پیچھے شجرہ شریف آگے

حضرت خواجہ محمد زاہد وخشی

رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

از۔ مختار احمد کھوکھر

 

    یہ حقیقت ہے کہ انسان کو قعر مذلت سے نکالنے میں جو کام علماء حق اہل اللہ نے سرانجام دیا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ بالخصوص برصغیر میں تو دین کی روشنی کے ان سفیروں کی بہت قربانیاں ہیں اور یہاں خدمت اسلام کا سہرا انہی نفوس قدسیہ کے سر جاتا ہے۔ برصغیر کے علاوہ بلاد عربیہ میں اور بالخصوص روس و افغانستان میں ان اولیاء کرام کی کثرت ہے۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ زیادہ تر اولیاء کرام اسی سرزمین سے برصغیر میں تشریف لائے۔ بڑے بڑے انفاس قدسیہ کے وہاں مزارات ہیں۔ انہی اولیاء کرام میں حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمة اللہ علیہ بھی ہیں۔ آپ نے دین کی ترقی و ترویج کے لئے بے پناہ کام کیا اور اپنے بعد اپنے خلفاء کو چھوڑا تاکہ یہ مشن جاری و ساری رہے۔ آپ کے خلفاء میں سب سے بڑے اور معظم خلیفہ حضرت خواجہ محمد زاہد وخشی رحمة اللہ علیہ ہیں۔ آپ نہایت امیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے، لیکن امارت کے ساتھ آپ کے والدین صاحبِ تقویٰ اور بزرگ انسان تھے۔ اسی لئے حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمة کی طبیعت مبارک ابتدا سے ہی درویشانہ رہی۔

    آپ بخارا کے علاقہ حصار کی نواحی بستی وخش میں ۱۴ شوال ۸۵۶ھ بمطابق ۱۴۴۸ع کو اس دنیاء دنی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے ہی حاصل کی۔ چونکہ آپ حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمة اللہ علیہ کے نواسہ ہیں، اس لئے آپ نے طریقت کے ابتدائی اسباق یعنی ذکر کی تلقین آپ کے کسی خلیفہ سے حاصل کی تھی۔ باوجود کوشش کے ان کام نام معلوم نہ ہوسکا۔ اس کے بعد آپ ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوگئے حتیٰ کہ آپ کے اندر انوارات الٰہیہ کو جذب کرنے کی بے پناہ قوت پیدا ہوگئی۔ اسی دوران آپ کے کان میں حضرت خواجہ عبیداللہ احرار قدس سرہ کے فیض کا آوازہ پہنچا تو آپ نے حصار سے سمرقند کی طرف رخت سفر باندھا۔ وہاں پہنچ کر آپ محلہ واسرائے میں قیام پذیر ہوئے۔ یہاں سے حضرت خواجہ عبیداللہ احرار علیہ الرحمة کی خانقاہ عالیہ تقریبًا چھ میل کے فاصلے پر تھی۔ حضرت خواجہ احرار کو بذریعہ کشف معلوم ہوا کہ حضرت مولانا محمد زاہد علیہ الرحمة ہماری ملاقات کے لئے آرہے ہیں تو آپ نے دل میں ارادہ فرمایا کہ ہمیں آگے جاکر ان کا استقبال کرنا چاہیئے۔ حالانکہ سخت گرمی پڑرہی تھی اور دوپہر کا وقت تھا۔ آپ نے اپنے خادمین سے فرمایا ہماری سواری کا اونٹ لاؤ اور آپ اس پر سوار ہوئے اور مریدین کو ساتھ لے کر چل پڑے۔ کسی کو مجال نہیں تھی کہ استفسار کرتا کہ حضرت اس وقت سخت گرمی کے عالم میں کہاں تشریف لے جارہے ہیں۔ آپ نے بھی اونٹ کو اس کے حال پر چھوڑدیا کہ جہاں چاہے چلا جائے۔ بالآخر اونٹ محلہ واسرائے میں حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمة کی قیام گاہ کے سامنے ٹھہر گیا۔ آپ اونٹ سے اترے، اسی اثناء میں حضرت خواجہ محمد زاہد قدس سرہ کو بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمة اللہ علیہ تشریف لائے ہیں۔ آپ بے اختیار دوڑے آئے اور حضرت کا استقبال کیا اور آپ کی پابوسی کا شرف حاصل کیا۔ اس کے بعد آپ حضرت کو ساتھ لے کر اندر تشریف لے گئے اور خلوت میں جاکر اپنے واردات و معاملات و مقامات حضرت خواجہ احرار کی خدمت میں گوش گذار کردیئے اور بیعت ہونے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ حضرت خواجہ نے آپ کو اسی وقت بیعت فرمالیا اور اسی مجلس میں آپ پر ایسی توجہ فرمائی کہ تمام منازل طے فرمادیں اور تکمیل کے درجہ تک پہنچادیا اور ساتھ ہی خلافت عطا کرکے آپ کو وہیں سے رخصت بھی عنایت فرمادی۔ یہ دیکھ کر حضرت کے بعض مریدین آتشِ حسرت میں بے اختیار حضور کی خدمت میں عرض گذار ہوئے کہ ہمیں کئی برس ہوگئے خدمت بجالاتے ہوئے، لیکن ایسی مہربانی نہیں ہوئی جیسی کہ آپ نے حضرت مولانا زاہد پر فرمائی کہ پہلی صحبت میں ہی نوازدیا۔ آپ نے فرمایا کہ مولانا زاہد، چراغ، تیل اور بتی تیار کرکے ہمارے پاس آئے تھے، ہم نے صرف روشن کرکے رخصت کردیا۔

    اللہ اللہ! خداوند قدوس نے اپنے پیارے بندوں کو کیا قوت اور استعداد عطا فرمائی ہے۔ یہ واقعہ حضرت خواجہ احرار کے عظیم تصرف اور حضرت خواجہ مولانا زاہد کے کمال استعداد و قابلیت پر دلالت کرتا ہے۔

    حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمة نے اجازت کے بعد تبلیغ پر کمر کس لی اور دین کی اشاعت میں بھرپور حصہ لیا اور ایک دنیا نے آپ سے فیض حاصل کیا اور مقامات و کمالات کے درجات طے کئے۔ آپ حضرت خواجہ احرار قدس سرہ کے خلیفۂ اعظم تھے اور علومِ ظاہر و باطن کے ساتھ ساتھ فقر و تجرید اور توحید و ورع میں مقاماتِ عالیہ پر فائز المرام تھے۔

    آپ کے حالات باوجود تلاش بسیار کے زیادہ نہ مل سکے۔ آپ یکم ربیع الاول ۹۳۶ھ بمطابق ۱۵۲۹ع کو وخش میں ہی واصل بحق ہوئے اور وہیں پر آپ کا مزار پرانوار ہے، جہاں سے لوگ فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں۔

    مآخذ۔ حضرات القدس، تذکرہ مشائخ نقشبندیہ، تذکرہ نقشبندیہ خیریہ، نفحات القدس