پچھلا صفحہ

[ فہرست ]

جلوہ گاہِ دوست

اگلا صفحہ

 

درس نمبر ۳۰
(حصہ ششم مکتوب نمبر ۳۶)
موضوع

مذہبِ اہل السنۃ والجماعت

بنام: حضرت خواجہ محمد تقی رحمۃ اللہ علیہ

 

بعد الحمد والصلوٰۃ وتبلیغ الدعوات میرساند ۔۔۔ تا ۔۔۔ طفیلِ ایشاں

ترجمہ:

حمد و صلوٰۃ اور سلامِ مسنونہ کے بعد احوال یہ کہ درویشوں کی محبت اور ان سے ربط و الفت اور اس بلند مرتبہ گروہ کی باتوں کو سننے کی رغبت اور اس محترم طبقہ کے اخلاق و اطوار کی طرف قلبی میلان اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور اس کی دی ہوئی بڑی دولت ہے۔ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ”اَلمَرءُ مَعَ مَن اَحَبَّ“ آدمی قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس کی محبت ہوگی۔

عبارت مکتوب شریف: چوں دریں ایام ازبحث امامت بسیار مذکور می شود ۔۔۔ تا ۔۔۔

ترجمہ: چوں کہ آجکل امامت یعنی نیابت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر بہت زیادہ بحث ہورہا ہے اور ہر ایک اس موضوع پر اپنے گمان و اندازہ کے مطابق گفتگو کررہا ہے۔ حسبِ ضرورت اس عنوان پر چند سطریں لکھی جاتی ہیں اور مذہبِ اہل سنت وجماعت اور مخالف مذہبوں کی حقیقت بیان کی جاتی ہے۔

اے نیک نام! شیخین یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی فضیلت اور ختنین یعنی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے دو داماد حضرت عثمانِ غنی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی محبت اہل سنت والجماعت کی علامات میں سے ہے۔ شیخین کی افضلیت جس کے ساتھ ختنین کی محبت بھی شامل ہو، اہل سنت والجماعت کی خصوصیات میں سے ہے۔ شیخین کی افضلیت تو صحابہ کرام اور تابعین حضرات رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ثابت ہے، اور اس بات کو اکابر ائمہ نے جن میں سے امامِ شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک ہیں، نقل کیا ہے۔ اور حضرت شیخ ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی باقی امت پر فضیلت قطعی، یقینی ہے۔ نیز حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے بھی تواتر سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنی حکومت و خلافت کے زمانہ میں کثیر جماعت کے روبرو اپنے دوستوں سے ارشاد فرمایا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما اس امت کے بہترین فرد ہیں، اور اس بات کو امام ذہبی نے بیان کیا ہے۔ اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے فرمایا ہے کہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد تمام لوگوں سے بہتر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور انکے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور انکے بعد ایک اور شخص ہیں، پس انکے صاحبزادہ حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا پھر آپ؟ فرمایا میں نہیں ہوں، مگر مسلمانوں میں سے ایک عام مسلمان ہوں۔

غرضیکہ شیخین کی افضلیت باوثوق اور معتبر راویوں کی کثرت کے باعث شہرت اور تواتر کی اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ اس کا انکار جہالت یا دشمنی کی بناء پر ہی ہوسکتا ہے۔ عبدالرزاق جو اکابر شیعہ میں ہے، نے جب انکار کی گنجائش نہ دیکھی تو بے اختیار شیخین کی افضلیت کا قائل ہوا اور کہنے لگا کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ خود شیخین کو اپنے اوپر فضیلت دیتے ہیں تو میں بھی انکے فرمان کے مطابق ان پر شیخین کو فضیلت دیتا ہوں، اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ فضیلت نہ دیتے تو میں بھی نہ دیتا، اور یہ بڑا گناہ ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کا دعویٰ کروں اور پھر انکی مخالفت کروں۔ چونکہ رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کے ان دو دامادوں حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانہ میں لوگوں کے درمیان فتنہ برپا ہوگیا تھا اور لوگوں کے معاملات میں بہت خلل واقع ہوچکا تھا اور اس سلسلہ میں لوگوں کے دلوں میں کدورت بے حد پیدا ہوچکی تھی اور مسلمانوں کے مابین کینہ و عداوت کا غلبہ ہوچکا تھا۔ اسی ضرورت کے تحت دونوں دامادوں کی محبت کو بھی اہل سنت وجماعت کے شرائط میں شمار کیا گیا تاکہ کوئی جاہل اس بناء پر حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم سے بدگمانی نہ کرے اور پیغمبر خدا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانشینوں کے ساتھ بغض و عداوت نہ رکھے۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اہل سنت ہونے کے لئے شرط ہے اور جو یہ محبت نہیں کھتا اہل سنت سے خارج ہے اور اس کا نام سنی نہیں خارجی ہے۔ اور جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں افراط کی راہ اختیار کی اور جس قدر محبت ہونی چاہئے اس پر زیادتی کی اور محبت میں غلو کیا اور حضور خیر البشر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے خلاف زبان درازی کی، انکو گالیاں دیں اور ان پر طعن و ملامت کیا اور صحابہ کرام، تابعین عظام اور سلف صالحین علیہم الرحمۃ کا طریقہ ترک کیا، اس کا نام رافضی پڑگیا یعنی اہل حق کے راستہ کو ترک کرنے والا۔ پھر اہل سنت متوسط طریقہ پر ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی محبت میں افراط اور تفریط کی راہ جو رافضی اور خارجی لوگوں نے اختیار کی ہے، اس کے درمیان والی راہ اہل سنت نے اختیار کی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ درمیانگی اور وسط ہی حق ہے اور افراط و تفریط دونوں برے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تجھ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال ہے کہ اس سے یہودیوں نے دشمنی کی یہاں تک کہ اس کی پاکدامن والدہ سیدہ مریم امِ حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر بہتان لگایا، اور اسے نصاریٰ نے دوست رکھا یہاں تک کہ اسے اس مرتبہ تک لے آئے جس کے وہ لائق نہ تھے، یعنی ان کو اللہ کا بیٹا کہنے لگے۔ مذکورہ روایت کے بعد حضرت امیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے حق میں دونوں گروہ ہلاک ہو نگے۔ ایک وہ جو میری محبت میں افراط کرینگے اور میرے لیے وہ کچھ ثابت کرینگے جو مجھ میں نہیں ہے، دوسرے وہ جو میرے ساتھ دشمنی رکھیں گے اور عداوت کی بنیاد پر مجھ پر بہتان لگائیں گے۔ اس طرح آپ نے خارجیوں کے حال کو یہودیوں کے حال سے اور رافضیوں کے حال کو نصاریٰ کے حال سے تشبیہ دی کہ یہ دونوں فرقے حق کے متوسط راستے سے دور ہٹے ہوئے ہیں۔ لہٰذا وہ شخص بڑا ہی جاہل ہے جو اہل السنت والجماعت کو حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے محبوں میں سے نہیں سمجھتا اور محبت حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کو رافضیوں سے مختص تصور کرتا ہے۔

یاد رکھو! محبت حضرت علی رضی اللہ عنہ رفض نہیں بلکہ حضرات خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کی گستاخی اور ان سے بیزاری رفض ہے، بلکہ جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بیزاری قابلِ مذمت اور قابل ملامت ہے۔

توضیح:

اس مکتوب شریف میں جو کہ کافی تفصیلی ہے حضرت امامِ ربانی قدس سرہ نے عقائدِ مسلکِ حقہ اہل سنت والجماعت کا مدلل طریقہ پر ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ مخالف گروہ کے عقائد کا نہایت ہی شستہ و عمدہ انداز میں ذکر فرمایا ہے۔ جس میں کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ دعوتِ غور و فکر ہے۔ مثلا اسی مکتوب میں فرمایا

محبت اہل بیت سرمایہ اہلِ سنت است، مخالفاں ازیں معنیٰ غافل اند و از محبتِ متوسطِ ایشاں جاہل۔

ترجمہ: اہل بیت نبوۃ کی محبت اہل سنت کا سرمایہ ہے۔ مخالف حضرات اس حقیقت سے غافل ہیں اور ان کی متوسط محبت سے لاعلم ہیں۔

مزید فرمایا پس محبانِ اہلِ بیتِ رسول علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات اہل سنت باشند و فی الحقیقت گروہِ اہل بیت ہم ایشاناں۔

ترجمہ: لہٰذا اہل بیت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے تو اہل سنت ہیں اور حقیقت میں اہل بیت کی جماعت بھی یہی ہیں۔