جلوہ گاہِ دوست |
|
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعَدْ: فعلیکم بمواظبۃ اداء الصلواۃ پس آپ پر لازم ہے کہ پابندی سے اور باجماعت خشوع و خضوع یعنی عاجزی و انکساری کے ساتھ نمازیں ادا کریں۔ اس لئے کہ یہی نجات اور فلاح کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے ارشاد فرمایا ”قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ تحقیق کامیاب ہوئے وہ مؤمن جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرتے ہیں۔ بہادری کا کام وہی ہے جوخطرہ کے وقت کیا جائے۔ دشمن کے غلبہ کے وقت اگر سپاہی معمولی کوتاہی کرتے ہیں تو اس سے بڑا اعتبار پیدا ہوتا ہے۔ نوجوانوں کی نیکی کو اسی لیے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کہ نفسانی خواہشات کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو نیکی کی راہ پر لگادیا ہے۔ اصحاب کہف کو اس قدر شرف و بزرگی فقط ایک عمل یعنی دین کے مخالفوں سے ہجرت کرجانے کے باعث حاصل ہوا۔ حدیث شریف میں ہے ”عِبَادَۃُ فِی الْھَرْجِ کَھِجْرَۃٍ اِلَیَّ“ یعنی دشواری کے وقت عبادت کرنا مثلاً سخت سردی میں اٹھ کر تہجد پڑھنا یا فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کیلئے مسجد کی طرف جانا گویا میری طرف ہجرت کرنا ہے۔ لہٰذا جو چیزیں اطاعت و عبادت میں رکاوٹ بنتی ہیں حقیقت میں عین باعث ثواب ہیں کہ کئی گنا زیادہ اجر ملتا ہے۔ اس سے زیادہ اور کیا لکھا جائے۔ فرزندی شیخ بہاؤالدین کو فقیروں کی صحبت پسند نہیں آئی، امیروں، دنیاداروں کی طرف مائل ہیں اور ان سے میل جول زیادہ رکھتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ انکی صحبت جان لیوا زہر ہے اور انکے مرغن کھانے باطن کی سیاہی بڑھانے والے ہیں۔ الحذر، الحذر، الحذر، الحذر۔ ان سے بچو، ان سے بچو، ان سے بچو، ان سے بچو۔ حدیث شریف میں ہے ”مَنْ تَوَاضَعَ لِغَنِیْ لِغِنَاہُ ذَھَبَ ثُلُثُ دِیْنِہٖ“ ترجمہ: جس نے کسی دولت مند کے سامنے اس کی دولت کے باعث تواضع کی اس کے دین کے دوتہائی حصے چلے گئے۔ پس افسوس ہے اس شخص پر جو دنیادار کے سامنے اس کی دنیاداری کے باعث عاجزی کا اظہار کرے۔ واللہ سبحانہٗ الموفق۔
|