
فہرست | الطاہر شمارہ 51، جمادی الاول 1429ھ بمطابق جون 2008ع |
آج اور کلاداریہایڈیٹر کے قلم سےمملکت خداد پاکستان کے معاشی واقتصادی حالات دن بدن دگرگوں ہوتے جارہے ہیں۔ روز بروز غربت، تنگ دستی، مفلسی اپنا دامن بڑھاتی جارہی ہے۔ اخباریں معاشی تنگدستی کی وجہ سے خود کشی کرنے والوں کی خبروں سے بھری ہوئی ہیں۔ لوگ خود تو خود کشی کررہے ہیں مگر اپنے ساتھ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بھی موت کے حوالے کررہے ہیں۔ یہ صورتحال لوگوں کی مایوسی کو ظاہر کر رہی ہے کہ لوگ اس صورتحال سے اتنا تنگ آچکے ہیں کہ وہ خود تو جینا نہیں چاہتے بلکہ اپنے پیاروں، جگر کے ٹکڑوں، اپنے بچوں کا کل بھی اسی طرح سیاہ ہوتا ہوا دیکھ کر انہیں بھی اس درد بھری زندگی سے نجات دلاکر موت کے حوالے کردینے میں بھلائی وبہتری سمجھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں کھانے پینے کی بنیادی اشیاء مثلا آٹا، دال، چاول، گھی اور سبزی بھی کھانے کو میسر نہ آئے وہاں ایک مفلوک الحال محنت کش کیسے اپنی رزق حلال کی کمائی سے اپنا اور اپنے بچوں کے پیٹ کے دوزخ کے لیے ایندھن کا بندوبست کرسکتا ہے۔ اس صورتحال میں وہ ذلت کی زندگی جینے سے عزت کی موت مرنے کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ اور جب ہم ان مقتدر حلقوں کی طرف نگاہ کرتے ہیں جن کے ہاتھوں میں قوم کی تقدیر کی باگیں ہیں تو لگتا یوں ہے کہ وہ غریب کے مسائل، مصائب اور مشکلات کا ادراک کو کجا اس طرف سوچنے کی زحمت ہی اپنے لیے مصیبت کا باعث سمجھتے ہیں۔ ہرآنے والا حکمران اس بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مسائل کا ذمہ دار اگلی حکومت کو ٹھہرا کے خود کو پاکدامن ظاہر کرنے میں مصروف رہتاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگلے حکمران ناکارہ ونالاں تھے تو آپ نے ان کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کونسی تدبیریں عمل میں لائی ہیں اور کون سے وسائل مہیا کیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا آج جس مشکل ومصیبت میں گرفتار ہے اس کے ذمہ دار ہمیشہ ہمارے حکمران اور ان کی غلط پالیسیاں رہی ہیں جنہوں نے ہمارے آج کو پاتال تک پہنچادیا ہے۔ اس کے مقابل جب ہم اپنے کل کو دیکھتے ہیں تو وہ نہایت سنہرا اور درخشاں نظر آتا ہے اور ہمارے اس سنہرے دور کو بنانے والے ہمارے وہ حکمران تھے جس میں خلفائے راشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے درد مند حکمرانوں کے نام آتے ہیں۔ جنہوں نے سیرت النبی صلّی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے اپنے زیر دست لوگوں کے حقوق کا نہ صرف خیال کیا بلکہ ان کو ایسا تحفظ اور سسٹم فراہم کیا جس کی وجہ سے مسلمانوں نے تقریبا پوری دنیا کی حکمرانی حاصل کرلی تھی۔ جو عدل، انصاف، راحت اور آرام خلفائے راشدین کے زمانے میں لوگوں کو میسر تھا رہتی دنیا تک اس کا مثال ملنا محال ہے۔ آج کے حکمرانوں کو بھی حضرت عمر کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ اگر دجلہ کے کنارے پر کوئی کتا بھی بھوک سے مرجاتا ہے تو عمر اس کا ذمہ دار ہوگا اور یادر رکھیے کہ دنیا کی نسبت آخرت کی گرفت بہت سخت اور نہ ختم ہونے والی ہے اور یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ خدا اپنے حق تو معاف کردیتا ہے مگر بندوں کے حقوق کبھی بھی معاف نہیں کرتا اور عوام کے تمام تر حقوق حکمرانوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
|