الطاہر

الطاہر شمارہ نمبر 43
محرم الحرام ۱۴۲۸ھ بمطابق فروری ۲۰۰۷ع

اردو مین پیج

بیمار پرسی کا ثواب

علامہ عبدالخالق چاچڑ طاہری

 

و عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم حق المسلم علی المسلم خمس رد السلام و عیادۃ المریض و اتباع الجنائز و اجابۃ الدعوۃ و تشمیت العاطس (متفق علیہ)۔

روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، فرمایا رسول للہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا، چھینک کا جواب دینا۔ (مسلم، بخاری)

و عن انس قال قال رسول للہ صلّی اللہ علیہ وسلم من توضاء فاحسن الوضوء وعاد اخاہ المسلم محتسبا یوعد من جہنم مسیرۃ ستین خریفا (رواہ ابوداؤد)

روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے جو اچھی طرح وضوء کرے اور طلب ثواب کے لیے اپنے مسلمان بھائی کی بیمار پرسی کرے تو ساٹھ سال کے فاصلہ پر دوزخ سے دور رکھا جائے گا۔ (ابوداؤد)

اس حدیث مبارکہ میں مریض کی عیادت سے پہلے باوضو ہونے کا حکم ہے کیونکہ عیادت لفظًا ومعنًا عبادت ہے اور عبادت باوضو بہتر ہے۔ نیز عیادت میں دعا اور مریض پر کچھ پڑھ کر دم کرنا ہوتا ہے تو باوضو دعا بہتر ہے۔ بعض لوگ باوضو قربانی، فاتحہ و ایصال ثواب کراتے ہیں، بلکہ گیارھویں شریف کا کھانا باوضو پکاتے اورکھاتے ہیں۔ یہ حدیث ان کی اصل ہے۔

عن علی قال سمعت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم یقول مامن مسلم یعود مسلما غدوۃ الاصلیٰ علیہ سبعون الف ملک حتیٰ یمسی و ان عادہ عشیۃ الا صلیٰ علیہ سبعون الف ملک حتیٰ یصبح و کان لہ خریف فی الجنۃ (رواہ ترمذی وابوداؤد)

روایت ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ ایسا کوئی مسلمان نہیں جو کسی مسلمان کی صبح کے وقت بیمار پرسی کرے مگر ستر ہزار فرشتے اسے شام تک دعائیں دیتے ہیں اور اگر شام کو بیمار پرسی کرے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے دعائیں دیتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں باغ ہوگا۔ (ترمذی و ابوداؤد)

بیمار پرسی معمولی سی نیکی معلوم ہوتی ہے، مگر یہ لاتعداد فرشتوں کی دعا ملنے کا ذریعہ ہے اور جنت ملنے کا سبب، بشرطیکہ صرف رضائے الٰہی کے لیے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ معمولی بیماری میں بھی بیمار پرسی کرنا سنت ہے، جیسے آنکھ یا کان میں یا ڈاڑھ کا درد کہ یہ اگرچہ خطرناک نہیں لیکن بیماری تو ہیں۔ جن فقہاء نے فرمایا کہ ان بیماریوں میں عیادت سنت نہیں ان کا مطلب سنت مؤکدہ نہیں۔

و عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم ان اللہ تعالیٰ یقول یوم القیٰمۃ یا ابن آدم مرضت فلم تعدنی قال یا رب کیف اعودک و انت رب العالمین قال اما علمت ان عبدی فلانا مرض فلم تعدہ اما علمت انک لو عدتہ لوجدتنی عندہ۔ یا ابن اٰدم استطعمتک فلم تطعمنی۔ قال یا رب کیف اطعمک و انت رب العالمین۔ قال اما علمت انہ استطعمک عبدی فلان فلم تطعمہ اما علمت انک لواطعمتہ لوجدت ذالک عندی۔ یا ابن آدم استسقیتک فلم تسقنی قال یا رب کیف اسقک و انت رب العالمین قال استسقاک عبدی فلان لم تسقہ اما انک لواسقیتہ وجدت ذالک عندی (رواہ مسلم)

روایت ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیگا: اے انسان میں بیمار ہوا تونے میری مزاج پرسی نہیں کی۔ بندہ کہے گا الٰہی میں تیری عیادت کیسے کرتا تو تو جہانوں کا رب ہے۔ خدا تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے خبر نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تونے اس کی بیمار پرسی نہ کی، کیا تجھے خبر نہیں اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے انسان میں نے تجھ سے کھانا مانگا تونے مجھے نہ کھلایا۔ عرض کرے گا الٰہی تجھے میں کیسے کھلاسکتا ہوں تو تو جہانوں کا رب ہے۔ خدا فرمائے گا کیا تجھے علم نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا، تونے اسے نہ کھلایا، کیا تجھے پتہ نہیں کہ اگر تو اسے کھلاتا تو میرے پاس آتا۔ اے انسان میں نے تجھ سے پانی مانگا تونے مجھے نہ پلایا۔ عرض کریگا مولیٰ میں تجھے کیسے پلاتا تو تو جہانوں کا رب ہے۔ خدا فرمائے گا تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تو نے اسے نہ پلایا، اگر تو اسے پلاتا تو آج میرے پاس وہ پاتا۔ (مسلم)

اس حدیث میں اشارتًا یہ فرمایا گیا کہ بندہ مؤمن بیماری کی حالت میں رب تعالیٰ سے اتنا قریب ہوتا ہے کہ اس کے پاس آنا گویا رب کے پاس ہی آنا ہے اور اس کی خدمت گویا رب کی اطاعت ہے بشرطیکہ صابر و شاکر ہو، کیونکہ بیمار مؤمن کا دل ٹوٹا ہوتا ہے اور ٹوٹے دل کا شانہ یار ہیں۔ حدیث قدسی ہے ”انا عند المنکسرۃ قلوبہم لاجلی“ یعنی میں ٹوٹے دل والوں کے پاس ہوں۔ اس ترتیب سے معلوم ہورہا ہے کہ بیمار پرسی افضل ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فقراء و مساکین اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں۔ ان کے پاس جانے اور ان کی خدمتیں کرنے سے رب مل جاتا ہے۔ تو اولیاء اللہ کا کیا پوچھنا، ان کی صحبت رب سے ملنے کا ذریعہ ہے۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں (شعر)

ہر کہ خواہد ہم نشینی با خدا    او نشیند در حضور اولیاء