فہرست

سیرت و سوانح حیات حضرت پیر فضل علی قریشی قدس سرہ


اخلاق و عادات

 

توکل اور تقویٰ۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ صاحبِ توکل و تقویٰ بزرگ تھے۔ رزق حلال کا خصوصی اہتمام فرماتے اور مشکوک و مشتبہ چیزوں سے دور رہتے تھے۔ ہوٹل کے کھانوں اور بازار میں بکنے والی مٹھائی، گُڑ وغیرہ سے پرہیز کرتے ہی تھے۔ کسی بے نمازی کے ہاتھ کا تیار کیا ہوا کھانا بھی نہیں کھاتے تھے۔ حضرت قبلہ مفتی عبدالرحمٰن صاحب نے حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے بتایا کہ ایک مرتبہ تبلیغی سفر میں حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ جب شکارپور تشریف فرما ہوئے، آپ کے ہمراہ کافی اہل ذکر فقراء بھی آئے ہوئے تھے۔ صاحب دعوت جو کہ محکمہ پولیس میں ملازم تھے، نے اپنی خالص تنخواہ کے پیسوں سے کھانے کا اہتمام کیا، لیکن اس سے غلطی یہ ہوگئی کہ پکنے والے چاولوں میں جو گُڑ ڈالا تھا وہ بازار سے خریدا گیا تھا۔ کھانا تیار ہونے پر جب اس نے معذرت خواہانہ انداز میں مذکورہ کوتاہی کا ذکر کیا تو آپ نے بھی معذرت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ فقیروں کے تقویٰ والا روزہ نہ توڑاؤ، یہ کھانا مقامی مسکینوں میں تقسیم کردو۔ یہ فرماکر اگلی منزل کے لئے روانہ ہوگئے، حالانکہ آپ خود اور آپ کے ساتھی گذشتہ روز سے فاقہ سے تھے۔

تجلیات میں مولانا عبدالمالک صاحب نے لکھا ہے کہ تبلیغی سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند آمد کے موقعہ پر قاری محمد طیب صاحب نے حضور پیر قریشی قدس سرہ کی دعوت کی (ازراہ عقیدت کہ واپسی کے وقت حضور کے جوتے اپنے ہاتھوں سے سیدھے کرکے رکھے تھے) اور آپ کے لئے تقویٰ والا گھی، حضرت مولانا انور شاہ صاحب کے یہاں سے لیا۔ چونکہ ایسا گھی جو قاری صاحب کو حاصل ہوا تھا، حضرت شیخ الاسلام کو حاصل نہ ہوسکا، اس وجہ سے شیخ الاسلام (مولانا حسین مدنی) بڑے تڑپے کہ ایسا گھی میرے پاس نہیں کہ حضرت شیخ کی دعوت کروں۔ ایک مرتبہ اصحاب کہف کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے آیت مبارکہ کے کلمات ”ایھا ازکیٰ طعاما“ تلاوت کرکے فرمایا۔ یہاں پاکیزہ طعام کا ذکر ہے، اس لئے بزرگان ماسلف پاکیزہ کھانے کی تلاش کرتے تھے اور تقویٰ کے ہمیشہ پابند تھے۔ قرآن مجید میں ”ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم“ فرمایا گیا (یعنی، بیشک تم میں سے وہی اللہ تعالیٰ کے حضور زیادہ معزز و محترم ہیں جو زیادہ پرہیزگار ہیں) اور آج کے مسلمان تو بالکل پرواہ نہیں کرتے، بلکہ ہندوؤں کی بنائی ہوئی چیزیں بھی ہنیئا مریئا (۔۔۔) کرجاتے ہیں۔ ہندوؤں کے نزدیک تو گائے کا پیشاب اور سرگین (گوبر) سب پاک ہیں۔ (ملفوظات فضلیہ)

سادگی و خودداری۔ حضرت پیر قریشی قدس سرہ کے خورد و نوش اور نشست و برخواست و دیگر تمام حالات و معاملات میں سادگی اور خلوص و للٰہیت کے اوصاف نمایاں تھے۔ تصنع، تکلف اور خودی، تکبر یا ریاکاری کا آپ کے کسی قول و عمل میں شائبہ تک نہ تھا۔ ہر عمل میں اتباع سنت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم پیش نظر رکھتے اور اللہ عز و جل کی رضا جوئی کو مقدم رکھتے تھے۔ دنیادار اس سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض، اس سے آپ کو کوئی سروکار نہ تھا۔ چنانچہ سفر ہند کے دوران جب آپ مولانا عبدالمالک صاحب کی گذارش پر دیوبند تشریف لے جارہے تھے تو مولانا صاحب نے دیوبند سے قریب پہنچنے پر عرض کیا، حضور کپڑے بدل لیجئے تو آپ نے فرمایا: تو مجھے تصنع سکھاتا ہے؟ بقول مولانا صاحب، میں ڈر گیا اور خاموش ہوگیا۔ وہی کپڑے پہنے دیوبند تشریف فرما ہوئے، لیکن بعد میں خود ہی دیسی کپڑوں کا لباس زیب تن فرمایا۔ جالندھر میں جب جماعت کے لئے کھانا آیا تو خود لوٹا لے کر تمام جماعت کے ہاتھ دھلائے۔ ایک موقعہ پر فقیرپور شریف میں دوپہر کے وقت کچھ دیر آرام کے بعد اٹھ کر باہر تشریف لے گئے اور جماعت کے جوتے جھاڑ کر درست کرنے لگے۔ بالفاظ مولانا عبدالمالک، میرے کان میں اس وقت آواز پڑی جب دو تین جوڑے باقی رہ گئے تھے، میں دوڑ کر بھاگا، اس وقت میری زبان سے ایسے الفاظ نکلے کہ سب جماعت ہوشیار ہوگئی اور سب پر جذب کی حالت طاری ہوگئی۔ ہر کوئی روتا تھا، اس وقت آپ نے فرمایا تم اللہ اللہ کہنے والی جماعت ہو، میں نے اسی لئے تمہارے جوتے صاف کئے کہ میری عاقبت اچھی ہو، اور تم بخل کرتے ہو اور روتے ہو۔ سفر میں جماعت کے تھکنے کے سبب آرام کرتے وقت کمزور لوگوں کے ہاتھ پاؤں خود دباتے تھے۔

”میں خاکی ہاں“۔ حضرت پیر قریشی علیہ الرحمہ کے مزاج میں غیر معمولی سادگی، اور قول و عمل میں انتہا درجہ کی یکسانیت تھی۔ خواجۂ خواجگان قیوم زمان حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ایک عالم تھے مولانا نبی بخش صاحب، انتہائی نیک و صالح اور صاحب دولت و ثروت۔ حضرت قریشی علیہ الرحمہ کے مرید نہ تھے البتہ معتقد تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت کی بمع جماعت دعوت کی۔ بڑی تعداد میں لوگ حضور کی زیارت فیض بشارت سے فیضیاب ہونے کے لئے حاضر ہوئے۔ مولانا صاحب نے لنگر کا بھی وسیع پیمانہ پر انتظام کیا تھا۔ بڑی کثرت سے لوگ حضور کی زیارت اور بیعت سے مشرف ہوئے، لیکن خود مولانا صاحب نے بیعت نہیں کی۔ مجھے یہ بات اچھی نہ لگی اور چاہا کہ یہ بھی حضور سے بیعت ہوکر فیضیاب ہو تو بہتر ہے۔ چنانچہ میں نے جاکر ان سے کہا کہ اوروں کو تو بیعت کروارہے ہو اور خود بیعت نہیں ہوتے، وجہ کیا ہے؟ جوابا کہنے لگے دراصل مجھے خواب میں حضرت پیر فضل علی سائیں سے بیعت ہونے کا حکم ملا، آپ کی شکل و صورت بھی دکھائی گئی، جب میں نے زیارت کی تو بعینہ وہی شکل و شباہت ہے اور بیشک آپ صالح و صاحب فیض بھی ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ مجھے خواب میں فضل علی خاکی بتایا گیا تھا، جبکہ آپ تو قریشی ہیں خاکی نہیں ہیں (خاکی ایک قوم کا نام ہے)، اسی شبہ کی بنا پر مین بیعت نہیں ہوا۔ مولانا سے یہ باتیں سن کر میں نے حضرت صاحب علیہ الرحمہ کو بتائیں، تو جوابا ارشاد فرمایا: ”میں خاکی نہ ہاں تاں کیا ہاں؟“ (یعنی میں خاکی نہیں ہوں تو اور کیا ہوں؟) اس مختصر جملہ میں آپ نے خاکی صفت کی طرف اشارہ کیا جو عناصر اربعہ میں سے ایک اہم عنصر ہے۔ خاکی کا لفظی معنیٰ تو مٹی ہے، جس کے بغیر انسان کا زندہ رہنا ہی مشکل ہے کہ اس سے پیدا ہونے والی فصلوں پر انسانی زندگی کا مدار ہے، اسی کے اوپر چلتا پھرتا اور سوتا ہے، جبکہ دیگر عناصر سے اس قدر قرب انسان کے بس میں ہی نہیں۔ مثلا آگ ہے، اس پر آدمی اپنے لئے کھانا پکاتا ہے، سردیوں میں گرمی حاصل کرتا ہے، لیکن آگ کے اندر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح پانی میں بھی آدمی زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا، لیکن مٹی ہے کہ پیدائش سے لیکر وفات تک انسانی زندگی کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اس صفت سے موصوف ہوتا ہے اور جس پر اس صفت کا غلبہ ہوتا ہے، اس میں سادگی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور یہ وصف میرے پیر حضرت فضل علی سائیں رحمۃ اللہ علیہ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ بہرحال مذکورہ مختصر جواب سن کر مولانا نبی بخش صاحب حضور سے بیعت ہوکر آپ کے مخلص مریدوں میں شامل ہوگئے، یہاں تک کہ جب حکومت برطانیہ نے ان کی زمین سے ریلوے لائین گذارنے کی اجازت چاہی، تو انہوں نے ایک ہی شرط عائد کی کہ قریبی ریلوے اسٹیشن کا نام میرے پیر و مرشد حضرت فضل علی قریشی کے نام پر رکھا جائے۔ (روایت حضرت قبلہ مفتی عبدالحمٰن صاحب اللہ آبادی، خلیفہ مجاز خواجۂ خواجگان حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ)

حق گوئی اور بے باکی۔ حق گوئی اور بے باکی کا ملکہ بھی آپ کے وجود مسعود میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ مسجد سبیل دہلی (جہاں مولانا عبدالغفور صاحب مدنی امام تھے) تشریف فرما ہوئے۔ علماء و صلحاء کا مجمعہ تھا۔ حضرت شیخ نے ایک کونے سے دیکھنا شروع کیا، آخر کونے تک دیکھتے گئے۔ آخر میں فرمایا، ہمارے ہاں عورتوں کو خون آتا ہے، لیکن یہاں مردوں کو، اور منہ سے۔ حضرت کی زبان میں سادگی کا یہ اثر تھا کہ کئی حضرات نے اسی وقت سے پان کی عادت چھوڑدی۔ (تلخیص از تجلیات)