فہرست الطاہر
شمارہ 51، جمادی الاول 1429ھ بمطابق جون 2008ع

مراقبہ اور جدید سائنس

جسارت الیاس جوکھیو طاہری

 

کچھ دیر کے لیے دنیا ومافیہا سے تعلقات توڑ کر ہمہ تن اپنے خالق ومالک کی طرف متوجہ ہونے کا نام مراقبہ ہے، مراقبہ میں اپنے شیخ کامل کے توسط سے متوجہ ہواجاتا ہے۔ (از جلوہ گاہ دوست ص 50)

صوفیائے کرام میں مراقبہ کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ ہمارے مشائخ طریقہ عالیہ نقشبندیہ طاہریہ میں جو مراقبہ مروج ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ آنکھیں بند کرکے سرپر اگر سفید کپڑا میسر ہوتو ڈال کر چند منٹ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر نہایت عاجزی وانکساری کیساتھ دل سے کیا جاتا ہے اور حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے فیض کا مشائخ نقشبند خصوصاً مرشد کامل محبوب سجن سائیں دامت برکاتہم العالیہ کے توسط سے انتظار کیا جاتا ہے۔ دل میں اللہ اللہ کیا جاتا ہے زبان خاموش رہتی ہے۔

مراقبہ کو طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں بنیادی حیثیت حاصل ہے طریقہ عالیہ قادریہ ودیگر تمام سلاسل صوفیائے کرام میں مراقبہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ لیکن اس کا لطف جو طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں ملتا ہے اور کسی میں نہیں ملتا۔

بارہویں صدی کے مجدد حضرت خواجہ حاجی دوست میں قندھاری رحمۃ اللہ علیہ (1216ھ تا 1284ھ) نے مراقبہ میں دلی یکسوئی Concentrationحاصل کرنے کے لیے موٹے منکوں والی تسبیح کا استعمال فرمایا جو کہ الحمدﷲ تعالیٰ آج تک ہمارے طریقہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ غفاریہ بخشیہ طاہریہ میں رائج وعام اور لازم ہے۔

ہمارے آقا ومولیٰ فخر موجودات، حاضرات وغائبات آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں اپنے گھر میں اور مختلف غاروں میں مراقبہ فرماتے تھے۔ (از سنت مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم اور جدیدسائنس ص 179)

اس لیے مراقبہ کرنا میرے آقا ومولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت مبارکہ بھی ہے۔

مراقبے سے دل کو سکون، ترقی کی منزلیں، آگے بڑھنے کا حوصلہ، صبرو استقامت اور منزل مقصود پر آسانی سے پہنچنا نصیب ہوتا ہے۔ (از سنت مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم اور جدید سائنس ص 179)

مراقبہ کرنے سے دینی ودنیوی مسائل اللہ تعالیٰ کے فضل سے حل ہوجاتے ہیں اور سکون و طمانیت نصیب ہوتا ہے مراقبہ چونکہ دل ودماغ کی یکسوئی کا نام ہے اس لیے پابندی سے روزانہ کرنے سے دماغ کو تقویت ملتی ہے۔ اس خطا کار خاطی عاجز کا یہ آزمودہ ہے کہ جب بھی میرے امتحانات ہوتے ہیں یوم پیپر علی الصبح مراقبہ کرنے سے میرے دل ودماغ کو جوتقویت ملتی ہی وہ الفاظ میں یہ عاجز بیان نہیں کرسکتا۔ طالب علم اگر پابندی کے ساتھ ذکر قلبی ومراقبہ کرتے امتحانات کی تیاری کرے تو انشاء اللہ کسی بھی دشواری کا سامنانہ ہوگا اور کسی بھی دماغی طاقت والی ادویات یا پڑھائی میں رٹہ لگانے ( Gramming) کی کوئی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔

مراقبہ (Mediatation)کے متعلق آج کل کے جدیدسائنسدانوں نے جو تحقیق شدہ انکشافات کیے ہیں اس سے مراقبہ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یقینا یہ انبیاء کرام علیہم السلام خصوصاً ہمارے آقا ومولیٰ سرور کائنات رحمۃللعالمین صلّی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا ہی صدقہ ہے جو کہ آج کل کے مغربی غیرمسلم جدید سائنسدانوں کو بھی تحقیق پر مجبور کردیتاہے، بیشک یہ سب کچھ ذکر قلبی کی ہی Quick Resultہے۔

حضرت علامہ محمد شہزاد قادری ترابی صاحب اپنی کتاب’’سنت مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم اور جدید سائنس‘‘ کے صفحات نمبر 179 اور 180 پر مغربی سائنسدانوں کی مراقبہ پہ کی گئی تحقیق اور نتیجہ لکھتے ہیں آپ لکھتے ہیں کہ’’ ماہرین نے مراقبے کو ذہنی دباؤ کے مریضوں پر آزمایا۔ ذہنی دباؤ کے مریض ہمیشہ اپنی منفی سوچ (Negative Thinking)کی وجہ سے اپنے اوپر دباؤ بڑھاتے رہتے ہیں، اگر کوئی شخص اپنے منفی طریق زندگی کو پس پشت ڈال کر کسی ایک چیز پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے تو وہ ضرور آرام محسوس کرے گااور یہی چیز اس کو تندرستی کی طرف لے جائے گی۔ مراقبہ اگر مکمل توجہ قلب سے کیا جائے تو بے چینی شدید خوف کا احساس اور کھلی جگہ کا خوف جیسی علامات کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ مراقبے سے ذہنی اور نفسیاتی مریض کو ٹھیک کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے، یہ بھی ایک سائنسی اصول ہے جب کبھی آپ کو اچانک کوئی بڑی تکلیف اور حادثے کا سامنا کرنا پڑے ( اللہ نہ کرے ) تو اسی حالت میں آپ کو دماغ فوراً Adrenal Glandکو ہارمون کا اشارہ کرتا ہے جب آپ کا دل بھاری پن محسوس کرتا ہے، بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور پسینہ آجاتا ہے دماغی آرام سے اعصاب کو سکون ملتا ہے۔ اگر ایسی حالت میں گول دائرہ بناکر (اجتماعی) یا اکیلا (انفرادی بیٹھ کر ہمہ تن ہوکر اللہ کے ذکر کے لیے سر کو عاجزی کیساتھ نیچے کرکے کپڑا ڈال کر مراقبہ کیا جائے تو آپ اوپر والی بیان کردہ حالت میں اللہ کے فضل سے جلد ہی قابو پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر قلبی کی بدولت حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے طفیل مرشد کامل کے توسط سے جلد ہی انشاء اللہ العزیز اپنی مشکل کو حل ہوتا ہوا دیکھیں گے۔

بقول ماہرین اگرکوئی آدمی Dipressionکا شکار ہوجائے، کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہ رہے تو اس کو ذکر مراقبہ کا عادی بنایا جائے، جلد ہی مکمل طور پر صحتیاب ہوجائے گا۔ انشاء اللہ العزیز۔

فرمان الٰہی ہے ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘ ترجمہ: خبردار ! اللہ کے ذکر میں ہے دلوں کا سکون ہے۔ اس لیے دل کے مریضوں کو ذکر قلبی مع مراقبہ (تسبیح کے ساتھ) کرانے سے، تسبیح کی آواز کو ( اللہ اللہ ) دھڑکن دل سے ملانے سے سکون ملتا ہے۔ ہمارے مسلمان ڈاکٹر بھائی خصوصاً طاہری ڈاکٹر بھائیوں سے گذارش ہے کہ دل کے مریضوں Cardiac Parientsپر مراقبہ کو آزمائیں۔