الطاہر

الطاہر شمارہ نمبر 43
محرم الحرام ۱۴۲۸ھ بمطابق فروری ۲۰۰۷ع

اردو مین پیج

عورت

ڈاکٹر غلام یاسین طاہری

 

عورت کی معاشرہ میں حیثیت، تہذیبوں پر اس کے اثرات اور کردار کے موضوع پر ماضی اور حال کے مطالعہ سے یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ عورت اکثر ادوار میں استحصال کا شکار رہی ہے. عورت کی باقاعدہ حیثیت تسلیم کرنے اور اس کو اس کے حقوق دلوانے کا سہرا صرف اور صرف اسلام ہی کے سر ہے۔ کہنے کو تو دور جدید میں بھی آزادی نسواں کے نعرہ کے تحت عورت کے لیے کچھ کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں کچھ قانون سازی بھی عمل میں آئی. لیکن غیر جانبدارنہ اور حقیقت پسندانہ تجزیہ یہی ہے کہ اصل میں استحصال عورت کو جدید شکل دی گئی ہے، جس میں آزادی کے دل فریب وعدہ پر اس کی اپنی رضا بھی شامل کی گئی ہے. مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی ترویج و ترقی اور قدیم و جدید معاشرہ میں عورت کے کردار پر بحث کرنے سے پہلے بعثت اسلام کے وقت اور اس سے پہلے عورت کی معاشرتی حیثیت پر کچھ بات کی جائے، جس سے معلوم ہوگا کہ مختلف اقوام اور علائقوں اور مختلف ادوار میں عورت کو کس نظر سے دیکھا جاتا تھا.

مصر کی تہذیب: فراعین مصر نے اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے بہنوں اور بیٹیوں سے شادی کو جائز قرار دیدیا تھا، کیونکہ مصری قانون کے مطابق بادشاہ کی شادی شاہی خاندان کی کسی عورت سے ہونا ضروری تھا، بصورت دیگر اس کا اقتدار ختم ہوجاتا تھا۔ نیل کے دیوتا اوسیرس (Oseris) کو خوش رکھنے کے لیے کنواری دوشیزہ کی قربانی دی جاتی تھی جو دور اسلام تک جاری تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس رسم کو ختم کیا۔ بالفاظ دیگر عورت کی عزت و جان مرد کے مفادات کے تحفظ کے لیے بلا دریغ قربان کی جاتی تھی۔

عراق: (جنوبی نصف میپوٹیما) قدیم عراقی تہذیب میں عورتیں مردوں کی محکوم اور کنیزیں تھیں۔ حسب ضرورت ایک مرد سے دوسرے مرد کو منتقل ہوجاتیں یا تین سال تک گروی رکھی جاسکتی تھیں، گویا کہ یہ جسم فروشی کی ایک شکل تھی۔ عورتیں دیوتاؤں سے منسوب کی جاتیں جن کو دیوداسیاں کہا جاتا۔ شوہر کو بیوی پر ظلم کا اختیار حاصل تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس تہذیب میں بھی پردہ موجود تھا، پردہ کے ذریعہ لوگ جان لیتے تھے کہ کون سی عورت مرد کی حفاظت میں ہے اور کون سی عورت نمائش کے لیے کھلونا۔

یونانی تہذیب: ابتدائی دور میں عورت کو عزت کا مقام حاصل تھا۔ وہ گھر کی ملکہ اور چار دیواری تک محدود تھی اور عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی۔ پردے اور نکاح کا رواج تھا۔ مردان خانے اور زنان خانے الگ تھے۔ لیکن اس تہذیب کے بعد والے دور میں مردوں کو کھلی آزادی اور عورتوں میں عصمت فروشی کے اڈے نظر آتے ہیں۔ گھریلو عورتوں کی عزت کم اور بازاری عورتوں کی اہمیت بڑھنے لگی۔ بازاری عورتوں کے پاس بڑے بڑے اور اہم معاملات طئے ہوتے تھے۔ پھر جو مصائب آتے ان کا الزام بیویوں پر آتا۔ مردوں کی توہم پرستی نے ایک فرضی عورت پانڈورا (Pandora) کو جنم دے دیا جس کو تمام انسانی مصائب کا سبب قرار دیا گیا۔ ایک خیالی دیوی افروڈائٹ (Aphrodite) کا بت تراشہ گیا، یعنی شر کی دیوی۔ پورے یونان میں اس کی پوجا کی جاتی۔ ان کے دیو مالائی قصوں کے مطابق وہ ایک دیوتا کی بیوی تھی، اس کے باوجود تین یونانی دیوتا اور ایک یونانی مرد اس کے آشنا تھے۔ اس مرد سے اس نے ایک بچہ جنا جو آگے چل کر محبت کا دیوتا کیوپڈ (Cupid) کہلایا۔ بابل و نینوا کی دیو مالائی داستانوں میں یہی کیوپڈ نمرود کا بیٹا ہے، جو نمرود کی ماں سیمی رامیس یا مڈورا سے نمرود یعنی اس کے بیٹے کی حرام کاری کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اس کے علاوہ بھی ملاقاتیں اور اس سے بڑھ کر (Dating) بدکاری، وہ بھی علی الاعلان تو غیر مسلم معاشرے کا معمول بن گئی ہیں جو اس کی اخلاقی حالت کی عکاسی کرتی ہیں (جس کے پیچھے ہمارے مسلمان بھی ڈوبنے کے لیے تیار ہیں)۔ اس معاشرے میں عورتوں کو آزادی کے پرکشش نعرے کے ساتھ اس کو دنیا کے طوفان بدتمیزی میں دھکے اور تھپیڑے کھانے کے لیے تنہا چھوڑدیا گیا ہے کہ وہ رزق بھی خود تلاش کرے اور شوہر بھی۔ جب کہ مرد کی مرضی ہے، پچیس سال تک عورت کو ساتھ رکھنے کے باوجود بھی نکاح کرے یا نہ کرے۔ اکثر عورتیں ایک مستقل شوہر اور پرسکون گھر کی تمنا میں عمر گذار دیتی ہیں۔ اگر بچے ہوں تو وہ بھی عورت سنبھالے، پھر بھی کہتے ہیں کہ عورت مغربی معاشرے میں آزاد ہے (جی ہاں دھکے کھانے کے لیے) اور اس کو اس کے پورے حقوق حاصل ہیں۔

دیوتاؤں کے اس کردار کو دیکھتے ہوئے یونان میں بے حیائی و بدکرداری عام ہوئی اور جب یہ طوفان اپنے عروج پر پہنچا تو پورے یونان کو اس کی تہذیب سمیت غرق کرگیا۔ آج اس کا تذکرہ تاریخ میں فقط عبرت کے طور پر موجود ہے۔

چینی تہذیب: قدیم مصر اور سمریہ کی تہذیب کے بعد اس کا آغاز ہوا۔ یہ تہذیب دریائے ’سی کیانگ‘ اور ’ہوانگ ہو‘ کے کناروں پر پروان چڑھی۔ اس تہذیب میں عورتوں کو منحوس سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ بعض اوقات لڑکیاں اس خیال سے کہ ان کی بدقسمتی یا نحوست کا اثر والدین پر نہ پڑے اپنے آپ کو ختم کردیتیں۔ لڑکیوں کی پیدائش کو نحوست سمجھا جاتا اور ایسی عورتیں منحوس تصور کی جاتیں جن کے پاس نرینہ اولاد نہ ہوتی۔ غریب لوگ چھوٹی بچیوں کو جنگل وغیرہ میں چھوڑ آتے۔ لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھا جاتا۔ جسم فروشی کے اڈے قائم تھے۔

رومی تہذیب: ابتدائی دور میں پردہ کا رواج نہیں تھا لیکن عورت مرد کی مغلوب تھی۔ بہرحال ماں، بیوی، بہن، بیٹی کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور طوائفوں کو معاشرے میں عزت والا مقام حاصل نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ رومی تہذیب کا یہ دور رو بہ زوال ہونے لگا۔ نکاح صرف قانونی معاہدہ اور طلاق آسان ہوگئی۔ عورتوں کے اختیارات میں اضافہ ہونے لگا، یہاں تک کہ وہ شوہروں کو بھی سود پر قرض دینے لگیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق ہونے لگی، اسی وجہ سے ایک مرد یکے بعد دیگرے کئی عورتوں سے نکاح کرتا اور ایک عورت یکے بعد دیگرے کئی مردوں سے نکاح کرتی۔ رومی تاریخ میں روایت ہے کہ ایک عورت نے یکے بعد دیگرے دس مردوں سے نکاح کیے۔ ایک عورت نے پانچ سال کی مدت میں آٹھ مردوں سے نکاح کیے اور ایک عورت نے آخری بار تئیسواں نکاح کیا اور وہ اپنے شوہر کی اکیسویں بیوی تھی۔ طلاق کی اس شرح پر ماتم کرتے ہوئے مشہور رومی فلسفی سیکا لکھتا ہے کہ ”اب روم میں طلاق قابل شرم چیز نہیں رہی، عورتیں اپنی عمروں کا حساب شوہروں کی تعداد سے لگاتی ہیں۔“ الغرض روم میں اخلاقی قدریں بے وقعت چیزیں بن گئیں تھیں جیسے آج کل یورپ، امریکہ وغیرہ میں ہے۔ مرد اور عورت کے درمیاں کوئی حجاب نہ رہا، تھیٹروں میں سر عام بے حیائی اور بے شرمی کے مناظر دیکھنے کے لیے تماشائی جوق در جوق آنے لگے۔ عام غسل خانوں میں مرد و عورت یکجا نہاتے، قیصر روم کی سلطنت اور رومی تہذیب انہی عیاشیوں کے سیلاب میں بہہ گئی۔

بھارت کی قدیم رزمیہ نظموں رامائن اور مہا بھارت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بیویوں کو جوئے میں لگانے کا رواج عام تھا۔ مہا بھارت کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک راجکمار داؤ میں دروپدی کو جیت کر آیا تو باپ نے کہا کہ آج سے یہ ہم سب کی مشترکہ بیوی ہے۔ مشترکہ بیوی کا یہ رواج بھارت میں کافی عرصہ تک رہا۔ ہندو معاشرہ میں جس عورت کی عصمت پر شک کیا جاتا اسے اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے دہکتی ہوئی آگ سے گذرنا پڑتا۔ اس کو ”اگنی پرکشا“ کہتے تھے۔ بیوہ اور مطلقہ کی کوئی زندگی نہیں تھی، ان کے لیے نکاح ثانی جائز نہ تھا۔ ستی کی رسم اسی لیے چلی کہ بیوہ چوںکہ اور کسی سے منسوب نہیں ہوسکتی تھی اس لیے وہ اپنے مردہ شوہر کی چتا کے ساتھ جل کر ”ستی“ ہوجاتی تھی۔ بھارت میں ابھی تک یہ قدیم رسومات تھوڑے بہت فرق کے ساتھ موجود ہیں۔

چرچ کے نظریات عورتوں کے بارے میں بہت توہین آمیز رہے ہیں:

مشہور عیسائی مصنفین آگسٹائین (Augustine) اور ٹرٹلین (Tertulline)۔

آگسٹائین: اللہ نے عورت کیوں پیدا کی؟ اس نے عورت کو مرد کے جوڑ کی حیثیت سے پیدا نہیں کیا کیوںکہ ایک ساتھی کی حیثیت سے تو یہ کردار ایک مرد بھی نبھا سکتا ہے، نہ اس کو مرد کی مددگار کی حیثیت سے پیدا کیا کیونکہ ایک مرد اس سے اچھا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس انسانی معاشرہ میں عورت مرد کے کس کام آسکتی ہے سوائے بچے جننے کے۔

ٹرٹلین: عورت شیطان کی باپ ہے، وہ شجر ممنوعہ کو ظاہر کرنے والی ہے۔ پہلے پہل قانون الٰہی سے انحراف کس نے کیا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ ”عورت“ اس پر شیطان کا بس بھی نہیں چلتا، یہ اسے اپنے بس میں کرلیتی ہے، اسے بے بس کردیتی ہے۔ انہی خیالات اور تصورات نے عیسائیت میں رہبانیت اور تجرد کو فروغ دیا۔

یونانی دانشوران: عورت انسان اور حیوان کے درمیان کسی قسم کی ذلیل ترین مخلوق کا نام ہے۔ سانپ کے ڈسے کا علاج ہے لیکن عورت کے ڈسے کا علاج نہیں۔

روسی دانشور: دس عورتوں میں صرف ایک روح ہوتی ہے۔

ہندوازم: منوشاستر کے قوانین کے لحاظ سے ”عورت لڑکی ہو، بوڑھی ہو یا جوان، اسے کوئی بھی کام اپنی مرضی و منشا سے نہیں کرنا چاہیے۔

چینی دانشور چنگ: دنیا انسان کے حسب حال تھی لیکن عورت نے انسان کو تباہی کے طرف دھکیل دیا۔ تمام مصیبتیں آسمان نے نہیں بلکہ عورت نے توڑی ہیں۔

ہندو مذہب کے بانی: عورت برائیوں کا بگولہ، شوخی کا مسکن، بیباکی کی نگری اور گناہوں کا محل ہے۔

اہل اسپین: بری عورت سے تو بچنا ہی چاہیے تاہم اچھی عورت پر بھی کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔

عہدنامہ قدیم کا ایک وعظ: کوئی خدا کا پیارا ہوگا جو اپنے آپ کو عورت ذات سے بچائے گا، میں نے ہزاروں مردوں میں صرف ایک خدا کا پیارا دیکھا ہے جبکہ تمام عالم کی عورتوں میں کوئی ایک بھی خدا کی پیاری نہیں ہے۔

انسانی اور با الخصوص عورتوں کے حقوق کا دعویٰ کرنے والے یورپ میں تیرھویں اور سولھویں صدی عیسوی میں جادوگری کے خلاف تحریک چلی جس میں جادوگری کے الزام میں 9 لاکھ عورتوں کو زندہ جلادیا گیا۔

اسلام سے پہلے اہل عرب میں عورتوں کی معاشرتی حیثیت تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بچیوں کو زندہ درگور کرنا، عورتوں کو جوئے میں ہار جانا اور ہر لحاظ سے مردوں کی مغلوب و محکوم ہونا عرب معاشرے کا خاصہ تھا۔ ان حالات میں عورت کی حالت میں انقلابی تبدیلی صرف اور صرف اسلام کا ہی خاصہ تھا۔ اب آئیے ذرا ظہور اسلام کے بعد مسلمان خواتین کے کردار اور معاشرے پر ان کے اثرات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ذرا غور کیجیے یہی عورت جو فقط مغلوب و مجبور ہے، اس کی حیثیت مرد کے کھلونے سے زیادہ نہیں، معاشرہ میں اس کا کوئی مثبت کردار نہیں، کس طرح جب دائرہ اسلام میں داخل ہوتی ہے تو اسلام اس کی شان و عزت میں اضافہ کرنے والا اور اس کا محافظ بن جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جری شخص بھی جن کی ہیبت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اپنی زوجہ محترمہ کے سخت الفاظ خاموشی کے ساتھ سنتے اور برداشت کرتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور تربیت کس شان سے اثر انداز ہوتی ہے کہ یہی عرب خاتون جو اپنے کسمپرسی کی حالت میں تھی، اب معاشرے میں ایک باعزت اور بااثر فرد کی حیثیت حاصل کرلیتی ہے۔ کہیں اچھی مشیر اور صلاحکار کی صورت میں گھر کے سربراہ کی مددگار اور معاون نظر آتی ہے، کہیں فقیہ بن کر عوام الناس کی دینی رہنمائی کررہی ہوتی ہے، کہیں بچوں کی تربیت اور گھر کی حفاظت کرتی ہوئی نظر آتی ہے، کہیں مرد کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں جوش و خروش سے سرگرم عمل نظر آتی ہے۔ تاریخ اسلام نہ صرف حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بلکہ اس کے بعد بھی ایسی نامور خواتین کے تذکرے سے بھری پڑی ہے جن کے کارنامے نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی مشعل راہ ہیں۔ بحرف طوالت چند معزز خواتین کے مختصر تذکرے پر اکتفا کرتے ہیں۔

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا: آپ کو اسلام کی سب سے پہلی مسلمان خاتون ہونے کا شرف حاصل ہے، حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے پہلے آپ ہی کو نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔ اعلان اسلام کے بعد جب نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی طرف سے تکالیف دی گئیں تو آپ نے نہ صرف تسلی و ہمت افزائی کے ساتھ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعاون فرمایا بلکہ مالی خدمت میں بھی پیش پیش تھیں۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا: حضرت مریم علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی پاکبازی کی گواہی قرآن کریم میں دی۔ آپ کی سب سے بڑی خصوصیت آپ کی دینی خدمات ہیں۔ آپ بہت عظیم فقیہ تھیں۔ محدثین کا اجماع ہے کہ ”ہمیں دین کا چوتھائی ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ملاہے۔“ حضرت امام زہری رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا علم جمع کیا جائے پھر بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علم ان سے کہیں زیادہ ہوگا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ تمام ازواج مطہرات علم و فضل میں یکتا، عبادت گذار، سخی، حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت اور آپ کا ادب کرنے والی تھیں۔ جنگوں میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہیں بالخصوص جنگ احد وخندق میں زخمی سپاہیوں کی تیمارداری کی اور زخمیوں کو مشکیزے بھر کر پانی پلایا۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا تیر لگنے سے زخمی بھی ہوئیں۔ (بقیہ اگلے شمارے میں)