
الطاہر شمارہ نمبر
43 |
اردو مین پیج |
ذرا کاغان تک
حضرت صاحبزادہ مولانا محمد جمیل عباسی طاہری
فوائد فرمان رسول صلّی اللہ علیہ وسلم
دوسال پہلے لالہ زار کی طرف جاتے ہوئے میں نے جیپ کے اندر بیٹھے ہوئے کنہار کے بہتے ہوئے نیلگوں پانی کے کنارے کنارے چھوٹے سے سبز میدان دیکھے تھے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اس سے پہلے کبھی بھی میری آنکھوں نے اتنا گہرا سبز گھاس نہیں دیکھا تھا۔ آج بھی وہ کنارے میرے اندر اپنے حد درجہ سبزہ کے ساتھ زندہ ہیں۔ میری آنکھوں نے انہیں اپنے اندر محفوظ کرلیا تھا۔ میں گذرے سالوں میں، جب بھی جی چاہتا انہیں آنکھیں بند کرکے دیکھ لیتا تھا۔ اگرچہ اپنے تصورات میں کئی بار ان کے اندر کئی لمحے گذار چکاہوں مگر اپنے ظاہری وجود کے ساتھ میں ان کے اندر پہنچ نہیں پایا تھا۔ میں ان میں جاکر دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کنارے آج بھی زندہ ہیں یا مرجھا گئے ہیں، میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ حقیقت میں بھی اتنے زندہ و سرسبز ہیں یا مجھے گذرتے ہوئے جادونگری دکھائی دی تھی، وہ جادونگری جو مجھ جیسے ناشکرے انسان کے لیے سجائی گئی تھی۔ ہم تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے چل رہے تھے کہ اچانک شام ہوگئی۔ اسی شام کی وجہ سے میں پہلے بھی لٹ چکا تھا۔ اگلی دفعہ لالہ زار جاتے ہوئے جب میں نے ان کناروں کو دیکھنے کے لیے گاڑی روکنے کی خواہش ظاہر کی تھی، دوسرے ساتھیوں نے آگے چلنے پر اصرار کیا تھا کیونکہ ہمیں لالہ زار سے واپس آنا تھا، یہاں رکنے کی صورت میں لالہ زارمیں شام ہوجاتی۔ اسی طرح آج بھی شام نے مجھے محروم کردیا تھا۔ دوست واپسی کے لیے مڑے، میرے اندر اور باہر غم آلود خاموشی چھاگئی، میں اپنے مردہ قدموں کو گھسٹتے ہوئے، دوستوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کے ساتھ ملانے لگا۔ میرا دل ماتم کررہا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کی سب خواہشیں اور خیالات پورے نہیں ہوتے۔ اگر سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق ہونے لگے تو پھر عبدیت کا احساس کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔ ہم اس سنسان روڈ پر تیز تیز چلتے ہوئے ناران کی طرف آرہے تھے۔ اکا دکا کوئی جیپ لالہ زار کی طرف سے نمودار ہوتی تھی اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے ہمیں گھورتی ہوئی گذر جاتی۔ ناران شہر کی دور نظر آنے والی روشنیاں اندھیرے میں جگنو کی طرح چمکتی تھیں۔ اچانک پانچ چھ آدمیوں پر مشتمل غول بیابانی لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ہمارے قریب ہونے لگا۔ وہ اپنے خشونت بھرے چہروں کے اور سرخ آنکھوں کے ساتھ ہمیں گھورتے تھے۔ ہم بھی ان کے سامنے اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے ان پر آنکھیں نکالتے تھے۔ مجھے سلام میں پہل کرنے والی حدیث یاد آئی، میں نے السلام علیکم کہا۔ یہ سنکر وعلیکم السلام کے جواب کے ساتھ چہرے نارمل ہوئے اور آنکھوں سے نرمی جھانکنے لگی اور ہم بھی ریلیکس ہوکر ان کے قریب سے گذرکر آگے کی طرف چلتے گئے۔ صرف ایک محبت بھرے سلام کے ساتھ کرخت چہرے مسکرانے لگتے ہیں، آگ اگلتی ہوئی آنکھوں میں جھیل سی ٹھنڈک در آتی ہے، بغض بھرے دلوں میں محبت بھرنے لگتی ہے۔ یقینا یہ سب میرے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا صدقہ ہے۔ ہم اندھیرے سے نکل کر ناران کی روشنیوں سے بھرے من پسند بازار میں داخل ہوئے اور چکی میں بندھے ہوئے بیل کی طرح وہیں پر چکر کاٹنے لگے۔ میں ناران کی بازار سہارے ان شدید سبز کناروں کو بھلانے کی کوشش کرتا تھا اور بھلائے نہ بھولتا تھا۔
ناتواں بھٹو پر ناگہاں آفت
گھر میں پہنچنے کے بعد ہاتھ منہ دھوکے اپنے تھوبڑے کو بہتر صورت میں لاکے دوستوں کا انتظار کرنے لگے کہ وہ آئیں تو کسی ریسٹورنٹ پر ہلا بولا جائے۔ اتنے میں بھٹو صاحب کھنکارتے ہوئے حاضر ہوئے اور فرمانے لگے کہ سندھ کے ضلع خیرپور کے اسکولز کے اسٹوڈنٹس کی تین بسیں یہاں ٹوئر کے لیے آئی ہیں اور وہ ہوٹلوں میں کمرے نہ ملنے کے سبب نہایت پریشان تھے، تو میں نے انہیں ایک گھر کرایے پر بک کروا کر دیا ہے۔ مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ ناران روڈ پر بھٹو صاحب کو چند اجنبی چہروں کے ساتھ ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے دیکھ کر میں نے سوچا تھا کہ یہاں ناران میں بھٹو صاحب کی کونسی واقفیت نکل آئی ہے۔ ہم کچھ خوش اخلاقی کچھ تکلف کی وجہ سے بھٹو صاحب کی ہمدرد طبعیت کی تعریف کرنے لگے، اتنے میں دروازے کی طرف سے کھٹ کھٹانے کی آواز سنائی دی۔ ہم میں سے کوئی دروازے کی طرف اٹھکر گیا اور آکر کہنے لگا کہ کوئی شخص بھٹو صاحب کو یاد کررہا ہے۔ بھٹو صاحب اٹھے اور دروازے کی طرف گئے۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد دروازے کی طرف سے آنے والے الفاظوں کے تبادلے سے محسوس ہونے لگا مسئلا کچھ گھمبیر ہے۔ میں اٹھا، دروازے پر پہنچ کر دیکھا کہ ایک ہٹا کٹا شخص بھٹو صاحب سے دست و گریباں ہونے کو ہے۔ میں نے بھٹو صاحب سے صورتحال کے متعلق پوچھا، جواباً بھٹو صاحب اپنے ناتواں حال کے ساتھ بتانے لگے کہ جن اسٹوڈنٹس کو میں نے گھر بک کرواکے دیا تھا وہ ایڈوانس دینے کے بعد بسوں سے اپنا سامان لینے کے لیے گئے تھے اور میں یہاں چلا آیا۔ مگر وہ بعد میں گھر کی طرف آئے ہی نہیں اور اب گھر کے مالک ان کے نہ آنے سے مایوس ہوکر میرا گلا پکڑنے آئے ہیں کہ ”بندے پیدا کرو ورنہ پیسے نکالو۔“ نازک صورتحال کے پیش نظر میں نے اپنے چہرے پر احمقانہ قسم کی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھا اور بھٹو صاحب کے گلے پڑے ہوئے شخص سے مخاطب ہواکہ ”سنیے جناب! جنہوں نے آپ کا گھر بک کروایا تھا وہ ہمارے ہوتے سوتے نہیں تھے، صرف ان لوگوں کی پریشانی دیکھ کر بھٹو صاحب کی ہمدرد طبعیت جوش میں آئی تھی اور وہ انہیں آپ کے گھر تک لے آ پہنچے تھے۔ آپ کا گھر انہوں نے بک کروایا تھا، ہمارے بھٹو صاحب کی ذمہ داری ختم ہوئی اور آپ کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے کہ بکنگ کے وقت آپ نے ان سے NIC یا کوئی اور کارڈ لیا ہوگا۔ ناران کو بھٹو صاحب سے زیادہ آپ جانتے ہیں، جائیے اور اپنے گاہک تلاش کیجیے اور بھٹو صاحب کا جو آپ کی طرف کمیشن بنتا ہے وہ بھی بتا کے جائیے اور یہ بھی بتائیے کہ ہم کس وقت آپ سے کمیشن لینے آئیں۔“ کمیشن کا سن کر وہ حضرت کچھ ٹھنڈے پڑگئے ”ارے نہیں صاحب میں تو انہیں تلاش کرتے کرتے آپ کی طرف چلا آیا تھا کہ شاید آپ کے پاس ملنے کے لیے آئے ہوں، میں خود انہیں دیکھتا ہوں شاید کہیں مل جائیں۔“ ہم تو پہلے ہی خدا حافظ گلے میں سنبھالے کھڑے تھے، بھٹو صاحب نے خدا حافظ کہنے کی نیکی حاصل کرنے میں اولیت حاصل کی اور خدا حافظ کا لفظ ختم ہوتے ہی باتھ روم کی طرف دوڑ لگائی۔ سب تیار ہوکر باتھ روم کے دروازے میں نظریں گاڑے بھٹو صاحب کے ظہور کا انتظار کرنے لگے۔ بھٹو صاحب کو بھی متوقع صورتحال سوجھتی تھی لہٰذا وہ اندر ہی چپک گئے۔ عرصہ دراز کے بعد جیسے ہی اندر سے برآمد ہوئے اور ہماری ان پر نظر پڑی تو سب کا مشترکہ قہقہہ گھر کی چھت کو اڑانے لگا۔ بھٹو صاحب نے گلے کو کھنکار کر اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا مگر بچنے کی کوئی راہ نہ دیکھتے ہوئے ہمارے ساتھ ہنسی میں شریک ہوگئے۔ ”بھائی ذرا باہر کا ایک اور چکر لگا لیں ہوسکتا ہے کوئی اور بھی مجبور کسی ہمدرد کی تلاش میں ہو“ کسی نے آواز لگائی۔ ”بھئی مجھے کیا پتا تھا کہ میرے ساتھ ایسا حشر ہوگا، میری توبہ، ایسی ہمدردی سے میں باز آیا۔“ بھٹو صاحب جو کچھ دیر پہلے اپنے بارے میں توصیفی جملے سنتے ہوئے باربار گلے کو کھنکارتے تھے اب توبہ تلا میں مصروف تھے۔ کھانا کھاکر جیسے ہی فارغ ہوئے تو ریسٹورنٹ کے سامنے کچھ نوجوان کندھوں پر اجرک اور سر پر سندھی ٹوپی لیے دکھائی دیے۔ الطاف صاحب کہنے لگے یہی وہ اسٹوڈنٹس ہیں جن کو بھٹو صاحب نے گھر بک کروا کر دیا تھا۔ ان صاحبوں کی نظر بھٹو صاحب پر پڑ چکی تھی، لہٰذا وہ باہر کھڑے ہوکر بھٹو صاحب کے فارغ ہونے کا انتظار کررہے تھے، مگر اس بار بھٹو صاحب نے انہیں دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی تھی۔ کچھ دیر کھڑے وہ بھٹو صاحب کی طرف دیکھتے رہے، مگر شناسائی کی کوئی امید نہ پاکر مایوس ہوکر چلے گئے۔ بھٹو صاحب نے بھی ان کی روانگی پر اطمینان محسوس کیا۔ چونکہ مجھے کچھ نقشے، گائیڈ بک اور پوسٹ کارڈز خریدنے تھے، لہٰذا میں باقیوں سے علیحدہ ہوکر نکل گیا۔ خوش قسمتی سے دوکان پر چوہدری طارق یعقوب صاحب سے ملاقات ہوگئی جو اس دوکان کے مالک تھے۔ کاغان کے بارے میں مختلف قسم کے پوسٹ کارڈ، گائیڈ بکس وغیرہ چھاپتے رہتے ہیں۔ طارق یعقوب صاحب انتہائی پر خلوص آدمی محسوس ہوئے، کاغان کے بارے میں جتنی تفصیل مجھے چاہیے تھی اس سے زیادہ مجھے انہوں نے اس سے آگاہ کیا۔ واپسی پر جب میں چلتا ہوا ایک دوکان کے سامنے سے گذرنے لگا تو اندر سے منیر صاحب کا بلاوا سنائی دیا۔ منیر صاحب اور طیب صاحب دوکان کے اندر مختلف قسم کے سوئیٹرس، جیکیٹس اور جرسیاں اپنے سامنے پھیلائے ہوئے انتخاب میں مصروف تھے۔ میں اگر چہ اپنے کوٹے کے مطابق جرسیوں کی خریداری مکمل کرچکا تھا مگر یہاں ایسی جرسیاں دکھائی دیں جن کو خریدنا میری مجبوری بن گئی۔ ان میں سے ایک جرسی مجھے اپنی خریداری کی پالیسی کے مطابق دکھائی دی۔ مجھے وہ چیز خریدنا زیادہ اچھا لگتا ہے جو ارادہ نہ ہونے کے باوجود خوامخواہ خریدنے کو دل چاہے۔ مثلاً آپ سن گلاسز خریدنے گئے ہوں، واپسی میں گلاسز کے بجائے جوتا بغل میں دبائے ہوئے لوٹیں۔ ایسی چیزیں مجھے خوش کردیتی ہیں (آپ اس سے جوتا مراد مت لیجیے گا)۔ یہاں بھی ایسی جرسی دکھائی دی جو خوامخواہ خریدنے کو دل کرتا تھا۔ یہ مجھے علم نہیں تھا کہ طیب بھی اسی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جب میں نے دوکاندار صاحب کو جرسی پیک کرنے کے لیے کہا تو طیب نے دوکاندار کو کہا کہ ایک میرے لیے بھی پیک کردیں ”ہیں! بھئی تم کیوں پیک کروارہے ہو“ میں چونک اٹھا۔ ”بھئی میں بھی خریدرہا ہوں۔“ ”بھئی تم کوئی اور خرید لو۔“ ”میں کوئی اور کیوں خریدوں، میں تمہارے آنے سے پہلے ہی اس کو پسند کرچکا ہوں۔“ ”یار تم کوئی اور خرید لو۔“ ”ارے بھئی اتنی مشکل سے تو کوئی چیز ہاتھ آئی ہے۔“ ”توپھر ٹھیک ہے دونوں خرید لیتے ہیں کیا حرج ہے۔“ ”او میرے بھائی مان لیا کہ ہم دونوں آپس میں کزن لگتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بنجمن سسٹرس کی طرح ایک جیسا لباس پہننا شروع کردیں، تو کوئی اور کلر پسند کرلے۔“ مگر طیب تھے کہ ماننے کو ہی نہ آتے تھے، ہم دونوں ایک دوسرے کو دلیل و دلائل کے ساتھ قائل کرنے لگے لیکن دلیلوں کے ذریعے کب کوئی قائل ہوا ہے۔ آخرکار دلیل و دلائل چھوڑ کر آزیوں نیازیوں پر اتر آئے۔ نتیجتاً طیب صاحب نے مجھ پر مہربانی کرتے ہوئے قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور وہی ڈیزائن مختلف کلر میں پسند کیا۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہرخواہش پہ دم نکلے
دوسری صبح سارے جلد تیار ہوئے، حتیٰ کہ ناشتہ بھی وین میں بیٹھ کر کیا۔ ناشتے کے بعد وین ہمیں اپنے اندر سموئے ہوئے ناران کو پیچھے چھوڑتی کیمپنگ ایریاز اور گلیشیر سے گذرتی ہوئی بالاکوٹ کی طرف روانہ ہوگئی۔ ناران سے واپسی کا غم مجھ پر حاوی ہونے لگا، لیکن آوارہ گرد یا سیاح جب کسی بھی جگہ پر پہنچتا ہے تو اس کو پہلے سے ہی اپنی واپسی کا یقین ہوتا ہے، کیونکہ اگر وہ کسی جگہ پر مستقل قیام پذیر ہوجائے تو وہ اپنی آوارہ گردی اور سیاحت والی وصف سے محروم ہوجائے گا۔ سیاح ہمیشہ کسی جگہ پر چند دنوں کے لیے پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ہاں یہ بات علیحدہ ہے کہ اس مقام سے جدا ہونے کا درد کسی مقیم سے زیادہ محسوس کرتے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ اس درد کی لذت ہی سیاح کو دوبارہ گھر چھوڑ کر دربدر ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ کاغان شہر سے دور نکل آنے کے بعد میں نے سیٹ پر پڑے ہوئے گائیڈ بک کو اٹھایا اور اسکی ورق گردانی کرنے لگا۔ گائیڈ بک میں شڑاں کی تصویر دیکھ کر میرا تصور شڑاں کی خیالی تصویر میرے ذہن میں پینٹ کرنے لگا۔ میں شڑاں کی خوبصورتی کے بارے میں کافی سارے لوگوں سے سن چکا تھا۔ بالاکوٹ میں ریسٹ ہاؤس کے مالک سے ہم نے شڑاں کے لیے جیپ بک کرانے کی بات کی تھی، لیکن اس نے یہ کہہ کر ہماری آرزؤں پر پانی پھیرا تھا کہ شڑاں کا راستہ حد سے زیادہ خطرناک ہے اور آج کل تو ایک دو جگہ سے لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے روڈ ٹوٹ چکا ہے۔ اس کی ہولناک باتیں سن کر ہم نے اپنا ارادہ کینسل کردیا تھا۔ مگر اس دفعہ گائیڈ بک میں موجود شڑاں کی تصویر دیکھ کر میری دل میں دبی ہوئی خواہش دوبارہ سر اٹھانے لگی تھی۔ (بقیہ آئندہ )