیہ اور تبلیغِ دین ہے لہٰذہ ہر صاحب درد اور غمخوارِامت، خواہ وہ سر پرستِ اعلیٰ کا مرید ہو یا نہ ہو، تَعَاوَنوعَلَی الْبِرِّوَالتَقْویٰ کے مصداق جماعت کا معاون رکن بن سکتا ہے۔ الحمداللہ ہزاروں معاونین ایسے ہیں جو بیعت کسی اور بزرگ سے ہیں لیکن پھر بھی جماعت کے ساتھ فی سبیل اللہ تعاون کرتے ہیں۔

ثمرات: جماعت کے اراکین کی مخلصانہ کوششوں اور بالخصوص سر پرستِ اعلیٰ کے فیضانِ نظر سے لاکھوں مصلح افراد اس جماعت کے ممبران ہیں جو شب و روز اصلاحِ احوال اور فلاحِ مسلماناں میں مصروف ہیں۔ اس بات کا مشاہدہ ہر خاص و عام کر سکتا ہے کہ جو کوئی بھی جماعت اصلاح المسلمین کی دعوت سن کر جماعت کے سر پرستِ اعلیٰ کی خدمت میں پہنچا، ذکرِقلبی سیکھا اور کیا، اللہ تعالیٰ نے اسکو تزکیہِ نفس عطا کیا اور اس کی اصلاح ہو گئی اگرچہ اس سے پہلے وہ نشئی، ڈاکو، شرابی، چور، اور ظالم تھا۔

سرپرستِ اعلیٰ: بانیِ جماعت حضرت الحاج اللہ بخش المعروف سوہنا سائیں کے وصال بمطابق دسمبر ۱۹۸۳؁ کے بعد ولیِا بنِ ولی، صاحبِ زہد و تقویٰ حضرت علامہ مولانا صاحبزادہ محمد طاہر المعروف سجن سائیں دامت برکاتہم العالیہ نے بائیس سال کی عمر میں جماعت کی بھاگ دوڑ سنبھالی۔ آپ فارغ التحصیل عالمِ دین ہیں۔ خائف خدا، عاشقِ رسول، متبع سنت اورعامل شریعت ہیں۔ شریعت مطہرہ کی پابندی میں ان کو کمال حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ رسمی پیری مریدی، نذرانے، چڑھاوے، ڈھول ڈھمکا، میلے ٹھیلے اور سیاست وغیرہ کے جھمیلوں سے بہت دور ذکروفکر میں مستغرق، مخلوقِ خدا کے لیے شفیق، غمگسار اور خدمتگار، عاجزانہ اندازِ میں دینِ متین کی خدمت کرتے ہیں۔ ہر طرح کی تفرقہ بازیوں سے پاک اور محبت و اخوت کا درس دینے والے ہیں۔ آپکی تعلیمات کی بنیاد احترامِ انسانیت ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی صحبت بابرکت میں ہر مکتبہِ فکر کے علماء اور عامۃ الناس بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی بلا تفریق آتے ہیں اور آپ سے محبت کرتے ہیں۔ اعلیٰ و عمدہ اخلاق کے مالک، نفاست پسند، حلیم الطبع، عجزوانکساری کا پیکر، لاکھوں مریدین مگر پیر ہونے کا دعوی نہیں۔ رشتہ داروں سے صلہ رحمی، اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کے عادی، جدید ایجادات کی نفی نہیں بلکہ ان سے استفادہ کرنے والے، جدید دور کے تقاضات کو سمجھ کر ان کے مطابق عمل کرنے اور کروانے والے الغرض قدیم و جدید کا ایک حسین مرقع ہیں۔ ان کو دیکھ کر جہاں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوتی ہے وہیں موجودہ دور کے ایک باشعور اور متحرک انسان کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ کی تعلیمات کا مرکز و محور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زندگی کے دو پہلو ہیں۔

۱۔ تعلق بااللہ (عجز ا انکساری اور بندگی کا تعلق)

۲۔ تعلق باالمخلوق (شفقت، محبت اور کشادگی کا تعلق )

رہنما اصول: آپکی فکر اصلاحِ انسانی بذریعہ اتباعِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہے۔ اپنی اس فکر کی تبلیغ و اشاعت اور اتباعِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے حصول کے لیے آپ اپنے مریدین کو مندرجہ ذیل رہنما اصولوں پر کار بند رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔

۱۔ صحبتِ شیخ: صحبتِ شیخ (مرشد) کے تین طریقے ہیں۔ ا۔ ممکنہ حالات میں اپنے مرشدِ کامل کی صحبت میں رہنا۔ ب۔ بصورتِ دیگر ممکنہ حد تک خلفاء کی صحبت میں رہنا۔ ج۔ اور جب یہ دونوں صحبتیں میسر نہ ہوں تو یہ خیال رکھنا کہ میرے سینے میں میرے مرشد کریم کا فیض آرہا ہے۔

۲۔ ذکرِقلبی: ہر وقت ذکرِ قلبی کا خیال رکھنا۔ کثرت کے ساتھ اللہ تبارک تعالیٰ کا دل میں ذکر کرنا۔

طریقہ: انسانی سینے کے بائیں طرف پسلیوں میں دل ہوتا ہے۔ ہر وقت یہ خیال رکھنا کہ ہر دھڑکن کے ساتھ میرا دل پکار رہا ہے اللہ اللہ اللہ چونکہ یہ قلبی ذکر ہے اس لیے اس کوکرنے کے لیے وضو شرط نہیں ہے البتہ ہو تو بہتر ہے۔ بس چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے یہ خیال رہے کہ میرا دل اللہ کا ذکرکر رہا ہے۔

۳۔ مراقبہ: روزانہ پابندی سے کم از کم ایک مرتبہ مراقبہ کرنا۔

طریقہ: آ نکھیں بند کر کے سر گھٹنوں میں دیکر چہرے پر کپڑا (اگر موجود ہو) ڈال کر اس خیال میں بیٹھنا کہ اللہ کے دربار میں بیٹھا ہوں۔ نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے سینہ اطہر کا فیض اولیاء اللہ کے سینوں سے ہوتا ہوا مرشد کریم محبوب سجن سائیں دامت برکاتہم العالیہ کے سینے سے نورانی شعاعوں کی صورت میں میرے سینے میں آ رہا ہے۔ میرا دل روشن ہو رہا ہے اور ذکر کررہا ہے اللہ اللہ اللہ۔ مراقبے میں موٹے منکے کی تسبیح کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

نوٹ: مراقبے سے پہلے درود شریف ایک بار، سورۃ فاتحہ ایک بار، سورۃ قریش گیارہ بار، سورۃ اخلاص گیارہ بار، آیت مبارکہ ’’ اِنَّ رَحْمَۃَ اللہ قَرِیْبُُ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنْ‘‘ پچیس بار آخر میں درود شریف ایک بار پر مشتمل ختم شریف پڑہا جاتا ہے اور اس کا ثواب حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم۔ تمام انبیاء اکرام علیہم السلام۔ اصحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ اولیاء عظام جمیع مرحوم مسلمین اور بالخصوص اپنے پیرانِ کبار کی ارواح مبارکہ کو ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے یاد رہے دربار عالیہ اللہ آبار شریف پر یہی ختم شریف پڑھا جاتا ہے۔

۴۔ تبلیغ: حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’ اچھا مسلمان وہ ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرے دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے بھی پسندکرے ‘‘ کے مطابق جماعت اصلاح المسلمین کا ہر رکن اپنے مرشد کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسی پیغام ہی کی بدولت ان کو راہ راست نصیب ہوئی۔ الحمداللہ ان اصولوں پر عملدر آمد سے مرید کو اصلاح نصیب ہوتی ہے اور اس میں اتباعِ رسول صلّی اللہ علیہ وسلم یعنیتعلق بااللہ اور تعلق بالمخلوق نظر آتا ہے۔