فہرست | سیرت و سوانح حیات حضرت پیر فضل علی قریشی قدس سرہ |
مسلک حضرت مرشد کریم قدس سرہ
حضرت قبلہ پیر فضل علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ مذہب کے حوالہ سے مقلد، حنفی اور مسلک کے اعتبار سے پکے سنی اور مشرب کے لحاظ سے نقشبندی مجددی تھے، اور آپ کے وہی عقائد تھے جو علماء اہل السنۃ الجماعۃ کے، بالخصوص حضرت امام ربانی مجدد و منور الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی نور اللہ مرقدہ کے، جن کی آپ نے مکتوبات شریف میں مکمل وضاحت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ ان ہی عقائد پر اخروی کامیابی کا مدار ہے۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ نے کبھی بھی ان حضرات قدسی صفات کے عقائد سے سرمو بھی انحراف نہیں فرمایا۔
بلاشبہ آپ پکے اور سچے موحد اور عاشق رسول، ولی کامل، عالم و عامل بزرگ تھے اور عمر بھر توحید باری تعالیٰ اور عشق و محبت رسول عربی فداہ امی و ابی صلّی اللہ علیہ وسلم کا درس دیتے رہے۔ جملہ صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے قلبی عقیدت و محبت رکھتے تھے، مدۃ العمر ان کے دوستوں کے دوست اور ان کے دشمنوں کے دشمن رہے اور اپنے شیخ حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صحابہ کرام ری اللہ عنہم کے گستاخی کرنیوالے شیعہ فرقہ کی کھلم کھلا مذمت فرماتے تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ شیعہ کا معنیٰ گروہ ہے، اگر چار پانچ کتے جمع ہوجائیں تو ان کو شیعہ کہہ سکتے ہیں اور چار پانچ گدھے جمع ہوجائیں تو انہیں بھی شیعہ کہہ سکتے ہیں اور یہ لامذہب فرقہ ہے۔
فرمایا، مکہ معظمہ ہو یا مدینہ منورہ دونوں شہر اسلام کی بنیاد ہیں، تم مجھے وہاں کوئی شیعہ دکھاؤ؟ چار ائمہ کے چار مصلے تو ہیں (اس زمانہ میں کعبۃ اللہ المشرفہ کے گرد حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی فقہ کے ماننے والوں کے جدا جدا مصلے ہوتے تھے) لیکن شیعہ کا وہاں پانچواں مصلیٰ نہیں ہے۔
دیوبند میں تبلیغ
یہ تو ایک حقیقت ہے کہ حضرت پیر قریشی قدس سرہ دیوبند شہر اور وہاں واقع دار العلوم دیوبند بھی تشریف لے گئے، لیکن یہ درست نہیں کہ آپ عقیدت و محبت کی بنا پر وہاں گئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ وہاں محض تبلیغ دین اور عوام خواہ علماء کی اصلاح کے لئے گئے تھے۔ چنانچہ جب آپ کے داماد حضرت مولانا قبلہ عبدالرؤف شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سیدی و مرشدی حضرت پیر سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نے حضرت پیر قریشی قدس سرہ کے دار العلوم دیوبند جانے سے متعلق احوال دریافت فرمایا تو قبلہ شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے بڑی وضاحت سے بتایا کہ آپ وہاں نہ تو کسی قسم کی دنیوی منفعت حاصل کرنے گئے تھے اور نہ ہی کسی سے عقیدت وہاں جانے کا باعث بنی، بلکہ احیاء سنت نبویہ علیٰ صاحبہا الصلواۃ والسلام کے مقصد لیکر آپ دار العلم تشریف لے گئے تھے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا، ہوا یوں کہ آپ تبلیغی سلسلہ میں ہندوستان گئے ہوئے تھے۔ دیوبند کے قریب ایک جگہ آپ کا پروگرام تھا۔ وہاں پر بعض لوگوں نے آپ سے بیان کیا کہ حضور دار العلوم میں ویسے تو بڑے بڑے علماء رہتے ہیں اور وہاں بڑی بڑی دینی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں لیکن سنت نبویہ کی وہاں پابندی نہیں ہے۔ کئی طالب علم داڑھیاں کترواتے ہیں وغیرہ۔
(نوٹ۔ قبلہ شاہ صاحب علیہ الرحمہ کا یہ بیان جو دس پندرہ منٹ پر مشتمل ہے اس عاجز نے ٹیپ رکارڈر میں محفوظ کرلیا تھا لیکن وہ کیسیٹ کسی اور آدمی کی تھی)
غرض یہ کہ ایک اہم سنت نبویہ کے ترک کی خبر سنکر آپ بے قرار ہوئے (سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں شریعت و سنت کی تابعداری بہت اہم ہے) اور تبلیغ کے غرض سے دار العلوم تشریف لے گئے۔ جبکہ مولانا عبدالمالک صاحب (جو کہ آپ کے خلیفہ اور عالم تھے) کی روایت کے مطابق میں تبلیغ کرنے دیوبند جایا کرتا تھا اور ایک مرتبہ ہندوستان کے تبلیغی سفر سے واپسی پر میں نے حضرت صاحب علیہ الرحمہ سے عرض کیا کہ دار العلوم تشریف لے چلیں اور آپ ازراہ کرم میری گذارش پر تشریف لے گئے۔ اس موضوع پر مولانا عبدالمالک صاحب کی مشہور تصنیف تجلیات صدیقی سے چند حوالہ جات ہدیہ ناظرین ہیں۔
بقول صدیقی صاحب، قاری محمد طیب صاحب نے مجھ سے فرمایا، آپ ہمیشہ دیوبند میں آیا کریں تاکہ دیوبند کو روحانی فیض جو باعث ترقیات ہے، پھر سے نصیب ہو۔ پس میں مطمئن ہوا اور میری دیوبند کی آمدورفت بہ سلسلہ تبلیغ شروع ہوگئی۔ یہ تمام فیوض و برکات حضرت شیخ (پیر قریشی قدس سرہ) قبلہ کے تصرفات تھے۔ اور یہ کہ جب آپ دیوبند تشریف فرما ہوئے تو آپ کے خلوص و للٰہیت، تقویٰ اور اتباع شریعت و سنت (دیوبند میں تین دن قیام کے دوران) کو دیکھ کر حضرت شیخ علیہ الرحمہ کے حق میں اعتقاد کی بڑی تیز لہر دوڑی اور آپ کے عمل پر اعتراض کی گنجائش کا نہ موقعہ تھا، نہ مل سکا۔ ہر ایک نظر میں اتباع سنت کا نقشہ تھا۔ مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی کی مسجد میں حلقہ ذکراللہ قائم ہوا۔ جذبات خوب امڈ کر طلباء پر واقع ہوئے، علماء میں سے کسی نے اعتراض نہیں کیا، بلکہ مزید اعتقادات میں اضافہ ہوا (تجلیات)۔
حالانکہ اسی مدرسہ کے طلبہ پہلے آپ سے بدظن تھے۔ بقول صدیقی صاحب، ایک مرتبہ دیوبند جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کچھ پنجابی طلبہ نے حضرت شیخ کے لباس کو دیکھ کر بدظنی کے تحت مدرسہ کی مسجد میں عصر یا ظہر کے بعد عرض کیا کہ حضرت ہمیں کچھ نصائح فرمائیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کی بدظنی تھی حضرت کے علم پر۔ حضرت شیخ مدرسہ کے کمرہ سے نکل کر برآمدہ میں تشریف لائے اور تقریر شروع کی، تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کے موضوع پر، جن کے ثبوت قرآن کریم کی آیات اور احادیث نبویہ شریف سے دیئے۔ اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ اکثر طلباء و صلحاء طریقہ بیعت میں داخل ہوئے۔
ظہر کے وقت قاری محمد طیب صاحب نے نماز پڑھائی۔ سر پر کپڑے کی ٹوپی تھی۔ بعد فراغت نماز ظہر، حضرت قبلہ نے قاری محمد طیب صاحب سے کہا کہ دار العلوم میں ہوتے ہوئے افضل سنت کا ترک۔۔۔ فورا ہی قاری صاحب نے اشارہ کیا صافحہ (عمامہ) لایا گیا، اس کو مسجد کے مصلے پر رکھدیا گیا۔ ہر نماز کے وقت جو کوئی امامت کراتا ٹوپی پر صافحہ باندھتا۔ حوالہ مذکور
قاری محمد طیب صاحب حضور رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ حضور کی خدمت میں ایک وقت کی دعوت پیش کی، جو آپ نے منظور کرلی اور فراغت دعوت کے بعد قاری محمد طیب صاحب اتنے خوش تھے کہ واپسی کے وقت حضرت کا جوتا سیدھا کیا، جس کو حضرت شیخ نے پہنا۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ کے فیض اور تصرف باطنی کی دھوم چار دانگ عالم میں پھیلنے پر ایک اور مشہور دیوبندی عالم مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کا گذر جب حضرت شیخ کے قریہ (دربار) سے ہوا تو حضرت کی تلاش میں وہ کھیت پر پہنچے۔ حضرت شیخ اس وقت ہل چلا رہے تھے۔ حضرت شاہ صاحب نے دعا کی درخواست کی، حضرت نے انکے قلب پر انگلی رکھ کر قلبی ذکر کی تعلیم دی۔ انگلی رکھنے کے ساتھ ہی قلب جاری ہوگیا اور وہ اسی وقت سے عقیدت مند ہوگئے۔
غیر مقلدوں میں تبلیغ۔ دیوبند تشریف آوری کے موقعہ پر تبلیغی سلسلہ میں آپ غیر مقلدوں کی مساجد میں بھی گئے اور ان کو طریقہ عالیہ کے عین مطابق قلبی ذکر سکھایا اور حلقہ ذکر و مراقبہ کرایا اور بآواز بلند یارسول اللہ کے نعرے بلند کرکے اپنے عقیدہ کا عملی اظہار فرمایا، جیسا کہ مولانا عبدالمالک صاحب نے جو خود پہلے غیر مقلد تھے، حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ سے بیعت کے احوال میں لکھتے ہیں، اسی اثناء میں حضرت قطب الارشاد مولانا محمد فضل علی صاحب قریشی عباسی ہاشمی، احمدپور شرقیہ تشریف لائے۔ میری عمر اس وقت سولہ سترہ سال ہوگی، ہنوز تعلیمی سلسلہ جاری تھا۔ ہمشیرہ صاحبہ سے معلوم ہوا کہ تیرے استاد ایک شیخ وقت سے ملنے مسجد قبہ والی میں گئے ہیں اور مولانا عبدالعزیز (یہ حضرت غیر مقلد تھے، مرتب) وہاں گئے ہوئے ہیں، چنانچہ میں بھی بوقت عصر حاضر ہوا۔ دیکھا مجمع علماء و صلحاء و امراء کا موجود ہے اور مراقبہ کرنے کا انتظام ہورہا ہے۔ چنانچہ مراقبہ شروع ہوا اور میں نے بھی کپڑا منہ پر ڈال کر حضرت کا چہرہ دیکھنا شروع کیا۔ حضرت شیخ اس وقت بغیر کپڑے کے توجہ دے رہے تھے۔ فیضان الٰہی کے جوش سے شیخ پر مشاہدہ حضور انور سیدنا و مولانا رسول اکرم محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کا ہوا اور ندائیہ کلمات صلواۃ و سلام کے ساتھ شروع کئے۔ ندائیہ کلمات حضرت شیخ کی زبان مبارک سے بالجہر ظاہر ہوئے، باوجود اس کے کہ غیر مقلد کافی تعداد میں تھے، مگر کسی شخص کو شیخ سے بداعتقادی نہیں ہوئی۔ بلکہ وجہ مزید تقویت اعتقاد شیخ ہوا۔ مزید لکھتے ہیں اس وقت چہرہ مبارک پر انوار و تجلیات کی انتہا تھی۔ میرے قلب میں فورا بیعت کرنے کی اعتقادی صورت اختیار کی اور میرے استاد نمبر دوم مولوی عبدالعزیز صاحب نے شیخ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ہماری مسجد شیشم والی میں مغرب کی نماز پڑھائیں۔ حضرت نے اس دعوت ادائگی نماز کو قبول فرمایا، چنانچہ ہم لوگ قبل مغرب واپس ہوئے (شیشم والی مسجد اس زمانے میں غیر مقلدوں کا گڑھ تھی اور اب بھی ہے حاشیہ ص ۴۳ تجلیات)۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ کا فیض و روحانی تصرف تھا کہ مولانا عبدالمالک صاحب کے مشورہ کرنے پر اسی غیر مقلد عالم دین مولوی بشیر احمد صاحب نے ان سے کہا فورا بیعت کرلیں، اس وقت دنیا میں ایسا کوئی شیخ نہیں، شیخ متبع سنت ہیں۔ بیعت ہونے کے بعد بقول مولانا عبدالمالک صاحب، میں نے ایک قلبی لذت محسوس کی جسے میں نے اپنے تمام جسم میں محسوس کیا، یہ شیخ کی توجہ تھی، شیخ نے اپنے دست مبارک پر بیعت فرمایا اس کے بعد ارشاد فرمایا۔ جسے مراقبہ میں شمولیت کرنی ہے وہ بوقت عشاء قبہ والی مسجد میں پہنچے۔ چنانچہ ہم مراقبہ کے لئے قبہ والی مسجد پہنچے اور مراقبہ میں حضرت شیخ کی توجہ سے قلب پر ذکر اللہ جاری ہوگیا اور اتنا تیز آواز سے ہوا کہ مسجد کے بیشتر آدمی اٹھ کر دیکھنے لگے کہ یہ آواز کہاں سے آئی ہے۔ میں باہوش بیٹھا ہوا تھا، کسی قسم کی بے ہوشی طاری نہیں تھی۔ لوگوں کو متوجہ دیکھ کر حضرت شیخ نے فرمایا کہ یہ بچہ تم میں سے ہے، میرے ساتھ آنیوالوں میں سے نہیں ہے کہ کہیں تم اندیشہ کرو کہ یہ تصنع ہے۔