پچھلا صفحہ

[ فہرست ]

جلوہ گاہِ دوست

اگلا صفحہ

 

بیعت

 

تصوف کی راہ میں بیعت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بغیر کامل فائدے کا حصول ناممکن ہے اور یہ قرآن حکیم و احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔ جس طرح قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ إِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّہَ۝ تحقیق وہ لوگ جو آپ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے ہیں در حقیقت وہ خدا تبارک و تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں۔

بیعت کی معنیٰ: بیعت کی لغوی معنیٰ حوالے کرنا، سپرد کرنا، فروخت کرنا کی جاتی ہے۔ تصوف میں مرید کا اپنے شیخ کامل کے ہاتھ پر اپنے نفس کو سپرد کرنے اور فروخت کرنے کا نام بیعت ہے۔ یعنی اپنے تمام تر ارادوں و اختیارات اور خواہشات نفسانی کو ختم کرکے خود کو شیخ کامل کے حوالے کردے اور راہ سلوک میں اس کی رضا و منشا کے خلاف کوئی بھی قدم نہ اٹھائے۔ اور اگر اس کے بعض احکام مرید کو صحیح معلوم نہ ہوں تو اس کو اپنے عقل کا قصور سمجھے اور ان افعال و اقوال کو افعال خضر علیہ السلام کے مثل سمجھے۔ گویا کہ اپنے شیخ کے ہاتھوں میں مردہ بدست زندہ بن کر رہے۔ اس کو ہی بیعت سالکین کہا جاتا ہے اور یہی مقصود مشائخ مرشدین ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو خدائے عزوجل تک آسانی سے رسائی حاصل کرواتا ہے۔ یہی بیعت آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے لی۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ ہر آسانی و دشواری، ہر خوشی و ناگواری میں حکم سن کے قبول کریں گے اور اس حکم کی اطاعت کاملہ کریں گے اور صاحب حکم کے کسی حکم میں چوں چرا نہیں کریں گے۔ شیخ کامل کا حکم بھی درحقیقت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی ہوتا ہے، کیونکہ ولی کامل نائب رسول صلّی اللہ علیہ وسلم ہوتا ہے اور ولی کامل کی تعریف ہی یہی ہے کہ جو کامل طریقے سے اتباع رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم پر کاربند ہو۔ تو اس کا کوئی بھی حکم شریعت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہیں ہوگا، اس طرح شیخ کامل کا حکم رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کا ہوا اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا حکم اللہ کا حکم ہے اور اللہ عزوجل کے حکم میں مجال دم روا نہیں۔

بیعت کی حیثیت و اہمیت: ائمہ دین اور مشائخ طریق کا اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا بیعت فرض ہے یا واجب، سنت ہے یا مستحب۔ جو افراد بیعت کو فرض کا درجہ دیتے ہیں وہ اپنے مؤقف کے لیے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کو دلیل بتاتے ہیں۔ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَابْتَغُواْ إِلَیہِ الْوَسِیلَۃَ وَجَاہِدُواْ فِی سَبِیلِہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۝

ترجمہ: اے ایمان والو خدا سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور خدا تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو تاکہ تم کامیابی حاصل کرو۔

دوسری آیت میں ہے وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ۝ اور اس شخص کے راستے کی پیروی کرو جو میری طرف رجوع کرتا ہو۔

چونکہ مذکورہ دونوں آیات میں امر کا صیغہ لایا گیا ہے، اس لیے بیعت کو فرض سمجھا گیا اور اس کے ساتھ جب بیعت علم الاحسان کا دروازہ ہے تو اس کی فرضیت میں کیا شبہ ہے کیونکہ یہی عبادات کا مغز ہے۔

بعض مفسرین کرام جو وجوب بیعت کے قائل ہیں انہیں دو مذکورہ آیات کی تفسیر کرتے لکھتے ہیں کہ صیغہ امر وجوب کی تعریف میں آتا ہے اور اگر بیعت فرض ہوتی تو اس کا انکار کرنے والا کافر ہوتا، حالانکہ علماء کا اتفاق ہے کہ بیعت سے انکار کرنے والا کافر نہیں ہے۔ اکثر علماء کا یہ خیال ہے کہ صیغہ امر سے مراد استحاب ہے، دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ اگر بیعت فرض یا واجب ہوتی تو اس کے ترک کرنے والے کے لیے شارع علیہ السلام کے طرف سے کوئی وعید ہوتا اور اس کو ترک کرنے والا فاسق ہوجاتا مگر شریعت میں ایسا کوئی امر نہیں ہے اور طریقت شریعت کی ہی تابع ہے۔

بیعت کا سنت ہونا: احادیث مشہور میں نقل کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کرتے تھے۔ اکثر ارکان اسلام پر استقامت کے لیے بیعت کرتے تھے۔ کبھی معرکوں میں ثابت قدم رہنے کے لیے، کبھی ہجرت کے لیے تو کبھی جہاد کے لیے جیسے بیعت رضوان۔ قرآن کریم میں ان بیعتوں کا تذکرہ موجود ہے۔ سورہ فتح میں ارشاد ہے

إِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّہَ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْدِیہِمْ فَمَن نَّکَثَ فَإِنَّمَا یَنکُثُ عَلَی نَفْسِہِ وَمَنْ أَوْفَی بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللَّہَ فَسَیُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا۝

آیت ۱۰ سورہ الفتح

ترجمہ: جو لوگ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کررہے ہیں وہ در حقیقت اللہ عزوجل کی بیعت کررہے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ پھر جو شخص بیعت کو توڑے گا تو بیعت توڑنے کا وبال اسی پر ہوگا، اور جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا جس کا بیعت کے وقت خدا سے وعدہ کیا تھا تو خدائے عزوجل جلد اس کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔

ایک اور آیت میں ارشاد ہے:

لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِہِمْ فَأَنزَلَ السَّکِینَۃَ عَلَیْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیبًا۝

سورہ فتح آیت ۱۸

ترجمہ: بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ مؤمنین سے راضی ہوا جب یہ لوگ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے اور جو کچھ ان کے قلوب میں تھا وہ اللہ کو معلوم تھا سو اللہ نے ان پر اطمینان نازل فرمایا اور قریبی فتح عطا فرمائی۔

ان تمام تر آیات و دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیعت سنت ہے اور نہ صرف مردوں کے لیے بلکہ عورتوں کیلیے بھی، اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین و ائمہ ہادین و مشائخ عظام نے اس سنت کو جاری و رائج رکھا اور خواتین کو باپردہ بیعت سے نوازتے رہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیعت سنت ہے اور اس کی تاکید بھی ہے۔

بیعت کا فائدہ: صاحب عوارف المعارف لکھتے ہیں کہ شیخ کے زیر حکم ہونا اللہ اور اس کے رسول کے زیر حکم ہونا ہے اور اس سنت کو وہی زندہ کرتا ہے جس نے اپنے جسم و روح کو شیخ کے حوالے کردیا اور اپنے ارادے سے نکل آیا اور اپنا اختیار چھوڑ کر شیخ میں فنا ہوگیا۔ غرضیکہ بیعت فلاح باطنی کے لیے ہے جس سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ اپنے اندر کو خراب و پلید چیزوں سے پاک کرکے اسے روشن کیا جائے اور اپنے دل سے شرک خفی کو نکالا جائے۔ تو جب بھی کوئی مرید نیت صحیحہ و اخلاص کے ساتھ اپنے شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اور اس کی صحبت میں رہ کر تمام آداب کو بجا لاتا ہے تو شیخ کامل کی باطنی نظر سے روحانی فیوض و برکات اس مرید کے قلب و باطن میں سرایت کرجاتے ہیں اور مرید کا باطن روشن و منور ہوجاتا ہے۔ اس روحانی و باطنی انوار و تجلیات کا حصول شیخ کامل کی محبت و صحبت پر ہی منحصر ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب مرید شیخ کامل کی خدمت و صحبت میں حاضری کے وقت اپنے قلب و روح کو تمام تر توجہ کے ساتھ پیر کی طرف مرکوز رکھے تاکہ شیخ کامل کی پاکیزہ فطرت و وظائف باطنی کے تناسب سے مرید کے اندر بھی روحانی ربط و ضبط بڑھتا رہے اور وہ عروج حاصل کرتا ہوا خدا کا قرب حاصل کرلے۔ مگر سالک ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ ان تمام منازل روحانی کا دارومدار شیخ کامل کی بیعت و صحبت میں ہی منحصر ہے۔