فہرست الطاہر
شمارہ 51، جمادی الاول 1429ھ بمطابق جون 2008ع

مغرب کا فکری و تھذیبی چیلنج

اور علماء کی ذمہ داریاں

ڈاکٹر محمود احمد غازی

(2 جنوری 2005 کو گجرانوالہ میں ”دینی مدارس میں عمرانی علوم کی تدریس کی ضرورت و اہمیت“ کے موضوع پر ہونے والی فکری نشست سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کا خطاب موضوع کی اہمیت کے پیش نظر شایع کیا جارہا ہے۔ ادارہ)

 

اس وقت دنیائے اسلام جس دور سے گذر رہی ہے ‘یہ دور اسلام کی تاریخ کا انتہائی مشکل دور ہے۔ امت مسلمہ کو جو مشکلات آج درپیش ہیں ‘شاید ماضی میں اتنی مشکلات کبھی در پیش نہیں ہوئیں۔ ایک اعتبار سے امت مسلمہ کی پوری تاریخ بحرانوں کی تاریخ ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے دور نبوت کے آغاز سے لے کر ‘جب آپ صلّی اللہ علیہ وسلم دار ارقم میں قیام فرما تھے ‘آج تک کوئی صدی اور صدی کا کوئی حصہ یا کوئی عشرہ ایسا نہیں گذرا جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اس میں مسلمانوں کو کوئی مشکل در پیش نہیں تھی۔ لیکن ان ساری مشکلات میں اور آج کی مشکل میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے ماضی کی جتنی مشکلات اور پریشانیاں تھیں وہ عموماً زندگی کی کسی ایک گوشے تک محدود ہوتی تھیں۔ مسلمانوں کو عسکری اعتبار سے کسی دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا‘پیچھے ہٹنا پڑا‘پسپائی اختیار کرنی پڑی ‘یہ ایک عسکری شکست یا عسکری ہزیمت کا معاملہ تھا یا مسلمانوں کی کوئی حکومت کمزور ہوئی ‘غیر ملکی قوتیں مضبوط ہوگئیں اور مسلمان سیاسی طور پر پس ماندگی کا شکار ہوگئے یہ سیاسی میدان میں کمزوری تھی۔ اس طرح کمزوریاں جو عموماً سیاسی ‘ مالی‘ عسکری یا مادی ہوتی تھی ‘تقریباً ہر دور میں پیش آتی رہیں لیکن ان سارے ادوار میں مسلمانوں کا خاندان ‘مسلمانوں کی تعلیم ‘ مسلمانوں کا نظام تربیت اور مسلمانوں کی جو اندرونی ساخت اور تشکیل(Internal fabric)تھی ‘وہ اکثر وبیشتر بیرونی خطرات اور حملوں سے محفوظ رہی۔ تاتاریوں کے حملے کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ دنیائے اسلام پر اس سے برا وقت کوئی نہیں آیا اور یقینا وہ بہت برا وقت تھا کہ افغانستان کے مشرقی علاقوں سے لے کر مصر کے حدود تک اور ترکی کے جنوبی علاقوں سے لیکر جزیرۃالعرب کے وسط تک یہ سارا علاقہ تاتاریوں کی تخت وتاراج کا آماجگاہ تھا انہوں نے ہزاروں علمائے کرام کو شہید کیا اور بڑے بڑے جید ترین اکابرین اسلام ان کی تلوار کا نشانہ بنے۔ خواجہ فرید الدین عطار جن کے بارے میں مولانا روم ؒ نے فرمایا:

عطار اوبود وسینائی دوچشم او
ماازپئے سینائی وعطار آمدیم

اس درجے کے انسان کہ جن کی پیروی پر مولانا روم جیسے آدمی نے فخر کا اظہار کیا ہے ‘ایسے اونچے اونچے لوگ تاتاریوں کی تلوار کا شکار ہوئے۔ کتب خانے انہوں نے جلادیے ‘شہر برباد کردیے یہاں تک کہ ابن کثیرؒ نے اپنی مشہور کتاب ’البدایہ والنہایہ ‘میں لکھا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی شکست خوردگی اور پست ہمتی کا یہ عالم تھا کہ ’’اذا قبل لک ان التتار انہزمو افلاتصدق‘ ‘ یعنی اگر تمہیں یہ خبر دی جائے کہ تاتاریوں کو شکست ہوگئی ہے تو اس پر یقین نہ کرو۔ گویا تاتاریوں کی شکست ناقابل تصور سمجھی جاتی تھی اور یہ بات ضرب المثل بن گئی تھی۔ لیکن اس ساری تباہی اور بربادی کے باوجود تاتاریوں کے شکست وریخت کا دارومدار سارا مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی کمزوری پر تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو سیاسی نقصان پہنچایا ‘عسکری نقصان پہنچایا لیکن ان کے پاس کوئی دین نہیں تھا ‘کوئی پیغام نہیں تھا‘ کوئی تہذیب نہیں تھی ‘کوئی مذہب نہیں تھا ‘کوئی فکری ایجنڈا نہیں تھا اس لیے مسلمانوں کی تہذیب وتمدن ‘تربیت اور خاندانی نظام ان کے حملوں سے محفوظ رہا اور ان میں سے کوئی چیز متاثر نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی اندرونی قوت نے ان کا ساتھ دیا اور بہت جلد وہ تاتاریوں کی شکست کے نتائج اور ثمرات بد سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہی کیفیت بقیہ بہت سے معاملات کی بھی رہی۔

آج جو صورت حال درپیش ہے اور آج سے نہیں پچھلے ڈیڑھ سوسال سے درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہر آنے والا دن ‘ہر نکلنے والا سورج خطرے کی یا پریشانی کی ایک نئی جہت لے کر آتا ہے۔ آج اسلامی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو خطرات سے دوچار نہ ہو۔ فرد کے ذاتی کردار اور تربیت کا معاملہ ہو ‘گھر کے اندر ماں اور بچوں کے درمیان کا معاملہ ہو ‘میاں بیوی کے تعلقات کا معاملہ ہو ‘گھر کے خواتین کے رویے کا معاملہ ہو‘ تعلیم وتربیت کا معاملہ ہو ‘یامساجد کے اندرجاری سرگرمیوں اور معمولات کا معاملہ، ان میں سے ہر چیز آج براہ راست مغربی حملے کی زد میں ہے۔ عالم اسلام میں جب سے مغربی اثرات آئے ہیں جس کو کم وبیش دوسوسال کا عرصہ ہوچکا ہے اس کے بارے میں دنیائے اسلام نے تین رویے اختیار کیے ہیں۔ ان میں سے دورویے تو بتدریج کمزور ہورہے ہیں یا محسوس ہورہا ہے کہ وہ کمزور ہورہے ہیں اور تیسرا رویہ بڑھتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور اس میں پچھلے پچاس سوسالوں میں قوت پیدا ہوئی ہے۔

ایک رویہ جو سمٹ رہا ہے اور سمٹے سمٹے یقینا ختم ہونے کے قریب ہے۔ یہ وہ رویہ تھا ابتدا میں بہت مضبوط تھا لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا گیا۔ دوسرا رویہ جو شروع میں بہت قوت سے سامنے آتا محسوس ہوتا تھا ‘مسلمانوں کی اکثریت نے اس سے بھی زیادہ اتفاق نہیں کیا اور یہ رویہ بھی کمزور ہوتا محسوس ہورہا تھا۔ یہ وہ رویہ ہے جو مکمل طور پر مغرب کے رنگ میں رنگ جانے کا رویہ جس نے سمجھا کہ مسلمان اگر مغرب کے ساتھ سوفیصد ہم آہنگی کرلیں تو شاید ان کے تمام مسائل حل اور تمام مشکلات دور ہوجائیں گی اس رویے کے ترجمان 19 ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی کے آغاز میں دانشوروں میں بھی سیاسی لیڈروں میں بھی سطح پر بھی کثرت سے پائے جاتے تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ رویہ بھی کمزور ہورہا ہے۔

تیسرا رویہ جو آغاز میں بہت کمزور اور تقریباً برائے نام تھا اب دنیائے اسلام میں اس نے اپنی جگہ بنالی ہے اور مسلمان مفکرین اور دانش وروں کی ایک بہت بڑی تعداد اس کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ وہی ’’خذماصفا ودع ماکدر‘‘کا رویہ ہے کہ مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے مسلمانوں کو استفادہ کرنا چاہیے ‘ان کی سائنس ‘ان کی ٹیکنالاجی‘ان کی سہولتیں یہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہونے چاہییں اور ان کو اپنانا چاہیے جبکہ ان کے جو منفی پہلو ہیں مثلا اخلاقی اقدار کے متعلق ان کے خیالات ونظریات یا سیکولر ازم اور لامذہبیت ‘یا مرد وزن کی آزادی کا تصور جو ان کے ہاں ہے یہ چیزیں دنیائے اسلام کو قبول نہیں کرنی چاہییں۔ یہ رویہ پہلے بہت محدود تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں وسعت پیدا ہوئی اور آج دنیائے اسلام کی ایک بڑی تعداد اس رویے پر قائم محسوس ہوتی ہے۔

مسلمان دانش ور جو سمجھتے ہیں کہ مغرب کی مثبت چیزوں سے اتفاق کریں اور منفی چیزوں کو مسترد کریں وہ کس حد تک اس میں کامیاب ہوں گے اور مستقبل کیا خبر لائے گا یہ اللہ ہی کو بہتر معلوم ہے لیکن اس رویے کی کامیابی کا سارا دارومدار مسلمانوں کے فہم صحیح پر ‘مسلمانوں کی بصیرت اور ان کے عزم وارادے پر ہے اور اس کے لیے جو چیز سب سے پہلے درکار ہے وہ خود دنیائے اسلام میں اسلامی تہذیب‘ اسلامی علوم وفنون اور معارف اسلامی سے گہری اور ماہرانہ واقفیت ہے۔ جب تک شریعت اور شریعت کے پیغام اور تعلیم میں گہری بصیرت اور ماہرانہ واقفیت پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک کوئی ایسی بنیادفراہم نہیں ہوسکتی جس پر آگے چل کر عمارت کھڑی کی جاسکے۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیائے اسلام میں علوم وفنون کی اسا س قرآن مجید تھا۔ قرآن مجید وہ جڑ فراہم کرتا تھا جس سے علوم وفنون کا گلشن پیدا ہوا ہے۔ یہی وہ درخت تھا جس کے برگ وبار اور ثمرات مسلمانوں کے بقیہ علوم وفنون کی صورت میں سامنے آئے۔ آج سے کم و بیش ایک ہزار سال پہلے قاضی ابوبکر بن العربی نے جو ایک مشہور مفسر اور مالکی فقیہ ہیں نے کہیں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے جملہ علوم وفنون کی تعداد سات سو ہے۔ ان سات سو علوم وفنون کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ سنت سے ہے اور یہ سب کے سب سنت کی شرح ہیں اور سنت رسول قرآن مجید کی تشریح وتفسیر ہے۔ اس لیے قرآن مجید کی حیثیت اس بنیاد اور جڑ کی ہے جس پر مسلمانوں کی ساری تعلیمی ‘فکری اور تہذیبی سرگرمی کا دارومدار ہے۔ یہ کیفیت کم وبیش گیارہ ‘بارہ سو سال رہی اور ایک ایسے نظام تعلیم نے جس کی اساس قرآن مجید ‘سنت رسول اور ان دونوں سے پیدا ہونے والے علوم وفنون پر تھی ‘امت مسلمہ کی تمام ضروریات کو پورا کیا۔ امت مسلمہ میں بڑی بڑی ریاستیں بھی قائم ہوئیں ‘بڑی بڑی تہذیبیں سامنے آئیں اور یورپ کے کم وبیش آدھے حصے پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔ مسلمانوں کی فوجیں آسٹریلیا کے حدود تک پہنچیں اور مشرقی اور جنوبی یورپ میں مسلمانوں کے آثا ر آج بھی موجود ہیں۔ اسی طرح اسپین میں آج بھی مسلمانوں کی سات سوسالہ حکومت کے آثار موجودہیں جہاں بانی کے اس پورے سلسلے میں اسلامی علوم وفنون اور وحدت پر مبنی نظام تعلیم نے مسلمانوں کے خالص دینی تقاضے بھی پورے کیے اور خالص دنیوی تقاضے بھی۔ یہ تاثر کہ’’ دینی اور دنیوی علوم جد اجداہیں ‘‘ اسلامی تاثر نہیں بلکہ مغرب کا تحفہ اور مغربی سیکولر ازم کے باقیات واثرات میں سے ہے۔ انگریز کے زمانے میں جب main stremکی قیادت مسلمانوں سے چھن گئی تو اس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا کہ وہ اسلامی علوم وفنون کے تحفظ کے لیے ایک خالص دینی نظام تعلیم کے قیام پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ یہ ایک دفاعی حکمت عملی تھی اور امت مسلمہ میں مذہب کی باقیات کو بچانے کا واحد طریقہ تھا کہ مذہبی تعلیم کے نام پر جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ کیاجائے اور جس حد تک مسلمانوں کی مذہبی زندگی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے رکھا جائے۔ اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں تھا کہ دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کے دو الگ الگ نظام موجود رہے ہوں۔

مغلیہ دور میں جس درس گاہ نے جس نظام تعلیم اور نصاب تعلیم نے مجدد الف ثانی جیسا شخص پیدا کیا جس کے بارے میں علامہ اقبال مرحوم کا یہ جملہ ہمیشہ دہرایا کرتاہوں کہ The greatest religious produced by Muslim India(مسلم ہندوستان نے سب سے بڑا جو مذہبی عبقری پیدا کیا وہ شیخ احمد سرہندی تھے ) اسی نظام میں نواب سعد اللہ خان بھی تیار ہوا تھا جو مجدد صاحب کا کلاس فیلو تھا اور جو سلطنت مغلیہ کا وزیر اعظم بنا۔ وہ سلطنت مغلیہ جو موجودہ افغانستان ‘پاکستان ‘ ہندوستان‘نیپال‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ بھوٹان ‘سکم ‘برما ان سب ریاستوں پر مشتمل تھی۔ اس کے نظام کو اس نے شاہ جہاں کے زمانے میں کامیابی سے چلایا تھا۔ پھر استاد احمد معمار جس نے تاج محل بنایا یہ بھی مجدد صاحب کا کلاس فیلو تھا۔ یہ تینوں ایک ہی استاد کے شاگرد تھے اور ایک ہی درسگاہ کے پڑھے ہوئے تھے۔ اب دیکھیے کہ ایک وہ شخص جس نے دنیا کی متمدن ترین سلطنت کو اس کامیاب ترین ادوارمیں قیادت فراہم کی اور اس کو نظام کو چلاکر دکھایا دوسرا وہ شخص جو ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مذہبی عبقری ہے جس کی عظمت کو بیان کرنا دشوار ہے اور جس نے برصغیر کی دینی تحریکات پر اتنا گہرا اثرڈالا کہ بعد کوئی دینی تحریک اور کوئی دینی سرگرمی اس کے اثر اور شخصیت کے احترام سے خالی نہیں ہے اورتیسراوہ شخص جس نے دنیا کے سات عجائب میں سے ایک عجوبہ بنایا یہ تینوں افراد ایک ہی نصاب کے پڑھے ہوئے اور ایک ہی تعلیمی نظام کی پیداوار تھے یہی اسلام کا آئیڈیل اور یہی اسلام کا معیار ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ہم اس پر از سر نوغور کرتے لیکن یہ کام نہ حکومتوں نے کیا ورنہ اہل علم نے اس پر ابھی تک کوئی توجہ دی ہے لیکن اس پر جتنی جلدی غور ہوجائے اچھا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام پوری امت مسلمہ کی تاریخ کے ایک مرحلہ کی تشکیل نو کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک نئے دور کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو دین موجود ہے اس کو زندگی کے روز مرہ معاملات سے Relate کیا جائے اور اس کو معاشرے میں فعال قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ اہل دین کے پاس دینی علوم کا تخصص بھی موجود ہو اور جس دنیا اور جس معاشرے میں انہیں قیادت فراہم کرنی ہے اس کے بارے میں بھی قائدانہ اور ناقدانہ واقفیت انہیں حاصل ہو جب میں یہ بات عرض کرتاہوں تو بعض علماء کرام یہ سمجھتے ہیں اورمجھ سے انہوں نے اس کا اظہار فرمایا کہ میں اس بات کا داعی ہوں کہ دینی مدارس کو میڈیکل کالجز میں Convertکردیاجائے یا انہیں انجینئرنگ کے ادارے بنادیا جائے۔ ایک بڑے محترم اور بزرگ عالم نے مجھ سے غصے سے پوچھا کہ کیا انجینئرنگ کالج میں مولوی تیار ہوتے ہیں؟ نہیں تو پھر دینی مدارس میں انجینئر کیوں تیار ہوں؟ لیکن یہ اعتراض درست نہیں ہے اس لیے کہ نہ انجینئر تیار کرنا مقصد ہے اور نہ میڈیکل ڈاکٹر تیار کرنا بلکہ علماء کرام ہی تیار کرنا مقصد ہے لیکن نواب سعد اللہ کی طرح کے علماء۔

یہ خلط مبحث اور غلط فہمی ہے کہ علما کو انجینئر یا ڈاکٹر بنانا مقصود ہے۔ نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہ علوم وفنون جنہوں نے آج کل کی تہذیب کی تشکیل کر رکھی ہے اور جن کی بنیاد پر آج ساری دنیا کا نظام چل رہا ہے حتیٰ کہ پاکستان ‘سعودی عرب اور ایران بھی چل رہا ہے۔ ان سے علماء بھی مناسب طور پر واقف اور مانوس ہوں۔ مسلمانوں نے اپنے دور میں علوم وفنون کی ایک الگ تقسیم کی کچھ علوم مقاصد یا علوم حقیقی ہیں اور کچھ علوم وسائل یا علوم آلیہ ہیں۔ اسی طرح کچھ علوم ہیں کچھ ضائع ہیں اور کچھ فنون ہیں۔ یہ مسلمانوں کی تقسیم تھی۔ آج عملاً یہ تقسیم موجود نہیں ہے آج تعلیم کا نظام عملاً اس تقسیم پر نہیں چل رہا۔ آج دنیا میں ایک نئے انداز سے علوم کی مختلف تقسیمیں کی جاتی ہیں۔ ان میں اہم تقسیم علوم عمرانی (Social science)اور علوم انسانی (Humanitites)کی ہے۔ سوشل سائنسز میں وہ ان علوم وفنون کو شامل کرتے ہیں جو انسانی معاشرے کی تشکیل اور معاشرتی زندگی سے بحث کرتے ہیں۔ ان میں تاریخ ‘سیاسیات‘معاشیات ‘عمرانیات اور کسی حد تک قانون شامل ہیں۔ یہ عمرانی علوم جن سے اجتماعی رویوں کی تشکیل ہورہی ہے۔ Humanititesوہ علوم ہیں جو انسان کے مطالعے پر مبنی ہیں۔ یعنی فرد کے خیالات ‘فرد کے افکار ‘فرد کی نفسیات ‘فرد کے احساسات وجذبات یہ سب کے سب ہیومنٹیز کہلاتے ہیں۔ اس میں فلسفہ ‘ نفسیات اور بشریات شامل ہیں۔ یہ دومیدان وہ ہیں جن سے دور جدید میں تہذیب کی تشکیل ہوئی ہے۔ آج ہمارا ایک پڑھا لکھا انسان چاہے وہ پاکستان کا ہو یا سعودی عرب کامصر کا یا کسی بھی اسلامی ملک کا، جب وہ بات کرتا ہے تواسلامی علوم اور تصورات کے تناظر (perspective)میں بات نہیں کرتا۔ وہ اسلامی اصطلاحات یا فقہی سیاق وسباق یا فقہی محاورے میں بات نہیں کرتا بلکہ وہ مغربی سوشل سائنسز کے محاورے میں بات کرتاہے۔ عمرانی علوم اور انسانی علوم کے علاوہ مختلف قسم کے طبعی علوم بھی ہیں جن کی حیثیت Toolsاور آلات کی ہے جن سے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانا مقصود ہے۔ ان کا دینی علوم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں بنتا۔ بالواسطہ جس چیز کی ضرورت پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ علماء کرام بقدر ضرورت سوشل سائنسز اور ہیومنٹیز سے واقفیت رکھتے ہوں۔ اسی طرح کی واقفیت رکھتے ہوں جیسے آج سے ایک ہزار سال پہلے منطق سے واقفیت کی ضرورت پیش آئی تھی۔ اگر آپ اس دور یعنی تیسری صدی کے مباحث پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ جب یونانی منطق اور فلسفہ کی کتابیں ترجمہ ہونا شروع ہوئیں تو مسلمانوں میں اسی طرح کے تین رویے تھے جو آج مغربی تہذیب کے بارے میں ہیں۔ علماء کرام محدثین اور مفسرین کا ایک بہت بڑا طبقہ وہ تھا جو ان سب چیزوں کو ناپاک اور گردن زدنی سمجھتا تھا ‘جو یونانی منطق اور فلسفہ سے اعتنا رکھنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج یا اس کی حدود پر سمجھتا تھا ان کو مسلمانوں کا نمائندہ نہیں سمجھتا تھا یہ بحثیں موجود تھیں کہ منطق کی کتابوں سے استنجا جائز ہے یا نہیں۔ یہ جزئیات آپ کو فقہ کی کتابوں میں مل جائیں گی یعنی یہاں تک ناپسندیدگی اور نفرت کی کیفیت تھی۔ اس کے بعد یہ رویہ محدودہوتا گیا پھر یہ کیفیت آئی کہ خالص اسلامی علوم میں منطق وفلسفہ آگیا شاہ ولی اللہ صاحب کی ’حجۃ اللہ البالغہ‘ علم اسرار حدیث پر بہترین کتاب ہے میری دانست اور رائے میں اس سے بہتر اسلامی علوم کی نمائندہ کتاب برصغیر میں نہیں لکھی گئی اور میں شاہ صاحب کو برصغیر میں مسلمانوں کا امیر المؤمنین فی الحدیث سمجھتا ہوں۔ لیکن جب تک آپ منطق اور فلسفہ کی اصطلاحات سے واقف نہ ہوں انہی یونانیوں کی منطق جو بت پرست اور مشرک تھے ‘بدکار تھے ‘ اخلاقی اعتبار سے بھی کچھ اونچے لوگ نہ تھے تو ان کی کتابوں کو سمجھے اور ان کے افکار کو جانے بغیر آپ علم اسرار حدیث پر اسلامی لٹریچر کو بہترین کتاب نہیں سمجھ سکتے۔ شاہ ولی اللہ تو بعد کے ہیں امام غزالی جیسے حجۃ اسلام کی کتاب ’المستصفیٰ‘جو اصول فقہ جیسے خالص اسلامی علم پر ہے اگر منطق میں اچھی بصیرت نہیں رکھتے تو اس کو نہیں سمجھ سکتے اور اس میں منطق اتنی گھسی ہوئی ہے کہ اگر ’المستصفیٰ‘کو سمجھ کر پڑھ لیں تو منطق بھی آپ کو آجائے گی۔ انہوں نے منطق کو اس کتاب میں اتنا سمودیاہے۔ امام شاطبی کی کتاب ’الموافقات‘آپ نے پڑھی ہوگی میں سمجھتا ہوں کہ وہ اصول فقہ پر انسانی تاریخ کی بہترین کتاب ہے۔ انسانی تاریخ میں اصول قانون پر اس سے بہتر کتاب موجود نہیں ہے لیکن جب تک آپ منطق وفلسفہ نہ جانتے ہوں اس کتاب کے مضامین کو بھی نہیں سمجھ سکتے حالانکہ وہ ایسے علاقے ‘شمالی افریقہ اور اسپین وغیرہ میں لکھی گئی جہاں منطق وفلسفہ کا راج کم تھا لیکن اس کے باوجود ساری کتاب کی اٹھان ‘اس کا استدلال ‘اسکی ترتیب اس کا اسلوب اس دور کے عقلیات کے معیارات کے مطابق خالص عقلی ہے۔ یہ ایک ایسی تہذیب یا ایک ایسے علاقے کی نمائندہ تہذیب کے بارے میں مسلمانوں کا رویہ تھا جس سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ نہ سیاسی طور پر ان کی مسلمانوں کے ساتھ کشمکش تھی نہ عسکری طور پر وہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچاسکتے تھے نہ وہ اس پوزیشن میں تھے کہ اگر مسلمان ان کے نقطہ نظر کا مطالعہ نہ کریں تو وہ اسے زبردستی مسلط کردیں۔ یہ تو مسلمانوں نے خود ان کے علوم وفنون کا ترجمہ کرنا شروع کردیا تھا۔ اب اگر یونانیوں کے علوم وفنون جو نہ مسلمانوں پر حاکم تھے، نہ بالا دست تھے، نہ ان کے پاس اقتدار تھا، نہ وہ مسلمانوں کے لیے خطرہ تھے مسلمانوں نے محض علمی دلچسپی کی خاطر انہیں اختیار کیا اور ان سے استفادہ کیا تو وہ علوم وفنون جو ایک بالادست طاقت ہے، آپ پر مسلط کردیے ہیں اورجن کے تصورات اور اسلوب استدلال کے مضر اثرات مسلمانوں میں داخل ہورہے ہیں انہیں سیکھنا اور ان سے واقفیت پیدا کرنا کیونکر مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے؟ آج اس کی ضرورت اس کئی ہزار گنا بلکہ اور بھی زیادہ ہے جتنی ضرورت یونانی علوم وفنون کے مطالعے کی ضرورت تھی۔

یہ ٹھیک ہے کہ یونانی منطق اور فلسفہ سے اشتغال رکھنے والے بہت سے لوگوں نے ایسے خیالات کا اظہار کیا جو اسلام کی ترجمانی نہیں کرتے تھے۔ آپ فارابی کی کوئی کتاب پڑھیں مثلاً اس کی کتاب ’آراء اہل المدینۃالفاضلۃ‘ جس کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم سیاسی فکر کی پہلی کتاب ہے اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اسلامی تعلیم وعقائد سے ہم آہنگ نہیں ہیں لیکن ایک اعتبار سے وہ بڑی غیر معمولی کتاب ہے کہ اس نے یونانی علوم وفنون پڑھے اور ارسطو کی Politicsیعنی ’سیاسیات‘کا ترجمہ اس نے پڑھا ‘ شاید افلاطون کی Republicکا بھی ترجمہ دیکھا ہو لیکن بظاہر اس کے شواہد کم ہیں سیاسیات پر وہ ارسطو کے نقطہ نظر سے متاثر ہوا۔ اس کے بعداس نے ایک کتاب لکھی اور کوشش کی کہ ان خیالات کو اسلام سے ہم آہنگ کرکے بیان کرے میرے خیال میں یہ Islamization of Knowledgeکی پہلی کوشش تھی یہ داعیہ اس کے دل میں کیوں پیدا ہوا کہ وہ یونانیوں کے خیالات کواسلام کے مطابق بنائے؟ اس کے دل میں کوئی اسلامی حمیت تھی اور کوئی اسلامی جذبہ تھا تو پیدا ہوا۔ اس اسلامی جذبے نے اس کو ارسطو کے خیالات کو جوں کا توں مسلمانوں میں پیش کرنے سے باز رکھا اور اس حد تک اس کا اسلامی فہم قابل ستائش ہے۔ اس کے مطابق اس نے ایک ایسی چیز کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر لوگوں کی رہنما بنی۔ اس نے اسلام کی سیاسی فکر اور اس کے دستوری تصورات کو اس طرح مرتب کیا کہ وہ نقل کے معیار کے ساتھ ساتھ عقل کے معیار پر بھی پورا ترے اسی وجہ سے میں ابن سینا اور فارابی کا احترام کرتا ہوں اور میرے دل میں ان کی بڑی قدر ہے۔

آج بھی اسی بات کی ضرورت ہے کہ وہ حضرات جو یہ صلاحیت رکھتے ہوں یا ارادہ اور خواہش رکھتے ہوں کہ آگے چل کر امت مسلمہ کی فکری قیادت کی ذمہ داری انجام دیں ان کو بقدر ضرورت مغربی علوم سے ناقدانہ اور قائدانہ واقفیت ہونی چاہیے۔ ان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ مثلاً وہ اصول قانون کے اس طرح عالم ہوں جس طرح کوئی ماہر مغرب میں پایا جاتا ہے۔ اگر ہونا چاہتا ہے تو ضرور ہوجائے لیکن اتنی مہارت کی ضرورت نہیں اصول قانون جیسا کہ مغرب میں ہے اس کے بنیادی تصورات ‘ اس کے بنیادی عقائد ‘اس کے بنیادیconcems and issuesجس سے وہ بحث کرتاہے ‘وہ کیا ہیں کیوں پیداہوئے ہیں اور ان کے جو basic assuesہیں وہ گرفت میں آجائیں۔ اس کے بعد ان پر ایک تنقیدی نظر ڈال کر ایک صاحب علم فقیہ یہ دیکھے کہ اس میں کیا چیز ہے جو کمزور ہے کیاچیز ہے جو مضبوط عقلی بنیادوں پر قائم ہے اور کیا چیز کیا اسلوب استدلال ہے جس سے کام لے کر اصول فقہ کے اس تصور یا نظریہ کو زیادہ بہتر انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ یہ ناقدانہ انداز ہے۔

آپ دیکھیں کہ اصول فقہ کو جس طرح امام شافعیؒ نے مرتب فرمایا تھا اور جس طرح امام سرخسیؒ نے اس پر ’اصول السرخسی‘لکھی تھی جو فقہ حنفی میں پہلی کتاب ہے اس اندازکی کتابیں بعد میں نہیں لکھی گئیں۔ امام رازی اور امام غزالی کی کتابیں اس انداز میں نہیں ہیں۔ ان میں منطق اور فلسفہ آگیا ہے جو جائز تھا۔ امام غزالی نے اصول فقہ کے ہر مسئلہ کو منطق کے دلائل سے اس طرح ثابت کرکے دکھایا کہ یونانی فلسفہ ومنطق کاکوئی بڑے بڑا ماہر امام غزالی کے استدلال سے اختلاف نہیں کرسکتا۔ اس طرح انہوں نے اصول فقہ کو یونانی منطق کے ماہرین کے فہم کے قریب کیا۔ منطق سے متاثر لوگ اصول فقہ سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے اصول فقہ کے بارے میں یہ تسلیم کرلیا کہ یہ فن عقل ونقل دونوں کی میزان پر پورا اترتا ہے۔ یہی کام آج ہمیں کرنا پڑے گا۔ جب تک نہیں کریں گے تو بات آگے نہیں بڑھے گی۔ اسی طرح آج جو سارا طبقہ ہمار اور آپ کا نظام چلا رہا ہے یہ اصول فقہ سے واقف نہیں۔ یہ انگریزی اصول قانون سے واقف ہیں۔ اینگلوسیکسن لا‘اس کے تصورات واستدلات اور عقائد سب ان کے رگ وپے اور گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب یاتو آپ انہیں مجبور کریں کہ وہ اپنا سب کام چھوڑ کر اصول فقہ پڑھیں تو یہ عملاًہوگانہیں۔ اگر آپ سے کوئی کہے کہ آپ اپنی ملازمت ‘تدریس ‘نوکری چھوڑ کر پانچ سال یا دس سال اصول قانون پڑھنے پر لگائیں تو آپ تیار نہیں ہونگے آپ کے پاس وقت نہیں ‘ آپ کے وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے ‘ آپ کے مشاغل اس کے محتمل نہیں ہونگے۔ اسی طرح ان لوگوں کے مشاغل بھی اس کے متحمل نہیں ہوتے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر قدیم محاورے میں لکھے ہوئے اسلامی علوم وفنون میں مہارت حاصل کریں۔ ایک وکیل اپنی وکالت کیوں چھوڑے؟ اگر چھوڑ دے تو کھائے کہاں سے اور وہ کیوں پانچ سال اصول فقہ یافقہ پڑھنے پر لگائے؟ پانچ سال میں بھی اتنی واقفیت پیدا نہیں ہوگی جتنی ہونی چاہیے۔ اس لیے مطالبے کرنے سے ‘جلوس نکالنے سے ‘ بینر لگانے سے کوئی جج یا وکیل خود بخود فقہ کا ماہر نہیں ہوجائے گا ‘وہ تو تب بنے گا جب وہ پڑھے گا اور تب پڑھے گا جب آپ اسے پڑھانا چاہیں گے اور جب پڑھانا چاہیں گے تو اس کے لیے اس کے ذہنی پس منظر اور اس کے مزاج کے مطابق آپ کو تیاری کرنی پڑے گی۔ اس میں شارٹ کٹ کوئی نہیں ہے یہ نہیں ہوگا کہ آج کوئی اسلامی تحریک یادینی جماعت دھرنا دے دے اور کل اس کے نتیجے میں جتنے جج صاحبان اور وکلاء ہیں جن کی تعداد بالترتیب پانچ ہزار اور بارہ ہزار کے قریب ہے ‘ سب کے سب فقہاء ہوجائیں۔ یہ نہیں ہوسکتا پھر بھی صورت حال یہی رہے گی جو آج ہے۔ اس کے لیے بہت long termجانا پڑے گا جب دوسو سال میں یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے تو کم از کم دوسوتو نہیں تو پچاس سال تو کام کرنا پڑے گا۔ پچاس سال کم از کم تبدیلی کے لیے درکار ہیں۔ اس وقت سے جب تبدیلی کے لیے کام شروع ہوگا اگر پچاس سال پہلے شروع ہوچکا ہوتا تو آج تبدیلی آچکی ہوتی۔ اس لیے اصول فقہ کو اس انداز سے مرتب کرنا پڑے گا کہ دور جدید کا انسان جو قانون تو جانتا ہے اور مغربی اصول قانون سے مانوس ہے وہ اس تصور کو سمجھ سکے اور اس تصور کو اپنے فہم کے قریب لاسکے۔ مسلمانوں کو ان علوم میں اتنی واقفیت پیدا کرنی ہوگی کہ ان کے اسلوب استدلال کے ذریعے سے اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیم کو پیش کرسکیں جس طرح امام غزالی نے منطق سے کام لے کر اصول فقہ کے اصولوں کو پیش کیا تھا اس لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگ موجود ہوں۔

اس کی دوشکلیں ہیں۔ ایک شکل تو یہ ہے کہ جو لوگ اصول قانون کے ماہر ہوں انہیں اصول فقہ کا ماہر بھی بنایا جائے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ جو اصول فقہ کا ماہر ہو اسے بقدرضرورت قانون کا ماہر بنادیا جائے۔ دوسری صورت زیادہ آسان معلوم ہوتی ہے میں نے یہ ایک مثال صرف قانون کی دی ہے یہ مثال علم سیاسیات ‘سوشیالوجی اور دیگر علوم پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ ان علوم وفنون سے ایک ناقدانہ واقفیت درکار ہے لیکن اس ناقدانہ واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی علوم کا تخصص گہرا ہوورنہ مغربی علوم وفنون کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ یہ درست ہے اور یہ غلط ہے ‘یہ عقیدہ ٹھیک ہے اسلام کے مطابق ہے اور یہ عقیدہ اسلام کے خلاف ہے اس کا پتہ نہیں چلے گا۔ ایک کچا آدمی ان کی گمراہیوں سے بھی متاثر ہوجائے گا جیسا کہ آج تک ہوتا رہا ہے۔