الطاہر

الطاہر شمارہ نمبر 43
محرم الحرام ۱۴۲۸ھ بمطابق فروری ۲۰۰۷ع

اردو مین پیج

الطاهر اوپن فورم

 

قارئین الطاہر کی دلچسپی کی وجہ سے الطاہر اوپن فورم کا سلسلہ کامیابی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ گذشتہ شمارہ کے موضوع ”خدمت خلق کی اہمیت“ پر احباب نے تحریریں بھیجیں۔ ایڈیٹوریل بورڈ کے فیصلے کے مطابق اس مرتبہ حنا سحر طاہری کی تحریر انعام یافتہ قرار پائی۔ انعام کے طور پر ان کی طرف کتاب ”راہِ حقیقت“ بھیجی جارہی ہے۔ آئندہ اوپن فورم کا عنوان ہے ”آیتِ کریمہ وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّا رَحمَۃ لِلعٰلمِین“۔ مضمون بھیجنے کی آخری تاریخ 10 مارچ 2007 ہے۔ مراسلہ نگار مضمون کے ساتھ اپنا ایڈریس ضرور تحریر فرمائیں۔

 


انعام یافتہ تحریر

حنا سحر طاہری
طالبہ مدرسہ انوار طاہریہ نقشبندیہ ٹنڈوالہیار

خدمت خلق کی اہمیت

خدمت کے معنیٰ ہیں اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لیے وقف کردینا۔ اپنی نفسانی اور دنیاوی خواہشات کو پیچھے چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت کرنا جیسا کہ ہمارے آقائے نامدار آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار تھا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے خدمت خلق کا عملی نمونہ ہے۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کی خدمت کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اپنے سخت ترین دشمن کے ساتھ بھی اخلاقیات کے اصول قائم رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ کفار قبیلے کی ضروریات کا بھی نہایت خیال رکھتے اور ان کی مدد کرنے میں ہمیشہ خوشی محسوس کرتے، بلکہ بہت سے کافر آپکا اخلاق، کردار دیکھ کر ایمان لے آئے اور مسلمان ہوگئے۔ حدیث شریف میں ہے ”خیر الناس من ینفع الناس۔“ لوگوں میں اچھا وہ ہے جو دسروں کو نفع دیتا ہے۔ اس دنیا میں عشرت و کامیابی انہیں لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو خلق خدا کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

صحابہ کرام کا یہ عالم تھا کہ ایک صحابی ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر ایک مسافر حاضر ہوا۔ وہ شخص بھوکا تھا۔ گھر میں کھانا صرف اتنا تھا کہ بچوں کا پیٹ بھر سکتا تھا۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیوی سے کہا کہ بچوں کو بغیر کھانا کھلائے سلادو اور جب مہمان مسافر کے سامنے کھانا رکھو تو چراغ ٹھیک کرنے کے بہانے بجھادینا۔ اس طرح ہم یہ ظاہر کریںگے کہ ہم مہمان کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں، اس طرح وہ مہمان اطمینان سے کھانا کھالے گا۔ غرض اس طرح خود بھوکا رہ کر خدمت خلق کا حق ادا کیا۔ اگر ہم ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچیں تو ہمیں اپنے اندر بے شمار اخلاقی برائیاں نظر آئیں گی۔

اس واقعے پر میں یہی کہوں گی کہ کیا ہمارے اندر خدمت خلق کا صحابہ کرام جیسا جذبہ ہے؟ بلکل نہیں۔ ہمارے نوجوانوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ خدمت خلق کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ کسی ضعیف کو سڑک پار کرواتے وقت انہیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تو انہوں نے بہت پیچھے چھوڑدیا ہے۔ نیو جنریشن کا تقاضہ یہ ہے کہ صرف اپنا فائدہ دیکھنا ہے۔ گاڑیاں اس تیز رفتاری سے چلائی جاتی ہیں اور کسی کو پرواہ نہیں ہوتی، کیونکہ ان کا اپنا مفاد تو پورا ہوجاتا ہے۔ انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ اخلاقی خدمت بھی کچل کر رہ جاتی ہے۔ اگرکوئی غریب یا ضرورت مند ہم سے کوئی چیز مانگ لے توہم نہایت تلخ رویے سے وہ چیز دینے سے انکار کردیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کے حقوق کی کتنی تلقین فرمائی ہے۔ ہمیں حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی نفسانی و دنیاوی ضروریات کو نظر انداز کرکے دوسروں کی ضروریات کو اہمیت دینی چاہیے خدمت خلق اپنانی چاہیے اور ہمیں ہمارے پیر و مرشد محبوب قبلہ سجن سائیں کی صحبت اپنانی چاہیے، کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی خدمت خلق کے لیے وقف کررکھی ہے۔ انہی کی صحبت اور مریدی میں رہتے ہوئے ہمارے سوئے ہوئے قلب جاگ سکتے ہیں اور ہمارے اندر خدمت خلق کا جذبہ بیدا ہوسکتا ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ دنیاوی رنگوں میں کھونے کے بجائے مخلوق خدا کی خدمت کرتے رہیں اور اسے فائدہ پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اسی طرح ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی مل سکتی ہے اور یہی خیر الناس بننے کا طریقہ ہے۔


 

شاذیہ اقبال طاہری۔ کالج ٹاؤن وہاڑی

شروع اس رب کے نام سے جو حاضر و ناظر ہے، جس نے اس کائنات کو تخلیق فرمایا۔ اللہ نے انسان کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بے شمار چیزیں پیدا کیں اور وہیں انسان کی روحانی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے انبیاء کرام کا سلسلہ شروع کیا تاکہ انسان کو جہالت کی وادی سے نکال کر روشن اور منور مقام پر لے جائے۔ دستور اسلام کے مطابق انسان پر دو حقوق کا ادا کرنا لازم و ملزوم ہے اور وہ ہیں ۱۔ حقوق اللہ ۲۔ حقوق العباد۔

ارشاد ربانی ہے: ”میں اپنے حقوق تو معاف کرسکتا ہوں لیکن اپنے بندے کے حقوق معاف نہیں کروں گا۔“

اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کے ایک دوسرے پر بڑے حقوق و فرائض ہیں جن کا خلوص نیت کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔

حقوق کی مختلف صورتیں ہیں مثلا: والدین کی اطاعت، بیواؤں اور مسکینوں کے حقوق، رشتہ داروں اور مسافروں کے حقوق وغیرہ۔ اب ہم اصل عنوان کی طرف آتے ہیں جس کا عنوان ہے ”خدمت خلق۔“ خدمت کے معنیٰ تابعداری کے اور خلق کے معنیٰ مخلوق انسان وغیرہ مخلوق خلق کی جمع ہے۔

اصطلاحی طور پر خدمت سے مراد خدا کی پیدا کردہ مخلوق کی کسی لالچ و حرص کے بغیر مدد کرنا، فائدہ دینے کی کوشش کرنا اور نقصان سے بچانا۔

خدمت خلق کے بارے میں ہمیں جامع اور مکمل مثال حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ملتی ہے۔

ارشاد ربانی: ”وَمَا اَرسَلنٰکَ الَّا رَحمَۃَ للعَالمین۔“

اور نہیں بھیجا تم کو ہم نے مگر جہاں کے لیے رحمت بنا کر۔

اس سے یہ بات مکمل طور پر کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم تمام انسانیت کے لیے رحمت تھے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں کیساتھ بھی رحمدلی سے پیش آتے اور ہر ممکن طریقے سے ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سخت سے سخت اور زہر بھری بات کا بھی نہایت تحمل اور خوش اسلوبی سے جواب دیتے کہ سننے والا اس کا قائل ہوجاتا۔ ارشاد ربانی ”لقد کان کم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ۔“ بے شک رسول کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ نکات: صبر و تحمل، مساوات، عدل و انصاف، سچی گواہی، بھوکے کو کھلانا، مسکین کی مدد، جانوروں پر رحم و شقت، غرور و تکبر سے اجتناب وغیرہ۔