پیچھے | شجرہ شریف | آگے |
حضرت خواجہ ابو سعید فاروقیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاز۔ مختار احمد کھوکھر
آپ کا نام نامی اسم گرامی زکی القدر ہے، مگر اپنی کنیت ابو سعید سے زیادہ متعارف ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب چھ واسطوں سے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے مل جاتا ہے۔ آپ کے والد ماجد اپنے وقت کے مشائخ میں سے تھے اور صاحب ارشاد تھے اور ارادت مندوں کا ایک وسیع حلقہ رکھتے تھے۔ آپ کی ولادت باسعادت شہر مصطفیٰ آباد عرف رامپور میں 7 ذیقعدہ 1196ھ بمطابق 19 اکتوبر 1782ع میں ہوئی۔ ابتدائے عمر ہی سے آپ میں آثار صلاح و بزرگی پائے جاتے تھے جس کے ثبوت میں آپ کا ایک ارشاد ہے کہ اوائل عمر میں حضرت میاں ضیاء النبی صاحب (جو حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کی اولاد میں سے ہیں اور صاحب فیض بزرگ گزرے ہیں) جو میرے اقارب میں سے تھے، کے ساتھ لکھنؤ جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم نے ایک مکان میں سکونت اختیار کی۔ وہاں ایک مجذوب درویش بھی تھا جو کہ مسجد آتے جاتے ہمیں راستے میں ملتا۔ وہ عمومًا عریاں بدن رہتا لیکن جب مجھے دیکھتا تو ستر ڈھانپ لیتا۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب بھی انہیں (حضرت شاہ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ کو) دیکھتے ہو تو ستر ڈھانپ لیتے ہو۔ اس نے کہا کہ وہ وقت آنے والا ہے جب انہیں ایک ایسا منصب عطا ہوگا کہ اپنے اقارب کے مرجع بنیں گے۔ چنانچہ اس درویش خدا مست کے بقول ایسا ہی ہوا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت رامپور ہی میں ہوئی۔ چنانچہ دس سال کی عمر مبارک میں مکمل قرآن حفظ کرلیا، پھر قاری نسیم علیہ الرحمۃ سے تجوید سیکھی اور قرآن خوانی کے حسن ترتیل میں قاریوں کے لئے رونق افزا ہوئے۔ آپ قرآن پاک ایسی ترتیل سے پڑھا کرتے کہ سننے والا مسحور اور محو ہوجاتا۔ اس کے باوجود آپ فرماتے کہ مجھے قرآن پڑھنے کے سلسلے میں اپنے اوپر اعتماد نہیں تھا۔ بالآخر عربوں نے حرم محترم میں مجھ سے قرآن سنا اور تعریف و تحسین کی، کیونکہ اہل عجم کی تحسین پر مجھے مطلق اعتماد نہ تھا۔ حفظ و تجوید قرات کے بعد باقاعدہ علوم نقلیہ و عقلیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ حضرت مفتی شرف الدین حنفی علیہ الرحمۃ جو رامپور کے نامور علماء مدرسین سے تھے، سے اکثر اور حضرت شاہ رفیع الدین اور اپنے ماموں شاہ سراج احمد مجددی جو شیخ الحدیث تھے، ان سے کتب متداولہ پڑھیں۔ اپنے مرشد مربی حضرت قبلہ شاہ غلام علی اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہما سے علم حدیث کی سند لی۔ تحصیل علم کے دوران ہی معرفت خداوندی کی طلب پیدا ہوئی۔ آپ کے والد ماجد چونکہ خود وقت کے کاملوں میں سے تھے اور علم حدیث کا بھی ذوق رکھتے تھے، اسی لئے آپ اپنے والد ماجد کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ بعد میں اپنے والد ماجد کی اجازت سے، آتش شوق نے آپ کو حضرت شاہ درگاہی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں پہنچا دیا۔ حضرت شاہ درگاہی علیہ الرحمۃ میں اس قدر توجہ کی قوت اور ذکر کی گرمی تھی کہ اگر ایک وقت میں سو افراد پر بھی توجہ کریں تو وہ بیخود ہوکر بے ہوش ہوجائیں۔ حضرت شاہ صاحب کے متعلق مشہور ہے کہ ایک بار نماز کی حالت میں محبت الٰہی سے ان کے دل میں تحرک پیدا ہوا تو سب سے پہلے امام پھر تمام مقتدی اور پھر سارے محلے پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور سب عالم وجد میں رقص کناں ہوئے۔ حضرت شاہ درگاہی کی آپ پر بڑی توجہ تھی، اسی لئے چند ہی روز میں خلافت و اجازت عطا فرمادی اور اپنا جانشین بنالیا۔ آپ کی آتش شوق فرو نہ ہوئی۔ گو کہ آپ کے حلقہ میں وجد و جذبہ ذوق و شوق بہت ہوتا، اور لوگ بے اختیار رقص کرنے لگتے۔ مگر آپ کی طلب ابھی تشنہ تھی، اسی لئے آپ نے حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ مؤلف تفسیر مظہری کی خدمت میں لکھا کہ میں آپ سے باطنی استفادہ کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت قاضی صاحب نے نہایت تعظیم سے آپ کو تحریر فرمایا کہ اس وقت حضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بہتر کوئی نہیں۔ آپ فی الفور خانقاہ مظہریہ پہنچے اور حضرت قبلہ شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ اس وقت حضرت شاہ درگاہی رحمۃ اللہ علیہ بقید حیات تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مجھے اگر حضرت شاہ غلام علی جیسا مرشد نہ ملتا تو حضرت شاہ درگاہی کی طرف سے مجھے بہت خوف تھا۔ مگر حضرت قبلہ شاہ صاحب نے میری بہت دستگیری فرمائی اور اس طرح حمایت کی کہ مجھے کوئی ضرر نہ پہنچا۔ اس کے باوجود آخر عمر تک آپ کے دل میں حضرت شاہ درگاہی کی محبت راسخ رہی۔ حضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے حال پر خاص توجہ فرماتے۔ چنانچہ ماہ صفر 1330 ھجری میں حضرت شاہ صاحب نے آپ کو اپنے سینہ سے لگایا اور دیر تک توجہ فرمائی اور اپنی ضمنیت سے مشرف فرمایا۔ 11 جمادی الاول 1231ھ کو حضرت نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد اس مکان میں میاں ابوسعید بیٹھیں اور حلقہ و مراقبہ اور درس حدیث و تفسیر میں مشغول ہوں۔ مرشد پاک کی آپ پر یہ عنایات بعض لوگوں کو بڑی ناگوار گذریں کہ انتہائی مختصر مدت میں یہ مہربانیاں۔ اس لئے ایک بار حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کے حال پر اس قدر عنایت کیوں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ میاں ابو سعید اپنے مریدوں کو چھوڑ کر میرے پاس آیا ہے جبکہ اس سے قبل وہ خرقۂ خلافت دوسرے مشائخ سے لے چکے ہیں۔ اپنے مرشد کی عین حیات میں انہوں نے خلافت و اجازت کو چھوڑ کر میری بیعت کا حلقہ اپنے اخلاص کی گردن میں ڈالا اور پیری چھوڑ کر مریدی کو اختیار کیا، پھر وہ کیوں نہ مورد عنایت اور مصدر ہمت ہوں۔ حضرت شاہ ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ نے بعض احباب کی استدعا پر علم سلوک پر ایک رسالہ ”ہدایت الطالبین“ تحریر فرمایا اور حضرت شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں پیش کیا۔ آپ نے رسالے کی بہت تعریف فرمائی اور آخر میں چند سطور رقم فرمائیں اور صاحب رسالہ کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ بعد ازاں لکھا کہ ”یہ جو کچھ لکھا ہے موافق علوم و معارف حضرت مجدد کے ہے، خداوند کریم زیادہ سے زیادہ کرے، اور یہی رسالہ طریقۂ مظہریہ مجددیہ کا دستور العمل ہے۔“ آپ پندرہ برس تک اپنے مرشد سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ جب حضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا وقت وصال قریب آیا تو اس وقت آپ (حضرت شاہ ابوسعید) لکھنؤ میں تھے، تو حضرت مرشد کریم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو مکتوب تحریر فرمایا کہ ”میں دیکھتا ہوں کہ اس خاندان عالیشان کے مقامات کا آخری منصب تمہیں سے متعلق ہے۔ اس سے قبل بھی میں نے پہلی بیماری کے دوران دیکھا کہ تم میری چارپائی پر بیٹھے ہو اور قیومیت تمہیں عطا ہوئی ہے۔ ان عجیب و غریب توجہات کے لئے تمہارے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس خط کے ملتے ہی اکیلے چلے آؤ اور برخوردار احمد سعید کو اپنی جگہ پر چھوڑ آؤ۔“ اس مکتوب شریف کے ملتے ہی آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے شاہ احمد سعید رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مرشد مربی نے خانقاہ اور مکانات آپ کے سپرد کئے اور آپ کو اپنا جانشین بنایا۔ ایک مرتبہ آپ رامپور سے سنبھل جارہے تھے کہ پہلی ہی منزل میں عشاء کے وقت دریا پر پہنچے، مگر وہاں کوئی ملاح نہ تھا۔ آپ نے بہلی والے سے جو کشتی کا مالک اور مشرک تھا فرمایا کہ کشتی دریا میں ڈال دو۔ اس پر رعب طاری ہوگیا اور اس نے آپ کی ہیبت سے کشتی دریا میں ڈال دی۔ خدا کے فضل سے وہ صحیح سالم دریا میں سے گذر گئی۔ یہ دیکھ کر وہ مشرک مسلمان ہوگیا اور آپ کے ہاتھ پر ایمان لے آیا۔ آپ کے ایک مخلص میاں محمد اصغر کی نماز تہجد بعض اوقات فوت ہوجاتی تھی۔ ایک بار انہوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا تو فرمایا کہ ہمارے خادم سے کہدو کہ تہجد کے وقت ہمیں یاد دلایا کرے، میں تمہیں اٹھادیا کروں گا۔ میں تو صرف اتنا ہی ذمہ لے سکتا ہوں، باقی تمہارے اختیار میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا کہ گویا مجھے کوئی اٹھا دیتا تھا۔ آپ کے ایک مرید پر اکثر غلبہ رہتا، حتیٰ کہ نماز کے وقت قبلہ کی پہچان نہ رہتی۔ اس نے مجبور ہوکر آپ سے عرض کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تحریمہ کے وقت میری طرف متوجہ ہوا کر، میں تجھے قبلہ کی طرف متوجہ کردیا کروں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا کہ جب وہ تحریمہ کے وقت آپ کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ ظاہر ہوکر قبلہ کی طرف اشارہ کردیتے۔ مرزا طہماسپ نے قلعہ میں آپ کی دعوت کی۔ محض بغرض تبلیغ آپ نے دعوت قبول فرمائی۔ بہت سے شہزادے بھی اس دعوت میں شرک تھے، وہ بولے کہ ہم نے کسی بزرگ کی کرامت نہیں دیکھی۔ یہ سن کر آپ نے اللہ کے نام کی ضرب لگائی تو سب گر پڑے۔ یہ دیکھ کر تمام اہل مجلس آپ کے معتقد ہوگئے۔ آپ بڑے زبردست خوش نویس تھے۔ آپ کا خط بڑا پاکیزہ ہوتا تھا۔ 15 جمادی الآخر 1244ھ میں آپ نے خوب جلی قلم سے قرآن پاک کی کتابت کی جس کے صفحات 888 آٹھ سو اٹھاسی ہیں۔ یہ متبرک نسخہ رباط مظہری مدینہ منورہ میں موجود ہے۔ آپ نو سال تین مہینے مسند ارشاد پر متمکن رہے۔ بعدہ جمادی الآخر 1249ھ بمطابق 1833ع میں اپنے صاحبزادے حضرت شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ کو ساتھ لیکر حج کیلئے عازم سفر ہوئے۔ اہل دہلی کو بڑا قلق ہوا۔ آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت احمد سعید رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا قائم مقام بنایا۔ رمضان المبارک بمبئی میں ہی گذرا اور وہیں تراویح میں آپ نے پورا قرآن شریف ختم کیا۔ شوال المکرم میں آپ پانی کے جہاز پر سوار ہوئے اور ذی الحج کی دوسری یا تیسری تاریخ کو آپ مکہ مکرمہ میں پہنچے تو اہل حرمین جن میں قاضی، مفتی، امراء اور علماء بھی شامل ہیں بڑی تعظیم سے پیش آئے۔ ان کے علاوہ شیخ الاسلام شیخ محمد عابد سندھی، شیخ عمر مفتی شافیعہ، مفتی سید عبداللہ اور دوسرے عزیز ملاقات کیلئے حاضر ہوئے۔ وہیں پر آپ کو ماہ محرم الحرام 1250ھ میں اسہال اور بخار لاحق ہوا۔ عین مرض اور بے ہوشی کے عالم میں مدینہ منورہ کی زیارت کے شوق کا حد سے زیادہ غلبہ ہوگیا۔ قدرے افاقہ ہوا تو مدینہ منورہ کا قصد فرمایا۔ ربیع الاول کے ماہ مبارک میں آپ وہیں پر تھے۔ مدینہ منورہ میں بھی آپ کے حلقہ میں اس قدر لوگ آتے کہ آپ کا مکان بھر جاتا تھا، اور طالبان معرفت سیراب ہوتے۔ شیخ الحرم نے آپ کو دعوت دی اور یہ کہا کہ یہ دعوت جناب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔ کسی نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم مع صحابہ کرام آپ کے مکان کی طرف تشریف لے جارہے ہیں، اور یہ کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوا باقی سب پیادہ ہیں اور حضرت عمر گھوڑے پر سوار۔ کسی نے اس کی یہ تعبیر کی کہ شاید امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ امتیاز اس لئے دیا گیا کہ آپ ان کی اولاد میں سے ہیں۔ مدینہ منورہ میں آپ کی بیماری میں اس قدر کمی آگئی کہ آپ ایک میل تک چل سکتے تھے۔ زیارت حرمین شریفین سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے وطن کی طرف رجوع کیا۔ دوران سفر مرض پھر عود کر آیا۔ رمضان المبارک کا پہلا روزہ رکھا کہ اگر نقصان نہ ہوا تو باقی تمام روزے رکھیں گے۔ مگر اس روزے سے ہی مرض میں شدت پیدا ہوگئی تو آپ نے فدیہ کا حکم دے دیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگرچہ مریض اور مسافر کیلئے فدیہ لازم نہیں، مگر طبیعت چاہتی ہے کہ فدیہ دیا جائے۔ آپ 22 بائیس رمضان المبارک کو ٹونک شہر میں داخل ہوئے تو نواب وزیر الدولہ جو ٹونک کے نواب تھے نے آپ کی بہت تعظیم و تکریم کی۔ عید الفطر کے روز آپ نے فرمایا کہ آج نواب ہمارے پاس نہ آئے، دنیا داروں کے آنے سے ظلمت و کدورت محسوس ہوتی ہے۔ حضرت شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ جو آپ کے دوسرے فرزند ہیں، ان سے فرمایا کہ اتباع سنت لازم ہے اور اہل دنیا سے اجتناب کرنا۔ فرمایا کہ وہ اشغال و اوراد جو مجھے ملے ہیں میں آپ دونوں صاحبزادوں کو ان کی اجازت دیتا ہوں۔ نماز ظہر کے بعد حافظ کو یاسین شریف پڑھنے کا امر فرمایا۔ جب حافظ تین بار یاسین شریف پڑھ چکا تو آپ نے فرمایا بس کرو، اب وقت کم ہے۔ آپ ظہر و عصر کے درمیانی وقت بروز ہفتہ عید کے موقعہ پر 1250 ہجری کو واصل بحق ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس کے بعد نواب وزیر الدولہ اور اہل شہر حاضر ہوئے۔ تجہیز و تکفین کے بعد شہر کے قاضی مولوی خلیل الرحمٰن نے نماز جنازہ کی امامت کی۔ نماز جنازہ کے بعد حضرت شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ جسدِ اقدس کو تابوت میں رکھ کر دہلی لے آئے اور چالیس روز کے بعد تابوت کھولا گیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی غسل دیا گیا ہے۔ وہ روئی جو جسد اقدس کے نیچے رکھی گئی تھی مسحور کن خوشبو سے مہک رہی تھی، جسے لوگ تبرکًا اپنے ساتھ لے گئے۔ آپ کا مزار اقدس دہلی میں ہی اپنے مرشد مربی کی قربت میں مرجع خواص و عوام ہے۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کا ایک مخلص قدیم مرید شیخ احمد بخش دہلی میں آپ کے مزار کی زیارت کیلئے حاضر ہوا تو اسے آپ نے خواب میں فرمایا کہ وہ نیک نامی کا کاغذ جو تم نے فرنگی سے لیا ہے اور تمہاری گٹھڑی میں ہے، اسے پھاڑ ڈالو، کیونکہ یہ اسلام کیلئے مناسب نہیں۔ شیخ مذکور کہتے ہیں کہ مجھے قطعًا یاد نہیں تھا کہ وہ سند میرے ہمراہ ہے۔ جب میں نے اسے تلاش کیا تو وہ وہیں سے برآمد ہوئی۔ میں نے اسے نکال کر پھاڑ دیا اور کافروں کی محبت میرے دل سے نکل گئی۔ کون کہتا ہے کہ مومن مرگئے آپ کے بہت سے خلفاء کرام تھے جن کے دم سے یہ فیض دور دور تک پہنچا اور آج سالکان طریقت اس سے فیضیاب ہورہے ہیں۔
|