جلوہ گاہِ دوست |
|
حلقۂ ذکر و مراقبہ
صوفیاء کرام کے یہاں مراقبہ کے بہت سے طریقے رائج ہیں۔ ہمارے مشائخ طریقہ عالیہ نقشبندیہ غفاریہ بخشیہ میں جو مراقبہ مروج ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ دل کو ادھر ادھر کے خیالات سے فارغ کرکے پورے اطمینان سے ذات باری تعالیٰ کی طرف اپنے شیخ کامل کے توسط سے متوجہ ہوا جاتا ہے۔ یہ مراقبہ اجتماعی طور پر بھی کیا جاتا ہے اور انفرادی طور پر بھی۔ بزرگان دین کے یہاں ذکر کے لیے جمع ہوکر گول دائرہ کی شکل میں بیٹھ کر ذکر کرنا متقدمین سے لیکر آج تک مروّج رہا ہے اور یہ تمام سلاسل میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ بعض جہری ذکر کرتے اور بعض تلاوت قرآن مجید اورحمد و نعت کی صورت میں حلقہ ذکر قائم کرتے ہیں۔ مقصد سبھی کا ایک ہے یعنی کچھ دیر کے لیے دنیا ومافیہا سے تعلقات توڑ کر ہمہ تن اپنے خالق و مالک کی طرف متوجہ ہوا جائے۔ اس قسم کے حلقۂ ذکر و مراقبہ کی اصل درج ذیل حدیث شریف ہے۔
اس حدیث شریف کی شرح میں برصغیر پاک و ہند کے مشہور محدث حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہٗ لکھتے ہیں: و درایں حدیث دلیل است برآں کہ تحلیق برائے ذکر مشروع است۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ذکر کے لیے گول دائرہ بنانا شریعت مطہرہ کے مطابق ہے۔ ذکر اللہ کے لیے جمع ہونا، ذکر کرنا، سننا، بلکہ خاموشی سے ذکر والوں کی مجلس میں بیٹھنا بھی باعثِ برکت و نزولِ رحمت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
مذکورہ احادیث سے حلقہ و مراقبہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ اسی لیے صوفیائے کرام نے اللہ تعالیٰ کے ذکر قلبی کی مشق کرنے اور اس کو جاری کرنے کے لیے مراقبہ کو نہایت اکسیر قرار دیا ہے۔ مراقبہ کا طریقہ یہ ہے کہ جب فراغت ہو آنکھیں بند کرلیں اور اگر کپڑا میسر ہو تو اپنے سر ڈال لیں، دل سے تمام خیالات محو کرکے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو موجود سمجھ کر یہ تصور کریں کہ اللہ کا ذکر ہورہا ہے، اور حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کا فیض اللہ والوں کے سینوں سے ہوتا ہوا میرے قلب میں پہنچ رہا ہے۔ جس طرح ہم اندھیرے میں ٹارچ جلاتے ہیں تو اس سے روشنی کی شعاع نکلتی ہے جس کی وجہ سے سامنے ہر چیز واضح ہوجاتی ہے۔ اسی طرح یہ تصور کریں کہ ایک نورانی شعاع ہمارے قلب میں پہنچ رہی ہے اور ہمارا قلب منور ہورہا ہے۔ اس طریقے سے معرفت الٰہی کا راستہ سہل و آسان ہوجاتا ہے۔ مصنف قطب الارشاد حضرت الحاج فقیر اللہ علوی مراقبہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
حضرت خواجہ احمد سعید قدس سرہ فرماتے ہیں مراقبہ کا مادہ رقب ہے جسکا معنیٰ ہے انتظارکرنا اور مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ سالک بغیر ذکر اور بغیر رابطۂ شیخ اپنے دل کو خیالات فاسدہ سے محفوظ رکھ کر پوری طرح اللہ تعالیٰ کے طرف دھیان رکھے اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہر وقت ذات الٰہی کی طرف متوجہ رہے تاوقتیکہ بلاشرکت غیر، توجہ الی اللہ اسکی عادت بن جائے۔ اس کو حضور بھی کہتے ہیں اور ذکر سے مقصود بھی یہی ہے۔ اسی لیے حضرت مولانا عبداالرحمان جامی علیہ الرحمۃ نے کیا خوب فرمایا ہے۔ شعر: نقشبندیہ عجب قافلہ سالاراند مشائخ نقشبند قافلہ طریقت کے عجیب قائد ہیں کہ روحانیت کے مخفی راستے سے اپنے قافلہ کو بارگاہ الٰہی میں پہنچادیتے ہیں۔
|