پیچھے | شجرہ شریف | آگے |
حضرت خواجہ شیخ المشائخ نقشبندِ ثانیشاہ عبداللہ المعروف شاہ غلام علی دہلویرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاز۔ مختار احمد کھوکھر
حضرت سید عبداللطیف شاہ صاحب بٹالوی کے گھر میں ۱۱۵۶ھ کو ایک مبارک نومولود نے جنم لیا تو حضرت شاہ صاحب جو خود صاحبِ مجاہدہ و تقویٰ بزرگ تھے نے فرمایا کہ مجھے اس کی پیدائش سے قبل سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے خواب میں بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کا نام علی رکھنا، اس لئے ہم ان کا نام علی رکھتے ہیں۔ یہ سن کر آپ کی والدہ ماجدہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے انتہائی نورانی صورت بزرگ کی خواب میں زیارت ہوئی اور آپ نے بشارت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ نومولود کا نام عبدالقادر رکھنا، اس لئے میں نے تو عبدالقادر رکھا ہے۔ ابھی یہ بات جاری و ساری تھی کہ آپ کے چچا بزرگوار جو صاحب تقویٰ انسان تھے نے گوہر افشانی فرمائی کہ مجھے سید المرسلین صلّی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ نے خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بھتیجے کا نام عبداللہ رکھنا۔ یہاں آکر بات ختم ہوئی اور نومولود کے لئے تین نام تجویز ہوئے۔ لیکن اصل نام عبداللہ ہی تجویز کیا گیا اور عرفیت علی، لیکن نومولود جب سن شعور کو پہنچے تو انہوں نے ادبًا عرفیت کے ساتھ غلام کا اضافہ کیا اور عبداللہ عرف غلام علی سے متعارف ہونے لگے۔ بعد میں آپ اسی نام سے مشہور ہوگئے۔ یہ نومولود حضرت سید عبداللہ المعروف غلام علی بٹالوی ثم دہلوی تھے کہ جن کی پیدائش سے قبل ہی بشارتیں دی جانے لگیں۔ آپ کے والد ماجد شاہ عبداللطیف علیہ الرحمة کا شمار اپنے وقت کے بزرگوں میں ہوتا تھا جو حضرت شاہ ناصر الدین قادری رحمة اللہ علیہ سے شرف ارادت رکھتے تھے۔ چونکہ والد ماجد خود صاحب علم اور صوفی منش انسان تھے، اسی لئے اپنے فرزند ارجمند حضرت سید عبداللہ المعروف غلام علی رحمة اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ لیکن یہ کسے معلوم تھا کہ یہ نونہال ایسا تناور ہوگا کہ اس کی شاخیں نہ صرف پورے ملک میں پھیل جائیں گی بلکہ بیرونی ممالک کے کتنے ہی افراد اس کے سائے میں سکون قلب و جگر پائیں گے۔ یہ کون جانتا تھا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر آسمان علم و عرفان پر مہر درخشاں بن کر چمکے گا اور اپنی ضوافشانی سے ایک دنیا کو بقعۂ نور بنادے گا۔ آپ کی ابتدائی زندگی پردۂ اخفاء میں ہے۔ آپ کے والد ماجد دہلی میں اپنے شیخ کی خدمت میں ہی اکثر وقت گذارتے تھے، اس لئے غالب گمان یہی ہے کہ آپ نے ابتدائی تعلیم بٹالہ میں ہی حاصل کی ہوگی۔ چونکہ والدین کو ادراک حاصل تھا، اس لئے انہوں نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جب آپ زندگی کی اٹھارہ منزلیں طے کرچکے تو آپ کے والد ماجد نے اپنے شیخ کی خدمت میں آپ کو دہلی بلوایا۔ تعمیل ارشاد کی غرض سے آپ دہلی روانہ ہوئے۔ جب آپ ۱۱ رجب ۱۱۷۴ھ کو دہلی پہنچے تو والد ماجد اپ کو دیکھ کر باغ باغ ہوگئے۔ لیکن یہ مسرت عارضی ثابت ہوئی۔ چند ساعتوں بعد ہی حضرت شاہ ناصرالدین دہلوی رحمة اللہ علیہ جو آپ کے ابا حضور کے شیخ طریقت تھے کا وصال ہوگیا۔ حضرت کے وصال کے بعد مجبورًا والد ماجد نے آپ کو اختیار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”ہم تو تہمیں اپنے پیر سے بیعت کروانا چاہتے تھے، لیکن خدا کی رضا یہی تھی۔ اب تم جہاں اپنی باطنی کشائش معلوم کرو وہاں بیعت کرلو۔“ اس کے بعد آپ کے دہلی کے کئی بزرگوں سے اکتساب فیض کیا اور ساتھ ساتھ علوم ظاہری بھی حاصل کرتے رہے۔ ابھی درس حدیث مکمل نہیں ہوا تھا کہ حسن اتفاق اور بخت کی یاوری سے حضرت میرزا مظہر جان جاناں شہید رحمة اللہ علیہ جیسے سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے ماہِ تاباں کی ضیاء باریوں سے آپ واقف ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریبًا بائیس (۲۲) سال تھی۔ چنانچہ آپ حضرت میرزا رحمة اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور پہلی توجہ میں ہی بے ساختہ پکار اٹھے سجدہ گاہِ عشق ہو، مطلوب تھا وہ آستاں ایک مرتبہ حضرت میرزا رحمة اللہ علیہ ایک ایسے مرید پر ناراض ہوئے جو کشف و کرامات کا طالب تھا۔ فرمایا کہ جو ان شعبدوں کا طلب گار ہے اسے چاہیئے کہ ہماری خانقاہ سے نکل جائے۔ جب حضرت شاہ صاحب نے یہ بات سنی فورًا حضرت میرزا رحمة اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوکر عرض گذار ہوئے کہ ”کیا آپ نے ایسا ارشاد فرمایا ہے؟“ ارشاد ہوا ہاں میں نے یہی کہا ہے۔ عرض گذار ہوئے کہ اس سے آنجناب کی کیا مرضی ہے؟ فرمایا کہ ہمارے یہاں تو بغیر نمک کے پتھر کی سل کو چاٹنا پڑتا ہے، یعنی مجاہدہ و استقامت کی پرورش کی جاتی ہے۔ آپ نے عرض کیا کہ ”حضور میں تو بے نمک پتھر کی سل چاٹنا چاہتا ہوں۔“ مرشد گرامی نے ارشاد فرمایا کہ پھر تم یہاں رہ سکتے ہو۔ چونکہ آپ نے حضرت میرزا رحمة اللہ علیہ کے دست حق پرست پر خاندان قادریہ میں بیعت کی تھی اور انہوں نے آپ کو نقشبندیہ مجددیہ طریقہ میں تلقین ذکر فرمائی تھی، اس لئے آپ اکثر تردد میں رہتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں میں تردد میں تھا کہ میں تو طریقۂ نقشبندیہ میں شغل رکھتا ہوں، کہیں اس سے حضرت غوث الاعظم رحمة اللہ علیہ ناراض تو نہیں ہونگے۔ ایک دن ہم نے خواب میں دیکھا کہ حضرت غوث الاعظم علیہ الرحمة ایک مکان میں تشریف رکھتے ہیں اور اس مکان کے مقابل ایک اور مکان ہے جہاں حضرت خواجہ نقشبند بخاری رحمة اللہ علیہ جلوہ فرما ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ حضرت نقشبند رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں جاؤں، حضرت غوث پاک رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ مقصود خدا ہے، جاؤ مضائقہ نہیں۔ حضرت خواجہ میرزا جان جاناں شہید رحمة اللہ علیہ بے مثل ظاہری و باطنی کمالات سے مالامال اور یگانہ روزگار تھے۔ ایسی باکمال ہستی کے ہاتھوں تربیت پاتے اور سلوک کی منازل طے کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں سے درس حدیث بھی مکمل کررہے تھے۔ حضرت خواجہ شاہ غلام علی دہلوی رحمة اللہ علیہ زبردست باطنی استعداد کے مالک تھے۔ بہت جلد آپ نے سلوک کے مقامات طے کرلئے۔ آپ نے کس درجہ فیوض و برکات حاصل کئے، اس سلسلے میں سر سید احمد خان کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سر سید احمد خان اپنی کتاب ”آثار الصنادید“ میں لکھتے ہیں کہ ”بعد بیعت کے سالہا سال آپ نے پیر و مرشد کی خدمت میں اوقات بسر کی اور وہ زہد و مجاہدہ و ریاضت کی کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ دن بدن عروج کمال اور مشاہدہ جمال شاہد بے زوال اور مکاشفہ و ترقیات فائقہ ہوئی۔ یہاں تک کہ اپنے وقت کے شیخ الشیوخ ہوئے اور صاحب ارشاد ہوئے۔ اپنے پیر و مرشد کی موجودگی میں ہی تلقین و ارشاد کا سلسلہ جاری فرمایا۔ اگرچہ آپ نے بیعت سلسلۂ قادریہ میں کی تھی لیکن ذکر و اذکار اور شغل و اذکار طریقۂ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں جاری فرمایا اور ہی طریقہ کی اجازت حاصل کی اور اپنے پیر و مرشد کے وصال کے بعد سجادہ نشین ہوئے اور حقیقت میں میرے اعتقاد بموجب اپنے پیر پر بھی فوقیت لے گئے۔“ مولوی رحمان علی نے تذکرہ حضرت غلام علی دہلوی رحمة اللہ علیہ میں لکھا ہے کہ ”آپ اسلاف کی مقدس یادگار تھے۔ تمام وقت ذکر الٰہی اور تربیت سالکین کے لئے وقف تھا۔ اگرچہ ایک جہان آپ کا گرویدہ تھا لیکن آپ کو دنیاوی مال و متاع اور آرام و راحت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ اکابر نقشبندیہ کی طرح اتباع سنت کا کمال اہتمام تھا۔ آپ کو دیکھ کر اَلفَقرُ فَخرِی (فقر میرا فخر ہے، الحدیث) کا مفہوم بخوبی سمجھ میں آجاتا تھا اور سر سید احمد خان جو کہ ایک چشم دید گواہ کی حیثیت رکھتے ہیں، اپنی کتاب آثار الصنادید میں لکھتے ہیں کہ آپ کی اوقات شریف نہایت منضبط تھی کلام اللہ آپ کو حفظ تھا، اور تحقیق قرات بھی بہت خوب، نماز صبح اول وقت ادا فرماکر دس سیپارے کلام اللہ کی تلاوت فرماتے اور بعد اس کے حلقۂ مراقبہ ہوتا، نماز اشراق کے بعد تدریس حدیث اور تفسیر شروع ہوتی، جو لوگ اس جلسہ کے بیٹھنے والے ہیں ان سے پوچھا چاہیئے کہ اس میں کیا کیفیت ہوتی تھی اور پڑھنے پڑھانے، سننے سنانے والوں کا کیا حال ہوتا تھا۔ جہاں نام رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم آتا آپ بے تاب ہوجاتے اور اس بیتابی میں حاضرین پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ سبحان اللہ کیا شیخ تھے۔ باقی باللہ اور عاشقِ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم۔ علم حدیث اور تفسیر نہایت مستحضر تھا۔ اگرچہ باعتبار علوم نقل خاتم المحدثین والمفسرین سے تعبیر کیا جائے تو بھی بجا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مجمع علوم پیدا کیا تھا کہ ہر ایک علم ظاہری اور باطنی میں درجہ کمال بہ انتہائے کمال حاصل تھا۔ ”بعد اس درس و تدریس کے آپ کچھ تھوڑا سا کھانا کہ عبادت معبود کو کافی ہو تناول فرماکر بہ اتباع سنت نبوی قیلولۂ استراحت فرماتے۔ تھوڑی دیر بعد اول وقت نماز ظہر ادا فرماکر پھر درس و تدریس حدیث و تفسیر و فقہ اور کتب تصوف میں مشغول ہوتے۔ اور نماز عصر تا نماز مغرب حلقۂ مریدین جمع ہوتا اور ہر ایک آپ کی توجہ سے علو مدارج حاصل کرتا۔“ ہمیشہ تمام رات آپ شب بیداری فرماتے تھے، شاید کہ گھڑی دو گھڑی بتقاضائے بشریت غفلت آجاتی ہو۔ سو وہ بھی جانماز پر، برسوں آپ نے چارپائی پر استراحت نہیں فرمائی۔ اگر نیند کا بہت غلبہ ہوا یونہی اللہ اللہ کرتے پڑ رہے۔ آپ کی خانقاہ میں عجب عالم ہوتا تھا۔ بوریا کا فرش رہتا تھا اور اسی کے سرے پر ایک مصلیٰ کبھی بوریا کا اور کبھی کسی اور چیز کا پڑا رہتا تھا اور وہیں ایک تکیہ چمڑے کا رکھا رہتا۔ آپ دن رات اسی مصلیٰ پر بیٹھے رہتے اور عبادت معبود کیا کرتے اور سب طالبین گرداگرد جو آپ کے حلقہ باندھے بیٹھے رہتے۔ حق یہ ہے کہ ایسا برشتہ جان شیخ دیکھنے میں نہیں آیا اور میں تو اس بات پر عاشق ہوں کہ باوجود اتنی آزادی اور خود رفتگی کے سرِمو احکام شریعت سے تجاوز نہ تھا اور جو کام تھا وہ باتباع سنت تھا۔ لقمۂ مشتبہ سے نہایت پرہیز کرتے اور مال مشتبہ ہرگز نہ لیتے۔ جو شخص خلاف شرع اور سنت ہوتا اس سے نہایت خفا ہوتے اور اپنے پاس اس کا آنا گوارہ نہ کرتے۔ حضرت شاہ عبدالغنی مجددی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ آپ پندرہ برس تک حضرت میرزا رحمة اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں اکتساب فیض کرتے رہے۔ بعد اس کے آپ کو حضرت میرزا علیہ الرحمة کی طرف سے خلافت و اجازت مطلقہ سے نوازا گیا۔ حضرت والا تبار رحمة اللہ علیہ خود فرماتے ہیں کہ ابتداء میں مجھے معاشی فکر لاحق رہتی تھی۔ لیکن باوجود اس کے توکل کو اختیار کیا۔ ایک پرانا بوری بستر اور اینٹ کا سرہانہ بنا لیا۔ ایک مرتبہ شدت ضعف سے میں نے حجرہ میں داخل ہوکر دروازہ بند کرلیا کہ اگر مروں گا تو اسی حجرہ میں۔ آخر اللہ کی مدد آ پہنچی۔ رجال الغیب میں سے ایک نے دروازہ بجاکر کہا کہ دروازہ کھولیں۔ میں نے نہ کھولا۔ اس نے پھر بجاکر کہا کہ مجھے آپ سے ضروری کام ہے، لیکن میں نے پھر بھی نہ کھولا۔ بعد اس کے وہ کچھ روپے بذریعۂ شگاف اندر پھینک کر چلا گیا۔ پس اسی دن سے فتوحات کا دروازہ کھل گیا۔ آپ کے فیض کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف متحدہ ہندوستان کے گوشے گوشے سے طالبین و سالکین کا تانتا بندھا رہتا، بلکہ بیرون ممالک کے کتنے ہی حضرات اپنی روحانی پیاس بجھانے اور دل کی ویران کھیتیوں کو سرسبز و شاداب بنانے کی خاطر عازم دہلی ہوتے اور آپ کی خانقاہ کی چاکری کو اختیار کرلیتے۔ آپ کے خلیفۂ اجل حضرت رؤف احمد مجددی رحمة اللہ علیہ نے آپ کے فیض کی ترجمانی یوں فرمائی ہے کہ ”خالص اعتقاد رکھنے والے اور خاص مخلص لوگوں کا مجمع ہے، یعنی لوگ سمرقند، بخارا، غزنی، تاشقند، حصار، قندھار، کابل، پشاور، ملتان، کشمیر، لاہور، سرہند، امروہہ، سنبھل، بریلی، رامپور، لکھنؤ، جائس بہرائچ، گورکھپور، عظیم آباد، ڈھاکہ، حیدرآباد، پونا وغیرھا دیار و امصار سے لوگ حق جل و علا کی طلب میں اپنے اپنے وطن کو چھوڑ کر آپ کی خدمت میں آئے ہوئے ہیں۔“ اس سلسلے میں حضرت والاتبار رحمة اللہ علیہ خود یوں گوہر افشانی فرماتے ہیں کہ ”دور دراز ممالک تک ہمارا فیض پہنچتا ہے، مکہ معظمہ میں ہمارا حلقہ ہوتا ہے اور مدینہ منورہ میں ہمارا حلقہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بغداد، روم اور مغرب (مراد مغربی ممالک ہیں) میں ہمارا حلقہ ہوتا ہے اور (مزاحیہ انداز میں فرمایا کہ) بخارا تو ہمارا آبائی گھر ہے۔“ آپ کی زندگی میں ہی ایسا فیض جاری ہوا کہ بہت کم مشائخ سے جاری ہوا ہو۔ آپ کے خلفاء کرام دور دراز ممالک تک پہنچ گئے۔ بالخصوص حضرت خالد رومی کردی رحمة اللہ علیہ سے آپ کا فیض کثرت سے جاری ہوا، اور اس بات ثبوت حضرت خالد علیہ الرحمة کا مکتوب ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ”غریب و مہجور خالد کردی شہرزوری عرض کرتا ہے کہ یک قلم تمام مملکت روم و عربستان اور دیارِ حجاز و عراق اور عجم کے بعض ممالک اور سارا کردستان طریقۂ عالیہ مجددیہ کے جذبات و تاثرات سے سرشار ہے۔“ آپ کی خانقاہ میں طالبین و سالکین کا ہر وقت اجتماع رہتا تھا۔ بقول سر سید احمد خان کے تقریبًا پانچ سو لگ بھگ فقراء خانقاہ میں رہتے تھے، جن کے نان و نفقہ اور کپڑے وغیرہ کا ذمہ آپ ہی اٹھائے ہوئے تھے۔ کہیں سے ایک حبّہ (ایک پیسہ) مقرر نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ غیب الغیب سے سب کام چلاتا تھا۔ جیسا گاڑھا موٹا تمام فقیروں کو میسر ہوتا ویسا ہی آپ بھی پہنتے تھے۔ باوجود اس کمال کے آپ میں انکسار اس درجہ تھا کہ ایک دن فرمایا کہ ”کتا جو میرے گھر میں آتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ خدایا! میں کون ہوں کہ تیرے دوستوں کو وسیلہ بناؤں، اس مخلوق کے ذریعے مجھ پر رحم فرما۔“ امر بالمعروف و نہی عن المنکر آپ کا شیوہ تھا۔ اس سلسلے میں آپ کسی بڑی سے بڑی طاقت کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ امراء، حکام اور بادشاہِ وقت تک کو تلقین فرماتے۔ کسی غلط کام کو دیکھتے تو منع کرنے میں بڑے سے بڑے عہدے کو بھی نہ دیکھتے اور اَفضَلُ الجِہادِ عِنَ سُلطَانِ جَابِر (بہترین جہاد ظالم سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے) کی عملی تصویر تھے۔ ایک مرتبہ حضرت سید اسماعیل مدنی رحمة اللہ علیہ جو رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے اِذن سے نسبت مجددیہ حاصل کرنے کے لئے آئے تھے، ایک روز آپ کے حکم سے جامع مسجد دہلی میں آثار نبویہ کی زیارت کے لئے گئے، تو واپس آکر عرض کیا کہ اگرچہ وہاں برکات رسالت مآب صلّی اللہ علیہ وسلم محسوس ہوتی ہیں لیکن ساتھ ہی ظلمتِ کفر بھی معلوم ہوتی ہے۔ آپ نے تحقیق کروائی تو معلوم ہوا کہ وہاں بعض اکابرین وقت کی تصاویر بھی رکھی ہیں۔ آپ نے اسی وقت بادشاہِ وقت اکبر شاہ کو نہایت پرزور خط لکھا تو وہ تصویریں وہاں سے ہٹادی گئیں۔ نواب بہادر ایک مرتبہ ہیٹ (انگریزی ٹوپی) لگاکر حاضر خدمت ہوا تو آپ سخت ناراض ہوئے۔ اس نے عرض کیا کہ حضرت اگر ایسا ہی احتساب ہے تو میں پھر نہ آؤں گا۔ آپ نے فرمایا خدا تمہیں ہمارے گھر نہ لائے۔ نواب صاحب نہایت غصے سے اٹھے، لیکن سیڑھیوں تک پہنچ کر ہیٹ نوکروں کے حوالے کیا اور واپس آکر حضرت سے بیعت ہوا۔ لیکن آپ کا سخت احتساب سب کے لئے نہ تھا، بلکہ آپ نہایت نرم خو تھے۔ امیر اکبر علی کا بیان ہے کہ میرے چچا داڑھی نہ رکھتے تھے۔ ایک روز حضرت کی خدمت میں آئے تو آپ نے نرمی سے فرمایا کہ میر صاحب داڑھی نہیں رکھتے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ میر صاحب! یہ آپ ہی کے خاندان کا صدقہ ہے، ہم تو آپ کے گماشتہ ہیں۔ میر صاحب پر اس قدر اثر ہوا کہ پھر کبھی داڑھی نہ منڈوائی۔ ایک مرتبہ کسی نے فقیری سے متعلق عرض کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا لفظ فقیری میں
پس جس نے یہ مکمل کرلیا اس نے اپنے مقصد کو لفظ فقیر میں پالیا کہ
کو حاصل کرلیا۔ اگر صورت اس کے برعکس ہے تو
ہم ایسی صورت سے اللہ کی پناہ لیتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جملہ تمام انسان کی چار قسمیں ہیں۔
آپ کی مجلس پر فیض جاری ہے، طالبین اکتسابِ فیض کررہے ہیں اور آپ یوں گوہر افشاں ہیں طریقۂ عالیہ نقشبندیہ چار چیزوں سے عبارت ہے
اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ طریقۂ نقشبندیہ کی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ”سفر در وطن“ ہے جس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ ”خصائل رذیلہ سے اوصاف حمیدہ کی طرف چلے اور صوفیوں کے دس مقامات حاصل کرلے، یعنی بے صبری سے صبر کی طرف، بے توکلی سے توکل کی طرف اور بے قناعتی سے قناعت کی جانب سفر کرے اور دوسری چیزوں کو بھی اسی پر قناعت کرنا چاہئے۔ ایک دن ایک خوبصورت ہندو لڑکا آپ کی مجلس میں آیا۔ آپ نے اس کی طرف توجہ فرمائی تو وہ داخل اسلام ہوگیا۔ آپ سے بے شمار کرامات کا ظہور ہوا ہے۔ تنگئ صفحات لکھنے سے مانع ہے۔ حضرت میرزا رحمة اللہ علیہ کی طرح حضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمة اللہ علیہ کے زمانہ میں بھی خانقاہِ مظہریہ کو رشد و ہدایت کے لحاظ سے مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ علمی لحاظ سے حضرت شاہ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ اور تصوف میں حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ ہی کامل ہستیاں تھیں۔ آپ کو نقشبندِ ثانی کا خطاب عطا کیا گیا۔ آخر کُلُّ نَفسٍ ذَائِقَةُ المَوت کے تحت آپ کو بھی اس جہان فانی سے عالم جاودانی کی جانب رختِ سفر باندھنا پڑا۔ آپ کو ہمیشہ شہادت کی آرزو رہتی تھی، لیکن فرماتے تھے کہ حضرت میرزا رحمة اللہ علیہ کی شہادت کے باعث لوگوں پر کس قدر مصائب نازل ہوئے۔ تین سال تک قحط مسلّط رہا اور قتل عام ہوا۔ اس لئے اس بات سے ڈرتا ہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہماری رحلت کے بعد جنازہ آثار شریفہ نبویہ میں جو جامع مسجد میں ہیں، لے جانا اور رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کے لئے عرض کرنا۔ جب وصال کا وقت قریب آیا تو حضرت شاہ ابوسعید رحمة اللہ علیہ کو لکھنؤ سے بلوایا۔ آخر وقت میں آپ پر استغراق کی کیفیت طاری رہنے لگی اور بالآخر چوراسی (۸۴) برس کی عمر مبارک میں حالت استغراق میں ہی آپ نے اپنی جان جانِ آفریں کے حوالے کردی۔ اِنّا للہ وَ اِنّا اِلیہِ راجِعُون آپ کے وصال کی خبر بجلی بن کر لوگوں پر گری اور ہزاروں کا مجمع اکٹھا ہوگیا۔ حضرت شاہ ابوسعید رحمة اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور حسب وصیت آپ کے جنازہ کو آثار نبویہ میں جامع مسجد میں لے جایا گیا اور وہاں سے لاکر حضرت میرزا شہید رحمة اللہ علیہ کے پہلو میں آپ کو مدفون کیا گیا۔ بوقت وصال شمائل ترمذی شریف آپ کے سینۂ اقدس پر دھری تھی۔ آپ کی باقیات صالحات میں آپ کے خلفاء عظام اور تصانیف عالیہ ہیں۔ آپ کے خلفاء کی تعداد سوانحی کتب میں اڑتیس (۳۸) کے قریب ملتی ہیں۔ اسی طرح آپ تقریبًا پندرہ کتابوں کے مصنف ہیں، جن کے نام درج ذیل ہیں
مآخذ۔ مقامات مظہری، درالمعارف، تذکرہ مشائخ نقشبندیہ، آثار الصنادید
|