پچھلا صفحہ

[ فہرست ]

جلوہ گاہِ دوست

اگلا صفحہ

 

فضیلت سلسلہ عالیہ نقشبندیہ

 

اہل السنۃ والجماعۃ کے تمام مسالک برحق ہیں۔ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور دوسرے طریقے، انکے مشائخ قابل قدر و قابل تعظیم ہیں۔ لیکن صوفیائے کرام کے دوسرے سلاسلِ طریقت سے طریقہ عالیہ نقشبندیہ کو کئی وجوہ سے فضیلت حاصل ہے۔

اول: اس سلسلہ کی ابتدا میں ذکر قلبی ہے، جس میں جذب ربانی ہے۔ جبکہ ذکر زبانی میں سلوک ہے۔ جذب اور سلوک دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔ سلوک میں بندہ ذکر اذکار اور ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے خدا تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ جذب میں جو کہ ذکر قلبی کے ذریعے پیدا ہوتا ہے، خدا خود بندہ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔

مولانا عبدالرحمٰن جامی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند
کہ برند از رہِ پنہاں بحرم قافلہ را

از دلِ سالک رہِ جاذبۂ صحبتِشاں
می برد وسوسۂ خلوت و فکر چلہ را

(حضرات نقشبند عجب قافلہ کے سالار ہیں کہ اپنے متعلقین کو پوشیدہ طریقہ سے بارگاہ الٰہی تک لیجاتے ہیں۔ انکی صحبت کی کشش سالک کے دل سے خلوت کے خیال اور چلہ کشی کے فکر کو ختم کردیتی ہے۔)

دوم: سلسلہ نقشبندیہ کی فضلیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اتباع رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کی ترقی و کمال کا تمام تر انحصار اتباعِ سنت پر ہے اور قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق محبوبیت الٰہی کے مقام پر فائز ہونے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہ۝ اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بتائیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابعداری کرو اللہ تمہیں اپنا دوست بنائے گا۔

سوم: سلسلہ نقشبندیہ کے اقرب طرق یعنی خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کا سب سے نزدیکی راستہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سلسلہ میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے کا وسیلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جو کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں۔ ظاہر ہے وسیلہ جس قدر قوی ہوگا راستہ اتنی ہی جلدی اور آسانی سے طے ہوگا۔

چہارم: جہاں پر دوسرے طریقوں کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے اس طریقہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس طرح یہ طریقہ وصول الیٰ اللہ کا قریب ترین راستہ ہے۔ حضرت امام ربانی مجدد منور الف ثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: ”مشائخ طریقہ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرار ہم ابتدائے سیر از عالم امر اختیار کردہ اند۔۔۔ تا۔۔ مندرج گشت“۔

ترجمہ: سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مشائخ نے سیر باطنی کی ابتدا عالم امر سے اختیار کی ہے، عالم خلق کو اسی کے ضمن میں طے کرلیتے ہیں۔ برخلاف دوسرے طریقوں کے مشائخ کے کہ وہ سیرکی ابتدا عالم خلق سے کرتے ہیں اور وہ عالم خلق طے کرلینے کے بعد ہی عالم امر میں قدم رکھتے اور مقام جذبہ میں پہنچتے ہیں۔ یہی و جہ ہے کہ طریقہ نقشبندیہ تمام طریقوں سے اقرب ہے اور یقینی طور پر دوسروں کی انتہا اسکی ابتدا میں ہے۔

اسی موضوع پر حضرت خواجہ احمد سعید فاروقی قدس سرہٗ لکھتے ہیں ”اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے لو لگانے کی کمی ہوگئی ہے، اس لیے صوفیائے نقشبند ایسے طالب کو پہلے ذکر قلبی کا طریقہ سکھاتے ہیں اور بجائے ریاضات و مجاہدات شاقہ کے عبادات کا حکم فرماتے ہیں اور تمام حالات میں اعتدال قائم رکھتے ہیں اور ان نقشبندی صوفیائے کرام کی توجہات دوسروں کی کئی چلہ کش توجہات سے بہتر اور اعلیٰ ہوتی ہیں اور طالبوں کو سنت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور بدعۃ سے اجتناب کا حکم فرماتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے ان کے حق میں رخصت پر عمل تجویز نہیں فرماتے۔ اسی لیے ان بزرگوں نے ذکر خفی کو اپنا طریقہ اختیار فرمایا۔