جلوہ گاہِ دوست |
|
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعَدْ: اَیَّدَکُمُ اللہُ سُبْحَانَہٗ وَ نَصَرَکُمْ، شُکُرِ مُنْعِمْ بَرْ مُنْعِمْ عَلَیْہِ واجب است ۔۔۔۔ تا آخر۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تائیدکرے اور فتح و نصرت عطا کرے۔ نعمت کرنے والے کا شکر عقلی اور شرعی طور پر منعم علیہ یعنی جس پر نعمت کی گئی ہو اس پر واجب ہے اور یہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ شکر اسی قدر واجب ہوتا ہے جس قدر نعمت پہنچے، لہٰذا جس قدر نعمت زیادہ ہوگی اسی قدر زیادہ شکر کرنا واجب ہوگا۔ لہٰذا دنیاداروں پر ہم غریبوں کی نسبت ان کے درجات کے تفاوت کے مطابق کئی گنا زیادہ شکر کرنا واجب ہوگا۔ لہٰذا اس امت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلواۃ والسلام کے فقراء دولتمندوں سے پانچ سؤ سال پہلے بہشت میں جائیں گے۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں ”یَدْخُلُ الْفُقَرَآئُ الْجَنَّتَ قَبْلَ الاَغْنِیَاءِ بِخَمْسِ مِأَۃِ عَامٍ“۔ فقراء اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ ترمذی شریف میں موجود اس حدیث سے مراد وہ فقراء ہیں جو غربت و فقیری پر شکر و صبر سے رہیں، ساتھ ہی متقی و پرہیزگار بھی ہوں۔ فقط مسکین و غریب ہونا کافی نہیں ہے۔ منعم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر اس طر ح ادا کیا جائے کہ سب سے پہلے اپنے عقائد نجات یافتہ گروہ یعنی اہل السنت والجماعت کے مطابق درست کئے جائیں۔ دوم یہ کہ اسی جماعت کے ائمہ مجتہدین کی رائے کے مطابق شرعی عملی احکام بجا لائے جائیں۔ سوم یہ کہ اسی بلند مرتبہ گروہ اہل السنت والجماعت کے صوفیاء کرام کے سلوک کے مطابق تصفیہ و تزکیہ حاصل کیا جائے اور اس آخری رکن یعنی طریقہ صوفیاء پر چلنا وجوب استحسانی ہے۔ بخلاف پہلے والے دو رکنوں کے کہ عقائد اور عمل شرعی طور پر لازم و واجب ہیں۔ اس لئے کہ اسلام کی اصل و بنیاد یہی دو رکن ہیں، جبکہ کمال اسلام کا مدار اس تیسرے رکن یعنی تصفیہ و تزکیہ پر ہے۔ اور جو عمل ان تین ارکان کے خلاف ہے اگرچہ وہ سخت ریاضت اور مشکل مجاہدہ ہو گناہ اور نافرمانی اور منعم حقیقی جل تعالیٰ سلطانہ کی ناشکری میں داخل ہے۔ ہندوستان کے برہمنوں اور یونان کے فلسفیوں نے ریاضات اور محنت و مجاہدات میں کوئی کمی نہیں کی، لیکن چونکہ وہ ریاضات انبیاء کرام علیہم السلام کی بالعموم اور افضل الانبیاء علیہ الصلواۃ والسلام کی شریعت کے بالخصوص موافق نہیں، اس لئے وہ سب مردود و نامقبول ہیں اور اخروی نجات سے محروم۔ فَعَلَیْکُمْ بِمُتَابِعَۃِ سَیِدِنَا وَ مَوْلَانَاشَفِیْعِ ذُنُوْبَنَا وَ طَبِیْبَ قُلُوْبَنَا وَ شِفَاعَ صُدُوْرِنَامُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ وَ مُتَابِعَۃِ خُلَفَائِہٖ الرَّاشِدِیْنَ المَھْدِیِّیْنِ رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔ ترجمہ: پھر تمہارے اوپر لازم ہے کہ ہمارے آقا و مولا اور ہمارے گناہوں کی شفاعت کرنیوالے اور ہمارے قلوب کے طبیب اور ہمارے سینوں کی شفاء حضرت محمد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کریں اور آپ کے خلفاء راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تابعداری کریں جو کہ ہدایت یافتہ ہیں۔
|