فہرست | سیرت و سوانح حیات حضرت پیر فضل علی قریشی قدس سرہ |
بزرگوں کے مزارات پر حاضری
حضرت پیر قریشی قدس سرہ زیارت و ایصال ثواب کے لئے اولیاء کاملین کے مزارات مقدسہ پر بکثرت جاتے تھے۔ نہ فقط یہ بلکہ بعض اوقات مزارات پر مراقبہ کرکے بذریعہ کشف و حال صاحب مزار کے حالات معلوم کرتے اور مناسب موقعہ پر اہل ذکر فقراء کو بھی انکے احوال بتاتے۔ علاوہ ازیں آپ کے مریدین و خلفاء میں بھی ایسے صاحب حال افراد تھے۔ بعض اوقات ان کو مراقبہ کا امر فرماتے اور وہ صاحب مزار بزرگوں سے احوال معلوم کرکے آپ کی خدمت میں پیش کرتے۔ اس قسم کے چند ایک مستند واقعات درج کئے جاتے ہیں جن سے آپ کے اعلیٰ روحانی مقامات پر فائز ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
اجمیر شریف میں
ایک مرتبہ ارشاد فرمایا، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہمیں جماعت سمیت اجمیر شریف آنے کی دعوت دی ہے، جس میں خصوصی طور پر مولانا محمد عبدالغفار صاحب (حضرت پیر مٹھا علیہ الرحمہ) کو ساتھ لانے کا امر فرمایا ہے۔ چنانچہ جب اجمیر شریف پہنچے اور آپ نے حضرت معین الحق والدین قدس سرہ کے مزار انور پر مراقبہ کیا، چونکہ یہ عرس شریف کا موقعہ تھا، کچھ ہی دیر بعد مجاوروں نے آپ کو اٹھانا چاہا۔ اسی اثنا میں حضرت چشتی علیہ الرحمہ تشریف فرما نظر آئے اور آپ سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے، عرس کے موقعہ پر جو لوگ ان مجاوروں کو تحفہ تحائف دیتے ہیں یہ ان ہی کو خصوصی طور پر یہاں لے آتے ہیں۔ لہٰذا فی الوقت یہ لوگ آپ کو یہاں بیٹھنے نہیں دینگے۔ مزید فرمایا ہمیں بھی بعض مہمانوں (اولیاء کرام) کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر جانا پڑتا ہے، لہٰذا فی الحال آپ باہر تشریف لے جائیں، رش کم ہونے پر دوبارہ تشریف لے آئیں۔ تب تک ہمیں بھی فرصت ہوجائے گی۔ چنانچہ آپ جماعت سمیت باہر تشریف لے گئے۔
خصوصی دعوت۔ عرس شریف کا موقعہ ہونے کی وجہ سے مرد عورتیں، امیر و فقیر، ہر طبقہ کے افراد رات دن مزار شریف پر حاضری دے رہے تھے۔ مزار شریف کے بیرونی احاطہ میں بھی کوئی بیٹھا ہوا تھا، تو کوئی لیٹا ہوا تھا۔ حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ لیٹے ہوئے تھے کہ ایک خاتون جو کہ ڈولی میں بیٹھ کر زیارت کے لئے آئی تھی، نے اپنے نوکر سے کہا لو یہ پیسے، اس سوئے ہوئے فقیر کو دیدو۔ چونکہ بہت سارے آدمی لیٹے ہوئے تھے، نوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا تو وہ خاتون کہنے لگی جو فقیر سیاہ چادر اوڑھے ہوئے ہیں ان کو دیں۔ یہ فقیر حضرت پیر مٹھا علیہ الرحمہ تھے جو سیاہ چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تھے۔ اس طرح حضرت اجمیری علیہ الرحمہ نے حضرت پیر مٹھا قدس سرہ کو خصوصی طور پر دعوت دیکر فقط بلایا ہی نہیں، سفری اخراجات کے لئے ایک زائر کے ذریعہ مالی معاونت بھی فرمائی۔ (روایت حضرت خلیفہ قبلہ مفتی عبدالحمٰن صاحب اللہ آبادی سلمہ)
اتباع شریعت اور طریقہ عالیہ نقشبندیہ
شریعت مطہرہ پر مکمل طرح سے عمل کرنا اور حتی المقدور کسی سنت رسول علیٰ صاحبہا السلام کو ترک نہ کرنا بلکہ سنتوں کے ساتھ مستبحات پر بھی شوق سے عمل کرنا اور خلاف شرع رسوم و رواج، بدعات سے دور رہنا اور مکروہ مشتبہات سے پرہیز کرنا ہی طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے امتیازی اوصاف ہیں، جیسا کہ حضرت امام ربانی مجدد و منور الف ثانی قدس سرہ السامی نے ارشاد فرمایا ہے کہ طریقہ نقشبندیہ اکسیر اعظم طریقہ ہے اور اس کا مدار ہی اتباع سنت سنیہ پر ہے۔ مزید تحقیق کے لئے مطالعہ کریں مکتوب نمبر ۴۱ دفتر اول حصہ دوم، مکتوب نمبر ۶۹ دفتر اول حصہ دوم اور مکتوب نمبر ۱۵۲ دفتر اول حصہ سویم۔ اسی موضوع پر حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ کے ملفوظات میں ہے، فرمایا۔ ایک بزرگ نے فرمایا ہے، سی سال مجاہدہ کردم نفس من ننالید چوں بر شریعت نفس را اجبار کردم بنالید۔ یعنی بیس سال تک میں نے مجاہدے کئے، لیکن میرا نفس کبھی نہیں رویا، البتہ جب میں نے اسے شریعت پر عمل کے لئے مجبور کیا تو رونے لگا۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ کے حالات زندگی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ دیوانگی و وارفتگی کی حد تک شریعت مطہرہ پر خود بھی عمل پیرا رہے اور متعلقین کو بھی اسی کی تلقین کی۔
سنت سے محبت اور بدعت سے نفرت
اجمیر شریف حاضری کے موقعہ پر درگاہ شریف کی مسجد کے پیش امام صاحب کی داڑھی مبارک قدرے کم تھی، یعنی سنت کے مطابق چہار انگشت کے برابر نہ تھی۔ نماز تو حضرت پیر قریشی قدس سرہ نے ان کے پیچھے پڑھ لی، لیکن تارک السنت امام کی اقتدا میں ادا کی گئی نماز واجب الاعادہ ہونے کی بنا پر آپ نے خود بھی نماز کا اعادہ کیا اور جماعت کو بھی نماز دوبارہ پڑھنے کا امر فرمایا۔ آپ کی اتباع سنت کا یہ اثر ہوا کہ معلوم ہونے پر مذکور پیش امام حضرت پیر قریشی قدس سرہ کی خدمت میں آئے معذرت کی اور آئندہ چہار انگشت برابر داڑھی رکھنے کا عہد کیا۔
اتباع سنت کا ایک اور واقعہ
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع پیر خانہ موسیٰ زئی شریف میں جہاں طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے تین عظیم مشائخ (۱) حضرت خواجہ حاجی دوست محمد قندھاری (۲) حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی اور (۳) حضرت خواجہ محمد سراج الدین نور اللہ مرقدہم کے مزارات مقدسہ یکجا زیارت گاہ خاص و عام ہیں، مرشد کامل حضرت خواجہ محمد سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کے پردہ فرما ہوجانے کے بعد بھی زیارت و ایصال ثواب کے لئے جایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ دربار عالیہ پر حاضر ہوئے تو نماز کے وقت مقرر پیش امام جس کی داڑھی سنت کے مطابق چہار انگشت کے برابر تھی، کی غیر موجودگی کے باعث صاحبزادہ صاحب نے نماز پڑھائی، جن کی داڑھی چار انگشت سے قدرے کم تھی۔ جیسے ہی فرض نماز سے فارغ ہوئے قریب کھڑے ہوئے مولوی صاحب سے فرمایا، نماز کا اعادہ کرنا ہے (اس لئے کہ داڑھی مونڈھ اور داڑھی کتروانے والے امام کے پیچھے ادا کی گئی نماز ادا نہیں ہوتی اور اس کا اعادہ واجب ہوجاتا ہے)۔ چنانچہ آپ نے نماز دوبارہ پڑھ کر ارشاد فرمایا، مرشد کے صاحبزادہ کا ادب و محبت اپنی جگہ لیکن شریعت کا مقام اس سے بہت اعلیٰ ہے (اس معاملہ میں تسامح و چشم پوشی کی گنجائش نہیں)۔
داڑھی مونڈھ ہندوؤں سے مشابہ ہے
ایک مرتبہ نماز فجر سے فارغ ہوئے تو وہاں موجود ایک شخص سے فرمایا، آپ کا نام کیا ہے اور کیا کام کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا، جناب میرا نام مراد علی ہے اور میں جانوروں کے ڈھک (وہ سرکاری ادارہ جہاں لاوارث جانور رکھے جاتے ہیں) کا منشی ہوں۔ یہ سن کر ارشاد فرمایا، تیری شکل ہندوؤں سے مشابہت رکھتی ہے، اس لئے میں نے پہلے یہی سمجھا کہ شاید ہندو ہے۔ پھر فرمایا، ارے مسلمان! کیوں کفار سے مشابہت رکھتے ہو؟ وہ بولا، جناب سچ ہے، مگر کیا کریں یہ رسم پڑ گئی ہے۔ جوابا ارشاد فرمایا شریعت تو رسومات کی بیخ کنی کرنے والی ہے، کہاں تک رسومات پر کاربند رہو گے؟ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا، کوئی نواب ٹرین کے فرسٹ کلاس کے ڈبے میں اکیلا سفر کررہا تھا۔ چلتی گاڑی میں پیغام اجل آ پہنچا۔ مر تو گیا، مگر اسے بڑے غور سے پہچاننے کی کوشش کی گئی لیکن پہچانا نہیں گیا، کسی نے کہا ہندو ہے، کسی نے کہا معلوم نہیں کون ہے۔ چونکہ اس کی شکل و صورت ہندوؤں کی سی تھی اس لئے اسے جلایا گیا۔
ناک کٹا اور داڑھی مونڈھا
فرمایا، ناک کٹا ہوا آدمی تو بہت برا معلوم ہوتا ہے، اسی طرح داڑھی مونڈھا آدمی بھی برا معلوم ہوتا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام ہوئے ہیں، ان سب کی داڑھی مبارک تھی۔ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوں یا اولیاء کرام علیہم الرحمہ، سب کی داڑھیاں تھیں۔ اس کے بعد مجلس ذکر قائم ہوئی، آپ نے مراقبہ کرایا، اس کے بعد میاں فضل الدین کے مکان پر تشریف لے گئے، وہاں پر سکھر کی جماعت موجود تھی، سب اہل ذکر تھے۔ میاں فضل الدین کی داڑھی قبضہ سے کم تھی، دیکھ کر آپ کو غصہ آگیا اور بڑے جوش سے فرمایا، اس کو چوہا کب تک کاٹتا رہے گا، اگر آخرت کا بھلا چاہتے ہو تو داڑھی نہ منڈاؤ سخت گناہ ہے۔ فضل الدین کو اس بارے میں سخت تنبیہ فرمائی، آخر اس نے توبہ کرلی کہ آئندہ داڑھی نہ منڈاؤں گا۔ (ملفوظات پیر مٹھا)
خان اور بروہی کی مونچھیں
آپ نے اللہ داد خان سپروائزر سے فرمایا، تیرا اعتقاد تو ہمارے ساتھ اچھا ہے مگر مونچھیں تیری بڑھی ہوئی ہیں، کیوں؟ انہیں کٹادو۔ پھر اس کمترین (حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) سے فرمایا۔ پہلے اس بروہی صاحب کی مونچھیں درست کرو، پھر اس خان کی مونچھیں بھی سنت کے مطابق ٹھیک کردو۔ چنانچہ بندہ نے حسب الارشاد بروہی کی مونچھیں کتردیں۔ اس کے بعد اللہ داد خان کی مونچھیں جو بچھو کے دم کی طرح ہونٹوں پر پیچ و تاب کھا رہی تھیں، کاٹ دیں اور درست کردیں۔ اس موقعہ پر (حضرت پیر قریشی قدس سرہ نے) ارشاد فرمایا۔ بارگاہ نبوی میں کچھ مونچھوں والے آئے تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اعراض فرمالیا (منہ پھیرلیا) (حوالہ مذکور)۔
فرشتوں کا ورد
فرمایا فرشتوں کی ایک جماعت ہے، جن کا ورد یہ ہے۔ سبحان من زیّن الرجال باللحیٰ والنسآء بالذوائب (پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں سے زینت بخشی اور پاک ہے وہ ذات جس نے عورتوں کو زلفوں سے زینت بخشی)۔
عقل مند مرد اور کم عقل عورتیں
فرمایا عورتیں ناقصات العقل والدین ہونے کے باوجود نہ سر کی گندھی ہوئی مینڈھیاں کھولتی ہیں اور نہ کبھی کترواتی ہیں اور تم مرد عقل مند ہونے کے باوجود داڑھی جیسی زینت اور سنت کو ہمیشہ صفا اور چٹ کرکے رکھتے ہو۔ مزید فرمایا اگر داڑھی زینت کے لئے نہ ہوتی تو ہمارے پیارے آقا اور اللہ کے محبوب نبی علیہ و علیٰ آلہ افضل الصلواۃ و اکمل التحیات کی داڑھی مبارک نہ ہوتی۔ یہ شان صرف مردوں کو ملا ہے (حوالہ مذکور)۔
دو قسم کے بال
خلیفہ مولانا عبدالمالک صاحب کا ایک مرید وہاں موجود تھا، جس نے داڑھی منڈا رکھی تھی۔ اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا بدن میں بعض بال منڈانے کے لئے ہوتے ہیں اور بعض بال رکھنے کے لئے ہوتے ہیں، ان کا رکھنا ثواب ہے اور ان کا منڈانا ثواب ہے۔ افسوس یہ ہے کہ زیر ناف کے بال منڈاتے ہیں تو اسکے ساتھ داڑھی کے بال بھی منڈا دیتے ہیں، شاید ان کے نزدیک دونوں کا ایک درجہ ہے۔
حقہ، تمباکو اور نسوار
فرمایا حقہ کا بہت رواج ہوگیا ہے، اگر حقہ کی نڑی پر کپڑا رکھ کر حقہ کا دھواں اوپر کھینچا جائے تو کپڑا فورا سیاہ ہوجاتا ہے، اسی طرح حقہ پیتے پیتے دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ ایک شخص نسوار ناک میں دیتا تھا۔ آپ نے اس کو کوزہ مصری اور سونڈھ (خشک ادرک) پر کچھ پڑھ کر دم کردیا اور فرمایا ان کو پیس کر سونگھتا رہ، دوسرے تمباکو والے کو جو تمباکو منہ میں رکھتا تھا، فرمایا نمک اور سیاہ مرچ دم کراکر منہ میں رکھو اور تمباکو چھوڑ دو، یہ فضول خرچی ہے۔ (ملفوظات حضرت پیر مٹھا علیہ الرحمہ)
عجیب معاملہ
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ، حضرت پیر قریشی قدس سرہ کے علاقہ کے مشہور و معروف بزرگ ہیں۔ آپ ان کے مزار پرانوار کی زیارت و ایصال ثواب کے لئے اوچ شریف تشریف فرما ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ عرص شریف کے فورا بعد آپ وہاں تشریف لے گئے۔ اس بار حضرت قریشی علیہ الرحمہ نے خلاف معمول بڑی دیر تک مزار مبارک پر مراقبہ کیا۔ مراقبہ سے فارغ ہوکر مولانا عبدالمالک صاحب (راوی) سے فرمایا، آج عجیب معاملہ تھا، جب میں مراقب ہوا تو صاحب مزار کو وہاں نہ پایا۔ قبر مبارک روشن تھی مگر خالی۔ کافی دیر بعد حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، ملاقات ہوئی، فرمایا میں یہاں نہیں تھا، یہاں معصیت (عرس کے موقعہ پر جاہل لوگوں کے خلاف شرع اعمال) کا بازار گرم تھا، میں ہر سال عرس کے موقعہ پر حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قیام کرتا ہوں، میں ابھی واپس نہ آتا مگر حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میری امت کا ایک ولی منتظر ہے اس لئے واپس آیا۔ (تجلیات ص ۳۳)
حضرت باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے حضور میں
دہلی کے سفر میں آپ حضرت خواجہ محمد باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۲۴ ھجری) کے مزار مبارک کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے تھے، جہاں کشف و حال کی صورت میں حضرت قریشی قدس سرہ کی ان سے ملاقات بھی ہوئی اور ان سے خرقہ مبارک بھی ملا۔ اور بعض صالحین کے لئے خلافت کا بھی اشارہ ملا، جن کو واپسی پر آپ نے خلافت و اجازت سے نوازا، جن میں سے ایک مولانا عبدالغفور صاحب مدنی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ (تلخیص از تجلیات)
حضرت خواجہ نور محمد ناروں والے رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر
حضرت پیر قریشی قدس سرہ مذکور بزرگ کے مزار پر گئے، ختم شریف پڑھ کر اصیال ثواب کیا اور اس بزرگ کے بارے میں جو ارشاد فرمایا اور اس کو آپ کے خلیفہ اجل اور نائب حضرت پیر مٹھا علیہ الرحمہ نے قلم بند کیا، ہدیہ ناظرین ہے۔ فرمایا، یہ حضرت نور محمد ناروں والے نہایت ہی سادہ مزاج بزرگ تھے۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ ان کے مزار کی زیرات و ایصال ثواب کے لئے جاتے تھے، ان کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ وہ حضرت خواجہ نور محمد مہاروی علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔ ایک مرتبہ وہ اپنے شیخ حضرت نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اپنے استاد محترم کے ساتھ اس حال میں گئے کہ ان کے گھوڑے کے آگے دوڑتے ہوئے جارہے تھے، لباس بالکل کہنہ پھٹا ہوا تھا، جوتا اتنا پرانا کہ پہن کر چلنا مشکل تھا اس لئے اسے ہاتھ میں لیکر یا بغل میں دباکر پابرہنہ جارہے تھے، نیز شکل مبارک نہایت سادہ اور غربت زدہ تھی۔ لیکن جب پیر کی خدمت میں پہنچے تو جاتے ہی مرشد نے خلافت عطا فرمائی اور حضرت نور محمد کے سینہ کو نور سے معمور کردیا۔ پھر تو واپسی کے وقت استاد بلحاظ ادب پیدل گھوڑے کے آگے آگے چل رہے تھے اور حضرت نور محمد صاحب گھوڑے پر سوار جارہے تھے۔ استاد نے کہا ہائے افسوس! میں تو آپ کو ناقص العقل سمجھتا تھا اور بدقسمت سمجھ رہا تھا۔ میں تو یہ جانتا ہی نہ تھا کہ اصل میں ناقص میں ہی ہوں۔ (ملفوظات فضلیہ ص۴۵)
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی اور حضرت داتا گنج بخش لاہوری رحمۃ اللہ علیہما کے مزارات پر
(حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ نے) فرمایا، میں نے حضرت مجدد و منور الف ثانی قدس سرہ کے مزار شریف پر مراقبہ کیا تو آپ نے مجھے مشفقانہ، مرشدانہ نصیحت فرمائی۔ ہندوستان سے واپسی پر جب میں نے لاہور میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہوکر مراقبہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا، میں بھی تجھے وہی نصیحت کرتا ہوں جو مجدد صاحب نے کی ہے۔ (حوالہ مذکور ص۱۱۱)
علماء و مشائخ اہل السنت والجماعت کا یہ متفقہ علیہ عقیدہ ہے کہ اولیاء اللہ بعد از وفات بھی، صاحب استعداد مریدوں کو اپنے ارشادات، زیارات اور فیوض و برکات سے نوازتے ہیں، نیز یہ کہ وہ اپنے متعلقین کے احوال سے باذنہ تعالیٰ باخبر رہتے ہیں کہ کون مزار پر حاضر ہوا ہے اور کہاں سے ہوکر آیا ہے۔ اسی مجلس میں آپ نے ایک اور واقعہ بیان فرماتے ہوئے فرمایا، میں ایک بزرگ کے مزار شریف پر حاضر ہوا، بیٹھ کر ختم شریف پڑھا، جب ختم کا ثواب بخشا تو اس وقت ایک اور بزرگ کا نام زبان پر آگیا تو فورا صاحب مزار بزرگ نے فرمایا پڑھ تو میرے لئے رہا تھا اور بخش دیا دوسرے کو، تو میں نے کہا اس بزرگ کا نام میری زبان پر بے اختیار آگیا ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے مزار پر
(بین الاقوامی شہرت کے حامل یہ محدث اور ولی حضرت امام ربانی مجدد و منور الف ثانی قدس سرہ کے ہمعصر بزرگ ہیں۔ ابتدا میں تو بعض غلط فہمیوں کی بنا پر حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کو کامل ولی نہیں مانتے تھے، لیکن بعد میں آپ کے مخلصین اور معتقدین میں شامل ہوگئے، مکتوبات شریف میں کم از کم ایک مکتوب شیخ محقق علیہ الرحمہ کے نام تحریر ہے) کے مزار پر بھی آپ تشریف فرما ہوئے ہیں۔ چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ جب میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے مزار شریف پر پہنچا تو ایک آدمی نے کچھ آم ہدیہ کے طور پر میرے سامنے پیش کئے۔ میں نے وہ آم تو کھالئے مگر ان کے چھلکے رکھتا گیا اور دل میں یہ خیال کیا کہ دیکھیں یہ چھلکے کس کے نصیب ہوتے ہیں، کیا دیکھتا ہوں کہ خلیفہ کرم حسین شاہ صاحب نے وہ سب چھلکے اٹھاکر کھالئے۔
تین محبوبان الٰہی
سیدی و مرشدی حضرت پیر سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ سے راقم الحروف نے بارہا سنا، فرمایا کرتے تھے کہ حضرت پیر قریشی قدس سرہ کو بذریعہ کشف بتایا گیا تھا کہ آپ محبوب الٰہی ہیں۔ راقم الحروف کو پیش نظر کتاب کی تحریر کے دوران حضرت پیر قریشی قدس سرہ کے درج ذیل ملفوظات عالیہ جو کہ حضرت پیر مٹھا رحمہ اللہ کے تحریر کردہ ہیں، ملے جن سے مزید اس حوالہ کی تائید ہوتی ہے۔
آپ (حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ) نے فرمایا ایک دن میں نماز فجر میں تھا، جناب باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ اے قریشی میں نے تمہیں اپنا محبوب بنایا ہے، مزید فرمایا، اول درجہ محبوبیت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو، دوسرا درجہ محبوبیت کا حضرت شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو اور تیسرا درجہ میں نے تجھے دیا ہے۔
حضرت محبوب الٰہی سے لعاب دہن کا تبرک
آپ نے فرمایا، ایک دفعہ میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر مراقب ہوا تو انہوں نے وہ لعاب دہن میرے منہ میں ڈالا جو انہیں حضرت رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے امانت کے طور پر دیا تھا جس کی وجہ سے میں مست ہوگیا۔ (ملفوظات فضلیہ ص۹۰)
حضرت مخدوم بلال علیہ الرحمہ کا استقبال
ضلع دادو سندھ کے تبلیغی دورہ کے موقعہ پر آپ نے سندھ کے مشہور و معروف بزرگ حضرت مخدوم بلال رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک کی زیارت کی اور ایصال ثواب کے بعد مراقبہ کیا۔ چونکہ اس دن خانقاہ پر سالانہ اجتماع منعقد ہورہا تھا اور لوگ بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے، ازراہ خیر خواہی سید جیون شاہ صاحب نے جو کہ آپ کے ساتھ تھے لوگوں کو حضور کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ اللہ کے کامل ولی ملک پنجاب سے یہاں تشریف فرما ہوئے ہیں جن کی توجہ سے مردہ دل زندہ ہوجاتے ہیں، آؤ اور ان سے ذکر سیکھو۔ یہ سن کر مخلوق دیوانہ وار حضرت صاحب پر ٹوٹ پڑی اور بہت سے لوگوں کو آپ نے ذکر سمجھایا اور بیعت بھی فرمایا۔ پھر آپ خانقاہ کے اندر تشریف لے گئے اور مراقبہ فرمایا۔ بعد از فراغت واپس تشریف لائے تو ارشاد فرمایا، مخدوم صاحب نے ۔۔۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ مولوی حضرت کو ہدایت کرو کہ وہ محض خلوص دل سے رضائے الٰہی کے لئے تقریر کیا کریں، دل میں کسی قسم کا طمع اور ریاکاری نہیں ہونی چاہئے اور تیسری بات یہ فرمائی کہ میری خانقاہ پر عورتیں نہ آیا کریں۔
مخدوم صاحب کی عید
فجر کی نماز کے بعد حضور پھلجی اسٹیشن سے شکارپور کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں مولوی سیلم اللہ صاحب سے فرمایا، مخدوم صاحب نے مجھے مراقبہ میں ارشاد فرمایا، از آمدن شما ما عید می کنیم و ما برائے استقبال شما در دادو آمدہ بودیم، لیکن شما بسبب اشتغال ذکر بسوئے ما توجہ نفرموید۔ یعنی تمہاری آمد پر ہم خوشیاں منارہے ہیں، ہم تو آپ کے استقبال کے لئے دادو بھی آئے تھے، لیکن ذکر میں مشغول ہونے کی وجہ سے آپ نے ہماری طرف توجہ نہ کی تھی۔
روحانی غذا
دہلی آمد پر جب پیر طریقت حضرت نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۱۱۳۵ ھجری) کے مزار مبارک کی زیارت و ایصال ثواب کے لئے قبرستان پہنچے تو حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ خواہ آپ کے کسی ساتھی کو ان کے مزار مبارک کے بارے میں علم نہ تھا کہ کہاں واقع ہے۔ چنانچہ آپ نے مزار شریف معلوم کرنے کے لئے صاحب کشف و حال فقیروں سے فرمایا اور انہوں نے کچھ ہی دیر میں مزار شریف کا پتہ چلالیا، اور تمام حضرات نے حاضر ہوکر ختم شریف پڑھا، ایصال ثواب اور مراقبہ کیا۔ اسی اثنا میں حضرت نور محمد بدایونی قدس سرہ نے بحالت کشف اپنے نائب طریقت حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ سے فرمایا۔ آپ لوگ غریبوں کے پاس رات گذارنا نہیں چاہتے، تاہم، ہم آپ کو یہاں رات گذارنے کی دعوت دیتے ہیں۔ گو آپ کا پروگرام آگے جانے کا تھا، یہاں پر مختصر وقت کے لئے ہی حاضر ہوئے تھے، لیکن اس ارشاد کے بعد آپ نے پروگرام بدل دیا اور با ادب عرض کیا، حضور ہم خوشی سے رات آپ کے پاس قیام کرینگے۔ چنانچہ آپ ساتھیوں سمیت رات وہیں ٹھیرے، اور حضرت بدایونی علیہ الرحمہ نے فیوض و برکات کی صورت میں دعوت کا ایسا اہتمام فرمایا کہ ساری رات فقراء پر جذبہ و وجد کی حالت طاری رہی، اور جو فقیر کئی دنوں کے فاقہ سے تھے، وہ بھی اپنے آپ کو سیر محسوس کرنے لگے۔ یوں پوری رات بڑے سکون و لذت میں بسر ہوگئی۔ (ملفوظات حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ، روایت حضرت قبلہ مفتی عبدالرحمٰن صاحب مدظلہ)