
فہرست | الطاہر شمارہ 51، جمادی الاول 1429ھ بمطابق جون 2008ع |
درسِ حدیثمحبت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلمعلامہ عبدالقدیر شیخ طاہریحضرت موسیٰ علیہ السلام کو رب تعالیٰ نے کلام کا شرف بخشا ”فَلَمَّا کَلَّمَہٗ رَبَّہٗ“، یہ قرب حاصل ہوا تو دیدار کا سوال کیا۔ سوال ہوا تو جواب ”لَنْ تَرَانِیْ“ ملا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا تو جبل کی طرف دیکھ لے۔ جب جبل کی طرف دیکھا تو خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بیہوش کردیا۔ دراصل جب جبل کی طرف نظر کا ارشاد ہوا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عرض کرنا تھا میرے مولیٰ میں تو تجھے دیکھنے آیا ہوں مجھے جبل سے کیا واسطہ۔ جب حضرت موسیٰ کو افاقہ ہوا تو کہنے لگا تیری پاک ذات ہے میں تمہاری طرف توبہ کرتا ہوں ”فَلَمَّا اَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ“۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غور فرمایا کہ نہ دیدار کی طلب کرنی تھی نہ جبل کی طرف دیکھنا تھا۔ اسی لیے آپ نے توبہ فرمائی حالانکہ یہ کوئی جرم یا غلطی نہیں تھی لیکن ایک محبت کی نظر میں یہ بھی بے ادبی میں شمار کیا گیا۔ خدا کی محبت میں جنت کی طلب رکھنا یہ بھی محبان کے نزدیک جرم رہا۔ خواجہ بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ جب دل سے دنیا کا خیال گذر کرتا ہے تو وضو کرتا ہوں اس کو حدث اصغر مانتا ہوں، اگر جنت کا خیال گذر کرتا ہے تو غسل کرتا ہوں اس کو حدث اکبر سمجھتا ہوں، کیونکہ دنیا سے تو ویسے ہی دل سرد ہوگیا ہے دنیا کے خیال سے دل لپکتا چپکتا نہیں، صرف گذر ہی ہوتا ہے، جنت کی نعمتوں کے طرف حوریں، نہریں، غلمان، دودھ، شہد، شراب، محل مارأت عین وہ نعمتیں جن کو نہ آنکھ نے کبھی دیکھا، نہ کان نے سنا نہ اس کا خیال کسی بشر کے دل میں۔ ایسی نعمتیں! جب اس خیال میں دل گم ہوجاتا ہے اور اس خیال میں دل لپکتا ہے اور چپکتا ہے اس کو جنابت کے درجہ میں حدث اکبر سمجھتا ہوں اس لیے غسل کرتا ہوں۔ اس لیے آپ نے فرمایا ”طالب المولیٰ مذکر و طالب الآخرۃ مؤنث و طالب الدنیا مخنث“۔ اللہ کا طالب مرد ہے، آخرۃ کا چاہنے والا عورت سا اس کا روح ہے اور دنیا کا طالب مخنث ہے۔ کشف المحجوب میں ہے کہ بی بی رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کافی دنوں سے بیمار ہوگئیں، بخار ہوگیا، لوگ طبع پرسی کے لیے جوق در جوق آنے لگے اور بخار کا سبب پوچھنے لگے۔ ان سب کو علیٰ حسب الفہم جواب دیتی رہی، حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ طبع پرسی کے لیے آئے اور بخار کی وجہ پوچھی تو جو حقیقت تھی وہ بیان کی۔ فرمانے لگیں کہ ”ایک دن تلاوت کلام پاک کر رہی تھی، صافات سورۃ میں جنت کا ذکر اور جنت کی نعمتوں کا ذکر تھا، دل میں اس کے حصول کا خیال آگیا، بس اسی آن میں ایک جھٹکا لگا، میرے کان میں یہ آواز آئی کہ اے رابعہ دعویٰ میرے عشق کا کرتی ہے اور خیال جنت کے حصول کا ہے؟ بس اس سے بخار ہوگیا“۔ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ نے محبت کی معنیٰ کی ہے ”دخول صفات المحبوب فی المحب“ محبت میں محبوب کی صفات کا آجانا۔ آپ فرماتے ہیں کہ یا محبت کی اس طرح تعریف کی جائیگی کہ ”بدل صفات المحبۃ بصفات المحبوب“ محب اپنی صفات کو محبوب کی صفات کے ساتھ بدلا دے۔ ام المؤمنین حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضور علیہ السلام کے اخلاق مبارکہ کے متعلق فرمادیجیے۔ آپ نے فرمایا آپ کا اخلاق قرآن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر خدائی صفات کا رنگ آچکا تھا کیونکہ قرآن خدا کا کلام ہے اور کلام متکلم کی صفات میں سے ہوتا ہے، متکلم کلام سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ جب قرآن اللہ کی صفات میں سے ہوا اب مطلب یہ ہوا کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا فرما رہی ہیں کہ آپ کا اخلاق مبارک اللہ کی صفات کا رنگ تھا، صفات الاہیہ (رؤف رحیم کریم عزیز حکیم غفور وہاب خبیر علیٰ وجہ ذالک) آپ کا اخلاق تھا۔ محبت کی اقسام: محبت کی معنیٰ کا بیان ہورہا تھا، اب محبت کی اقسام
بیان ہورہی ہیں۔ 1۔ کمالی محبت وہ ہے جو بندہ کسی کا کمال دیکھ کر اس سے محبت کرنا شروع کرے۔ 2۔ جمالی محبت وہ ہے جو بندہ کسی کا جمال یعنی حسن دیکھ کر اس سے محبت کرنا شروع کرے۔ 3۔ احسانی محبت وہ ہے جو بندہ پر کسی کا احسان ہو اس کو محسن سمجھ کر اس سے محبت کرے۔ اگر بغور دیکھا جائے عقلی محبت کی تین اقسام کی وجوہات علیٰ وجہ الکمال رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہیں۔ اگر آپ کے کمال کو دیکھا جائے تو انہوں سے کلمہ پڑھوایا، چاند کے دو ٹکڑے کیے، وہ سماج اور معاشرہ جو بدترین بن چکا تھا، تمدن و تہذیب انسانیت مسمار ہوچکی تھی، ”اُوْلٰئِکَ کَاالْاَنْعَامِ ہُمْ اَضَلَّ“ والا منظر ہر طرف عیاں تھا۔ اس کی ایسی اصلاح فرمائی کہ وہ لوگ زمانہ کے معزز ترین بن گئے۔ یقینا آپ کا کمال تھا۔ ایسا انقلاب کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرْ۔ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضیٰ۔ عَسیٰ اَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُودًا۔ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ۔ سید الانبیاء و المرسلین محبوب خدا مصطفیٰ مجتبیٰ مرتضیٰ آپ کا شان اور کمال ہے۔ اگر آپ کے حسن جمال کے طرف دیکھا جائے تو وہ بھی بے مثال ہے۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ کمرہ کے اندر میرے ہاتھ سے سوئی گرگئی، آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کمرہ میں تشریف فرما تھے، میں نے عرض کیا۔ ایک ذرا سا حجاب جو قدرت کی طرف رکھے گئے تھے آپ نے وہ دور فرمایا تو سارا گھر روشن ہوگیا اور حشرات الارض بھی نظر آرہے تھے۔ آپ کا یہ جمال ہے کہ آپ چاند اور سورج کی روشنی کے محتاج نہیں، تمام کائنات آپ کی محتاج ہے بلکہ تمام اجالے اور روشنیاں آپ کے نور کا پرتو ہیں۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کلیمے کہ چرخ فلک طور اوست حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یا صاحب الجمال و یا سید البشر لایمکن الثناء کما کان حقہ آپ حسن کے بھی سردار ہیں اور چاند سورج تو آپ ہی سے منور ہیں۔ تو آپ میں جمال ہے کہ جہاں سے جبرئیل علیہ السلام نے بھی آگے بڑھنے سے معذرت کی وہاں آپ چلے گئے اور جمال جمال کے سامنے آگیا۔ آمنا سامنا ہوا اور آپ فرماتے ہیں رَأَیْتُ رَبِّیْ فِیْ اَحْسَنِ صُوْرَۃِ اس حالت میں رب کا دیدار کیا کہ رب کا حسن جلوہ نما تھا۔ یہاں جمال کی حد ہے اور اس سے زیادہ جمال ہو ہی نہیں سکتا۔ محبوب کی ذات صاحب جمال ہوئی۔ خلقت مبرأ من کل عیب اور آپ محسن بھی ہیں، آپ کا احسان پوری کائنات پر ہے، کیونکہ کائنات کا وجود آپ کے ہی صدقہ ہے۔ حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کہ لَوْلَا مُحَمَّدٌ وَامَّتُہٗ لَمَا خَلَقْتُ الْجَنَّۃَ وَلَاالنَّارَ وَلَا الشَمْسَ وَلَا القَمَرَ وَلَا الَّیْلَ وَلَا النَّہَارَ وَلَامَلَکًا مُقَربًا وَلَا نَبِیًّامُّرْسَلًا وَّلَا اِیَّاکَ۔ اگر محمد صلّی اللہ علیہ وسلم اور اس کی امت نہ ہوتی میں جنت، دوزخ، سورج، چاند، رات، دن، فرشتے، انبیاء، کسی کو پیدا نہ کرتا اور اے موسیٰ تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔ حدیث قدسی ہے : لَوْلَاکَ لَمَا اَظْہَرْتَ الرَبُوْبِیَّہ۔ اپنے حبیب صلّی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا اگر آپ نہ ہوتے تو میں اپنی ربوبیت کو بھی ظاہر نہ کرتا۔ ہم غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے ہمیں اپنا پیارا محبوب عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بے پناہ نعمتیں کی ہیں کہ ساری کائنات ان کی قیمت نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نعمتیں مفت عطا فرمائی ہیں۔ اس کی نعمتوں کا شمار نہیں ہوسکتا، قرآن کریم کا ارشاد ہے ”وَاِنْ تَعَدُّوْ نِعْمَۃَ اللہ لَاتَحْصَوْہَا“ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے۔ اور پھر کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی نعمت پر یہ نہیں فرمایا کہ اے انسان میں نے تجھے یہ نعمت دے کر تجھ پر بڑا احسان کیا ہے یعنی نعمتیں تو دی ہیں مگر احسان نہیں جتلایا۔ اور جب کائنات میں اپنا پیارا حبیب صلّی اللہ علیہ وسلم بھیجا تو ارشاد فرمایا ”لَقَدْ مَنَّ اللہ عَلیَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعْثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً“۔ اللہ نے مؤمنین پر بڑا احسان کیا ہے ان میں بڑی عظمت والا رسول بھیجا ہے۔ معلوم ہوا یہ وہ نعمت عظمیٰ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے احسان جتلایا ہے۔ احسان اس نعمت پر ہوتا ہے جس پر دینے والے کو خود بھی ناز ہو۔ تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم ہم پر سراپا احسان ہی احسان ہیں۔ کونسی چیز ہے جو ہم کو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے در سے نہیں ملی۔ رحمت، رفعت، مغفرت، برأت من النار، انسانیت، نورانیت، خشیت الاہی، قرآن، فرقان، عرفان، خدا رسی، ولایت، روحانیت آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے در سے ہی ملی۔ تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم محسن عظیم ہوئے۔ جب کمال، جمال اور احسان علیٰ وجہ الاتم والکمال آپ میں ہی پائے جاتے ہیں تو محبت کے رکھنے کے بھی آپ ہی مستحق ہیں۔ یہ عقلی محبت حضور علیہ السلام سے قائم کرنی ہے اور اس محبت کو محب بڑھاتا رہے یہاں تک کہ یہ محبت عقلی محبت طبعی میں تبدیل ہوجائے۔ کچھ بھی ہو سارا عالم روٹھ جائے ظلم کے پہاڑ بھی گر پڑیں پھر بھی آقا سے محبت کا رشتہ نہ توڑے، محبت کا رابطہ آقا سے مضبوط ترین جوڑ لے تو ایمان کامل نصیب ہوگا۔
|