فہرست الطاہر
شمارہ 51، جمادی الاول 1429ھ بمطابق جون 2008ع

انسانیت کا احترام

سعید نواز طاہری۔ دادو

 

انسان تمام کائنات کے تخلیق عمل سے مکمل جدا خالق کائنات کی ایک علیحدہ اور خصوصی تخلیق ہے۔ اسے دیگر تمام مخلوقات کے مقابلے میں بہترین نقشے پر بنا یا گیا ہے۔ اسے ساری مخلوق پر بزرگی اور فضیلت بخشی گئی۔ یہ بزرگی فضیلت وعظمت انسان کو محض انسان ہونے کی بنا پر حاصل ہے اس میں کالے، گورے، عربی، عجمی، شرقی وغربی اونچے نیچے یا مختلف انسان کا کوئی امتیاز نہیں اور یہ امتیاز کیوں نہیں اس لیے کہ سب نفس واحدہ سے پیدا ہوئے ہیں۔

جب یہ بات مسلم کہ تمام انسان نفس واحدہ سے پیدا ہوئے ہیں تو اپنی جگہ یہ امر بھی واضح ہیں کہ سارے انسانوں کا خون بھی یکساں ہے اور ان کی رنگت بھی ایک ہے۔

انسان تمام مخلوق میں محترم ہے تو اس کا خون بھی محترم ہے لہٰذا قتل وغارت گری کسی بھی ذریعے سے انسانی خون بہانے اوراس کی حرمت کو بلا وجہ پامال کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ محسن انسانیت محسن اعظم جناب نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے احترام انسانیت پر غیر معمولی زور دیا ہے۔

چنانچہ ایک مرتبہ دوران طواف خانہ کعبہ کو مخاطب کرکے سرکار مدینہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کتنا پاکیزہ ہے تیری فضا کتنی خوش گوار ہے۔ کتنا عظیم ہے تو، تیرا مقام کتنا محترم ہے مگر اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے ایک مسلمان کے جان ومال اور خون کا احترام اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے (ابن ماجہ) اسی لیے محسن انسانیت نے انسانیت کی تاریخ میں پہلی بار انسانی حقوق کا تعین فرمادیا اور توحید باری تعالیٰ کے فوراً بعد حددرجہ زور حقوق العباد پر دیا۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میں اپنے حقوق تو معاف فرما سکتا ہوں لیکن بندوں کے حقوق معاف نہیں کرسکتا جب تک کہ بندہ معاف نہ کرے۔

اسلام نے دنیا کی زندگی میں سب سے قیمتی چیز ’’انسانی جان‘‘ کو جو قدروقیمت اور رفعت وبلندی دی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جب ہم اسلامی تعلیمات پہ نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں قرآن وحدیث سلف صالحین اور تاریخ اسلام میں درجنوں آیات کریمہ واحادیث نبوی اور اسلامی فرماں رواؤں کے ہزاروں واقعات وامثال احترام انسانیت پر موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔

دنیا کے دیگر نظام ہائے زندگی کی طرح اسلام کا یہ پیغام صرف زبانی دعوے تک محدود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والے اس کو عملی جامع بھی پہنچاچکے ہیں۔ اس کی ایک جھلک اسلامی تاریخ میں یوں ملتی ہیں کہ جب کبھی آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفائے راشدہ رضی اللہ عنہم نے جہاد کے لیے لشکر روانہ کیے تو دیگر نصیحتوں کے ساتھ سب سے زیادہ زور ان باتوں پر دیا گیا۔

1۔ اگر فریق مخالف ہتھیار پھینک دیں اور تمہاری اطاعت قبول کریں تو ان کو امان دی جائے ’’قتل نہ کیا جائے ‘‘

2۔ سب سے پہلے یہ کوشش کی جائے کہ جنگ کی نوبت نہ آئے اور صلح سے کام چل جائے۔

3۔ جنگ کے دوران بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو نہ ماراجائے۔

4۔ درختوں کو بلاوجہ نہ کاٹا جائے، اسلام کا ہر سپاہی ان ہدایات پر سختی سے عمل کرتا تھا۔

حضور رحمت للعالمین صلّی اللہ علیہ وسلم کا انداز فکر تعزیرات اور سزاؤں کے سلسلے میں بالخصوص سزائے موت کے سلسلے میں ہمیشہ یہ رہا ہے کہ سزا سے حتی الوسع مجرم کو بچانے کی راہ تلاش کی جائے اور اسباب وشواہد سزا کے لیے نہیں بلکہ برأت کے لیے ڈھونڈے جائیں۔ چنانچہ ارشاد مبارکہ ہے جس حد تک ممکن ہو مسلمانوں کو سزا سے بچانے کی کوئی گنجائش بھی نکلتی ہوتو انہیں چھوڑ دو ’’ابن ماجہ شریف‘‘ ان فرمودات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انسانی جان کی قدرو قیمت کیا ہے۔ آج اقوام عالم اخلاقی پستی کے بھنور میں گرفتار اور روز بروز پستی میں گرتی جارہی ہیں۔ اخلاقی گراوٹ نے اچھے اور بڑے کی تمیز ختم کرکے رکھ دی ہے۔ خود غرضی اور لالچ وحرص نے لوگوں کو ایسا اژدہا بنادیا ہے کہ وہ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے دوسروں کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتے۔ اگر ہمیں کسی ایک کی پالیسی پسند نہیں ہے تو اس کی وجہ سے دوسروں کو بلی کیوں چڑھاتے ہیں۔ پوری دنیا میں انسانی خون کو بڑی بے رحمی سے بہایا جارہا ہے خصوصاً مسلم کا خوں ارزاں کیا گیا ہے۔ آئے دن مملکت پاکستان میں جو خونی واقعات پیش آتے ہیں بیک وقت کئی کئی خودکش بم دھماکے پورے ملک کو ہلاکے رکھ دیتے ہیں جس سے بہت سی جانیں ضایع ہوتی ہیں۔ عورتیں بیوائیں ہوئیں اور بچے یتیم ہوئے اور بوڑھے ماں باپ بے سہارا ہوئے۔ بہت سے صاحب حیثیت بے حیثیت، صاحب گھر بے گھر ہوئے تو یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا اسے مسلماں کہتے ہیں۔ مسلم تو وہ ہیں جس کے ہاتھ اور زباں سے دوسرے مسلماں محفوظ رہیں۔

اسلام نے انسانی زندگی کا ایسا نقشہ اور عملی خاکہ پیش کیا کہ انسان اگر اس کو سمجھ لے تو پھر دوسرے بھائی کی گردن تو کیا ناخن بھی نکالنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ آج دنیا امن وامان کی پیاسی ہے۔ محبت و اخوت کی متلاشی ہے۔ اس لیے اگر ہم خلوص اور اخلاص کے ساتھ ان کو پروان چڑھائیں گے تو مملکت پاکستان اور اطراف عالم میں امن اور صلح اور رواداری کی فضا ہموار ہوگی۔ فلاح و سعادت امن اور عافیت محبت واخوت کی ہوائیں چلیں گی۔ ظلم وتشدد و عداوت وتعصب اور عدم برداشت کے رویے ختم ہوں گے۔ اورلسانی نسلی علاقائی، مذہبی، ملکی اختلاف کا خاتمہ ہوگا۔