پیچھے شجرہ شریف آگے

حضرت خواجہ نور محمد بدایونی

رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

از۔ مختار احمد کھوکھر

 

    آپ کے والدین نے آپ کا نام مبارک نور محمد رکھا۔ آپ کا تعلق بدایوں سے تھا اور کا سلسلہ نسب سادات سے ہے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔ پھر آپ نے مزید تحصیل علم میں بڑی جانفشانی سے کام لیا اور اٹھارہ برس کی عمر میں حضرت اشرف الاتقیاء محمد شریف رحمۃ اللہ علیہ جو کہ بذات خود فقیہ کامل اور عارف باللہ تھے سے تحصیل و تکمیل علوم کی سند حاصل کی۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ نے نور معرفت الٰہیہ میں پوری عمر وقف کردی۔ تحصیل علوم ظاہریہ کے بعد آپ تکمیل علوم معرفت الٰہیہ کے لئے حضرت خواجہ سیف الدین حضوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور آپ کے وصال تک آپ کی صحبت مبارکہ میں رہے۔ آپ کے وصال کے بعد آپ نے حضرت خواجہ کے خلیفۂ اعظم حضرت خواجہ حافظ محمد محسن رحمۃ اللہ علیہ سے فیوض و برکات حاصل کئے، جن کی وجہ سے آپ بلند مقامات و حالات سے مشرف ہوئے۔ آپ پر اکثر استغراق کا غلبہ رہتا تھا۔ نماز میں آپ کو افاقہ ہوتا اس کے بعد پھر مغلوب الحال ہوجاتے تھے۔ ہر وقت بس مراقبہ میں رہتے۔ کثرت مراقبہ کی وجہ سے آپ کی پشت مبارک خمیدہ ہوگئی تھی۔

    حضرت سید حافظ محمد محسن رحمۃ اللہ علیہ کے بعد آپ نے ارشاد و تلقین کا منصب سنبھالا۔ آپ کا معمول تھا کہ استخارے کے بعد آپ تلقین طریقہ عالیہ فرماتے تھے اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے کہ آپ جسے تلقین فرماتے آپ کی پہلی ہی توجہ سے اس کے لطائف خمسہ اسم ذات کا ذکر کرنے لگتے یعنی جاری ہوجاتے، اور سالک تجلئ صفاتی کا مورد ہوجاتا۔

    آپ تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز المرام تھے۔ رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے آداب و عادات شریفہ کا نہایت التزام و اہتمام رہتا۔ سیرت و اخلاق نبوی پر مشتمل کتب اکثر آپ کے پیش نظر رہتی تھیں۔ ان کے مطابق ہی آپ عمل اختیار فرماتے۔

    زندگی میں فقط ایک مرتبہ بیت الخلاء میں نادانستگی میں پہلے دایاں یعنی سیدھا پاؤں اندر رکھا تو اس خلاف سنت فعل سے تین دن تک آپ کو احوال باطنی میں قبض کی کیفیت رہی۔ بہت گریہ و زاری اور تضرع کے بعد بسط کی کیفیت پیدا ہوئی۔

    لقمہ یعنی کھانے میں آپ کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اپنے ہاتھ سے کئی کئی دن کا کھا پکالیا کرتے اور بھوک کی شدت کے وقت اسی میں سے کچھ تناول فرمالیا کرتے۔ آپ فرماتے تھے کہ تین سال سے طبیعت کا تعلق کیفیت غذا سے نہیں رہا۔ بوقت ضرورت جو مل جاتا ہے اسے کھالیتے ہیں۔ کبھی آپ نے دو سالنوں کو ایک دسترخوان پر اکٹھا نہیں فرمایا۔ کمال اتباع سنت نبوی کی وجہ سے دو سالنوں کو بدعت سمجھ کر ایک صاحبزادے کو گھی اور دوسرے کو شکر عنایت فرماتے تھے۔

    امراء کے گھر کا کھانہ اکثر مشتبہ ہوتا ہے اس لئے آپ اس سے ہمیشہ اجتناب برتتے۔ ایک بار کسی دنیادار امیر کے گھر سے کھانا آیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس میں اندھیرا معلوم ہوتا ہے۔ براہِ نوازش اپنے خلیفہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید سے فرمایا کہ تم بھی اس کھانے میں غور کرو۔ حضرت مرزا نے متوجہ ہوکر عرض کیا کہ کھانا وجۂ حلال سے ہے مگر ریا کی نیت کے سبب اس میں کچھ عفونت پیدا ہوگئی ہے۔

    نواب مکرم خان جو حضرت شاہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے تھے اور حضرت عروۃ الوثقیٰ قدس سرہ کے مرید تھے، ان کے دسترخوان میں بہت تکلفات ہوا کرتے تھے، حتیٰ کہ حد اصراف تک پہنچ جاتے۔ مگر حضرت باوجود تقویٰ و احتیاط کے ان کا کھانا کبھی کبھی بطور تبرک کھالیا کرتے تھے۔ فرماتے کہ نواب صاحب کے کھانے کی برکتوں سے اس قدر نور باطنی ہوتا ہے کہ گویا ہم نے کھانا نہیں کھایا بلکہ دو رکعت نماز پڑھی ہے۔ اپنے پیر کی محبت کے غلبہ اور انوار نسبت کے ظہور کے سبب سے نواب موصوف کی تمام چیزوں میں نورانیت پیدا ہوگئی تھی۔

    کہتے ہیں کہ صحبت اپنا اثر رکھتی ہے اگرچہ ایک لمحے کی ہو۔ یقینًا صحبت کا اثر ہوتا ہے۔ نہ صرف جانداروں پر بلکہ بے جان اشیاء بھی اثر قبول کرتی ہیں۔ حضرت سید اگر کبھی کسی دنیادار کے گھر سے کوئی کتاب عاریتًا منگواتے تو تین روز تک اس کا مطالعہ نہ فرماتے۔ آپ فرماتے کہ امراء کی صحبت کی ظلمت مثل غلاف کے اس کے اوپر لپٹی ہوئی ہے۔ جب آپ کی صحبت مبارک کی برکت سے وہ ظلمت زائل ہوجاتی تو آپ اس کا مطالعہ فرماتے۔

    آپ کے خلیفۂ اعظم حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید علیہ الرحمۃ کو آپ سے شدید محبت تھی۔ فقط آپ کا اسم گرامی لینے سے ہی آبدیدہ ہوجاتے۔ حضرت مرزا اکثر فرماتے کہ افسوس دوستوں نے حضرت سید کی زیارت نہیں کی۔ انہیں دیکھنے سے خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے ایمان تازہ ہوجاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ دنیا پر اپنے ان ارباب کمال حضرت کو قدر بنا دیتا ہے۔ آپ اپنے مریدین کو ان کی لغزشوں پر تنبیہہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ کا کشف انتہائی صحیح ہوتا تھا۔ حضرت میرزا علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے کہ حضرت سید السادات کا کشف اس قدر صحیح ہوتا کہ ہم کو چشم سر سے ویسا محسوس نہیں ہوتا جیسا کہ آپ چشم دل سے دیکھتے تھے۔

    ایک مرید حضرت سید کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے گھر سے چلا۔ راستے میں ایک نامحرم پر نظر پڑگئی۔ جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ تم میں زنا کی ظلمت معلوم ہوتی ہے، شاید کسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑگئی ہے۔ پھر شفقت فرماتے ہوئے توجہ فرماکر اس ظلمت کا ازالہ فرمایا۔

    آپ بہت قوی التصرف تھے۔ اپنے مخلص مریدین کی حاجت برآری کیلئے خاص توجہ فرمایا کرتے تھے۔ بہت کم ایسا ہوتا کہ آپ کی دعا اور توجہ سے کسی کی مراد پوری نہ ہوئی ہو۔ ایک مرتبہ آپ کی ایک مخلص مرید عورت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ حضور میری لڑکی کو جن اٹھاکر لے گئے ہیں، اس سلسلے میں بہت سے اعمال اور تعویذات کئے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آپ سے توجہ کی استدعا ہے۔ یہ سن کر آپ دیر تک مراقبہ میں رہے اور اس کے بعد اس خاتون سے فرمایا کہ تیری لڑکی فلاں وقت آجائے گی۔ لہٰذا ایسے ہی ہوا۔ جب لڑکی آگئی تو تجسس کی وجہ سے اس سے واقعہ دریافت کیا گیا، تو اس نے کہا کہ میں تو ایک صحرا میں تھی کہ کسی بزرگ ہستی نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے یہاں پہنچا دیا۔ یہ سن کر لوگوں میں آپ کی محبت اور عقیدت مزید بڑھ گئی۔ کسی نے آنجناب سے دیر تک سکوت یعنی مراقبے کی وجہ دریافت کی کہ آپ نے فورًا کیوں نہ فرمایا کہ لڑکی فلاں وقت آجائے گی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ فقیر نے بارگاہ ایزدی میں التجا کی تھی کہ اگر میری دعا اور توجہ مؤثر ہو تو میں اس سلسلے میں توجہ کروں۔ جب مجھے بذریعہ الہام معلوم ہوگیا کہ تیری توجہ مؤثر ہوگی تو فقیر نے کہہ دیا کہ تیری لڑکی فلاں وقت آجائے گی۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا ہر عمل رضائے خداوندی کے مطابق ہوتا تھا۔

    آپ کی قیام گاہ کے قریب ایک بھنگ فروش نے دکان کھولی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ بھنگ کی ظلمت نے ہماری نسبت باطن کو مکدر کردیا۔ یہ سن کر آپ کے ارادت مندوں نے اس پر سختی کی اور اس کی دکان تباہ کردی۔ جب آپ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہماری نسبت باطنی اب پہلے سے بھی زیادہ مکدر ہوگئی ہے، کیونکہ خلاف شرع احتساب وقوع میں آیا ہے۔ پہلے نرمی سے اسے توبہ کرانی چاہیئے تھی، اگر وہ تائب نہ ہوتا تو سختی سے منع کرتے۔ لہٰذا آپ نے اسے تلاش کرکے بلوایا اور مریدوں کی جرات کی معافی مانگی اور بڑی نرمی سے فرمایا کہ خلاف شرع پیشہ اچھا نہیں، کوئی مباح پیشہ اختیار کرنا چاہیئے۔ وہ آپ کے اخلاق کریمہ سے بہت متاثر ہوا اور تائب ہوکر طریقہ عالیہ میں داخل ہوگیا۔

    دو رافضی عورتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور طریقہ عالیہ میں داخل ہونے کا خیال ظاہر کیا۔ آپ نے اپنے نور فراست سے معلوم کیا کہ بدعقیدہ ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ پہلے عقیدۂ بد سے توبہ کرو، یہ دیکھ کر ایک تو آپ کے کمال کی قائل ہوکر داخل ارادت ہوگئی، لیکن دوسری کو توفیق نہ ہوئی۔

    آپ اپنے اردت مندوں کے اعمال کے انوار کے ظہور کا مشاہدہ ان کے باطن میں کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی کلمہ طیبہ کا ورد کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو فرماتے کہ آج تم نے کلمہ طیبہ کا ورد کیا ہے۔ اسی طرح کوئی درود پڑھ کر جاتا تو فرماتے کہ آج تم سے انوار درود ظاہر ہورہے ہیں۔

    حضرت شاہ گلشن خلیفہ حضرت عبدالاحد رحمۃ اللہ علیہم آپ کے مقامات عالیہ کے دل سے قائل نہ تھے اور حضرت میرزا جان جاناں جو حضرت سید کے خلیفہ تھے سے اس کا ذکر بھی کردیا۔ حضرت جان جاناں نے حضرت شاہ گلشن علیہ الرحمۃ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا کیونکہ انہوں نے آپ کے پیر کا انکار کیا تھا۔ ایک طویل عرصہ کے بعد حضرت جان جاناں کی حضرت شاہ گلشن علیہ الرحمۃ سے سر راہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ تم میرے پاس اس لئے نہیں آئے کہ میں نے تمہارے پیر کا انکار کیا، لیکن خدا نے تمہارے پیر کا مرتبہ مجھ پر ظاہر فرمادیا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ وہ اس طرح کہ میں بازار میں بیٹھا تھا کہ ایک پالکی سوار وہاں آیا جس کے آنے سے تمام بازار منور ہوگیا۔ کسی نے کہا یہ تو حضرت میرزا کے پیر ہیں۔ یہ سن کر میں ان کا تعاقب کرتا ہوا ان کے گھر تک چلا گیا تو میں نے ان کے گھر کو خانۂ خدا کی مثل انور و صفا سے لبریز پایا۔ دیواروں اور زمین سے کیفیات الٰہیہ موجزن تھیں جس سے میں نے آپ کے مقامات عالیہ کو پہچانا۔

    آپ کا وصال مبارک ۱۱ ذیقعدہ ۱۱۳۵ھ میں ہوا اور دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار مبارک کے قریب نواب مکرم خان کے باغ میں آپ کا مدفون عمل میں آیا۔ آپ کا مزار مبارک حضرت سلطان المشائخ کے روضۂ مقدسہ سے جنوب کی جانب نالے کے پار پتھروں کی چار دیواری میں ہے۔ لوح مزار پر دو سطروں میں یہ عبارت لکھی ہے

سید نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ
بتاریخ ۱۱ ذیقعدہ ۱۱۳۵ ہجری انتقال فرمود