پیچھے | شجرہ شریف | آگے |
حضرت خواجہ مرزا مظہر جان جاناں شہیدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاز۔ مختار احمد کھوکھر
حضرت میرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ سادات علوی میں سے تھے۔ آپ سلسلہ نسب حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ کی وساطت سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے والد میرزا جان سلطان اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں صاحب منصب تھے۔ ۱۱ رمضان ۱۱۱۱ھ یا ۱۱۱۳ھ کو جب حضرت مظہر کی پیدائش کی خبر عالمگیر کو ملی تو اس نے کہا کہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے، چونکہ باپ کا نام میرزا جان ہے، ہم نے ان کے بیٹے کا نام جانِ جان رکھا لیکن عوام میں جانِ جاناں مشہور ہوا۔ آپ کے والد میرزا جان جو کہ سلسلہ قادیہ میں حضرت شاہ عبدالرحمٰن قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے، آپ کی پیدائش مبارک کے بعد دنیا سے کنارہ کش ہوگئے اور باقی عمر فقر و قناعت میں بسر کی۔ تعلیم و تربیت آپ کے والد بزرگوار نے آپ کی تعلیم کے لئے نہایت اہتمام فرمایا۔ ابتداء میں رسائل محاورہ فارسی اپنے والد ماجد سے پڑھے، کلام اللہ شریف مع تجوید و قرات قاری عبدالرحیم اور علم الحدیث و تفسیر حاجی محمد افضل سیالکوٹی شاگرد شِخ المحدیثین شیخ عبداللہ بن سالم مکی سے حاصل کی۔ ان علوم کے علاوہ حضرت میرزا صاحب علیہ الرحمۃ کو دیگر فنون میں بھی کافی مہارت حاصل تھی، بالخصوص فن سپاہ گری میں آپ کو اس قدر مہارت حاصل تھی، فرماتے تھے کہ اگر بیس آدمی تلواریں کھینچ کر مجھ پر حملہ کریں اور میرے پاس ہاتھ میں صرف ایک لاٹھی ہو تو ایک آدمی بھی مجھے زخم نہیں پہنچا سکتا۔ نیز فرماتے ہیں کہ ایک بار مست ہاتھی راہ میں آرہا تھا، میں گھوڑے پر سوار سامنے سے آگیا۔ فیلبان نے شور مچایا کہ ہٹ جاؤ، دل نے گوارہ نہیں کیا کہ ایک بے جگر حیوان کے مقابلے سے ہٹ جاؤں۔ چنانچہ ہاتھی نے نہایت غضب کی حالت میں مجھے سونڈ میں لپیٹ لیا۔ میں نے خنجر نکال کر اس کی سونڈ میں مارا، اس نے چیخ مارکر مجھے دور پھینک دیا اور میں بفضل تعالیٰ محفوظ رہا۔ آثار رشد و ہدایت حضرت میرزا صاحب فرماتے تھے کہ شور عشق و محبت اور رغبت اتباع سنت میری طینت کے خمیر میں تھے۔ میں نو سال کا تھا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں دیکھا کہ بکمال عنایت پیش آئے۔ ان ہی ایام میں جب کبھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ذکر مبارک آتا تھا تو ان کی صورت مبارک میرے سامنے آجاتی تھی۔ میں نے بارہا ان کو چشم ظاہر سے دیکھا اور اپنے حال پر بہت مہربان پایا۔ ایک مرتبہ آپ کے والد آپ کو اپنے پیر حضرت شاہ عبدالرحمٰن قادری کی خدمت میں لے گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب سے کرامتیں ظاہر ہوتی تھیں، مگر نماز میں تساہل فرمایا کرتے تھے۔ مجھے ڈر تھا کہ مبادا میرے والد صاحب مجھے ان سے بیعت نہ کروادیں۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ حضرت عبدالرحمٰن نماز میں تساہل کس لئے کرتے ہیں۔ والد صاحب نے فرمایا ان پر سکر غالب ہے وہ معذور ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ادائے نماز میں سکر غالب ہوجاتا ہے، مگر دوسرے امور میں ہوشیار رہتے ہیں۔ یہ سن کر میرے والد صاحب خفا ہوگئے، مگر میرے دل سے بیعت کرانے کا کھٹکا نکل گیا۔ حضرت میرزا مظہر علیہ الرحمۃ کی عمر مبارک جب سولہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد بزرگوار نے اس جہان فانی سے کوچ فرمایا۔ والد کی وفات کے بعد آپ کے رشتہ دار شاہی منصب کے حصول کے لئے مغل بادشاہ فرخ سیر کے دربار میں لے گئے۔ اتفاق سے بادشاہ کو عارضہ زکام تھا، وہ دربار میں نہیں آیا۔ اسی رات آپ نے خواب دیکھا کہ ایک درویش نے اپنے مزار سے نکل کر اپنی کلاہ آپ کے سر پر رکھ دی۔ اس خواب کے بعد منصب و جاہ کی رغبت آپ کے دل میں بالکل نہ رہی اور درویشوں کی زیارت کا شوق غالب ہوا۔ جہاں کہیں کسی صاحب کمال کا نام سنتے اس کی زیارت کو تشریف لے جاتے۔ حضرت مظہر کے اربعہ مشائخ اٹھارہ سال کی عمر میں کچھ احباب سے حضرت سید نور محمد بدایونی قدس سرہ کے کمالات سن کر ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد فرمایا۔ حضرت میرزا مظہر فرماتے ہیں کہ ”حضرت سید کے اوصاف حمیدہ سن کر میرا دل بے اختیار ان کی قدم بوسی کا مشتاق ہوگیا۔ اگرچہ حضرت سید کا عادت مبارکہ تھی کہ بغیر استخارہ مسنونہ کے کسی کو تلقین طریقہ نہ فرماتے تھے، مگر اس وقت بغیر درخواست کے مجھ سے فرمایا کہ آنکھیں بند کرکے قلب کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور ایک ہی توجہ میں میرے لطائف خمسہ کو ذاکر بناکر رخصت کردیا۔ آپ کی توجہ کی تاثیر نے باطن کو ایسا متاثر کردیا کہ دوسرے روز صبح کو جو میں نے حضرت سید کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد کیا اور حسب عادت آتے وقت آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو بعینہ حضرت سید کی صورت پائی۔ اس سے محبت اور عقیدت اور زیادہ ہوگئی۔ بالجملہ چار سال آپ نے معاملہ کو ولایت علیا تک پہنچادیا اور مجھے اجازت معہ خرقہ عنایت فرمائی۔“ حضرت سید نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد حضرت میرزا مظہر نے چھ برس تک حضرت سید کے مزار مقدس سے اقتباس انوار کا طریقہ اختیار کیا۔ بعد ازاں حضرت سید علیہ الرحمۃ نے بار بار خواب میں یہ تاکید کی کہ کمالات الٰہی بے نہایت ہیں، اپنی عمر متناہی کو طلب میں صرف کرنا چاہیئے۔ قبور سے استفادہ معمول نہیں، کسی زندہ بزرگ سے مقامات قرب کی تحصیل کرنی چاہیئے۔ چنانچہ اس ارشاد کی تعمیل میں حضرت میرزا نے بزرگان وقت کی طرف رجوع کیا۔ پہلے شاہ گلشن علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس کے بعد خواجہ محمد زبیر قیوم رابع رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچ کر فیضیاب ہوئے، پھر حضرت حاجی محمد افضل اور حضرت حافظ سعداللہ علیہم الرحمۃ کی خدمت اقدس میں سالوں رہ کر باطنی دولت سے مالامال ہوئے۔ آخر میں آپ نے شیخ الشیوخ شیخ محمد عابد سنامی خلیفہ شیخ عبدالاحد سرہندی رحمۃ اللہ علیہم کی طرف رجوع فرمایا۔ عرصہ سات سال تک حضرت شیخ کی توجہات کی بدولت حضرت میرزا نے کمالات ثلاثہ و حقائق سبعہ وغیرہ ختم کئے۔ حضرت میرزا کو حضرت شیخ محمد عابد سنامی رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلہ قادریہ کے علاوہ طریقہ چشتیہ اور سہروردیہ میں بھی اجازت ملی۔ ارشاد و تلقین حضرت میرزا پورے گیارہ سال حضرت شِخ محمد عابد قدس سرہ کی خدمت میں رہے۔ حضرت شیخ کی وفات کے بعد آپ نے مسند خلافت کو زینت بخشی۔ طالبانِ خدا نے ہر طرف سے آپ کی طرف رجوع کیا۔ علماء و صلحاء کسب فیوض کے لئے آپ کی خانقاہ میں جمع ہوگئے اور آپ کے کمالات کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔ ابتدائے حال میں آپ کی توجہ کی تاثیر سے لوگوں میں بے تابی پیدا ہوجاتی اور کمال استغراق کے سبب بیخود ہوجایا کرتے۔ طالبوں کی تہذیب نفوس جیسا کہ آپ کی خدمت میں ہوتی تھی، بزرگان سلف کے وقت میں کبھی ہوتی ہوگی۔ مشائخ کرام آپ کی نسبت فرماتے تھے کہ جو فیض طالب خدا کو فقط آپ کی صحبت سے پہنچتا تھا وہ دوسروں کی ہمت و توجہ سے بھی حاصل نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر حضرت خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ کی زیارت کے لئے گیا۔ حضرت خواجہ نے دیکھتے ہی فرمایا ”تم شاید حضرت میرزا کے مرید ہوگئے ہو کیونکہ تمہارا باطن نسبت مجددیہ کے انوار سے معمور ہے۔“ اس نے عرض کیا کہ نہیں میں تو صرف ان کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کشف صحیح عطا کیا ہے کہ روئے زمین کے تمام حالات ہم سے پوشیدہ نہیں، اور ہتھیلی کے خطوط کے مانند عیاں ہیں۔ اس وقت حضرت میرزا جان جاناں علیہ الرحمۃ کا مثل کسی اقلیم و شہر میں نہیں ہے۔ جس شخص کو سلوک مقامات کی آرزو ہو وہ ان کی خدمت میں جائے۔ چنانچہ شاہ صاحب کے احباب نے حسب الامر حضرت میرزا کی خدمت میں استفادہ کے لئے رجوع کیا۔ حضرت میرزا مظہر رحمۃ اللہ علیہ کی توجہ عالی اس پر مصروف تھی کہ سلسلہ مجددیہ تمام عالم میں پھیل جائے اور اس طریقہ مجددیہ کی نسبتوں سے جہان منور ہوجائے۔ چنانچہ ہزارہا آدمی آپ سے بیعت ہوکر دوام ذکر خدا میں مشغول ہوئے اور قریب دو سو نیک نفوس آپ سے اجازت تعلیم ذکر پاکر خلق خدا کی ہدایت میں مشغول ہوئے۔ غرضیکہ حضرت میرزا تیس سال اپنے مشائخ کی خدمت میں کسب انوار و برکات کرکے نہایت کمال و تکمیل کے مرتبہ پر پہنچ گئے اور ۳۵ سال طالبان خدا کی تلقین میں مشغول رہ کر نیک آثار صفحہ روزگار پر چھوڑ گئے۔ اخلاق و عادات حضرت میرزا کمال زہد و توکل سے متصف تھے اور دنیا اور اہل دنیا کی کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے اور دنیا داروں کے ہدیے قبول نہ فرماتے۔ ایک دفعہ محمد شاہ مغل بادشاہ نے اپنے وزیر قمرالدین کی زبانی کہلا بھیجا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ملک عطا فرمایا ہے، جس قدر دل مبارک میں آئے بطور ہدیہ قبول فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ارشاد باری تعالیٰ یوں ہے ”قُل متاعُ الدُّنیا قلیل“ اللہ تعالیٰ نے ہفت اقلیم کو قلیل فرمایا ہے، تمہارے پاس اس قلیل کا ساتواں حصہ یعنی ایک اقلیم ہندوستان ہے، اس میں سے کیا قبول کروں۔ نواب نظام الملک نے تیس روپیہ بطور نیاز پیش کیا، آپ نے قبول نہ فرمایا۔ نواب نے عرض کیا آپ راہ خدا میں تقسیم فرمادیں۔ فرمایا کہ میں تمہارا خانساماں نہیں، یہاں سے تقسیم کرنا شروع کردو گھر تک ختم ہوجائے گا۔ فرماتے تھے کہ اگرچہ ہدیہ کے رد کرنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن اس کے قبول کرنے کو واجب بھی نہیں بتایا گیا۔ جو مال کہ یقینی طور پر حلال ہو اس کے لینے میں برکت ہے۔ فقیر اپنے اصحاب کے ہدیے جو اخلاص سے لاتے ہیں قبول کرلیتا ہے، امیروں کا مال اکثر مشتبہ ہوتا ہے اور لوگوں کے حقوق اس سے متعلق ہوتے ہیں، قیامت کے دن اس کا حساب دینا دشوار ہوگا۔ ایک دفعہ ایک امیر نے آموں کا ہدیہ آپ کی خدمت میں بھیجا، آپ نے واپس کردیا۔ اس نے بڑی منت سماجت کے بعد دوبارہ بھیجے، آپ نے دو آم رکھ لئے اور باقی واپس کردیئے اور فرمایا کہ فقیر کا دل اس ہدیہ کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اسی وقت ایک باغبان آپ کی خدمت میں شکایت لایا کہ فلاں امیر نے میرے آم ظلم سے لے لئے، ان میں سے کچھ آپ کی خدمت میں بھیجے ہیں، میری مدد کیجئے۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ یہ ناعاقبت اندیش لوگ چھینے ہوئے ہدیوں سے فقیر کا باطن سیاہ کرنا چاہتے ہیں۔ مکاشفات و کرامات حضرت میرزا علیہ الرحمۃ اپنے وقت میں دیگر مشائخ خاندان سے اس امر میں ممتاز تھے کہ آپ کا کشف مقامات الٰہیہ صحیح و مطابق نفس الامر ہوتا تھا اور طالبوں کو طریقہ مجددیہ کے مقامات کی غایت تک سلوک طے کراتے تھے۔ آپ اپنے مریدوں کو مقامات عالیہ کی بشارتیں دیا کرتے تھے، اس پر بعض افغانوں نے دل میں انکار کیا۔ آپ نے نور فراست سے دریافت کرکے فرمایا اگر تمہیں اعتبار نہیں تو گذشتہ اکابرین میں سے کسی کو مقرر کرلو تاکہ اس کی روح ظاہر ہوکر ان بشارتوں کے صحیح ہونے کی شہادت دے۔ انہوں نے عرض کیا کہ اگر حضور سرور عالم صلّی اللہ علیہ وسلم تصدیق فرمائیں تو یہ تصدیق معتبر ترین ہے۔ چنانچہ آپ مع احباب کے ساتھ جناب پیغمبر خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارکہ پر فاتحہ پڑھ کر متوجہ ہوکر بیٹھ گئے۔ حضور سرور کائنات صلّی اللہ علیہ وسلم نے ظاہر ہوکر منکرین کی سرزنش فرمائی اور فرمایا کہ میرزا صاحب کی بشارتیں سب صحیح ہیں۔ ایک روز حضرت ایک فاحشہ عورت کی قبر پر مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ فرمایا کہ اس کی قبر میں دوزخ کی آگ شعلہ زن ہے اور وہ عورت شعلوں کے ساتھ اوپر جاتی ہے اور نیچے آتی ہے۔ اس کے ایمان میں مجھے شک ہے مگر کلمہ طیبہ کا ختم اس کی روح کو بخشتا ہوں، اگر ایمان کے ساتھ مری ہے تو بخشی جائے گی۔ چنانچہ کلمہ طیبہ کے ختم کا ثواب پہنچاکر فرمایا کہ الحمدللہ ایمان کے ساتھ مری تھی، اس کلمہ کی برکت سے عذاب سے نجات پاگئی۔ ایک بے ادب شخص نے حضرت کے مکشوفات سے انکار کرکے بطور امتحان عرض کیا کہ یہ میرے ایک دوست کی قبر ہے، اس کا حال دریافت کیجئے۔ آپ نے سکوت کے بعد فرمایا کہ جھوٹ نہ بول، یہ تو ایک عورت کی قبر ہے تمہارے دوست کی قبر نہیں ہے۔ حضرت میرزا کے کشف و کرامات بہت ہیں۔ ہم نے یہاں صرف چند ایک نقل کردینے پر اکتفا کیا ہے، کیونکہ حقیقی کرامت آقائے دوجہاں صلّی اللہ علیہ وسلم کی اتباع پر استقامت اور طالبوں کو قرب خدا کے مراتب پر پہنچانا ہے۔ اور حضرت میرزا علیہ الرحمۃ سے اس طرح کی کرامتوں کا ظہور اظہر من الشمس ہے۔ حضرت میرزا کی شہادت جب حضرت میرزا مظہر رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک اسی (۸۰) سال سے تجاوز کرگئی تو آپ پر رفیق اعلیٰ کا شوق غالب ہوا۔ آپ نے اپنے ایک خلیفہ ملا نسیم کو ان کے وطن رخصت کرتے وقت فرمایا کہ اس کے بعد ہماری تمہاری ملاقات معلوم نہیں ہوتی۔ یہ سن کر آپ کے خدام بہت روئے۔ ایک روز اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اظہار میں فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت سے فقیر کے دل میں کوئی ایسی آرزو نہیں چھوڑی جو حاصل نہ ہوئی ہو، اس قادر مطلق نے فقیر کو اسلام حقیقی سے مشرف کیا، علم سے حصہ وافر دیا، نیک عمل پر استقامت بخشی، لوازم طریقہ یعنی کشف و تصرف و کرامات عنایت کئے، صالحین کو کسب فیض کے لئے بندہ کے پاس بھیجا، دنیا اور اہل دنیا سے علیٰحدہ رکھا، اب صرف شہادت ظاہری کے کوئی آرزو باقی نہیں۔ فقیر کے اکثر بزرگ شہید ہوئے ہیں مگر فقیر نہایت کمزور و ضعیف ہے اور قوت جہاد نہیں رکھتا، بظاہر اس مرتبہ کا حصول مشکل ہے۔“ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ خواہش بھی پوری کردی اور آپ کو باطنی شہادت کے ساتھ ساتھ ظاہری شہادت سے بھی سرفراز فرمایا۔ قصہ شہادت کچھ یوں ہے کہ مغل بادشاہ شاہ عالم کے دور میں ایرانی شیعہ پارٹی نے اتنا عروج حاصل کیا کہ ایرانیوں کے قائد نجف خاں کو دہلی کی مسند وزارت پر فائز کرنا پڑا۔ نجف خاں کے برسر اقتدار آنے سے جہاں بہت سے اختلافات پیدا ہوئے وہاں شیعہ سنّی جھگڑا بھی اپنے عروج کو پہنچا۔ اس دور میں علماء اہل سنت کو خاصی پریشانی و تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، بالخصوص دو فعال ترین شخصیتوں یعنی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور حضرت میرزا مظہر رحمۃ اللہ علیہم کی خانقاہیں جو سنی طاقتوں کا مرکز تھیں، نجف خاں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی جائیداد کو ضبط کرکے حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی اور شاہ رفیع الدین علیہم الرحمۃ کو دہلی سے پاپیادہ نکال دیا گیا۔ اب دہلی میں صرف حضرت مظہر علیہ الرحمۃ کی ذات اقدس سنیوں کی داد رسی کے لئے باقی رہ گئی۔ بالآخر آپ کو بھی راستے سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ ۷ محرم ۱۱۹۵ ہجری کو جب کہ کچھ ہی رات گذری تھی، چند آدمیوں نے حضرت مظہر علیہ الرحمۃ کے دروازے پر دستک دی۔ خادم نے جاکر عرض کی کہ کچھ لوگ زیارت کے لئے آئے ہیں۔ آپ کی اجازت سے تین آدمی اندر آئے، ان میں سے ایک ایرانی نژاد مغل بھی تھا۔ حضرت خوابگاہ سے نکل کر ان کے برابر کھڑے ہوگئے۔ مغل نے پوچھا کہ میرزا جان جاناں آپ ہیں، پس اس پر بدبخت ایرانی مغل نے طبانچہ کی گولی داغ دی جو آپ کے دل کے بائیں طرف لگی۔ آپ ناتوانی اور بڑھاپے کے باعث گر پڑے اور قاتل فرار ہوگئے۔ لوگوں کو خبر ہوئی تو جراح کو بلایا گیا۔ صبح نجف خاں نے ایک جراح کو بھیجا اور کہا کہ قاتل معلوم نہیں، اگر معلوم ہوگا تو قصاص جاری کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا اگر ارادہ الٰہیہ میں شفا ہے تو بہرصورت ہوجائے گی، دوسرے جراح کی ضرورت نہیں، اگر قاتل معلوم ہوجائے تو ہم نے معاف کیا تم بھی معاف کردینا۔ قاتلانہ حملہ کے بعد آپ تین روز زندہ رہے۔ اس حالت میں اپنا یہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے بناکردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن غرضیکہ دس محرم کو جسے شہادت کی رات کہا جاتا ہے، آپنے تین بار زور زور سے سانس لیا اور واصل بحق ہوگئے۔ اِنّا للہ وَ اِنّا اِلیہ راجِعُون آپ کے خلیفہ ملا نسیم کی خانقاہ واقع نور محل اوچ ریاست دیر صوبہ سرحد میں اب بھی وہ خون آلود کپڑے موجود ہیں جو آپ نے شہادت کے وقت پہن رکھے تھے۔ اس کے علاوہ وہ خون آلود دھجیاں بھی محفوظ ہیں جن سے حضرت کا خون پونچھا گیا تھا۔ آپ کی تجہیز و تکفین آپ کی اہلیہ محترمہ کی نگرانی میں ہوئی۔ آپ کو بی بی صاحبہ کی حویلی میں جو کہ چتلی قبر دہلی سے متصل تھی دفن کیا گیا۔ آپ کے مزار مبارک جس چبوترے پر ہے اسی پر آپ کے ساتھ سلسلہ نقشبندیہ کی تین اور عظیم ہستیاں بھی محو خواب ہیں، یعنی حضرت شاہ غلام علی، حضرت شاہ ابو سعید مجددی اور حضرت شاہ ابوالخیر مجددی رحمۃ اللہ علیہم۔ خانقاہ کے موجودہ جانشین مولانا زید ابوالحسن فاروق نے اس چبوترے پر ۱۹۸۰ع میں ایک شاندار گنبذ تعمیر کروایا ہے۔ تصانیف حضرت میرزا مظہر رحمۃ اللہ علیہ کی نہایت معروف زندگی تھی، لیکن اس کے باوجود آپ مطالعہ کتب میں مصروف رہتے تھے۔ حضرت مظہر کی جو تصانیف اب تک ملی ہیں وہ یہ ہیں
|