
الطاہر شمارہ نمبر
43 |
اردو مین پیج |
درس قرآن
حضرت صاحبزادہ مولانا محمد جمیل عباسی طاہری
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَاَقِیْمُوْا وَجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْن لَہُ الدِّیْنَ کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُوْنَ۔ (الاعراف آیت ۲۹)
ترجمہ۔ آپ کہیے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے، اے لوگو ہر نماز کے وقت اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اخلاص کے ساتھ اطاعت کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرو۔ جس طرح اس نے تم کو ابتداء پیدا کیا ہے اسی طرح تم لوٹو گے۔
تعلق۔ ان آیات کا پچھلی آیات سے چند طرح کاتعلق ہے۔
پہلا تعلق۔ پچھلی آیات میں ان بری باتوں کا ذکر تھا جن کا خدا نے حکم نہیں دیا بلکہ ان سے ناراض ہے، اب ان اعمال کا ذکر ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جن سے وہ راضی ہے تاکہ بندے پہلی قسم کے کاموں سے بچیں اور دوسری قسم کے کام کریں۔
دوسرا تعلق۔ پچھلی آیت کریمہ میں مشرکین کے ان اعمال کا ذکر تھا جن کا ماخذ ان کے جاہل باپ داداؤں کی تقلید تھی، اب ان اعمال کا ذکر ہے جن کاماخذ وحی الٰہی اور نبی کی ذات ہے۔
تیسراتعلق۔ پچھلی آیت میں انتہائی برے اعمال کا ذکر تھا اب انتہائی اچھے اعمال کا ذکر ہے۔ گویا انتہائی ظلمت وتاریکی کے بعد اعلیٰ درجہ کے نور کا تذکرہ ہے۔
قسط اور عدل کی معانی۔
قسط کا معنیٰ ہے کسی چیز کے دو
برابر حصے کرنا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ اَقِیْمُوْا الْوَزْنَ
بِالْقِسْطِ۔(الرحمٰن ۹)
اور انصاف کے ساتھ وزن کو درست رکھو۔
قَسَطَ کا معنیٰ ہے ظلم کرنا، اَقْسَطْ کا معنیٰ ہے عدل کرنا۔ قرآن مجید میں ہے
وَ اَمَّا القَاسْطُوْنَ وَکَانُوْ لِجَھَنَّمَ حَطَبًا۔ (الجن ۱۵)
اور رہے ظالم لوگ تو وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔
وَ اَقْسِطُوْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الحجراۃ)
اور انصاف کرو بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے۔
(المفردات ج۲ ص۴۲۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۴۱۸ ھجری)
عدل۔ عدالت اور معادلہ ان کا معنیٰ ہے مساوات
اِنَّ اللّٰہ یامر بالعدل والاحسان۔ النحل (۹۰)
بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔
عدل کا معنیٰ ہے مکافات اور بدلہ میں مساوات۔ خیر کا بدلہ خیر اور شر کا بدلہ اسکے مساوی شر۔ اور احسان کی معنیٰ ہے نیکی کے بدلے اس سے زیادہ نیکی کی جائے اور برائی کے بدلے اس سے کم برائی کی جائے، یعنی جتنی رقم کسی سے قرض لی تھی اتنی ہی واپس کردینا عدل ہے اور اس سے زیادہ واپس کرنا احسان۔
اخلاص کی معنیٰ۔ اخلاص خالص سے بنا ہے یعنی جس چیز میں کسی چیز کی آمیزش کا شبہ ہے جب وہ اس سے صاف ہوجائے تو اس کو خالص کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص کا معنیٰ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت صرف اسکی رضا جوئی یا اس کے حکم کی فرمانبرداری کی نیت سے کی جائے، کسی کو دکھانے یا سنانے کی نیت نہ ہو اور نہ ہی اس کام پر اپنی تعریف سننے کی خواہش۔ اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی پرستش اور اسکی رضا جوئی کے سوا ہر پرستش اور کسی کی بھی رضا جوئی سے بری ہوجائے۔ (المفردات ج۱ ص۲۰۴)
قرآن مجید میں اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے کا حکم:
اس سے پچھلی آیت میں فرمایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے بے حیائی کا حکم نہیں دیا اور اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے، قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے اور اخلاص کے ساتھ خدا سے دعا کرنے اور اسکی عبادت کرنے کا حکم دیتا ہے۔
عمل میں اخلاص کے فوائد:
امام ابوعیسیٰ ترمذی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس مسلمان میں یہ تین وصفیں ہوں اس کی دل میں کبھی کھوٹ نہیں ہوگا، ۱۔ جس کے عمل میں خدا کے لیے اخلاص ہو ۲۔ ائمہ مسلمین کی خیر خواہی کرے ۳، مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ نسبت رکھے۔ (سنن ترمذی جلد ۴ حدیث ۲۶۷۶)
امام نسائی نے مصعب بن سعد سے اسکے والد سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امت کے ضعیف لوگوں کی دعاؤں، ان کی نمازوں اور ان کے اخلاص کی وجہ سے اس امت کی مدد فرماتا ہے (سنن نسائی)
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے دین میں اخلاص رکھو تمہارا قلیل عمل کافی ہوگا (المستدرک، الجامع الصغیر)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ اعمال کا مدار صرف نیت پر ہے، ہر شخص کے عمل کا وہی ثمر ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔ (صحیح البخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میری امت کے تین گروہ ہونگے۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہوگا جنہوں نے خدا تعالیٰ کے لیے عبادت کی ہوگی، ایک گروہ ان کا ہوگا جنہوں نے لوگوں کے دکھاوے کے لیے عمل کیا ہوگا اور ایک گروہ ایسا ہوگا جنہوں نے دنیا کے لیے خدا تعالیٰ کی عبادت کی ہوگی۔ تو جس نے دنیا کے لیے خدا تعالیٰ کی عبادت کی ہوگی اسے خدا فرمائے گا تو نے میری عبادت سے کس چیز کا ارادہ کیا تھا؟ کہے گا دنیا کا۔ خداتعالیٰ فرمائے گا یقینا جس چیز کو تونے جمع کیا تھا اس نے تجھ کو نفع نہیں دیا، اس کو دوزخ میں لے جاؤ۔ جس نے ریاکاری کے لیے عبادت کی تھی اس کو خدا فرمائے گا تیری عبادت ریاکاری کے لیے تھی اس میں سے کوئی بھی چیز میری طرف نہیں پہنچی اور وہ ریا آج تجھے نفع نہیں دے گا، اس کو دوزخ میں لے جاؤ۔ جس نے خالصتاً خدا تعالیٰ کے لیے عبادت کی تھی اس سے خدا تعالیٰ فرمائے گا تونے میری عبادت سے کس چیز کا ارادہ کیا تھا؟ وہ شخص کہے گا تیری عزت اور جلال کی قسم تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے میں تیری رضا جوئی اور جنت کے لیے عبادت کرتا تھا۔ خدا تعالیٰ فرمائے گا میرے بندے نے سچ کہا، اس کو جنت کی طرف لے جاؤ۔ (شعب الایمان)
اخلاص ہونے پر فائدہ اور اخلاص نہ ہونے کے نقصان کے متعلق ایک اسرائیلی روایت:
امام محمد بن محمد غزالی متوفی۵۰۵ ھجری میں لکھتے ہیں، اسرائیلیات میں مذکور ہے کہ ایک عابد بہت بڑے عرصہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا رہا۔ اس کے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ فلاں جگہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایک درخت کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ عابد غضبناک ہوا اور کلہاڑا کندھے پر رکھ کر اس درخت کو کاٹنے کے لیے چل پڑا۔ راستے میں ابلیس اس کو ایک بوڑھے آدمی کی شکل میں ملا اور پوچھا کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا میں اس درخت کو کاٹنے جارہا ہوں۔ ابلیس نے کہا تمہارا اس درخت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ تم بلاوجہ اپنی عبادت کو چھوڑ کر ایک غیر اہم کام کے درپے ہورہے ہو۔ عابد نے کہا یہ کام بھی میری عبادت ہے۔ ابلیس نے کہا میں تم کو وہ درخت کاٹنے نہیں دوں گا۔ پھر ان دونوں میں کشتی ہوئی، عابد نے اس کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور اسکے سینہ پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ ابلیس نے کہا مجھے چھوڑدو میں تم کو ایک مشورہ دیتا ہوں۔ عابد نے اس کو چھوڑدیا ابلیس نے کہا اے شخص اللہ نے یہ کام تم سے ساقط کردیا ہے اور تم پر اس کو فرض نہیں کیا اور تم اس درخت کی عبادت نہیں کرتے اگر کوئی اور عبادت کرتا ہے تو اس کا تم سے مواخذہ نہیں ہوگا اور اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے انبیاء بہت ہیں، اگر اللہ چاہے گا تو اس درخت کی پرستش کرنے والوں کی طرف اپنا کوئی نبی بھیج دے گا اور اس نبی کو اس درخت کے کاٹنے کا حکم دے گا۔ عابد نے کہا میں اس درخت کو ضرور کاٹوں گا اور ابلیس کو کشتی کے لیے للکارا اور عابد ابلیس کو پچھاڑ کر اس کے سینہ پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ آخر ابلیس عاجز آگیا اور اس سے کہا میں تم کو درمیانی راہ بتاتا ہوں وہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اور زیادہ فائدہ مند ہوگی۔ عابد نے پوچھا وہ کیا ہے؟ ابلیس نے کہا مجھے چھوڑدو تاکہ میں تم کو تفصیل سے بتاؤں۔ عابد نے اس کو چھوڑدیا۔ ابلیس نے کہا تم فقیر آدمی ہو، تمہارے پاس مال نہیں ہے، لوگ تمہاری کفالت کرتے ہیں اور تم ان پر بوجھ ہو اور شاید یہ کہ تمہارے دل میں خواہش ہو کہ تم اپنے بھائیوں کی مالی امداد کرو اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ غم خواری کرو اور تم سیر ہوکر کھاؤ اور لوگوں سے مستغنیٰ رہو؟ عابد نے کہا ہاں۔ پھر ابلیس نے کہا درخت کاٹنے سے باز آجاؤ، تمہیں ہر رات اپنے سرہانے دو دینار مل جائیں گے، صبح کو تم وہ دو دینار لے لینا اور ان کو اپنے اوپر اور اپنے عیال کے اوپر خرچ کرنا اور اپنے بھائیوں کے اوپر صدقہ کرنا تو یہ تمہارے اور دیگر مسلمانوں کے لیے اس درخت کے کاٹنے سے زیادہ سود مند ہوگا اور اس درخت کے بعد وہاں اور درخت اگ سکتا ہے اور اس کے کاٹنے سے ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا اور تمہارے مسلمان ضرورت مند بھائیوں کو اس درخت کے کاٹنے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
عابد اس ابلیس کی اس پیشکش پر غور کرنے لگا اور بے ساختہ کہنے لگا بات تو اس بوڑھے کی سچی ہے، میں نبی تو ہوں نہیں جو مجھ پر اس درخت کا کاٹنا لازمی ہو اور نہ اللہ نے مجھے اس درخت کے کاٹنے کا حکم دیا ہے، حتیٰ کہ میں اس درخت کے کاٹنے کی وجہ سے گنہگار ہوجاؤں اور جو صورت اس نے بتائی ہے اس میں زیادہ نفع ہے۔ دونوں نے قسم کھاکر اس بات پر معاہدہ کرلیا۔
عابد لوٹ آیا۔ اس نے اپنے معبد میں رات گذاری، صبح کو اسے اپنے سرہانے دو دینار مل گئے۔ اس نے وہ دینار لے لیے۔ اسی طرح اگلے دن بھی ہوا، تیسری صبح عابد کو اپنے سرہانے کوئی چیز نہیں ملی۔ وہ غضبناک ہوا اور کلہاڑی کندھے پر ڈال کر چل پڑا۔ اس کے سامنے سے ابلیس ایک بوڑھے کی صورت میں آتا ہوا ملا۔ اس نے پوچھا کہاں جارہے ہو؟ عابد نے کہا میں اس درخت کو کاٹوں گا۔ ابلیس نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو، خدا کی قسم تم اس درخت کے کاٹنے پر قادر نہیں ہو اور تمہارے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ عابد پہلی بار کی طرح اس سے کشتی کے لیے آگے بڑھا۔ ابلیس نے کہا اب یہ نہیں ہوسکتا اور ایک ہی ہلے میں اس کو پچھاڑ دیا اور عابد چڑیا کی طرح اس کے پاؤں میں گر پڑا اور ابلیس اس کے سینہ پر بیٹھ گیا۔ ابلیس نے کہا باز آجاؤ ورنہ میں تم کو ذبح کردوں گا۔ عابد نے غور کیا تو اس کو ابلیس کے مقابلہ میں بالکل طاقت محسوس نہیں ہوئی۔ عابد نے کہا تم مجھ پر غالب آگئے اب مجھ کو چھوڑدو اور یہ بتاؤ کہ میں پہلی بار تم پر کس طرح غالب آیا تھا اور اس بار کیوں نہ غالب آسکا؟ ابلیس نے کہا اس لیے کہ پہلی بار تم اللہ کے لیے غضب ناک ہوئے تھے اور تمہاری نیت آخرت تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے لیے مسخر کردیا اور اس بار تم اپنے نفس اور دنیا کے لیے غضبناک ہوئے تو میں نے تم کو پچھاڑدیا۔ (احیاء العلوم ج۲۸۴، ۲۸۵ مطبوعہ دارالخیر بیروت۱۴۱۳ ھجری)
اخلاص کے ساتھ کیا ہوا عمل بغیر اخلاص کے اعمال سے افضل ہے:
امام غزالی نے کہا ہے عبادت کم ہو لیکن اس میں ریا اور تکبر نہ ہو اور اس عبادت کا باعث اخلاص ہو تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس عبادت کی غیر متناہی قیمت ہے۔ اور عبادت بہت زیادہ ہو لیکن اخلاص سے خالی ہو تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی قیمت اور حیثیت نہیں ہے۔ الَّا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے اس کے تدارک کی کوئی سبیل پیدا فرمادے۔ اس لیے اہل بصیرت زیادہ عمل میں کوشش نہیں کرتے بلکہ اخلاص کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قدر و قیمت صاف و شفاف اور صیقل چیز کی ہوتی ہے کثرت کی نہیں ہوتی۔ ایک سچا موتی ہزار ٹھیکریوں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ جو لوگ بہت زیادہ نمازیں پڑھتے ہیں، بکثرت روزے رکھتے ہیں اور نمازوں میں اخلاص اور خضوع اور خشوع کے درپے نہیں ہوتے اور نہ روزوں میں للٰہیت کے جذبہ کی کوشش کرتے ہیں، اپنی نمازوں اور روزوں کی بڑی تعداد سے دھوکا کھاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ بے مغز اخروٹوں کے ڈھیر کی کیا قدر و قیمت ہے۔ (فیض القدیرج1،ص 415.414مطبوعہ انوارمصطفی 1418 ھجری)
انسانوں کی حشر کی کیفیت:
خدا تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا جس طرح اس نے تم کو ابتدا میں پیدا کیا اس طرح تم لوٹو گے۔ محمد بن کعب نے اس کی تفسیر میں کہا جس کو اللہ تعالیٰ نے ابتداء اہل شقاوت میں سے پیدا کیا ہے وہ قیامت کے دن اہل شقاوت سے اٹھے گا خواہ وہ پہلے نیک کام کرتا ہو اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ابتداً اہل سعادت سے پیدا کیا وہ قیامت کے دن اہل سعادت سے اٹھے گا خواہ پہلے سے برے کام کرتا رہا ہو۔ جیسے ابلیس لعین کو اللہ تعالیٰ نے اہل شقاوت سے پیدا کیا تھا۔ وہ پہلے نیک کام کرتا تھا، لیکن وہ انجام کار کفر کی طرف لوٹ گیا۔ اور جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے جادوگر، وہ پہلے فرعون کے تابع تھے لیکن بعد میں فرعون کو چھوڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔ سو ابلیس اپنی ابتدا خلقت کے اعتبار سے شقاوت کی طرف اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے جادوگر اپنی ابتدا خلقت کے اعتبار سے سعادت کی طرف لوٹ گئے۔ مجاہد اور سعید بن جبیر نے بھی اس آیت کی اسی طرح تفسیر کی ہے۔ (جامع البیانی جز8 ص206 مطبوعہ دارالفکر بیروت 1415 ھجری)
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ۲۵۶ ھجری روایت کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم محشر میں ننگے پیر ننگے بدن اور غیر مختون اٹھائے جاؤ گے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: کَمَا بَدَانآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُہ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فِعْلِیْنَ۔ (الانبیاء ۱۰۴)
جس طرح ہم نے پہلے پیدائش کی ابتداء کی تھی اس طرح ہم پھر اس کو دہرائیں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے ہم اس کو ضرور پورا کرنے والے ہیں۔
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کیا قیامت کے دن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہونگے؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ (رضی اللہ عنہا) وہ دن اس سے بہت ہولناک ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں۔ (صحیح مسلم)
خلاصہ تفسیر۔ اس آیت میں رسول اکرم
صلّی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے محبوب تم ان کافروں
کی تردید کرو جو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ارشاد فرمایا ہے کہ ننگے ہوکر طواف
کرو اور اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرو۔ ان کا یہ کہنا خدا تعالیٰ کی ذات پر بہتان
ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو اور تمام انسانوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتا
ہے۔ تم سب سے پہلے خدا تعالیٰ کی ذات اور اپنے درمیان انصاف کرو۔
اس کے احکامات و عبادت پورے اخلاص کے ساتھ بجا لاؤ اور اسی طرح اپنے ماں باپ،
اولاد، تمام انسانیت اور اپنی ذات کے ساتھ بھی پورے اخلاص سے پیش آؤ۔ خدا تعالیٰ سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں اخلاص کاملہ کی دولت عطافرمائے۔ آمین