![](/urdu/images/TOP.gif)
![]() |
جلوہ گاہِ دوست |
|
(تمہید: حضرت امام ربانی مجدد و منور الف ثانی قدس سرہٗ السامی نے جہاں عوام الناس کی مثالی اصلاح کی، وہاں وقت کے بادشاہوں، امیروں، وزیروں کی بھی حکیمانہ انداز میں اصلاح فرمائی۔ ایسے ہی ایک امیر کبیر حضر ت خانِ خان رحمۃ اللہ علیہ جو کہ سلطان وقت کے صاحب تھے اور حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدتمند بھی تھے اور فقیروں کی مالی خدمت بھی دل سے کرتے تھے، امیر طبقہ کے لوگ خواہ وہ نیک و صالح ہوں عموماً خودی و تکبر کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت خانِ خان رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں چند خطوط بھیجے جن سے تکبر اور بے ادبی کا انداز ظاہر ہوتا تھا۔ آپ نے اس کے جواب میں بے باکانہ انداز میں ناصحانہ درج ذیل مکتوب تحریر فرمایا۔)
الخیر فیما منع اللہ سبحانہٗ، مخدوماً من آنچہ شرط بلاغ است باتو مے گویم۔۔۔۔ تو خواہ ازسختم پندگیر خواہ ملال بہتر وہی ہے جو خدا کرے۔ مخدوم صاحب! جو کہنے کا حق ہے میں آپ سے کہہ دیتا ہوں، خواہ آپ میرے کلام سے نصیحت حاصل کریں یا ملال۔ تواضع کرنا امیروں کو زیب دیتا ہے اور بے نیازی فقیروں کو، اس لئے کہ کسی بھی مرض کا علاج اس کی ضد سے ہوتا ہے۔ تمہارے تینوں خطوط سے بے نیازی ہی سمجھ میں آتی ہے۔ اگرچہ آپ کا مقصود تواضع تھا، مثلاً آپ نے اپنے آخری خط میں لکھا تھا کہ حمد و صلواۃ کے بعد واضح ہو۔۔۔۔ ایسی عبارت غور کرکے دیکھیں کہ کہاں لکھنی چاہیے تھی۔ میں مانتا ہوں کہ آپ نے فقراء کی بہت خدمت کی ہے، لیکن آداب خدمت کا لحاظ کرنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ خدمت کا ثمرہ حاصل ہوسکے، ورنہ بے فائدہ تکلیف ہے۔ پیر و مرشد کے آداب کو ملحوظ نہ رکھا جائیگا تو شیخ کی نظر عنایت سے سالک محروم رہیگا۔ نتیجاً شیخ کے وسیلے سے حاصل ہونے والا قرب الٰہی بھی میسر نہ آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر سالک کو اس سے محفوظ رکھے۔ اٰمین
|