پچھلا صفحہ

[ فہرست ]

جلوہ گاہِ دوست

اگلا صفحہ

 

ضرورتِ تصوّف

 

بنیادی طور پر نفس انسان کو نیک کاموں سے روکتا اور برائیوں پر اکساتا ہے۔ اِنَّ النًّفْسَ لَاَمَّارۃٌ بِالسُوْءِ اِلَّامَارَحِمَ رَبِّی (بے شک نفس برائی کا حکم دیتا ہے مگر جس پر میرے رب نے رحم فرمایا)۔ بلاشبہ نفس انسان کو جھوٹ، فریب، حسد، دھوکہ دہی، قتل و غارت گری جیسی برائیوں پر آمادہ کرتا ہے، اور جو انسان اسکا کہا مانتا ہے وہ عند اللہ ناکام و نامراد ہوجاتا ہے۔ جبکہ وہ خوش قسمت انسان ہے جو اسکا کہا نہیں مانتا، بلکہ نفس کو اپنے زیر کرلیتا ہے اور تمام اخلاقی آلائشوں سے پاک رہتا ہے اور احکام الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ اس طرح وہ کامیاب و کامران ہوجاتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھا۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہا۝ (بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے نفس کو پاک کیا اور وہ نامراد ہوا جس نے اس کو خاک میں ملادیا)۔

نفسانی عیوب: عیب تین قسم کے ہیں۔ 1؂ بدعقائد 2؂ بد اعمال 3؂ غفلت۔ ان ہی پر انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ہے۔ تصوف و سلوک کے ذریعے ایک سالک ان عیبوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ فرماتے ہیں ہمارے طریقہ عالیہ نقشبندیہ کا مدار تین چیزوں پر ہے۔ اول اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدوں پر پختہ ہونا، دوم دوام حضور، سوم عبادت۔ جس کسی نے ان تینوں میں سے ایک میں بھی کوتاہی کی تو وہ ہمارے طریقہ عالیہ سے نکل گیا۔ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں کہ عزت دیکر پھر ذلیل نہ کرے اور قبول کرکے رد نہ کرے۔

حضرت امام ربانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں: مقصود از سلوکِ طریقِ صوفیہ حصولِ از یادِ یقین است بمعتقداتِ شرعیہ کہ حقیقت ایمان است ونیز حصولِ سیر است در احکامِ فقہیہ نہ امر دیگر ورائے آں۔

ترجمہ: صوفیاء کے طریقہ پر چلنے کا مقصد یہ ہے کہ شریعت کے عقائد پر یقین میں اضافہ ہو جو کہ ایمان کی حقیقت ہے، ساتھ ہی فقہی احکام یعنی نماز روزہ وغیرہ ادا کرنے میں آسانی پیدا ہو (اسلئے کہ شیخ کامل کی صحبت کی برکت سے اعمال صالحہ کا شوق پیدا ہوتا ہے) اسکے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں۔

اسی موضوع پر مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں: ان حضرات کے نزدیک تصوف کا مفہوم محض اس قدر تھا کہ اتباع کتاب و سنت میں انتہائی سعی کی جائے، اسوۂ رسول صلّی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو دلیلِ راہ رکھا جائے اور اوامر و نواہی کی تعمیل کی جائے، طاعات و عبادات کو مقصودِ حیات سمجھا جائے، قلب کو محبت و تعلق ماسوا سے الگ کیا جائے، نفس کو خشیت الٰہی سے مغلوب کیا جائے اور صفائی معاملات و تزکیۂ باطن میں جہد و سعی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہونے پائے۔

برصغیر پاک و ہند کے مشہور عالم و عارف حضرت الحاج فقیر اللہ علوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ جن کی بین الاقوامی شہرت یافتہ کتاب ”قطب الارشاد“ کے متعلق ولی کامل مرشدی حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہٗ فرمایا کرتے تھے کہ یہ کتاب حضرت امام غزالی قدس سرہٗ کی مشہور و معروف کتاب احیاء علوم الدین کے پائے کی کتاب ہے، کتابِ مذکور کے صفحہ نمبر 532 میں فرماتے ہیں۔

اِنَّ الْعُلَمَآءَ مِنَ الْمُتَکَلِّمِیْنَ وَالْفُقَہَاءِ وَالْمُحدِّثِیْنَ الْمُجْتَہِدِیْنَ وَالْصُوْفِیَۃَ الْوُجُوْدِیَۃَ وَالْشُہُوْدِیَۃَ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّ طَرِیْقَ الْصُوْفِیَۃِ اَصْوَبُ الطُّرُقِ اِلَی اللہ دَائِر عَلیٰ الْکِتَابِ وَالْسُنَّۃِ خَالٍ عَنِ البِدَعِ وَالضَّلَالِ۔ بلاشبہ علماء متکلمین، فقہاء، محدثین، مجتہدین، صوفیاء کرام خواہ توحید وجودی کے قائل ہوں یا توحیدِ شہودی کے قائل، سبھی کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ صوفیاء کرام کا طریقہ بارگاہ الٰہی تک پہنچنے کا درست ترین طریقہ ہے جو کہ قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔ گمراہی اور بدعتوں سے خالی ہے۔

اسی صفحہ میں اپنے دعویٰ کے ثبوت میں حضرت الحاج فقیر اللہ علوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب المُنْقِذُ مِنَ الضَّلالِ میں مذکور آپ بیتی ان ہی کی زبانی نقل کی ہے۔

عَلِمْتُ یَقِیْنًا اَنَّ الصُوْفِیۃَ ھُمُ السَّالِکُونَ لِطَرِیْقِ اللہ خَاصَّۃً وَاَنَّ سِیْرَتَہُمْ اَحْسَنُ السِیَرِ وطَرِیْقَہُمْ اَصْوَبُ الطُرُقِ وَاَخْلاقَہُمْ اَزْکیَ الْاَخْلَاقِ فَاِنَّ حَرَکَاتَہُمْ وَ سَکَنَاتَہُمْ فیْ ظَاھِرِھِمْ وَبَاطِنِہِمْ مُقْتَبِسَۃٌ مِنْ مِشْکَوٰۃِ النُّبُوَۃِ وَلَیْسَ وَرَاءَ النُبُوَّۃِ عَلیٰ وَجْہِ الاَرْضِ نُوْرٌ یُسْتَضآءُ بہٖ۔ میں نے یقین سے جان لیا ہے کہ بلاشبہ صوفیاء کرام ہی خدا تعالیٰ کے راستے پر گامزن ہیں اور ان کی سیرت احسن سیرت ہے اور انکا طریقہ تمام دوسرے طریقوں سے بہتر طریقہ ہے اور انکے اخلاق تمام اخلاق میں عمدہ ہیں اور انکے حرکات و سکنات ظاہر میں اور باطن میں نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ اطہر سے اخذ کیے ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ روئے زمین پر نورِ نبوت صلّی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی نور ہے ہی نہیں جس سے روشنی حاصل کی جاسکے۔

جیسا کہ حضرت علوی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا کہ تصوف و طریقت قربِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہیں، کوئی اور منزلِ مقصود نہیں ہے۔ سالک کی آخری منزل معرفت اور قربِ خداوندی ہے جس کے حصول کے لیے صوفیائے کرام نے مختلف ادوار و اوقات میں مختلف ذرائع و اسباب سے استفادہ کیا ہے، اختصار کے پیش نظر ہم یہاں صرف وہ اصول و ضوابط تحریر کریں گے جو ہمارے مشائخ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں معمول و مروج ہیں۔