فہرست | سیرت و سوانح حیات حضرت پیر فضل علی قریشی قدس سرہ |
تبلیغ دین کا جذبہ
دنیوی کاروبار اور ملازمت وغیرہ کے لئے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا تو عام ہے، لیکن رضاء الٰہی کے لئے گھر گھر جاکر نماز، روزہ اور ذکر کی دعوت دینا بلاشبہ اولیاء اللہ ہی کا کام ہے۔ ایسے ہی اولیاء اللہ میں آپ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عمر عزیز کے جو ایام تبلیغ دین کے سلسلہ میں سفر میں گذارے وہ ان سے کہیں زیادہ تھے جو آپ نے اپنے گھر اور وطن میں بسر فرمائے۔
آپ نے شہروں سے زیادہ دیہی علاقوں میں غیر معمولی محنت سے اور مسلسل تبلیغ کی۔ کبھی تن تنہا اور کبھی چند فقیروں کے ہمراہ تبلیغ کے لئے نکلتے۔ سفر کی سہولیات، معقول سواری، دعوت کا خصوصی اہتمام، استقبال، لوگوں کی کثرت سے جلسہ میں شرکت وغیرہ کو کبھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ٹرین کا سفر ہوتا یا بس کا، عام لوگوں کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ فقیروں کے ہمراہ کئی کئی میل پیدل سفر کرکے گاؤں اور بستیوں میں تبلیغ کرنے جاتے تھے۔ البتہ اخیر عمر میں ضعف و کمزوری کی بنا پر حسب ضرورت سواری کا اہتمام فرماتے تھے، لیکن اس میں بھی بے تکلفی اور اخوت و مروت کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ سنکر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
مثالی اخوت۔ ایک مرتبہ جلال پور پیروالا کے تبلیغی سفر میں مولانا عبدالمالک احمد پوری کو بخار ہوگیا تو حضور اپنی سواری (گھوڑی) انکے لئے چھوڑ کر خود پیدل فقراء کے ہمراہ آگے روانہ ہوئے (گو مولانا صاحب ادب کے پیش نظر گھوڑی پر سوار نہ ہوئے اور پیدل ہی چل پڑے)۔ اسی سفر میں جب دریا پر پہنچے تو کشتی میسر نہ تھی۔ دریا پار کرنے کے لئے اونٹنی کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہ تھا، حضور علیہ الرحمہ نے مولانا صاحب کو اپنے ساتھ اونٹنی پر بٹھالیا تاکہ انکو پانی کوئی نقصان نہ پہنچائے۔
خلفاء کرام کو تبلیغ کے لئے تاکید۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ نے اپنے آپ کو تو اشاعت اسلام و تبلیغ دین کے لئے وقف کر رکھا ہی تھا، اپنے خلفاء کرام اور متعلقین کو بھی ہمیشہ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی اصلاح اور دینداری کے لئے ہوشیار و بیدار رکھا۔ اگر کسی خلیفہ صاحب کی سستی و کوتاہی کا علم ہوجاتا تو خط لکھ کر اس کو بیدار کرتے اور روبرو حاضر ہونے پر زبانی تنبیہ و نصیحت فرماتے تھے۔ خلفاء حضرات کے تبلیغی خطوط آتے تو پڑھ کر دعائیں دیتے۔ بلاشبہ تبلیغ دین کا کام آپ کو سب سے زیادہ عزیز تھا، یہی وجہ ہے کہ کسی سے بھی تبلیغی احوال سنتے تو انتہائی خوشی و مسرت کا اظہار فرماتے اور مبلغین کو ہمیشہ غائبانہ دعاؤں میں شامل فرماتے۔
بے طمعی۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ خود بھی متوکل علی اللہ بزرگ تھے اور اپنے خلفاء اور مریدین کی بھی اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ بھی لاطمع ہوکر محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے تبلیغی خدمات انجام دیں۔ ان سے فرماتے تھے کہ خدمت دین کے جذبہ سے سرشار ہوکر شریعت و طریقت کی تعلیم دو، کھانے پینے اور کرایہ سمیت اپنا خرچہ کرو، گھریلو ذاتی اور تبلیغی اخراجات کے لئے محنت مزدوری کرو، لیکن کسی سے سوال و چندہ ہرگز نہ کرو، صراحۃ، اشارۃ خواہ کنایۃ ہر طرح سے تمہارے دل طمع و لالچ سے خالی ہوں، البتہ اگر کوئی ازخود سفر کا خرچہ دیدیتا ہے تاکہ اس فیض کی اشاعت میں وہ بھی حصہ دار بن جائے تو لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مزید فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص بلاطلب اپنی خوشی سے خدمت کرتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام سمجھ کر قبول کرو، تاہم لوگوں سے قدردانی، خدمت و عقیدت کی امید نہ رکھو۔ چنانچہ ایک مرتبہ مولانا غلام صدیق صاحب علیہ الرحمہ نے عرض کیا، حضور اگر ہم کسی کو نماز سکھاتے ہیں تو لوگ ہم پر وہابیت کا الزام لگاتے ہیں اور وہابی وہابی کہتے ہیں۔ یہ سنکر ارشاد فرمایا تو کیا لوگ تم کو نبی اور پیغمبر کہیں؟ نبیوں کو لوگ جادوگر، کاہن اور کاذب کہتے تھے تو کیا انہوں نے تبلیغ کا کام چھوڑ دیا تھا؟ (مقامات فضلیہ ص۵۴)۔ ایک روز خلفاء کرام کو جمع کرکے فرمایا، میں تم میں سے اس شخص پر سخت ناراض ہونگا جو اپنے مریدوں اور عقیدتمندوں سے اشارۃ یا کنایۃ کوئی چیز طلب کرے یا ان سے طمع و امید رکھے، جو شخص ایسا کرے گا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے (حیات سعیدیہ)۔ خلفاء حضرات کو تاکید فرماتے تھے کہ پہلے خود شریعت مطہرہ کی پابندی کرو، اتباع سنت کو لازم پکڑو، کوئی ایسا کام نہ کرو جو شریعت کے خلاف ہو یا اس سے سلسلہ عالیہ پر دھبہ آئے۔ عورتوں کو وعظ و نصیحت کرو یا بیعت، بہر صورت شرعی پردہ کا خاص اہتمام کرو۔
تبلیغی دورے
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ آپ کے تبلیغی سفر کا زمانہ گھر میں قیام کے زمانہ سے بھی زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس دوران آپ نے سینکڑوں نہیں ہزاروں مقامات پر جاکر تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیا ہوگا۔ آپ نے سندھ اور پنجاب کے بکثرت اور بار بار دورے کئے جبکہ متعدد بار ہندوستان بھی تشریف لے گئے اور وہاں کے عوام خواہ علماء کرام بھی آپ سے فیضیاب ہوئے۔ ذکر خیر کے طور پر یہاں ان چند مقامات کا ذکر کیا جاتا ہے جہاں حضرت پیر قریشی قدس سرہ کا تشریف لے جانا مصدقہ طور پر راقم الحروف کو معلوم ہوا۔
(۱) حیدرآباد سندھ۔ سیدی و مرشدی حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ سے راقم الحروف نے بارہا سنا کہ ہم نے پہلی بار حضرت پیر قریشی قدس سرہ کی زیارت اس وقت کی جب آپ جامع مسجد سلاوٹ سے نماز ادا کرکے باہر نکل رہے تھے۔
(۲) ہالانی۔ تحصیل کنڈیارو میں واقع اس چھوٹے سے شہر میں حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ کے خلیفہ سید غلام دستگیر شاہ صاحب رہتے تھے جن کی دعوت پر آپ ہالانی تشریف فرما ہوئے۔ ان ایام میں حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ بھریا شہر کے ایک مدرسہ میں پڑھتے تھے کہ آپ کے مخلص دوست اور پڑوسی حضرت قاضی دین محمد علیہ الرحمہ (جو کہ پہلے سے حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ سے بیعت تھے) آپ کو دعوت دیکر لے گئے۔ وہیں پر آپ نے حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں بعیت کی اور ذکر سیکھتے ہی آپ پر وجد و جذب کی حالت طاری ہوئی (ملفوظات حضرت سوہنا سائیں قدس سرہ)۔
(۳) کنڈیارو۔ جہاں آپ سید غلام رسول شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر تشریف فرما ہوئے۔ درگاہ اللہ آباد شریف کے قیام کے وقت بھی شاہ صاحب علیہ الرحمہ بقید حیات تھے اور سیدی حضرت سوہنا سائیں علیہ الرحمہ کی خدمت میں بکثرت آیا کرتے تھے اور آپ کے ہاتھ پر تجدید بیعت بھی کی تھی۔ بڑے باہمت و بارعت قدآور آدمی تھے۔ (افسوس یہ کہ بارہا زیارت و ملاقات کے باوجود حضرت پیر قریشی قدس سرہ کی سیرت و سوانح حیات کے موضوع پر اس عاجز نے ان سے کچھ مواد حاصل نہ کیا)۔
(۴) محراب پور۔ جہاں آپ حضرت حاجی محمد یوسف چنہ رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر نہ معلوم کتنی بار تشریف فرما ہوئے۔ حاجی صاحب انتہائی نیک سیرت، خوب صورت، خوش حال، خوش اخلاق، عاشق رسول انسان تھے۔ ان کی یہ خوش قسمتی قابل ذکر ہے کہ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے چار عظیم مشائخ (۱) حضرت خواجہ پیر فضل علی قریشی مسکین پوری قدس سرہ، (۲) حضرت خواجہ محمد عبدالغفار (پیر مٹھا) رحمت پوری رحمۃ اللہ علیہ، (۳) حضڑت خواجہ الحاج اللہ بخش عباسی (پیر سوہنا سائیں اللہ آبادی نور اللہ مرقدہ اور (۴) موجودہ وقت کے کامل ولی حضرت خواجہ الحاج محمد طاہر عباسی (پیر سجن سائیں) اللہ آبادی دامت برکاتہ کی زیارت و صحبت سے فیضیاب ہونے کے ساتھ ساتھ ان چاروں بزرگوں کی میزبانی اور خدمت کا بھی شرف حاصل کیا۔ مؤرخہ ۱۰ رجب ۱۴۰۲ھ بروز بدھ ان کا انتقال ہوا۔ الحمدللہ راقم الحروف، سید حاجی عبدالخالق شاہ اور دیگر اہالیان درگاہ اللہ آباد شریف کو ان کی آخری زیارت اور نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، جبکہ سیدی و مرشدی حضرت سجن سائیں مدظلہ اس وقت پنجاب کے تبلیغی دورہ پر گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر محراب پور اتر کر پہلے حاجی صاحب علیہ الرحمہ کے گھر اور مزار پر گئے، تعزیت اور ایصال ثواب کے بعد اللہ آباد شریف تشریف فرما ہوئے۔
(۵) بستی رحمت پور۔ تحصیل کنڈیارو میں خانواہن شہر سے ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع کوندھر برادری کی اس بستی میں بھی مذکور بالا چاروں مشائخ سلسلہ عالیہ یکے بعد دیگرے رونق افروز ہوتے رہے اور یہ بستی علاقہ بھر کے لوگوں کے لئے فیوض و برکات کا مرکز ثابت ہوئی۔ اس بستی کے مرد حضرات ہی نہیں، اس بستی کی خواتین کی نیکی، طریقہ عالیہ سے وابستگی اور مرشد کامل سے عقیدت و محبت مثالی تھی۔ بڑی تعداد میں ہر چہار مشائخ کی خانقاہوں پر حاضر ہوکر شریعت و طریقت کی تعلیم حاصل کرتی رہیں اور تاحال درگاہ اللہ آباد شریف سے وابستہ ہیں۔
ایک عورت کا احسان۔ مشہور یہ ہے کہ اسی بستی کی ایک صالحہ و پارسا خاتون (محراب فقیر کوندھر کی عزیزہ) نے دربار مسکین پور شریف حاضری کے موقع پر حضرت پیر قریشی قدس سرہ کی خدمت میں عرض کی تھی کہ اپنے پیارے خلیفہ حضرت محمد عبدالغفار رحمۃ اللہ علیہ کو سندھ میں تبلیغ کے لئے مقرر فرمائیں۔ چنانچہ آپ نے ازراہ شفقت اس خاتون کی درخواست کو منظور فرماکر حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کو سندھ میں تبلیغ کے لئے مامور فرمایا۔ جبکہ فقیر بشیر احمد کوندھر کی روایت کے مطابق یہ گذارش ان کے والد فقیر شیر محمد نے کی تھی۔ ان دونوں روایتوں کے مابین یوں مطابقت ہوسکتی ہے کہ چونکہ مذکورہ بستی (جس کا اصل نام تو مڈ کوندھر تھا، رحمت پور نام غالبا حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے تجویز فرمایا تھا) کے مرد حضرت خواہ مستورات حضرت پیر مٹھا سے زیادہ ہی متاثر تھے، ان کے سندھ میں تقرر کے لئے فقیر شیر محمد براہ راست حضرت پیر قریشی قدس سرہ کی خدمت میں عرض کی ہو اور مذکورہ خاتون نے حضرت قریشی علیہ الرحمہ کے اہل خانہ کی معرفت عرض کی ہو، یوں حضرت پیر مٹھا علیہ الرحمہ کے تقرر کو ہر ایک نے اپنی گذارش کا نتیجہ سمجھا ہو۔
عجیب قصہ اور کشف۔ چونکہ ان دنوں سواری کی مناسب سہولتیں نہیں تھیں، ٹرین کے سفر کے بعد مسکین پور شریف تک پہنچنے کے لئے کافی فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا تھا، اس لئے عموما فقراء سندھ سے وفد کی صورت میں جایا کرتے تھے۔ البتہ بعض اوقات تن تنہا بھی جاتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ مذکورہ بستی کے فقیر شیر محمد کوندھر اکیلے پیدل جارہے تھے کہ شام ہونے پر کوئی بستی قریب نظر نہ آئی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ویرانے میں تن تنہا رات گذارنا چاہتے تھے کہ اندھیرا چھا جانے پر قریبی جنگل سے شیر کے دھاڑنے کی آواز سنائی دی۔ چونکہ یہ خالی ہاتھ اور تنہا تھے، بچاؤ کے لئے ایک بڑے درخت پر چڑھ گئے۔ اتنے میں شیر بھی آ پہنچے۔ درخت کے اردگرد چکر کاٹ کاٹ کر آخر میں درخت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اسے کھودنا شروع کردیا اور فقیر شیر محمد خاموشی سے ان کو دیکھتے بھی رہے اور حضرت پیر و مرشد کی پسندیدہ سورۃ قریش کی تلاوت بھی کرتے رہے۔ یوں پوری رات گذر گئی اور مرشد کامل کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بھیڑیئے درخت کو گرا نہ سکے اور صبح ہوتے ہی بھیڑیوں نے جنگل کا رخ کیا اور فقیر نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور مسکین پور شریف کی راہ لی۔ ادھر مرشد کامل حضرت پیر قریشی قدس سرہ نے ازراہ کشف یہ پورا ماجرا معلوم کیا اور نماز فجر کے بعد معمول سے زیادہ دیر تک مسجد شریف میں بھیٹے رہے، یہاں تک کہ فقیر شیر محمد آن پہنچے۔ قدم بوسی کرکے رات کا احوال بتانا چاہتے تھے کہ ازخود حضرت قریشی علیہ الرحمہ نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا، میاں شیر محمد تساں بھی رات ڈاڈھی لایلاف پڑھی ہئی۔ یہ سنکر فقیر صاحب خاموش ادب سے بیٹھ گئے۔ ان کو مزید کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی۔
(۶) بستی ثواب پور۔ رحمت پور نامی مذکورہ بالا بستی سے چند فرلانگ کے فاصلہ پر واقع اس بستی میں بھی حضرت پیر قریشی قدس سرہ فقیر محمد ملوک اور فقیر عبداللہ کی دعوت پر تشریف فرما ہوئے تھے۔ ان کے بعد حضرت پیر مٹھا اور حضرت سوہنا سائیں بھی قدم رنجہ فرماتے رہے۔ الحمدللہ اس بستی کے مرد خواہ مستورات اس وقت حضرت پیر سجن سائیں مدظلہ کے مخلص مرید، صاحب نسبت و محبت ہیں۔
(۷) گوٹھ پھلی۔ خانواہن کے نزدیک واقع اس بستی میں آپ فقیر شیر محمد اور مولانا غلام جعفر سہتہ (یہ صاحب عالم تھے اور اچھے مقرر و واعظ بھی، حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو خلافت و اجازت سے نوازا تھا، درگاہ اللہ آباد شریف کے قیام کے وقت زندہ تھے اور سیدی سوہنا سائیں علیہ الرحمہ کی خدمت میں عقیدت و محبت سے آیا کرتے تھے جہاں راقم الحروف نے بھی ان کی زیارت کی تھی) کی دعوت پر سال ۱۹۳۳ یا ۱۹۳۴ع میں تشریف فرما ہوئے تھے۔ وہیں پر آپ سے محترم ابوہریرہ (عرف الہندو خان) علیہ الرحمہ بھی بیعت ہوئے تھے، بڑے ہی نیک و صالح ذاکر و شاکر انسان تھے، حال ہی میں (۸ شوال ۱۴۲۵ ھجری) تقریبا ۹۶ برس کی عمر میں انتقال فرما گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ حضرت قبلہ مفتی عبدالرحمٰن مدظلہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ الحمدللہ اس عاجز کو بھی ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔
(۸) سکھر۔ چونکہ سکھر جنوبی پنجاب سے نسبتا قریب سندھ کا بڑا شہر ہے اور ریاست بہال پور اور ملتان کے لوگ اس علاقہ میں محنت و مزدوری کنرے زیادہ ہی آتے تھے، اس لئے ابتداء سلوک کے زمانہ میں خود حضرت قریشی علیہ الرحمہ نے یہی پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ فرمایا، مجھے موسیٰ زئی شریف میں اپنے مرشد کی بارگاہ میں یہ خیال آیا کہ آپ سے اجازت لیکر سکھر چلا جاؤں اور وہاں رہ کر مزدوری کروں۔ جب آپ کی خدمت میں اجازت کے لئے حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا قریشی جی!
مکن عمر ضایع بہ تحصیل مال کہ ہم نرخ گوہر نباشد سفال
یعنی، مال و دولت کی تلاش میں عمر ضایع نہ کر، کیونکہ ٹھیکریاں موتیوں کے بہاؤ میں نہیں بکتیں (ملفوظات فضلیہ)
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مجلس میں جب مولانا عبدالغفور صاحب علیہ الرحمہ نے عرض کیا، حضرت سچ یہ ہے کہ ہم ملا لوگوں کے وعظ کا اثر بالکل نہیں، ہاں اولیاء اللہ کا وعظ اگرچہ بقدر دانہ سپند کے ہو، تاہم بڑا اثر رکھتا ہے اور لوگوں کو ہدایت کی طرف کھینچتا ہے۔ تو آپ نے ان کی تصدیق کرتے ہوئے اظہار نعمت خداوندی کے طور پر فرمایا، مولوی صاحب بیشک یہ بات صحیح ہے، ایک شخص سکھر اسٹیشن پر مجھے ملا اور ذکر پوچھا، اسکی پہلی حالت یہ تھی کہ شراب بھنگ چرس اور حقہ پیتا تھا، شطرنج بازی اور زنا میں مبتلا تھا، نماز تو پڑھتا ہی نہ تھا، عام صفات رزیلہ اس میں جمع تھیں۔ اب سننے میں آیا ہے کہ وہی شخص اسم ذات کے ذکر کی برکت سے جمیع حرکات ردیہ سے تائب ہوکر بڑا مخلص اور ارادت مند ہوگیا ہے۔ ولذکر اللہ اکبر۔ دیکھو حق سبحانہ و تعالیٰ نے ذکر کا مرتبہ کیسا بلند فرمایا ہے۔
(۹) ضلع دادو۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ دادو شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں بھی تشریف فرما ہوئے ہیں۔ ملفوظات فضلیہ میں ہے کہ آپ تبلیغی سلسلہ میں بذریعہ ٹرین جندوڈا شاہ کی دعوت پر گیارہ بجے دادو شہر میں پہنچے۔ نماز ظہر کے بعد لوگوں کا بڑا اجتماع ہوگیا تو آپ نے (حضور نبی کریم رؤف رحیم صلّی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر کرتے ہوئے ارشاد) فرمایا، ہمارے محبوب نبی علیہ افضل الصلواۃ والسلام ایک رحیم، خلیق، شفیق، مسکین اور مسکینوں کے ہم جلیس اور انیس تھے (ملفوظات فضلیہ)۔
(۱۰) کراچی۔ ملفوظات فضلیہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت پیر قریشی قدس سرہ کراچی بھی تشریف فرما ہوئے ہیں، البتہ تبلیغی تفصیلت کا علم نہیں ہوسکا۔