پیچھے | شجرہ شریف | آگے |
حضرت خلیفہ بلا فصل، سید البشر بعد الانبیاءامیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہاز۔ عبد الشکور
سلمیٰ بنت صخر مکان کے صحن میں اداس و غمزدہ بیٹھی گہری سوچوں میں مستغرق تھی۔ اتنے میں عثمان ابوقحافہ اندر داخل ہوا۔ بیوی کو افسردہ دیکھا تو قریب جاکر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا ”ام الخیر کیا بات ہے“۔ ”تم میرے روگ کو بخوبی جانتے ہو، میں نے لات و عزیٰ کا کیا بگاڑا ہے جو میرے بچے زندہ نہیں رہتے“۔ اس کی آواز میں گہرا کرب نمایاں تھا۔ ”یہ تو ہمارے خدا ہی بہتر جانتے ہیں، کوئی کیا کہہ سکتا ہے“۔ عثمان ابوقحافہ بن عامر کا تعلق قریش کی معزز شاخ بنی تیم سے تھا جو شجاعت، سخاوت، مروت، بہادری اور ہمسایوں کی حمایت و حفاظت سے متصف تھی۔ عام الفیل کی ایک خوبصورت صبح تھی۔ ابوقحافہ کے گھر عورتوں کا جھمگٹا تھا کیونکہ آج اس کے ہاں ولادت ہونے والی تھی۔ ابوقحافہ باہر منتظر بیٹھا تھا کہ کسی نے آکر خبر دی کہ ”ابوقحافہ تمہیں بیٹے کی مبارک ہو“۔ وہ دوڑتا اندر گیا تو بیوی کے پہلو میں خوبصورت بچے کو دیکھ کر بے اختیار کہا ”یہ میرا بیٹا عبداللہ ہے“۔ بیوی نے کہا ”میں نے کعبے میں منت مانی تھی کہ بیٹا ہوا اور زندہ رہا تو عبدالکعبہ نام رکھوں گی“۔ ”یہ بھی کوئی نام ہے“ یہ کہا اور باہر نکل گیا۔ عبداللہ بن عثمان ابوقحافہ کو اپنے ہمجولیوں اور دوستوں میں انفرادیت و فوقیت حاصل تھی۔ اس کی غیر معمولی صفات و محاسن کو دیکھ کر ہر ایک یہ کہتا کہ یہ بچہ یقینًا جوان ہوکر ایک عظیم انسان بنے گا۔ وقت پر لگاکر اڑتا رہا۔ ایک دن سلمیٰ نے ابوقحافہ سے کہا کہ جب تو کعبہ جایا کرے تو کبھی کبھی بیٹے کو ساتھ لیجایا کر۔ ایک دن سوئے کعبہ جاتے ہوئے بیٹے کو دیکھا تو ساتھ لے لیا۔ راستہ میں عبداللہ نے ایک پتھر ہاتھ میں اٹھالیا۔ عثمان نے کہا ”بیٹا اسے پھینک دو، کعبہ میں پتھر نہیں لے جاتے“۔ ”اچھا تو اتنے پتھر کے بت جو کعبہ میں موجود ہیں“۔ عثمان ابوقحافہ لاجواب ہوگیا۔ ”اچھا اسے جیب میں ڈال لو“۔ لیکن جیب چھوٹی تھی پتھر بڑا، اس لیے ہاتھ میں ہی رہا۔ کعبہ میں پہنچ کر ابوقحافہ نے کہا ”بیٹے یہ ہمارے خدا ہیں انہیں سجدا کرو“۔ ”یہ ہمارے خدا ہیں“ عبداللہ نے حیرت و استعجاب سے کہا اور ہاتھ میں پکڑا ہوا پتھر ایک بڑے سے بت کو مارا جس سے اس کی ناک کا ٹکڑا اڑ گیا۔ ابوقحافہ بھونچکا رہ گیا۔ دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ عبداللہ نے کہا ”اگر یہ میرا خدا ہے تو اسے کہو میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلائے، میں ننگا ہوں مجھے کپڑے پہنائے“۔ واپسی پر ابوقحافہ نے بیوی سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے بھی کہا کہ ”عبداللہ جب ابھی میرے شکم میں تھا تو مجھے آوازیں آتی تھیں کہ تجھے خوشخبری ہو اس آزاد بچے کی، اس کا لقب آسمانوں میں صدیق ہے جو رسول اللہ کا یار و رفیق ہوگا“۔ ابوقحافہ گہری سوچ میں پڑ گیا پھر کہا ”لگتا ہے یہ غیر معمولی بچہ ہے اس کا خیال رکھا کرو“۔ وقت گزرتا رہا۔ عبداللہ کی حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم سے بچپن سے دوستی تھی، لیکن اس میں بھی ادب کا پہلو نمایاں نظر آتا تھا، حالانکہ وہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے صرف ڈھائی سال چھوٹے تھے۔ عام الفیل میں جب حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم اپنے کفیل تایا حضرت زبیر بن عبدالمطلب کے ہمراہ تجارتی سفر پر ملک شام روانہ ہونے لگے تو فرمائش کرکے اپنے دوست عبداللہ کو بھی ساتھ لے لیا۔ بچپن میں عبداللہ اپنے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے اپنے دوستوں میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ان میں اور نکھار پیدا ہوگیا۔ زمانۂ جاہلیت سے قبول اسلام تک بھی آپ کی حیات مبارکہ تمام اخلاق رذیلہ سے پاک نظر آتی ہے۔ کبھی شراب کو ہاتھ نہ لگایا، جوا کے قریب نہیں گئے۔ قبول اسلاماٹھارہ سال کی عمر میں خواب میں دیکھا کہ آسمان کی وسعتوں میں چمکتا ہوا چاند ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور مکہ کے ہر گھر میں اس کا ٹکڑا گرا۔ پھر تمام ٹکڑے یکجا ہوئے اور اس کے گھر میں آ گرے اس نے فورًا دروازہ بند کرلیا۔ عجیب و غریب خواب کی تعبیر مکے میں کوئی نہ بتاسکا۔ اسی دوران ملک شام جانا پڑا۔ راستے میں حورا کے کلیسا میں راہب سے تعبیر پوچھی۔ راہب نے پوچھا ”تم کون ہو؟“ ”میں قریشی ہوں“ عبداللہ نے جواب دیا۔ ”تمہارے درمیان پیغبر آخر الزمان آئے گا، ہر جگہ اس کا نور پہنچے گا اور تم اس کے وزیر ہوگے“۔ راہب نے جواب دیا تو عبداللہ نے اسی دن سے ٹھان لی کہ جونہی وہ نبی مبعوث ہوگا وہ فورًا اس پر ایمان لے آئے گا۔ زرقانی نے شرح مواہب میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حضرت حکیم بن حزام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں حضرت حکیم رضی اللہ عنہ کی لونڈی ان کے پاس آئی اور کہا کہ آپ کی پھوپھی آج کہہ رہی تھیں کہ ان کے شوہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نبی ہیں۔ یہ سن کر آپ اٹھے اور سیدھے نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور کہا ”اے ابو القاسم (صلّی اللہ علیہ وسلم) ہر نبی کے پاس نبوت کی کوئی دلیل و برہان ہوتی ہے، آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟“ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم متبسم ہوئے اور فرمایا ”اے ابوبکر میری دلیل وہ خواب ہے جو تم نے دیکھا تھا“۔ یہ سننا تھا کہ فورًا بغیر کسی حیل و حجت کے ایمان لے آئے۔ خود نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ہر ایک نے اسلام قبول کرنے سے پہلے کچھ نہ کچھ تردد کیا لیکن ابوبکر نے جونہی سنا فورًا تسلیم کیا۔ آزمائشیںاولین ایمان لانے والوں میں آپ کے علاوہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شامل ہیں۔ اظہر من الشمس ہے کہ ان حضرات میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ چھوٹی عمر (چھ سال) ہونے کی وجہ سے اسلام اور اہل اسلام کی کوئی مدد نہ کرسکتے تھے، حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا خاتون اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ غلام ہونے کے باعث مؤثر طریقے سے لوگوں کو دینِ مبین کی طرف دعوت نہ دے سکتے تھے۔ جبکہ پورا مکہ ہی آپ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس کٹھن آزمائش کے وقت میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذات ہی ایسی تھی جو دینِ اسلام کے لیے زبردست سہارا بنی۔ آپ رؤسائے قریش میں شمار ہوتے تھے اور کپڑے کے مشہور تاجر تھے۔ قبولِ اسلام کے وقت آپ کا چالیس ہزار درہم کا سرمایہ کاروبار میں لگا ہوا تھا۔ لیکن ہجرت کے وقت آپ کے پاس فقط پانچ ہزار باقی بچے تھے۔ اس سے یہ بات عیاں ہے کہ آپ نے جان، مال، تن من دھن سب راہِ خدا میں قربان کردیا۔ سخت تکلیفیں برداشت کیں لیکن پائے استقامت میں جنبش تک نہ آئی۔ ایک روز حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجدِ حرام تشریف لے گئے۔ اچانک وہاں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے تقریر شروع کردی اور لوگوں کو دعوتِ اسلام دی۔ علی الاعلان یہ پہلا موقع تھا۔ مشرکین آپ پر ٹوٹ پڑے۔ عتبہ بن ربیعہ نے چہرہ مبارک پر اتنا مارا کہ منہ سوج گیا۔ ان کے قبیلے والے ان کو اپنے گھر لے گئے۔ شام کو جب ہوش آیا تو پوچھا ”میرے آقا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟“ اسی پر بنوتیم برا بھلا کہتے ہوئے چلے گئے۔ والدہ نے لاعلمی کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا ”فاطمہ بنت خطاب (رضی اللہ عنہ) سے پوچھو“۔ والدہ ان کے پاس گئیں اور حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی خیریت کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے چونکہ اپنا اسلام لانا ظاہر نہیں کیا تھا اس لیے کچھ نہ بتایا البتہ ان کے گھر تشریف لے گئیں۔ جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو چیخ پڑیں اور کفار کو بددعائیں دیں، پھر فرمایا ”حضور صلّی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں“۔ آپ نے فرمایا واللہ میں کچھ نہ کھاؤں گا جب تک ان کو دیکھ نہ لوں۔ جب شہر میں کچھ سکون ہوا تو والدہ سہارا دے کر لے گئیں۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو رقت طاری ہوگئی، بے اختیار جھکے اور پیشانی کو چوم لیا۔ آپ کے عرض کرنے پر حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی والدہ کو دعوتِ اسلام دی تو وہ مسلمان ہوگئیں۔ دو بار آپ کفار کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ ہجرت کرگئے۔ دوسری بار جاتے ہوئے راستہ میں قبیلہ قارہ کا سردار ابن الدغنہ ملا اور پوچھا ”کہاں کا قصد ہے؟“ آپ نے فرمایا ”میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے، سخت تکلیفیں دی ہیں اور زندگی تنگ کردی ہے“۔ اس نے کہا اے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) تم جیسا آدمی نہیں نکل سکتا، تم تو معاشرے کی زینت ہو، نادار کو کماکر دیتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، عاجز و درماندہ کا بار اٹھاتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو اور نیک کاموں میں مدد کرتے ہو۔ واپس چلو میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ کو واپس لے آیا۔ واقعۂ ہجرت سے تعلق حضرت عمر کا قولسن ۱۳ نبوت میں واقعۂ ہجرت پیش آیا جو قربانی، جاں نثاری اور محبت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کا ایک درخشاں باب ہے۔ آپ نے کس درجہ اپنی جان کو داؤ پر لگاکر نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی سنیئے۔ فرماتے ہیں ”خدا کی قسم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک رات آلِ عمر سے افضل ہے اور ان کا ایک دن آلِ عمر سے افضل ہے“۔ فرمایا جس رات حضور غارِ ثور تشریف لے گئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ساتھ تھے تو حال یہ تھا کہ کبھی ابوبکر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلنے لگتے کبھی پیچھے چلنے لگتے۔ حضور نے وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم مجھے پیچھا کرنے والوں کا خیال آتا ہے تو پیچھے چلنے لگتا ہوں اور جب یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں آگے کوئی خطرہ نہ ہو تو آگے آ جاتا ہوں۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارا مطلب یہ ہے کہ کوئی آفت آئے تو میرے بجائے تم پر آئے“۔ عرض کی جی ہاں۔ عہد خلافتبار خلافت سنبھالنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اسلام لشکر کو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں بھیجا۔ یہ لشکر حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے ہی تیار کیا تھا لیکن آپ کے وصال کی وجہ سے رکا رہا۔ ہرچند کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتنہ ارتداد اور مدینہ کو لاحق دوسرے قبائل کے خطرے کی وجہ سے لشکر بھیجنے کو ملتوی کرنے کا مشورہ دیا، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”بخدا اگر مدینہ آدمیوں سے خالی ہوجائے اور درندے آکر میری ٹانگ کھینچ لیں تب بھی میں اس مہم کو نہیں روک سکتا جسے بھیجنے کا فیصلہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا“۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ دو سال تین ماہ گیارہ روز پر محیط ہے۔ اس مختصر مدت میں ایسے عظیم الشان کام انجام پائے جن پر تاریخ اسلام کو ناز ہے۔ آپ کا دور خلافت زیادہ تر ارتداد اور دوسرے فتنوں سے نمٹنے میں گذرا۔ آپ نے جن مرتدین کو زمین بوس کیا ان میں یمن کا الاسود عنسیٰ، یمامہ قبیلہ کا مسیلمہ، نجد کا طلیحہ، قبیلہ تمیم کی کاہنہ سجاح شامل ہیں۔ منکرین زکوۃ کو سبق دینے کے لیے بھی آپ نے فورًا لشکر روانہ کیا۔ ان مہمات کے علاوہ آپ نے دوسرے ملکوں کی طرف بھی لشکر روانہ کئے۔ مملکت اسلامی آپ کے دور میں جنوبی عراق اور شام تک جا پہنچی اور دنیا کے ایک بڑے حصے پر پرچم اسلام لہرانے لگا۔ ازواج، بنین، بناتحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پانچ شادیاں کیں۔ ۱۔ قبیلہ عامر کی قتیلہ بنت عبدالعزیٰ جن سے عبداللہ رضی اللہ عنہ اور اسماء رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ یہ مسلمان نہیں ہوئیں اور علیحدگی اختیار کرلی۔ ۲۔ قبیلہ کنانہ کی ام رومان بنت عامر رضی اللہ عنہا جن سے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئے۔ ۳۔ قبیلہ کلب کی ام بکر، انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو طلاق دیدی۔ ۴۔ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا جن سے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ ۵۔ مدنی خاندان کی حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا، ان سے ام کلثوم رضی اللہ عنہا آپ کے وصال کے بعد پیدا ہوئیں۔ آپ کی چار پشتوں کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ فضائل اخلاق و عاداتامت میں افضلحضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سریۂ ذات السلاسل کے امیر بنائے گئے تو انہوں نے دربار رسالت میں آکر سوال کیا ”آپ کو مردوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟“ فرمایا ”ابوبکر (رضی اللہ عنہ)“۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا تھا ”آپ ہمارے سردار، ہم سے افضل اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے زیادہ محبوب تھے۔ نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمام صحابہ رضی اللہ عنہم میں کوئی نہیں جن کے احسان ان (ابوبکر رضی اللہ عنہ) سے زیادہ ہوں، اگر میں انسانوں میں سے کسی کو دوست بنانا پسند کرتا تو ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو بناتا۔ البتہ ہمارے درمیان رفاقت، اخوت اور ایمان کا رشتہ ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پاس جمع کرلے“۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے آخری ایام علالت میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو امامتِ نماز کے لئے مقرر فرمایا تھا۔ ایک دفعہ ان کو کچھ دیر ہوگئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کچھ بلند آواز تھے، جب انہوں نے تکبیر کہی تو حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابوبکر کہاں ہے، اس چیز کو نہ تو اللہ پسند کرے گا نہ مسلمان“۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما مراتب نبوت محمدی صلّی اللہ علیہ وسلم کے حامل ہیں، کیونکہ ان دونوں کے کمالات انبیاء علیہم السلام کے کمالات سے مشابہ ہیں اور رفیق نبی صلّی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گویا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ہم خانہ ہیں، اگر فرق ہے تو بس یہ کہ پیغمبر خدا صلّی اللہ علیہ وسلم فوقانی منزل میں ہیں اور رفیق پیغمبر تحتانی منزل میں ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما جنگ بدر میں کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے مقابلے میں جانے لگے تو حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا اور فرمایا ”اے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ہمیں اپنی ذات سے فائدہ اٹھانے کا موقع دو، کیا تم نہیں جانتے کہ میرے نزدیک تمہارا وجود میری سماعت و بصارت کی طرح ہے۔ (سیرت طیبہ) مشابہت و مماثلتمورخین لکھتے ہیں کہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی عادات و اطوار، خیالات میں انتہا درجے کی مماثلت پائی جاتی تھی۔ جب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تسلی دیتے ہوئے جو الفاظ فرمائے، بالکل وہی الفاظ ابن الدّغنہ نے صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں اس وقت کہے جب وہ دوسری مرتبہ ہجرت کرکے جارہے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب معاہدہ کے مطابق حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے ابن جندل رضی اللہ عنہ کو واپس بھیجدیا تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے رہا نہ گیا اور آپ نے حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کچھ استفسار کیا۔ پھر وہاں سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خیمے میں گئے اور ان سے بھی وہی باتیں پوچھیں تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے تھوڑے اضافے کے ساتھ وہی جواب دیا جو حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے خوشبو کی لپٹیں آیا کرتی تھیں۔ رفیق پیغمبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”حضرت ابوبکر صدیق کے بدن کی خوشبو بوئے مشک سے زیادہ خوشگوار ہوتی تھی“۔ (تاریخ الخلفاء) عشق رسولیہ عشق حبیب خدا صلّی اللہ علیہ وسلم ہی تو تھا جس نے آپ کو اتنا درجہ عطا کیا۔ غمِ مصطفیٰ آپ کی رگ رگ میں سمایا ہوا تھا۔ آپ محبوب رب العالمین کی ذات اقدس میں اس درجہ فنا تھے کہ اپنی ذات نظر نہ آتی تھی۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے لمحہ بھر جدائی آپ کو گوارا نہ تھی۔ سردیوں کی راتوں میں گرم پانی کیئے بیت رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے باہر کھڑے رہتے مبادہ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کو وضو کے لئے گرم پانی کی ضرورت پڑے۔ جب ایک مرتبہ آپ (رضی اللہ عنہ) سے آپ کی تین پسندیدہ خواہشیں پوچھی گئیں تو آپ نے جن خواہشات کا اظہار فرمایا ان سے بھی ان کا فنا فی الرسول ہونا اظہر من الشمس ہے۔ یعنی زیارت مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے حبیب صلّی اللہ علیہ وسلم پر مال قربان کرنا اور اپنی بیٹی آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دینا۔ خشیت خداوندیتقویٰ تمام نیکیوں کی جڑ ہے۔ حضرت رضی اللہ عنہ پر اس کا اتنا اثر تھا کہ کبھی فرماتے ”کاش میں مومن کے سینے کا بال ہوتا، انسان نہ ہوتا“۔ کبھی فرماتے ”کاش میں سرراہ ایک درخت ہوتا، اونٹ گذرتا تو مجھ کو پکڑتا، مارتا، چباتا اور میری تحقیر کرتا اور پھر مینگنی کی صورت میں نکال دیتا۔ یہ سب کچھ ہوتا مگر میں بشر نہ ہوتا“۔ چڑیا کو دیکھ کر فرماتے ”تو مجھ سے اچھی ہے کہ تجھ سے مواخذہ نہ ہوگا“۔ اسی خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ کوئی معمولی سی بھول چوک بھی اگر ہوجاتی تو سخت ندامت اور پشیمانی ہوتی اور جب تک اس کی تلافی نہ کرلیتے چین نہ آتا۔ اشاعت اسلامحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان ممتاز، متمول اور ذی اثر لوگوں میں سے ایک، بلکہ سب سے بڑھ کر تھے۔ خدمتِ دین ان کا نہایت نمایاں کارنامہ ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ اسلام کی دعوت دینا نہایت ہی خطرناک تھا آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ، حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسرار رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ، ایسے لوگوں کو اسلام کے آستانہ پر لا کھڑا کیا۔ ان میں سے ہر ایک کے کارنامے تاریخ اسلام کا درخشاں باب ہیں۔ گھر میں آپ کے والد اور والدہ، تین بیویاں اور اولاد مسلمان ہوئے۔ انفاق فی سبیل اللہراہ خدا میں خرچ کرنے میں بلاشک آپ رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ گئے۔ تمام پونجی بلکہ گھر کا سامان تک حبیب خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لاکر رکھ دیا۔ آپ نے نو کِبار صحابہ یعنی حضرت بلال، حضرت عامر بن فہیرا، حضرت نہدیہ، حضرت جاریہ بنت مومل، حضرت زیزہ، حضرت حمامہ، حضرت ابوبکیہ، حضرت امّ عبیس، حضرت لبنیہ رضی اللہ عنہم کو اپنے پاس سے منہ مانگی رقم دے کر آزاد کرادیا۔ اس پر اخلاص کا یہ عالم تھا کہ جب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ”جان و مال کے لحاظ سے مجھ پر ابوبکر سے زیادہ کسی کا احسان نہیں“ تو آپ آبدیدہ ہوکر عرض کرتے ”یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم جان و مال سب حضور ہی کے لیے ہے“۔ فراستِ ایمانیمومن کی فراست کے بارے میں حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ چونکہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ قوی الایمان تھے، ان کے نور فراست کا یہ عالم تھا کہ جب وصال کا وقت قریب آیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ”میں نے تم کو جو جائیداد دی ہے اس کو میرے بعد کتاب اللہ کے قانون کے مطابق بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم کرلینا“ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی ”ابا جان میری تو ایک ہی بہن (اسماء رضی اللہ عنہا) ہے، پر آپ نے ”بہنوں“ کیسے فرمایا؟“ آپ نے اپنی بیوی حضرت حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا جو امید سے تھیں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ”میرا خیال ہے بچی پیدا ہوگی“۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ رقتِ قلبامام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ”آواز دردناک تھی، بات بہت کم کرتے تھے، قلب نہایت رقیق و نرم تھا، قرآن پاک پڑھتے تو آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی جس سے اوروں پر بھی اثر ہوتا۔ چنانچہ ابن الدغنہ نے جب آپ کو ہجرت حبشہ سے واپس لاکر اپنی پناہ میں رکھا، وہاں آپ قرآن پاک بلند آواز سے پڑھتے تو مشرکین کے نوجوان لڑکے اس طرف دوڑ پڑتے جس پر ان کے والدین نے ابن الدغنہ سے شکایت کی۔ زہد و ورعایک مرتبہ آپ ایک قبیلے میں گئے، وہاں پینے کے لیے پانی مانگا تو لوگوں نے شہد اور پانی ملاکر پیش کیا۔ آپ نے پیالہ منہ سے لگاکر ہٹالیا اور رونے لگے۔ جو لوگ آس پاس بیٹھے ہوئے تھے ان پر بھی ایسی رقت طاری ہوئی کہ وہ بھی رونے لگے۔ جب حالت کچھ سنبھلی تو لوگوں نے وجہ دریافت کی۔ آپ نے فرمایا ”میں ایک دن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، میں نے دیکھا کہ آپ کسی چیز کو دور دور کہہ رہے تھے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وسلم) آپ کس چیز کو دور کہہ رہے ہیں؟ ارشاد ہوا دنیا میرے سامنے مجسم ہوکر آگئی تھی، میں نے اس سے کہا دور ہوجا تو ہٹ گئی، لیکن پھر آگئی اور کہا آپ مجھ سے بچ کر نکل جائیں لیکن آپ کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ تو بچ نہیں جاسکتے“۔ اتنا بیان کرنے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”اس وقت مجھ کو وہی بات یاد آگئی اور مجھے خوف ہوا کہ دنیا کہیں مجھ سے چمٹ نہ جائے“۔ حسنِ خلقآنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میزان قیامت میں حسنِ خلق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں“۔ آپ ہمیشہ دوسروں سے عزت سے بولتے اور اچھا معاملہ کرتے، سلام کرنے میں پہل، دوسروں کے دکھ میں شرکت، بیواؤں یتیموں کی خدمت میں سبقت لے جاتے۔ اوروں کی عیب پوشی اور رحم کرنے والے تھے۔ بنی صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میری امت میں سب سے زیادہ رحیم ابوبکر ہیں“۔ خانگی زندگی میں بیوی بچوں کا بیحد خیال رکھتے۔ حقوق العباد ادا کرنے میں آپ سے کوئی سبقت نہ لے جاسکتا تھا۔ ایک دفعہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”آج تم میں سے روزہ دار کون ہے؟“ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”حضور میں“۔ پھر دریافت فرمایا ”آج کس نے جنازہ میں مشایعت کی، کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے، کس نے مریض کی عیادت کی ہے“۔ جس ذات والا صفات نے ان تمام باتوں کا جواب اثبات میں دیا وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ سن کر حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جس نے دن میں اتنی نیکیاں کی ہیں وہ یقینًا جنت میں جائے گا“۔ شجاعتمحمد بن عقیل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے پوچھا ”بتاؤ دنیا کا سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟“ ہم نے کہا ”آپ“۔ فرمایا “نہیں، اشجع الناس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، غزوۂ بدر کے موقع پر ہم نے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک کیمپ بنایا تھا، پھر ہم نے پوچھا حضور کی چوکیداری کون کرے گا، کسی نے پیش قدمی نہیں کی البتہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سبقت فرمائی اور شمشیر بدست آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس مستعدی کے ساتھ پہرا دیتے رہے کہ جہاں کسی نابکار نے ادھر رخ کیا اس پر جھپٹ پڑے۔ اسی طرح مکہ میں ایک مرتبہ جب قریش نے حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نرغہ میں لیکر اذیتیں دینی شروع کیں تو اس وقت بھی تنہا یہی ابوبکر تھے جو اس ہجوم میں گھسے چلے گئے، کسی کو دھکا دیا کسی کے تھپڑ رسید کیا، کسی کو لات ماری اور کسی کو پیٹا اور آخر یہ کہتے ہوئے کہ ”ارے ظالمو تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے“ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کو نرغہ میں سے نکال لائے“۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ یہیں تک کہہ پائے تھے کہ جی بھر آیا اور آنسوؤں کا دریا امنڈ پڑا جس سے ریش مبارک تربتر ہوگئی۔ انتقال پاکوصال کے روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلاکر انہیں فرمایا کہ ”مجھے امید ہے کہ آج میری زندگی ختم ہوجائیگی۔ اگر دن میں میرا دم نکلے تو شام سے پہلے اور اگر رات کو نکلے تو صبح سے پہلے مثنیٰ کے لیے کمک بھیج دینا۔ حضرت مثنیٰ رضی اللہ عنہ اس وقت عراق کے محاذ پر لڑ رہے تھے۔ پھر ان کو کچھ اور ہدایات دیں۔ دریافت فرمایا ”حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے کس روز رحلت فرمائی تھی“ لوگوں نے بتایا پیر کے روز۔ ارشاد فرمایا ”میری بھی یہی آرزو ہے کہ میں آج رخصت ہوجاؤں“۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا ”حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا؟“ عرض کیا تین کپڑوں کا۔ فرمایا میری کفن میں بھی اتنے کپڑے ہوں۔ دو یہ چادریں جو میرے بدن پر ہیں دھولی جائیں اور ایک کپڑا بنالیا جائے۔ آخری الفاظ یہ تھے ”اے اللہ مجھے مسلمان اٹھا اور اپنے نیک بندوں میں شامل کر“۔ جب روح اقدس نے پرواز کی تو 22 جمادی الآخر 13ھ تاریخ، پیر کا دن، عشاء مغرب کا درمیانی وقت، عمر اقدس 63 سال تھی۔ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا۔ حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہم جسم اطہر پر پانی بہاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ وصیت کے مطابق حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف دفن کیے گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
|