پچھلا صفحہ

[ فہرست ]

جلوہ گاہِ دوست

اگلا صفحہ

 

مختصر حالات حضرات مشائخ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ

حضرت خواجہ عبیداللہ احرار

رحمۃ اللہ علیہ

 

آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک ۸۰۶ ہجری میں حضرت خواجہ محمود بن خواجہ شہاب الدین قدس سرہ کے گھر تاشقند کے قریب باغستان میں ہوئی۔ آپ کا اسم شریف عبیداللہ، لقب ناصر الدین اور احرار ہے، زیادہ مشہور لقب احرار ہے۔ آپ کا اہل خانہ ایک طرف تو امیر کبیر صاحب دولت و ثروت تھا تو دوسری طرف اہل ذکر صاحب فیض و کمال۔ آپ کے جد امجد حضرت شہاب الدین علیہ الرحمۃ نے جب آخری وقت میں الوداع کہنے کے لیے اپنے پوتوں کو بلایا تو قریب آنے پر کم سن حضرت عبیداللہ کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے اور پھر گود میں لیکر فرمایا اس فرزند کے بارے میں مجھے شہادت نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم ملی ہے کہ یہ پیر عالمگیر ہوگا اور اس سے شریعت و طریقت کو رونق حاصل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن ہی سے آپ کو بزرگوں کی زیارت و ملاقات کا شوق ذوق رہا۔ بہت سے بزرگان دین کے مزارات پر حاضری دی اور فیض حاصل کیا۔ چنانچہ ۲۲ سے ۲۹ برس کے عمر تک آپ سفر میں رہے۔ ایک مرتبہ آپ ہرات میں تھے کہ ایک سوداگر نے آپ سے حضرت خواجہ محمد یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے فیض پراثر کی تعریف کی تو اسی وقت بلخ کے راستے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے۔ جاتے ہوئے ان کے مرشد پاک خواجہ علاؤالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پرانوار کی زیارت کی۔

جب حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت احرار علیہ الرحمۃ نے خود اپنی اس ملاقات کا اس طرح ذکر فرمایا ”جب میں حضرت یعقوب چرخی قدس سرہ کی خدمت میں پہنچا، آپ بڑی شفقت و عنایت سے پیش آئے، بیعت فرمایا، روحانی تربیت فرمائی اور جلد ہی خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا“۔ حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی قدس سرہ جو آپ کے خلفاء میں سے ہیں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں جانا چاہے تو اسے عبیداللہ احرار کی طرح جانا چاہیے کہ چراغ بتی اور تیل سب تیار ہے صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر قبولیت عامہ عطا فرمائی تھی کہ بعض اوقات فرمایا کرتے تھے اگر میں پیری مریدی کروں تو کسی اور پیر کو مرید میسر نہ آئیں، مگر میرے ذریعے دوسرا کام لگایا گیا ہے اور وہ ہے شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی ترویج و اشاعت۔ حضرت احرار رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین و معتقدین میں جہاں درویش، فقراء نظر آتے ہیں وہاں بڑی تعداد میں امراء اور ولی بھی باادب کھڑے نظر آتے ہیں۔ ۲۹ ربیع الاول ۸۹۵ ہجری کو انتقال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کوچہ ملایان سمرقند میں آپ کی آخری آرامگاہ ہے۔