فہرست | سیرت و سوانح حیات حضرت پیر فضل علی قریشی قدس سرہ |
طریقہ عالیہ نقشبندیہ سے وابستگی
فرمایا۔ طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہونے سے پہلے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ طوطا پال کر اسے اچھے اچھے کلمات سکھاؤں جیسا کہ بہت سے لوگ طوطے پالتے اور اپنی اپنی پسند کے مطابق ان کو کچھ الفاظ یا جملے یاد کراتے ہیں اور پھر پرندے کی زبانی وہ رٹے ہوئے کلمات سن کر محظوظ ہوتے ہیں۔ اسی اثنا میں میرے قلب پر یہ غیبی القا ہوا کہ ایک پرندہ کی تعلیم و تربیت اور پڑھانے سکھانے میں اتنا فائدہ نہیں جتنا ایک انسان کی اصلاح اور اس کے قلب کو متوجہ الی اللہ کرنے میں ہے، بلاشبہ قلب انسانی ایک طوطے کی مانند ذکراللہ کی تلقین کرنے پر اپنے حقیقی خالق و مالک کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ مذکورہ خیال آتے ہی میرے دل میں کسی شیخ کامل سے بیعت ہونے کا شوق پیدا ہوا۔
حضرت خواجہ حاجی محمد عثمان دامانی نقشبندی نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں۔
اسی طلب صادق نے آپ کو عالم شباب ہی میں خواجۂ خواجگان قطب دوران حضرت حاجی محمد عثمان دامانی نقشبندی نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں پہنچایا۔ حاضر ہوئے اور زیارت فیض بشارت سے مستفیض ہوئے، لیکن چونکہ متعدد جسمانی عوارض کی وجہ سے مستعار زندگی کے آخری پانچ سال آپ گوشہ نشین رہے، احباب اور درویشوں سے اکثر تعلقات منقطع کرلئے تھے (اور اکثر فرمایا کرتے تھے، اب تو میرا جی چاہتا ہے کہ خلوت نشینی اور گوشہ نشینی اختیار کروں کیونکہ عمر اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے، ص ۱۹۹ مواہب رحمانیہ، اور جملہ خلفاء اور علماء و مریدین کی تسلیک اور تربیت جیسے کام اپنے صاحبزادہ حضرت مولانا سراج الدین قدس سرہ کے سپرد فرمائے تھے، ص ۱۲ مقامات سراجیہ) لہٰذا آخر عمر میں جو بیعت ہونے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اسے اپنے صاحبزادہ حضرت سراج الدین یا خلیفہ اجل حضرت خواجہ لعل شاہ ہمدانی قدس سرہما کے سپرد فرمایا کرتے تھے۔ اس طرح آپ نے حضرت لعل شاہ ہمدانی قدس سرہ سے بیعت کی جو کہ نسب کے اعتبار سے ہمدانی سادات میں سے دندہ شریف ضلع میانوالی۔۔۔ کے مشہور ولی حضرت سید شاہ بلاول ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے اور طریقت میں پہلے حضرت حاجی دوست محمد صاحب قندھاری قدس سرہ سے بیعت کی تھی، ان کی صحبت بابرکت میں رہ کر ولایت صغریٰ تک طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے روحانی مقامات طے کئے تھے اور حضرت حاجی صاحب علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد ان کے اعظم خلیفہ حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی قدس سرہ کے ہاتھ پر تجدید بیعت کی اور برسوں صحبت میں رہ کر فیوض و برکات حاصل کئے اور اجازت و خلافت سے مشرف ہوکر مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس طرح تیس سال تک خلق خدا کی ہدایت کے اہم کام میں مصروف رہ کر ۲۷ شعبان ۱۳۱۳ ھجری کو اس دار فانی سے رحلت فرماکر اپنے حقیقی معبود کے جوار رحمت میں پناہ گزین ہوگئے۔ آپ کا مزار شریف خانقاہ دندہ شریف میں مرجع خاص و عام ہے۔ (ص ۱۰۶، مواہب رحمانیہ جلد سویم)
درگاہ فقیرپور شریف۔ مرشد کامل سے خلافت و اجازت کے بعد آپ نے پہلے سے زیادہ محنت سے تبلیغ دین کا کام کیا لیکن کافی عرصہ کوئی مستقل مرکز قائم نہیں کیا، یہاں تک کہ تقریبا ۱۸۹۶ عیسوی میں اللہ تعالیٰ نے تبلیغی مرکز کے لئے ازخود اسباب پیدا فرمادئے۔ مروی ہے کہ عاشق رسول حضرت پیر قریشی قدس سرہ نے (تقریبا ۱۸۹۶ع میں، حیات سعیدیہ) اپنے اہل خانہ اور قریبی عزیز و اقارب سمیت بارگاہ رسالت ماٰب صلّی اللہ علیہ وسلم کی زیارت و حاضری کا پروگرام بنایا اور سفری اخراجات کے لئے ذاتی مکان اور زرعی زمین فروخت کئے (ایک روایت کے مطابق کچھ مدت کے لئے ٹھیکے پر دیکر) اس رقم سے ایک بڑی کشتی خریدلی۔ پروگرام یہ تھا کہ میانوالی سے سکھر تک اسی کشتی پر سفر کرینگے اور سکھر پہنچ کر کشتی فروخت کردینگے اور کراچی سے بحری جہاز کے ذریعے حجاز مقدسہ کا سفر طے کرینگے۔ لیکن بقول
مادر چہ خیالیم و فلک در چہ خیال (ہم کچھ چاہتے ہیں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہے)
کے مطابق قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہوا یوں کہ سفر کرتے کرتے جب ضلع مظفرگڑھ کے حدود میں پہنچے اور رات ہوجانے پر کشتی کو کنارے لگاکر تمام افراد سوگئے۔ رات کے کسی وقت چور آئے اور کشتی لے کر چلے گئے۔ (تلاش بسیار کے باوجود کشتی نہ مل سکی، البتہ کشتی تلاش کرتے جب سکھر پہنچے تو چوروں کا پتہ چلا اور ان سے کچھ رقم ملی) اگلے روز جمعہ تھا، نماز ادا کرنے قریبی قصبہ جتوئی تشریف لے گئے تو وہاں پر آپ کی ملاقات اپنے ہم درس دوست مولانا غوث بخش صاحب سے ہوئی۔ مولانا صاحب جامع مسجد کے خطیب اور ہمدرد انسان تھے، صورت حال معلوم کرکے انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ گرمی کے اس موسم میں کہ دریا میں غیر معمولی طغیانی ہے اور اہل خانہ بھی آپ کے ہمراہ ہیں جن میں چھوٹے بچے بھی شامل ہیں، کشتی مل جائے پھر بھی دریا کا سفر اس وقت کسی طرح مناسب نہیں، کچھ عرصہ یہیں قیام کریں۔ مشورہ ہی نہیں، مولانا صاحب نے دریا کے کنارے پر واقع اپنے مکانات (جھلار مولوی غوث بخش نامی) رہنے کے لئے پیش کئے۔ چنانچہ بابرکت سفر کے ظاہری اسباب ختم ہونے اور مولانا صاحب مذکور کے مخلصانہ مشورہ کے مطابق حضرت پیر قریشی قدس سرہ اور آپ کے حقیقی بھائی فقیر شاہ صاحب سمیت چند اور رشتہ داروں نے کچھ عرصہ کے لئے اسی مقام پر رہنے کا فیصلہ کیا جبکہ بعض دیگر رشتہ دار واپس داؤدخیل چلے گئے۔
قصبہ جتوئی کے نزدیک قیام کے دوران حضرت پیر قریشی قدس سرہ اور آپ کے ساتھیوں نے قریبی بستیوں میں دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا، ساتھ ہی گذر بسر کے لئے کاشتکاری کا پیشہ اختیار کیا۔ اسی اثنا میں آپ کو معلوم ہوا کہ حکومت ہند نے یہ طے کیا ہے کہ جو محنت کرکے جنگل کی ناقابل کاشت زمین کو کاشت کے قابل بنائے گا اسے نصف قیمت پر وہ زمین دیدی جائے گی۔ چنانچہ اس طریقہ پر آپ نے کچھ زمین حاصل کی اور مالکانہ حقوق ملنے پر وہاں ایک مسجد بنائی اور رہائش کے لئے سرکنڈوں کے چھپر ڈال کر چند جھونپڑیاں بنائیں اور اس چھوٹی سی بستی کا نام فقیرپور تجویز فرمایا۔
بیعت ثانیہ۔ ابھی حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ کا سلوک ناتمام تھا کہ مرشد اول حضرت لعل شاہ ہمدانی قدس سرہ ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۱۳ ھجری کو دندہ شریف میں دارالفنا سے دارالبقا رخصت فرما گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
یہ جانکاہ خبر سن کر جب آپ فقیرپور سے دندہ شریف پہنچے، حسن اتفاق سے ان ہی دنوں حضرت خواجہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ بھی تعزیت کے لئے دندہ شریف فرما ہوئے تھے اور حضرت قریشی قدس سر کی بیتابی اور گریہ زاری دیکھ کر درگاہ موسیٰ زئی شریف حاضر ہونے کا امر فرمایا۔ چنانچہ جب آپ موسیٰ زئی شریف پہنچے تو حضرت خواجہ سراج الدین قدس سرہ نے تجدید بیعت (بیعت ثانیہ) کے بعد آپ کو خصوصی توجہات عالیہ سے نوازا اور دائرہ لاتعین تک سلوک کی تکمیل فرمائی۔
قدردانی۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ کو اپنے ہردو مرشدوں سے والہانہ عقیدت و محبت تھی اور مدۃ العمر انکے ہر حکم کو سر آنکھوں پر رکھا اور جان و دل سے حق خدمت بجا لاتے رہے۔ حیات سعیدیہ میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے لوگوں کی کم ہمتی اور بے ذوقی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا یہ عاجز پیر کی خدمت میں حاضری کے لئے دو اڑھائی سو میل پیدل سفر طے کرتا تھا اور ایک ایک مہینہ دو چار سیر دانوں پر گذارا کرتا تھا، ایک مرتبہ تو صرف دو آنے ساتھ تھے، گاجروں اور چنوں پر گذارہ کیا، دن کو روزے رکھے پھر بھی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔