فہرست | سیرت و سوانح حیات حضرت پیر فضل علی قریشی قدس سرہ |
طریقہ تبلیغ اور محافل کا منظر
حضرت پیر قریشی قدس سرہ مساجد، مدارس اور جلسہ گاہوں کے مروجہ تکلفات سے بے نیاز، فقیر منش اور بے لوث مبلغ اسلام تھے۔ چلتی ٹرین، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹاپ بلکہ چلتے راہ جہاں کہیں مناسب موقعہ ملتا، ہدایت و نصیحت اور قلبی ذکر کی تلقین فرماکر اتباع شریعت و سنت کی تاکید، نیز شب و روز میں کسی بھی فرصت کے وقت حلقہ ذکر و مراقبہ کی ترغیب دیتے تھے۔ مراقبہ کے وقت خود بھی موٹے منکوں والی تسبیح بجاتے تھے اور جماعت میں بھی اسے رواج دیا تھا۔ حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ کے ذاتی استعمال کی وہ تسبیح آج بھی دربار عالیہ مسکین پور شریف میں موجود ہے (جس میں ازراہ کرم حضرت قبلہ محمد رفیق شاہ صاحب مدظلہ نے دو منکے اس عاجز فقیر کو بھی عنایت فرمائے، فجزاہ اللہ تعالیٰ)۔ الحمدللہ آپ کے مریدین بالخصوص متوسلین درگاہ اللہ آباد شریف کے یہاں آج بھی بڑے منکوں والی تسبیح کا استعمال عام ہے۔
اکثر اوقات دوران خطاب اور مراقبہ فقراء پر غیر اختیاری وجد و جذبہ کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ عوام الناس ہی نہیں علماء کرام اور امراء بھی آپ کی مجلس میں تڑپتے اور زمین پر لوٹتے رہتے تھے۔ نہ تو ان کو کھانے پینے کی فکر رہتی نہ گرمی سردی کا احساس۔ کئی کئی گھنٹے محبت الٰہی میں مست و مخمور رہتے تھے اور جذبہ اس قدر عام اور مشہور تھا کہ لوگ آپ کو جذبہ والا سائیں کے نام سے پکارتے تھے۔
سیدی و مرشدی حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت پیر قریشی قدس سرہ کے زمانہ میں جذبہ اس قدر کثرت سے تھا، بعض اوقات نماز عشاء کے بعد حضرت صاحب قبلہ حویلی سے فقراء کے لئے لنگر لے آتے، دوسرے تو لنگر کھالیتے لیکن مجذوب فقراء ساری رات ذکر کرتے اور دوڑتے رہتے، یہاں تک کہ رمضان المبارک میں سحری کا بھی پتہ نہ چلتا اور کچھ کھائے پیئے بغیر اگلے دن کا روزہ رکھ لیتے۔
عجیب منظر
یوں تو حضرت پیر قریشی قدس سرہ کے سفر و حضر کے ہزاروں تبلیغی پروگراموں کے تفصیلی احوال نہ تو دستیاب ہیں نہ ہی یہاں ان کی گنجائش، سر دست مشت از نمونہ خروار فقط ایک پروگرم میں آپ کے استقبال قیام اور پرتاثیر ارشادات کی ایک جھلک آپ کے نائب حقیقی خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ محمد عبدالغفار (عرف پیر مٹھا) رحمت پوری رحمۃ اللہ علیہ کے قلم حق رقم کے حوالہ سے ہدیہ ناظرین ہے۔
فرمایا، صبح سویر حضرت محبوب سبحانی غوث زمان، پتی (پتی جمعہ آرائیں بستی کا نام ہے) سے روانہ ہوئے۔ یہاں سے سات کوس یا میل کا طے مراحل (سفر طے) کرکے بوقت نیم پاس (دوپہر) راجن پور پہنچے اور محمد کبیر کمپوڈر ہسپتال جو کہ حضرت خلیفہ محمد بخش صاحب کا مرید ہے وہ قطب نالہ کے پل پر حضرت قبلہ عالم کے قدوم میمنت (آمد) کا منتظر تھا، اس نے آگے بڑھ کر پھولوں کے ہار آپ کے گلے میں ڈالے اور دستار مبارک پر بھی اس کے ساتھ ایک مولودی (نعت و منقبت پڑھنے والا) آیا ہوا تھا جس نے ہندی زبان میں عزل پڑھنا شروع کیا جسکا پہلا بیت یہ تھ
رانجھا جوگی، اماں، ویس وٹا کے آیا بے رنگ، رنگ پور اندر دھوم مچا کے آی
یعنی اماں جان رانجھا جوگی (محبوب) اپنا لباس تبدیل کرکے آیا ہے جو بے رنگ (بے مثل) ہے وہ رنگ پور (ظاہری صورت والوں) کے اندر دھوم دھام سے آیا ہے۔
سبحان اللہ اس احقر کمترین (حضرت پیر مٹھا علیہ الرحمہ) پر ایک ایسی حالت طاری ہوگئی کہ۔
نہ یارائے گفتن نہ یارائے گریز بورطہ محبت دلم اشک ریز
کیا دیکھتا ہوں کہ حضور کے چہرہ منورہ پر تجلیات و انوار الٰہیہ متجلیٰ اور منجلیٰ (واضح و روشن) ہونے لگے ہیں، تو بندہ بے خود ہوکر مست ہوگیا اور بادہ محبت (محبت شیخ کے نشہ) سے مدہوش ہوگیا۔ راجن پور کے بازار میں اللہ اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے محمد کبیر کے مکان پر پہنچے، حضور مکان کے بالاخانہ میں قیام و آرام پذیر ہوئے۔
سبحان اللہ مخلوق کا اتنا اژدہام کہ بازار اور کوچے گلیاں بند ہوگئے اور زائرین مکانات کی چھتوں اور سیڑھیوں پر چڑھ کر زیارت سے مستفیض ہونے لگے۔ آپنے اپنے ساتھیوں اور جماعت کے جم غفیر اور انبوہ کثیر (بہت بڑی جماعت) کو بالاخانہ کے نیچے والے مکان میں رہنے کا حکم صادر فرمایا۔
حسب عادت مبارک وعظ پرتاثیر اور نصائح دل پذیر (پسندیہ) بندگان خدا کی اصلاح کے بارے میں ارشاد فرمائے، جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ آبدیدہ ہوگئے اور گناہوں سے تائب ہونے لگے۔ بہت سے لوگوں کے کانوں سے مرکیاں (بالیاں) اور ہاتھوں سے چھلے (انگوٹھیاں) اتارے گئے اور بہت سے آدمیوں کی مونچھیں بھی کاٹی گئیں۔ یہاں پر آپ نے مجازی و فانی عشق اور باقی و حقیقی عشق کے موضوع پر پرتاثیر خطاب فرمایا۔
جمعہ کا دن تھا۔ آپ نے غسل فرمایا اور جامع مسجد میں جمعہ پڑھنے تشریف لے گئے۔ نماز کے بعد مولود خوانی ہوئی، جس سے صوفیاء پر وجد و جذبہ طاری ہوگیا۔ اس موقعہ پر آپ نے فرمایا، جس مولوی کے پیچھے نماز پڑھی ہے اس نے قرآن شریف غلط پڑھا ہے اور اس کی داڑھی بھی حد شرع سے کم ہے، میں تو انشاء اللہ نماز کا اعادہ کروں گا۔ مزید فرمایا جسکی داڑھی قبضہ سے کم ہو اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے (جس کا اعادہ واجب ہوتا ہے)۔ جب نماز پڑھ کر محمد کبیر کے یہاں تشریف فرما ہوئے تو راجن پور کا بڑا تحصیل دار جو خلیفہ محمد بخش صاحب سے سلوک مراقبہ احدیت تک طے کرچکا تھا، حضرت کی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ مگر افسوس کہ اس کی داڑھی پر مشین پھری ہوئی تھی۔ آپ نے اسے دیکھ کر جو فرمایا، امید ہے کہ وہ اسے دمِ زیست (مرتے دم تک) یاد رکھے گا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا، ہم بڑے پیٹ والے ملازموں (آفیسروں) اور حاکموں سے ہرگز نہیں ڈرتے، بلکہ میں تو ان کو چیونٹیوں سے بھی کمزور سمجھتا ہوں۔ یہ اہل حکومت غرور اور تکبر میں مبتلا ہیں۔ الکبر مع الکبر عدل (متکبر کے ساتھ تکبر کرنا انصاف ہے) ہم تو اس پر عامل ہیں۔
نقال کی کھری باتیں
آپ نے فرمایا، ایک نقال نے اپنے ساتھی نقال سے کہا، ارے بھائی یہ ملا لوگ جنت کی بہت تعریف کرتے ہیں، آؤ ذرہ بہشت کا پتہ کریں۔ چنانچہ اس نے (صوفیوں کی طرح) مراقبہ میں سر جھکالیا اور (کچھ دیر بعد) سر اٹھاکر کہا۔ یار بہشت میں جاتے ہی میرا دل بہت گھبرایا کیونکہ اس میں یا تو اندھے تھے یا بہرے، زیادہ تر ملا لوگ جنت میں دیکھے۔ سائل نے کہا، کیا وہاں سید بھی تھے؟ بولا جی ہاں کوئی کوئی نظر آیا تھا۔ (یہ سنکر) سائل نے کہا، اب دوزخ کے متعلق کچھ احوال بتائیں، وہاں کیا دیکھا؟ لہٰذا نقال نے بصورت دوبارہ مراقبہ کرکے سر اٹھایا اور کہا، وہ واہ، دوزخ میں تو بہت رونقیں لگی ہوئی تھیں۔ سائل نے کہا وہ کس طرح؟ کہا، میں نے جو دوزخ کو دیکھا تو اس میں وہ لوگ تھے جن کے نام کے ساتھ دار لگا ہوا ہوتا ہے۔ سائل نے کہا اس معمہ کو بھی حل کردیجئے۔ اس نے کہا چوکیدار، نمبردار، ذیلدار، جمعدار، صوبیدار، تھانیدار، سرشتہ دار، تحصیل دار اور حوالدار، یہ سب دار والے دوزخ میں رونق لگائے ہوئے تھے۔
آپ کی تقریر پرتنویر جہاں دوسرے لوگ توجہ سے سن رہے تھے، وہاں تحصیلدار صاحب بھی بڑے خشوع کے ساتھ سنتا رہا۔ جب تقریر ختم ہوئی تو تحصیلدار صاحب نے دو روپے نذرانہ پیش کرکے منظور کرائے اور دعا کراکر اجازت لیکر چلا گیا۔ حضور نے اسی مسجد میں بہت سے لوگوں کو بیعت کیا۔ رات وہیں بسر فرماکر صبح کے وقت دولت خانہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
الحمدللہ تمام شد سفر داجل بتاریخ ۱۵ شوال ۱۳۵۰ھ (تحریر خواجۂ خواجگان حضرت پیر مٹھا رحمت پوری رحمۃ اللہ علیہ)
تربیت کا انداز
ایک مرتبہ ڈیرہ غازی خان کے سفر سے واپسی پر مسکین پور شریف تشریف فرما ہوتے وقت سفر میں شریک علماء حضرات سے فرمایا۔ میں نے یہ سفر تمہارے ساتھ اس لئے کیا تاکہ آپ حضرات مجھے نقائص سے آگاہ کریں، مگر افسوس کہ آپ حضرات نے مجھے آگاہ نہیں کیا۔ جوابا، جب علماء نے یہ عرض کیا کہ حضرت دوران سفر ہم نے آپ کے کسی عمل میں نقص نہیں پایا (یعنی آپ تمام امور شریعت کے مطابق انجام دیتے رہے) تو فرمایا کیا میں معصوم ہوں؟ یہ نہیں ہوسکتا (کہ مجھ سے کسی بھی قسم کی کوئی کوتاہی نہ ہوئی ہو)، مگر تم نے دیانتداری کا ثبوت نہیں دیا۔ اس پر علماء خاموش ہوگئے۔
دوسرے دن وضو فرماتے وقت گردن کی مسح کے لئے نیا پانی لیا (حالانکہ یہ آپ کا معمول نہ تھا، محض علماء کے امتحان کے لئے ایسا کیا)۔ یہ دیکھ کر ایک عالم نے عرض کیا حضرت ہمارے مذہب میں گردن کے مسح کے لئے نیا پانی لینا نہیں ہے۔ اس فورا حضرت شیخ نے ان کو دعا دی اور فرمایا، شاباش تم نے میری غلطی پکڑلی۔ بعد میں دوسری مجلسوں میں بھی یہ واقعہ سناکر مولوی صاحب کو دعا دیتے رہے۔ (تجلیات)
خدمت خلق
چونکہ تصوف و سلوک کے مدارس (خانقاہوں) میں زیر تعلیم طالب علموں جن کو عام طور پر مرید یا سالک کہا جاتا ہے، کے تزکیہ نفس اور باطنی ترقی کے لئے مجاہدات و ریاضات کرانا دوسے سلسلوں میں تو عام ہے، تلبتہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں محنت و مجاہدہ کی بجائے ذکراللہ اور صحبت شیخ پر زور دیا جاتا ہے۔ تاہم متوسلین و مریدین کے فائدہ کے پیش نظر خدمتد خلق کے کاموں کی طرف ترغیب دینا اور خود بھی اس پر عمل کرنا مشائخ نقشبند کا معمول رہا ہے۔ چونکہ شیخ المشائخ حضرت پیر فضل علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ بھی خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار محنت کش بزرگ تھے، موسم کے مطابق فصلیں کاشت کرنا، باغات کے کام کرنا اور ان کی آمدنی فقراء پر خرچ کرنا آپ کے معمولات میں شامل تھا۔ یہی نہیں بلکہ ایسے خیر کے کاموں میں آنیوالے مسافروں کو بھی شامل رکھتے تھے، جیسا کہ سیدی و مرشدی حضرت پیر سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ جو خود بھی حضرت پیر قریشی قدس سرہ کے صحبت یافتہ تھے، فرمایا کرتے تھے کہ حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ کے دربار پر لنگر کا کام بہت ہوتا تھا۔ آپ خود بھی ہل چلاتے اور کاشتکاری کرتے تھے اور آپ کو کام کاج کرنے والے آدمی پسند ہوتے تھے۔ فارغ البال بیکار بیٹھنے کو ناپسند کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ دربار پر موجود تمام فقراء لنگر کے کسی کام سے گئے، لیکن ہندوستان سے آئے ہوئے ایک سیٹھ صاحب نہیں گئے۔ ممکن ہے کام پر جانیوالوں نے دور سے آئے ہوئے مسافر ہونے کی وجہ سے اسے جانے کے لئے نہ کہا ہو، لیکن آپ نے جیسے ہی اسے فارغ بیٹھے دیکھا، فرمایا، شیخ صاحب آپ فقیروں کے ساتھ لنگر کا کام کرنے نہیں گئے؟ خیر کوئی بات نہیں، آپ جائیں اور گوبر جمع کرکے لے آئیں۔ وہ گئے اور کچھ گوبر جمع کرکے لے آئے اور بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد دوبارہ جب آپ وہاں آئے اور اسے وہیں فارغ بیٹھے دیکھا، فرمایا، کیا آپ گوبر جمع کرنے نہیں گئے؟ یہ حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ کی اعلیٰ تربیت اور امیر و فقیر کے مابین مساوات کا مثالی نمونہ تھا کہ سیٹھ صاحب سے گوبر جمع کروائے ورنہ گوبر آپ کے کسی کام میں نہیں تھے (ملفوظات حضرت پیر سوہنا سائیں قدس سرہ)۔
علماء کرام کی تربیت
اسی تربیت اور باطنی ترقی کیلئے ایک مرتبہ آپ نے بڑے نامور علماء کرام سے کھجور کی چھڑیاں اٹھوائیں، جیسا کہ مولانا عبدالمالک صاحب نے تجلیات میں تحریر کیا ہے کہ ایک مرتبہ دہلی سے واپسی پر آپ نے یہ رائے مبارک ظاہر فرمائی کہ سرحد کے علماء میرے وطن چل کر میری ذاتی زندگی کا مشاہدہ کریں۔ چنانچہ مسکین پور شریف پہنچنے پر مجھے علٰیحدہ کرکے فرمایا، میں چاہتا ہوں کہ یہ علماء مزید (باطنی) ترقیات حاصل کریں اور یہ سفر باعث ظفر ہوجائے۔ میں نے عرض کیا، کیا کرنا ہے؟ فرمایا تین میل کے فاصلہ پر کھجور کی چھڑیاں کٹی ہوئی ہیں، ان سے اٹھوا کر لاؤ۔ غرض یہ کہ علماء کرام جاتے وقت ہی تھک گئے تھے، پھر بھی لنگر کا کام کیا اور سبھی نے اپنے سروں پر کھجور کی چھڑیاں اٹھائیں۔ جب حضرت شیخ نے اس کا مشاہدہ کیا تو مسکرائے، فیضان الٰہی کا جوش ہوا، عجیب کیفیت طاری رہی، علماء کے سینوں کو فیضان مبارک سے بھردیا۔ (تلخیص از تجلیات)
بے ادبی کا نتیجہ
حضرت پیر قریشی قدس سرہ سادگی اور اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود مقام مشیخیت کی مناسبت سے عزت و وقار کا بھی غیر معمولی لحاظ کرتے تھے اور وہ بھی طریقت کے طالبوں کی اصلاح و فائدہ کے لئے۔ چنانچہ اس موضوع پر آپ کے خلیفہ ارشد و نائب حضرت پیر مٹھا قدس سرہ نے ایک اہم واقعہ بیان فرمایا، جس سے شیخ کے ادب کی اہمیت اور عزت و وقار ملحوظ رکھنے کی ضرورت عیاں ہوجاتی ہے۔
ایک اہم واقعہ۔ فرمایا، ایک مرتبہ مولوی عمر وڈا نے عرض کیا۔ حضرت کل بندہ پاؤں میں درد کے سبب چل نہیں سکتا تھا، اسی مجبوری کی بنا پر آپ کی اونٹنی پر سوار ہوگیا، اب اسی بے ادبی کی وجہ سے میری یہ حالت ہے کہ سارا کام بگڑ گیا ہے، پاؤں اونٹنی کی گردن کی طرح سوج گیا ہے اور درد اتنا شدید ہے کہ مجھے بیٹھنے اور سونے نہیں دیتا۔ باطن کی قساوت تو اللہ تعالیٰ داناتر ہے، بالکل خالی ہوگیا ہوں۔ اب براہ کرم میری گستاخی معاف کی جائے۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ مولوی صاحب حضرت محبوب سبحانی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار پر ایک لنگڑے کو پڑے ہوئے ایک برس گذر گیا، اتفاقا ایک ولی اللہ زیارت کے لئے دربار میں حاضر ہوا۔ اس نے لنگڑے کے متعلق (حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے) پوچھا، حضرت اس کو معافی کیوں نہیں ملتی؟ ارشاد ہوا یہ لنگڑا ابدالوں میں سے ہے، ایک دن بمع جماعت ابدالوں کے یہاں سے گذرا، دوسرے ابدال تو بلحاظ ادب میرے دربار سے ایک طرف ہو گذرے، لیکن یہ دربار کے اوپر سے گذرا جسکی وجہ سے گرگیا اور بے ادبی کی سزا بھگت رہا ہے۔ بے ادبی کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
ایک اور واقعہ۔ فرمایا، کسی شیخ کامل کو کسی احمق نے گالیاں دیں اور ناسزا (نامناسب) الفاظ بکے تو حق سبحانہ و تعالیٰ نے فورا اس شیخ کامل کو الہام فرمایا کہ میں اس بے ادب سے ابھی مواخذہ کرتا ہوں۔ شیخ نے اپنے ایک مرید کو حکم فرمایا کہ دوڑ کر جا اور اس آدمی کو دھکا دیکر زمین پر لٹادے اور اس بے ہودہ گوئی کی سزا دے۔ لیکن مرید بیچارہ عدم رسائی کے سبب اصل حقیقت کو نہ سمجھ سکا اور لگا عذر کرنے اور منت سماجت کرنے کہ حضور اسے معاف فرمائیں۔ مگر نتیجہ یہ ہوا کہ اتنی دیر میں وہ بے ادب شخص پھڑکتا ہوا زمین پر گرا اور وائے ویلہ اور ہائے ہائے کرتا ہوا جان شیریں قابض الارواح (حضرت عزرائیل علیہ السلام) کے سپرد کردی، تو شیخ نے مرید کو فرمایا، دیکھا تونے؟ اگر تو میرے حکم پر عمل کرتا تو اسکی بے ادبی کا قصاص (بدلہ) ہوجاتا اور وہ موت کے اس عذاب سے بچ جاتا اور میں بارگاہ الٰہی میں عرض کرتا، یا الٰہ العالمین میں نے ابھی اس کی برائی کا بدلہ لے لیا ہے، تو یہ بیچارہ مرنے سے بچ جاتا اور آتا ہوا عذاب رک جاتا۔
اس کے بعد آپ نے مولوی عمر وڈا سے فرمایا، مولوی صاحب میں نے بھی آپ کو معافی دیدی ہے، لیکن بنظر انصاف دیکھو، یہ طریقہ کتنا نازک ہے اور اس میں کتنی لطافت رکھی ہوئی ہے۔ الطریقۃ کلہ ادب، اس میں تھوڑی سی بے ادبی سے گرفت ہوجاتی ہے۔ (ملفوظات فضلیہ)