فہرست

سیرت و سوانح حیات حضرت پیر فضل علی قریشی قدس سرہ


خلافت و نیابت

 

علالت کے ایام میں جب حضرت خواجہ سراج الدین قدس سرہ بغرض علاج دہلی تشریف لے گئے تو خط لکھ کر حضرت قریشی علیہ الرحمہ کو اپنے پاس دہلی بلایا۔ اس وقت آپ محلہ چتلی قبر کے نزدیک حضرت شاہ ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ٹھرے ہوئے تھے (یہیں پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم المرتبت مشائخ حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید اور شاہ غلام علی اور حضرت شاہ ابوسعید نور اللہ مرقدہم کے مزارات مقدسہ زیارت گاہ خاص و عام ہیں)۔ ان دنوں حضرت شاہ ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ ہی وہاں کے سجادہ نشین تھے۔ غرض یہ کہ اسی متبرک مقام پر حضرت خواجہ سراج الدین علیہ الرحمہ نے حضرت قریشی علیہ الرحمہ کو اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔ لیکن یہ خلافت مطلقہ نہیں تھی، بلکہ محض پچاس افراد کو ذکر کی تلقین کرنے پر محدود تھی۔ البتہ جیسے ہی یہ تعداد پوری ہوئی شیخ کامل نے آپ کو اجازت مطلقہ عنایت فرمادی اور یوں حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے اور اس روز سے لیکر زندگی کے آخری روز تک مسلسل شریعت و طریقت کی اشاعت میں مصروف رہے اور یوں سینکڑوں یا ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ براہ راست یا بالواسطہ آپ کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوئے۔ الحمدللہ آج بھی سیدی و مرشدی حضرت الحاج محمد طاہر عباسی نقشبندی (عرف حضرت پیر سجن سائیں مدظلہ زیب سجادہ درگاہ اللہ آباد شریف) و دیگر بزرگوں کے واسطہ سے حضرت پیر قریشی قدس سرہ کا فیض خانقاہی نظام خواہ دینی مدارس کی صورت میں دنیا بھر میں خوب پھیل رہا ہے۔

مسکین پور شریف کا قیام

مروی ہے کہ دہلی کے مذکورہ سفر سے واپسی پر جیسے ہی آپ فقیرپور شریف پہنچے، لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقہ ارادت میں داخل ہونے لگے۔ لیکن چونکہ قصبہ جتوئی سے تین میل کے فاصلہ پر واقع اس بستی تک پہنچنے کا کوئی معقول انتظام نہ تھا، نہ مناسب سڑک کی سہولت تھی نہ سواری ملتی تھی۔ آنے والوں کو جن میں عمر رسیدہ افراد، خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے تھے، طویل پیدل سفر کی وجہ سے کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جسکی وجہ سے آپ نے فقیرپور شریف سے فاصلہ پر شہر سلطان (جہاں سے موجودہ قومی شاہراہ گذرتا ہے) سے تین میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹی سی نہر کے کنارہ پر پڑاؤ ڈالا اور قرضہ لیکر وہاں موجود جنگل نما زمین خریدی۔ درخت اور جھاڑیاں کاٹ کر زمین صاف و ہموار بناکر نہایت ہی سادہ ایک مسجد شریف اور چند کچے مکانات کی صورت میں مسکین پور شریف نامی اصلاحی تبلیغی مرکز بنایا، اور وہیں پر دنیا بھر سے طالبان طریقت و شریعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر فیوض و برکات سے سیراب ہوتے رہے۔

حضرت پیر قریشی قدس سرہ چونکہ سادہ زندگی بسر کرنے والے محنت و مشقت کرکے رزق حلال کھانے اور کھلانے والے ولی تھے، آپ نے مذکورہ زمین کے کچھ حصہ پر آم اور کھجور کا باغ لگایا اور بقیہ حصہ پر کاشتکاری شروع کی اور مدۃ العمر اسی پر عمل پیرا رہے (فی الوقت وہ زمین حضرت پیر قریشی قدس سرہ کے نواسوں حضرت صاحبزادہ محمد رفیق شاہ صاحب مدظلہ اور آپ کے بھائیوں کے قبضہ و تصرف میں ہیں)۔ آخر عمر تک حضرت پیر قریشی قدس سرہ اسی روحانی اصلاحی مرکز پر قیام فرما رہے اور وہیں پر آپ کی آخری آرامگاہ زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ الحمدللہ آج بھی آپ کے عالم باعمل نواسہ حضرت صاحبزادہ مولانا محمد رفیق شاہ صاحب مدظلہ مسکین پور شریف میں آپ کے ظاہری و باطنی علوم و معارف کے امین اور شریعت و طریقت کی تبلیغ و ترویج میں مصروف ہیں۔