
الطاہر شمارہ نمبر
43 |
اردو مین پیج |
روحانی طلبہ جماعت
خلیفہ مولانا محمد حسن اوٹھو
یقینا یہ عاجز سمجھتا ہے کہ جماعت کے کہنہ افراد اس مضمون کے عنوان
کو دیکھتے ہی روحانی طلبہ جماعت کے پرانے تصور کو اپنے ذہن میں لے آئیں گے کہ ہاں
یہ وہی جماعت ہے جسے کہ عرصہ دراز سے سنتے دیکھتے آئے ہیں۔ مگر اس عاجز کا اس موضوع
پر قلم اٹھانے کا ارادہ اس لیے ہوا کہ جماعت کے اہل ذکر حضرات اور ان کی نئی نسل کے
نوجوانوں کا میرے حضرت کی اس عالمگیر اصلاحی تنظیم کے ساتھ وہ تعلق و تعاون نظر
نہیں آتا جس سے روحانی طلبہ جماعت کی افرادی قوت اور کام میں ترقی ہو اور مسلم
طلباء تک اپنے پیغام کو عام کرسکے۔ سنہ 1975ء سے اب تک ہر تعلیمی ادارے میں یونٹ یا
روحانی طلبہ جماعت کی برانچ کا قیام ہونا چاہیے تھا، مگر یہ محسوس کیا گیا ہے کہ
پرانی برانچوں یا ضلعی، صوبائی اور مرکزی تنظیم کے عہدیداروں کے انتخاب کے وقت
مناسب اور ریگیولر پڑھنے والے طلباء میں عہدیداران کو ڈھونڈنے میں بڑی دقت محسوس
ہوتی ہے۔ شاید جمعیت علماء طاہریہ اور جماعت اصلاح المسلمین کے اراکین اپنے اپنے
تنظیمی کام میں اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ روحانی طلبہ جماعت پر ان کا دست شفقت بڑھتا
ہوا نظر نہیں آتا، جس وجہ سے یہ کمی محسوس ہورہی ہے۔ اس لیے عاجز کے دل نے چاہا کہ
ان نوجوانوں کا اور روحانی جماعت کا تذکرہ چھیڑ کر ان کی محبت کو اپنے اندر میں
دوبارہ لانے کی کوشش کروں جن کے ساتھ حضور قبلہ عالم سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کا
بیحد پیار تھا اور حضور قبلہ عالم سجن سائیں مدظلہ العالی بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا تھا:
محبت ہے مجھے ان جوانوں سے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
مجدد دوران سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے مسلم
طلباء کے ساتھ وہ پیار، شفقت اور محبت کی جو ہمیشہ یاد رہنے والی ہے۔ آپ نے جس وقت
ان نوجوانوں کی طرف توجہ فرمائی اس وقت وہ مختلف سیاسی تنظیموں کے ساتھ وابستہ اپنی
تعلیمی سرگرمیوں سے ہٹ کر سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ مصروف رہتے تھے۔ آئے دن ہڑتالیں
کرانا، کالج، اسکول اور بازاریں بند کرانا ان کا مشغلہ بنا ہوا تھا۔ اساتذہ، والدین
اور عام شہری ان کی حرکتوں سے تنگ آچکے تھے۔ عین اس وقت جب کہ ہر فرد ان نوجوانوں
سے نفرت کرنے لگا، میرے حضرت حکیم الامت، رہبر شریعت، پیر طریقت حضرت خواجہ سوہنا
سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے لیے محبت، پیار اور شفقت کا ہاتھ بڑھایا۔ مستقبل کے
معماروں، قوم کے اس عظیم سرمایہ (نوجوانوں)کو بچانے کے لیے تدابیر اور کاوشیں
اختیار کیں۔ مسلم طلبہ تک اپنا پیغام پہنچایا، انفرادی محنت اور دعوت کے بعد ان کو
منظم کرنے کے لیے مسلم طلبہ کی عالم گیر تنظیم (روحانی طلبہ جماعت) کا قیام 1975ء
میں عمل میں لایا۔ نوجوانوں میں اخوت و محبت پیدا کرنے کے لیے آپ اکثر انہیں قلبی
ذکر کی تلقین کے بعد یہ شعر پڑھ کر سناتے تھے کہ:
دیکھیے شانِ خدا کہ اس مکھی ناچیز نے اتفاق باہمی سے شہد پیداکرلیا۔ متفق دیکھ کر
قادر قیوم نے ان سب پر خلائق کو شیدا کیا۔ اتحاد واتفاق سے رہنے، اپنی تعلیم کا
صحیح طرح اہتمام کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔
الحمدللہ! آپ کی ان کاوشوں، فیوضات و برکات کے نتیجے میں روحانی طلبہ جماعت ایک مثالی تنظیم ہوکر ابھری جس میں دین سے دور افراد نیکوکار، صالح، متقی، پرہیزگار، مبلغ دین بن کر تبلیغ اور طریقہ عالیہ کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کی طرف پوری توجہ دے کر اچھے ڈاکٹر اور انجنیئر بن گئے اور اس وقت اچھے عہدوں پر فائز ہیں، اور ساتھ میں خدمت خلق کا اہم فریضہ احسن طریقہ سے ادا کر رہے ہیں۔ حضور قبلہ عالم سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے جس ملک کی فوج اور طلباء صحیح ہونگے وہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ الحمدللہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے طلباء تک آپ نے اپنے پیغام کو پہنچایا اور طلباء کے کردار اور اخلاق کو اس طرح سے تبدیل کردیا کہ وہ دوسروں کے لیے ایک نمونہ اور مثال بن گئے۔ جب ان نوجوانوں میں یہ روحانی انقلاب آیا تو انہوں نے اپنے معاشرے کے ہر فرد کو متاثر کیا، خصوصا ان کے اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے سربراہ بھی متاثر ہوئے اور روحانی طلباء جماعت کے کام، پیغام اور حضور سوہنا سائیں کے فیض و برکات کی پرچار کیے بغیر نہیں رہ سکے۔
الحمدللہ! آج بھی حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے عطا کردہ قائد و روحانی رہبر، حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی نائب، سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ طاہریہ کے سالار قبلہ عالم سجن سائیں مدظلہ العالی نوجوانوں کی اس عالم گیر اصلاحی تنظیم (روحانی طلباء جماعت پاکستان) کے پلیٹ فارم پر نوجوان مسلم طلباء کو کٹھا کرنے کی دن رات کوشش کر رہے ہیں اور آپ کی نظر کرم سے نوجوانوں کی کافی تعداد آپ کے فیض و برکات سے مستفید ہورہی ہے۔ جن اہل علم حضرات نے روحانی طلباء جماعت کے کارکنوں کو قریب سے دیکھا ہے ان میں سے فارسی کے پروفیسر محترم محمد میاں سحر آفریدی سابق پرنسپل سائنس کالج سکرنڈ کے تاثرات ملاحظہ فرمائیں: ”روحانی طلباء جماعت کا قیام ایک مستحسن اقدام ہے، بفضلہ تعالیٰ یہ جماعت اپنی نوعیت کی انوکھی جماعت ہے اور اس جماعت کا سیاست سے کوئی تعلق یا واسطہ بالکل نہیں۔ روحانی طلباء جماعت کے تمام کارکن اور عہدیدداران سنت نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا پور اپورا خیال ہی نہیں کرتے بلکہ حتی المقدور سنت کے پابند ہیں اور تمام احکام شرعی اور فرائض کی ادائیگی میں ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ میرے خیال میں ان حضرات کو شیخ سعدی رحمہ اللہ کا یہ شعر ازبر ہے کہ:
خلاف پیغمبر کسے رہ گزید کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید
روحانی طلبہ جماعت برانچ نوابشاہ کے تقریبا تمام عہدیداران اور کارکنان سے ملاقات کا مجھے شرف حاصل ہے۔ یہ سب حضرات نہایت با اخلاق اور صوم و صلواۃ کے پابند اور دین مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کے سراج منیر معلوم ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ روحانی طلبہ جماعت کے عہدیدار اور کارکنوں کو روزمرہ کی زندگی میں بھی میں نے بڑا اصول پسند پایا۔ یہ لوگ لین دین کے کھرے اور حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہیں، والدین، اساتذہ کے فرمانبردار اور تمام بڑوں کا کما حقہ خیال کرتے ہیں، بیہودہ باتوں سے پرہیز کرنا اور نیک کاموں میں پیش قدمی ان کی عادت ہے۔ دین محمدی علیٰ صاحبہا الصلواۃ والسلام کا فروغ اس کی اشاعت و تبلیغ ان کا مقصد اولین ہے۔ یہ روحانی طلبہ جماعت کی خاص اور بڑی خوبی ہے کہ یہ کسی سے کسی قسم کا چندہ وغیرہ نہیں لیتے۔ روحانی اقدار و اوصاف کی ترویج و ترقی ان کی دلی خواہش ہے۔ انہیں ہمہ وقت یہی لگن اور شوق ہے کہ ذکر الٰہی کرتے رہیں، محبت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم سے سینے پر ہوں، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ تمام حقوق العباد بھی ادا ہوتے رہیں۔ یہ تمام ملک و ملت کے بھی بڑے خیر خواہ ہیں۔ میری دلی تمنا اور بارگاہ رب العزت میں تہہ دل سے دعا ہے کہ یا اللہ تو اپنے کرم خاص سے روحانی طلبہ جماعت کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرما، اور اس کے تمام کارکنان کو اپنے حفظ اور امان میں باصحت رکھ تاکہ یہ لوگ تیرا ذکر زیادہ کرتے رہیں اور اپنے پیارے حبیب صلّی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے ان کے دلوں ہمیشہ معمور رکھ۔ آمین ثم آمین۔ اس کے علاوہ کئی دیگر افراد کے تاثرات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور قبلہ عالم سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے قوم کے اس عظیم سرمایہ مسلم نوجوانوں کی اس خستہ حالی سے ناامید نہ ہوئے بقول علامہ اقبال کے:
نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
آپ کی توجہ، اخلاق عالیہ، فیوض و برکات اور دست شفقت نے مسلم نوجوانوں کو مستفید کیا۔ مگر آپ کی خدمت اقدس میں روحانی طلبہ جماعت کے اس عظیم قائد کی زیارت اور صحبت کے لیے غیر مسلم طلباء بھی حاضر ہوتے تھے اور وہ بھی آپ کے فیوضات و برکات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ روحانی طلبہ جماعت برانچ نوابشاہ کے توصل سے آپ کی خدمت میں ایک ہندو نوجوان آئے اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ان کا نام آپ نے محمد علی رکھا۔ پہلے وہ خاک روب تھا، حضرت صاحب کی بیعت کے بعد اسے ہوائی اڈے پر ملازمت ملی، مسلمانوں میں اس کی شادی ہوئی، اسے اولاد ہوا۔ آپ باشرع نیک ہیں اور اس وقت حیدرآباد میں مقیم ہیں۔ الحمد اللہ حضور سوہنا سائیں کی تعلیمات اور تربیت سے روحانی طلبہ جماعت کے اراکین نے اپنے تنظیمی فرائض کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کی طرف بھی پوری توجہ دی، اچھے نمبروں سے اپنی تعلیم سے فارغ ہوئے، اب اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ محترم سعید احمد مغل جو اس وقت روحانی طلبہ جماعت برانچ نوابشاہ کے عہدیدار تھے ان کے تاثرات ملاحظہ فرمائیں: ”یہ عاجز اس جماعت میں شریک ہونے سے پہلے بالکل بے نمازی تھا اور اگر نماز پڑھتا تھا تو وہ بھی کبھی کبھی اور قرآن مجید بھی نہیں پڑھتا تھا اور سوائے نشہ اور جوا کے اور سب شیطانی کام کرتا تھا جس کی وجہ سے دل کو بھی سکون نہیں ملتا تھا۔ دل بالکل مردہ ہوچکا تھا۔ یہ سنا تھا کہ انسان کے سینے میں دل ہے لیکن اس کی دھڑکن نہیں سنی تھی اور نہ ہی یہ خبر تھی کہ اس میں اتنی قوت ہے۔ دل اور دماغ شیطان کا کارخانہ بنے ہوئے تھے۔ نہ گھر میں عزت تھی نہ باہر دوستوں میں۔ مختصر یہ کہ یہ عاجز گندی نالی کا کیڑا تھا، اور اب اس عاجز کا شمار مسجد کو آباد کرنے والوں میں ہے۔ یہ عاجز خداوند کریم کا شکر گذار ہے جس نے مجھے اللہ والوں سے ملادیا۔ یہ عاجز اس جماعت میں شریک ہونے سے پہلے خود کو بد قسمت سمجھتا تھا کیونکہ دلی سکون نہیں تھا، لیکن اس جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اپنی قسمت پر فخر کرتا ہے۔ وہ اس لیے کہ ساری دنیا سکون کے لیے اتنا کاروبار اور تکلیف کررہی ہے اور ان کو سکون نہیں مل رہا اور ہم کو بغیر کسی تکلیف اور خرچ کے اتنی بڑی دولت مل گئی ہے جو نہ دنیا میں ختم ہوگی نہ آخرت میں۔ اس جماعت کا ہر فرد اچھے اخلاق کا مالک ہے اور سب پر ایک رنگ ہے اور آپس میں بڑا اتحاد ہے۔ اس جماعت میں اخلاق اور اللہ تعالیٰ کی رضا دونوں شامل ہیں، جس کی وجہ سے یہ جماعت تیزی سے کام کر رہی ہے۔ یہ عاجز بھی دوستوں کا اخلاق دیکھ کر اس جماعت میں شامل ہوا ہے کیونکہ جب خدمت گاروں کا یہ حال ہے تو سرکار کا عالم کیا ہوگا۔ آج خدا کے فضل و کرم سے اور آپ بزرگوں کی دعاؤں سے اس عاجز کی بڑے چھوٹے عزت کرتے ہیں اور زندگی بڑے آرام سے گذر رہی ہے۔ ہم سب اللہ والوں کا یہ احسان کبھی بھی نہیں بھول سکتے۔“ [بقیہ آئندہ]