علامات مرشد کامل
تصوف و طریقت کے ضمن میں تو شیخِ کامل کی علامات کا ذکر اجمالاً
ہوا، تاہم یہاں مزید وضاحت سے مرشد کامل کی علامات بیان کی جاتی ہیں
تاکہ کوئی لاعلم نووارد شخص پیر و مرشد کے نام پر کسی رسمی پیر کے ہتھے
نہ چڑھ جائے، جس سے اسے بجائے فائدہ کے نقصان ہو۔ اس اہم موضوع پر
طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے مشہور شیخ حضرت حاجی دوست محمد قندھاری قدس
سرہٗ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:
ولی کی پہلی علامت یہ ہے کہ عقائد کے لحاظ سے مکمل سنی ہو، بالفاظہ
علامتِ ولی آن است کہ اولاً بر اعتقاد اہل سنت وجماعۃ معتقد و راسخ
باشد۔
ترجمہ: ولی کی علامت یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ اہل سنۃ والجماعۃ کے
پختہ عقائد رکھتا ہو۔
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے بھی خواجہ جمال الدین
حسین علیہ الرحمۃ کے نام تحریر کردہ اپنے مکتوب میں مرضیات حق جلّ
تعالیٰ سبحانہٗ یعنی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ امور میں عقائد اہل السنۃ
کو سرِ فہرست ذکر کیا۔ آپ نے تحریر فرمایا۔
اولا تصحیح عقائد بمقتضائے آرائے صائبہ اہل السنۃ وجماعۃ
شَکَرَ اللہ تَعالیٰ سَعْیھُمْ لازم داند، ثانیا عمل بموجب
احکامِ شرعیہ فقہیہ و ثالثا سلوک طریقہ عالیہ صوفیہ قدس اللہ
تعالیٰ اسرارہم وَ مَنْ وُفِّقَ لِہٰذَا فَقَدْ فَازَ فَوْزًا
عَظِیْمًا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْ ھٰذَا فَقَدْ خَسِرَ
خُسْرَانا مُبِیْنا (مکتوب ۱۷۷ دفتر اول حصہ سوم) |
سب سے پہلے اپنے عقائد اہل سنت والجماعت کے مطابق بنانے کو
ضروری سمجھیں۔ دوسرا شرعی فقہی احکام کے مطابق عمل کریں۔ تیسرا
صوفیائے کرام کے طریقہ پر چلیں۔ جس شخص کو بھی ان کاموں کی
توفیق حاصل ہوئی اسے بڑی کامیابی حاصل ہوگئی اور جو اس سے
محروم رہا وہ بڑے خسارے میں مبتلا ہوگیا۔ |
حضرت حاجی دوست محمد قندھاری علیہ الرحمۃ نے امر ثالث کی مزید وضاحت
کرتے ہوئے فرمایا۔
مقامات عشرہ صوفیہ علیہم الرحمۃ چنانچہ توبہ و انابۃ و زہد
و ورع و صبر و شکر و توکل و تسلیم و رضا اجمالاً یا تفصیلاً
حاصل نمودہ باشد و ایضا صحبتِ اورا اثرے و تاثیرے باشد کہ
محبتِ دنیا و اہل دنیا بر دل ہم نشینان اوسر شود و غفلت از ہم
صحبتانِ وے برطرف گردد، و ہمان ولی مذکور خود را از جمیع
مخلوقات کم تر و بدتر داند نہ آنکہ ثنائے خود بزبان خود کند و
باخلاق حمیدہ و اوصاف پسندیدہ از تواضع و علم و تحمل و بردباری
و مروت و فتوت و سخاوت و تازہ روئی و نیک خلقی و راستی و عجز و
نیاز و کم آزاری و پرہیز گاری از حرام و مشتبہ و مکروہ موصوف
باشد۔ الغرض باتیان تمامی اعمال خیر آراستہ باشد و در جمیع
امور باخلاق سرور عالم صلّی اللہ علیہ وسلم متخلق بود، پس صحبت
ایں چنیں شخص نعمتے است عظمیٰ و دولتے است کبریٰ۔
(مکتوب 19 صفحہ نمبر) |
صوفیاء کرام کے بیان کردہ مقامات عشرہ: توبہ یعنی رجوع الی
اللہ، زہد یعنی دنیا سے بے رغبتی، پرہیز گاری، صبر و شکر،
توکل، تسلیم و رضا اجمالاً یا تفصیلاً حاصل کرچکا ہو، نیز اس
کی صحبت میں یہ تاثیر ہو کہ جو اس کی ہم نشینی اختیار کرے اس
کا دل دنیا اور دنیا داروں سے لاتعلق ہوجائے اور اسکے ہم
نشینوں کے دلوں سے غفلت دور ہوجائے، نیز وہ بزرگ اپنے آپ کو
جمیع مخلوقات سے کم تر بلکہ بدتر جانتا ہو۔ اپنی تعریف خود نہ
کرے اور وہ اخلاق حمیدہ اور اوصاف پسندیدہ مثلاً تواضع، علم،
برداشت و بردباری، مروت و سخاوت اور خندہ پیشانی، خوش خلقی،
سچائی، عجز و انکساری، سے موصوف ہو۔ دل آزاری سے حتی الوسعۃ
دور رہتا ہو۔ حرام مشتبہ اور مکروہ سے پرہیز جیسے اوصاف سے
موصوف ہو۔ غرضیکہ وہ تمام اچھے اعمال سے آراستہ ہو اور تمام
امور میں نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے متخلق ہو۔
پھر ایسے شخص کی صحبت نعمۃ عظمیٰ ہے اور بہت بڑی دولت۔ |
|