جلوہ گاہِ دوست |
|
اَلْحَمْدُلِلہِ وَسَلَام عَلَیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفَیٰ معرفت خدا جل سلطانہ براں کس حرام است کہ برابر خردلہ درباطنِ او محبت دنیا بود ۔۔۔ تا آخر ترجمہ:اللہ تعالیٰ کی محبت اس شخص پر حرام ہے جس کے دل میں رائی کے دانہ جتنی بھی دنیا کی محبت ہو یا اس کے باطن کو اس قدر دنیا سے تعلق ہو، یا اس قدر دنیا کا خیال اس کے باطن میں گذرتا ہو۔ البتہ اس کا ظاہر جو باطن سے بہت دور ہے اور آخرت سے دنیا میں آیا ہے اور دنیا کے لوگوں سے خلط ملط ہوگیا ہے تاکہ وہ مناسبت حاصل ہو جو فائدہ حاصل کرنے اور فائدہ پہنچانے کے لئے ضروری ہے۔ لہٰذا اس مقصد کے لئے اگر وہ دنیاوی کلام کرے، دنیوی اسباب میں مشغول رہے تو اس کی گنجائش ہے اور یہ کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ اور اچھی بات ہے تاکہ بندوں کے حقوق ضائع نہ ہوں اور ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرنے اور فائدہ پہنچانے کا راستہ بند نہ ہو۔ پس ایسے شخص کا باطن اس کے ظاہر سے بھی بہتر ہے اور یہ جونما گندم فروش کی مثل ہے۔ جبکہ ظاہر بین لوگ ان کو اپنی طرح گندم نما جوفروش تصور کرتے ہیں اور اس کے ظاہر کو اس کے باطن سے بہتر جانتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ شخص بظاہر دنیا سے بے تعلق دکھائی دیتا ہے مگر باطن میں ہماری طرح اس کی محبت میں گرفتار ہے۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقّ وَاَنْتَ خَیْر الْفَاتِحِیْنَ وَالسَّلام ُعَلَیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدَیٰ وَالْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفَیٰ وَعَلَیٰ اٰلِہِ الصَّلَوٰتُ وَالتَّسْلِیْمَات ُالْعُلَیٰ توضیح: اس مکتوب شریف میں حضرت امام ربانی نور اللہ مرقدہ نے دنیا کی مذمت کے ساتھ ساتھ ان جاہل اور دین و شریعت کی حقیقت سے بے خبر لوگوں کی بعض غلط فہمیوں کو دور فرمایا ہے جو خوشحال و خوش پوشاک بزرگانِ دین کو اپنے جیسا دنیادار سمجھتے ہیں اور ان کی نظر میں ولایت و بزرگی کے لئے دنیا و دولت سے دور اور دنیوی نعمتوں سے بے بہرہ رہنا بہت ضروری ہے۔ جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ جو لوگ حلال و جائز طریقہ پر دنیوی کام کاج کرتے اور پوری طرح سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتے ہیں بالفاظ حضرتِ امامِ ربانی قدس سرہ ان کا باطن تو ان کے ظاہر سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ ایسے ہی افراد کو آپ نے جونما گندم فروش قرار دیکر ان کے بالمقابل ان لوگوں کو گندم نما جوفروش فرمایا جو اپنے ظاہر کو تو بڑا دیدہ زیب اور خوبصورت رکھتے ہیں لیکن اپنے باطن کی خبر نہیں رکھتے۔ شعر: اولیاء را برقیاسِ خود مگیر یعنی اولیاء اللہ کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو، لکھنے میں تو شیر اور شِیر یعنی دودھ دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن ان کی حقیقتوں میں غیر معمولی فرق ہے۔ اسی طرح اولیاء اللہ بھی بظاہر تو دوسرے انسانوں جیسے ہی ہیں، ان کی طرح کھاتے پیتے اور رہتے ہیں لیکن حقیقت کے لحاظ سے عوام الناس سے بہت اونچا مقام رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کاملین کی قدر عطا فرمائے آمین۔
|