جلوہ گاہِ دوست |
|
الحَمْدُلِلہِ وَسَلامٌ عَلَیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفَیٰ۔۔۔۔۔ ترجمہ: آپ دونوں معزز و محترم بھائیوں کا بھیجا ہوا مکتوب موصول ہوا اور اس میں تحریر کئے گئے کیفیات و احوال وضاحت سے معلوم ہوئے۔ خواجہ محمد اشرف صاحب نے تحریر کیا تھا کہ نسبتِ رابطہ کی قوت اس حد تک غالب آچکی ہے کہ نماز میں اس کو اپنا مسجود دیکھتا اور سمجھتا ہوں، بالفرض اگر اس کو ہٹانا چاہوں تو بھی نہیں ہٹتا۔ اے محبت کے متوالے! طریقت کے طالب اسی دولت کی تمنا کرتے ہیں اور یہ ہزاروں میں سے کسی ایک کو دیتے ہیں۔ ایسی نسبت والا سالک اپنے شیخ سے کامل مناسبت رکھنے والا ہوتا ہے، ممکن ہے کہ شیخ کامل کی تھوڑی سی صحبت سے اس کے تمام کمالات کو حاصل کرلیتا ہے۔ رابطہ کی نفی کیوں کرتے ہو، رابطہ تو مسجود الیہ ہوتا ہے، نہ کہ مسجود لہٗ۔ مسجود لہٗ ہونا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ محرابوں اور مسجدوں کی نفی کیوں نہیں کرتے۔ اس قسم کی دولت تو سعادتمندوں کو میسر ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے تمام احوال میں صاحبِ رابطہ کو وسیلہ سمجھیں اور ہر وقت اس کی طرف متوجہ رہیں اور ان بدنصیب لوگوں کی مانند نہ بنیں جو اپنے آپ کو مستغنی جانتے ہیں اور اپنے توجہ کے قبلہ کو شیخ سے پھیر لیتے ہیں اور اپنا معاملہ درہم برہم کردیتے ہیں۔ توضیح: سالک جب طریقت میں قدم رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اپنے شیخ کی صحبت و خدمت اختیار کرے اور ان کے وسیلہ سے باطنی و روحانی ترقی کرے، اسی اثناء میں اسے کشف و کرامت، وجد و حال جو کچھ میسر آئیں ان کو اپنے پیر کے طفیل اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم سمجھے۔ اگر یہ سمجھے گا کہ یہ میری محنت و مجاہدہ کا ثمر و نتیجہ ہے تو اعتقاد کی کمی کے باعث وہ شیخ کے فیوض سے محروم ہوجائیگا اور اس کی باطنی ترقی رک جائیگی۔ بلکہ بعض اوقات اس خام خیالی کی باعث مزید خسارہ مول لیتا ہے الا ماشاء اللہ۔ لہٰذا سالک کو چاہئے کہ شیخ کی صحبت سے دوری کے دوران بھی حصولِ فیض کے لئے اس کی طرف متوجہ رہے، رابطہ و تصور شیخ اس کے لیے اہم اور مجرب ذریعہ ہے اور اس میں کسی قسم کی شرعی قباحت بھی نہیں۔ اسے ناجائز وہی لوگ کہہ سکتے ہیں جن کا اس گلی سے کبھی گذر ہی نہیں ہوا۔
|