پیچھے | شجرہ شریف | آگے |
حضرت خواجہ احمد سعید فاروقیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاز۔ مختار احمد کھوکھر
حضرت نقشبند ثانی علیہ الرحمة نے فرمایا ”ہم نے لوگوں سے ایک بچہ طلب کیا، کسی نے نہ دیا، ابوسعید نے میری طلب پوری کردی اور اپنا لختِ جگر مجھ کو دیدیا“۔ یہ منظورِ نظر بچہ کون تھا کہ جن کو حضرت نقشبندِ ثانی شاہ غلام علی دہلوی رحمة اللہ علیہ کی نگاہِ انتخاب نے پسند فرمایا۔ یہ مادرزاد ولی اللہ، حضرت شاہ ابوسعید رحمة اللہ علیہ کے نورِ نظر لختِ جگر حضرت شاہ احمد سعید رحمة اللہ علیہ تھے۔ آپ کی ولادت باسعادت یکم ربیع الآخر 1217ھ بمطابق 31 جولائی 1802ع کو ریاست رامپور میں ہوئی۔ آپ کا اسمِ گرامی حضرت احمد سعید، کنیت ابوالمکارم ہے اور تاریخی نام آپ کا مظہرِ یزداں ہے۔ نسب کے لحاظ سے آپ فاروقی ہیں اور حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں۔ رشد و ہدایت کے آثار بچپن ہی سے آپ میں نمایاں تھے۔ آپ کے نانا حضرت شاہ غلام صدیق رحمة اللہ علیہ جو عالمِ باعمل اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے انہوں نے آپ کا مشرب معلوم کرکے آپ کا اسم گرامی غلام غوث رکھا تھا، مگر آپ مشہور اپنے والدین کے رکھے ہوئے نام احمد سعید سے ہی ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم رامپور میں ہی حاصل کی اور قرآنِ پاک حفظ فرمایا۔ چونکہ آپ کے والد ماجد حضرت شاہ ابوسعید رحمة اللہ علیہ حافظِ قرآن اور قاری القراء تھے، اس لئے اپنے والد ماجد سے ہی قرآن پاک باتجوید حفظ فرمایا۔ دوران حفظ قران کبھی کبھی اپنے والد ماجد کے ہمراہ حضرت شاہ درگاہی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں جاتے۔ وہ آپ کو محبت سے اپنے پاس بٹھاتے اور کلام پاک سنتے تھے۔ جس وقت آپ کے والد ماجد حضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہونے تشریف لائے اس وقت آپ بھی ساتھ تھے اور آپ کی عمر مبارک دس برس بھی پوری نہ تھی۔ آپ نے حفظِ قرآن کے بعد علوم عقلی مولوی فضل امام اور مفتی شرف الدین اور حضرت شاہ سراج احمد مجددی سے حاصل کئے۔ آپ شاہ عبدالعزیز، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالقادر کی خدمت میں بھی برائے استفادہ حاضر ہوا کرتے تھے۔ حضرت شاہ سراج احمد مجددی آپ کے والد ماجد کے ماموں اور خواجہ محمد سعید رحمة اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے۔ حدیث مسلسل بالاولیہ کی اجازت آپ نے ان سے ہی لی۔ اور علمِ حدیث میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ آپ کے استاد تھے۔ علمِ تصوف میں رسالہ قشیریہ، عوارف المعارف، الاحیاء العلوم، نفحات، رشحات، مکتوبات شریف، مثنوی معنوی وغیرہ اپنے مرشد حضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں۔ چونکہ حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ علمِ حدیث پر بھی دسترس رکھتے تھے، اس لئے مشکوٰة شریف اور ترمذی شریف بھی آپ نے حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ سے ہی پڑھیں۔ حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے آپ سے فرمایا کہ حال کو قال کے ساتھ جمع کرنا چاہیئے، لہٰذا علماء سے علمِ ظاہر پڑھا کرو اور فرصت کے وقت حلقہ میں شریک ہوا کرو۔ چنانچہ آپ ایسا ہی کرتے تھے۔ اپ فرماتے ہیں کہ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ مستفیدین کی کثرت کی وجہ سے مجھے بیٹھنے کی جگہ نہ ملتی اور میں جگہ کی تلاش میں کھڑے نگاہ ہی دوڑاتا ہوتا کہ حضرت قبلہ شاہ صاحب کی مجھ پر نظر پڑجاتی تو مجھے اپنے پاس بلاکر بٹھاتے اور میں آپ کی مسند کے ایک گوشہ میں بیٹھ جاتا تھا۔ علمِ تصوف و سلوک اول تا آخر آپ نے حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ سے ہی حاصل کیا۔ پندرہ برس تک آپ حضرت قبلہ شاہ صاحب کی زیرِ تربیت رہے اور اجازت و خلافت سے مشرف ہوئے۔ مگر چونکہ آپ نے جمیع مقامات میں اپنے والد بزرگوار سے بھی توجہات لی تھیں، اس لئے شجرہ شریف میں آپ کا اسمِ گرامی اپنے والد بزرگوار کے بعد آتا ہے۔ حضرت شاہ نقشبند ثانی قبلہ شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے ایک رسالہ تالیف فرمایا جو کہ اب ”کمالاتِ مظہری“ کے نام سے معروف ہے۔ اس میں حضرت قبلہ شاہ صاحب آپ سے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ”حضرت ابوسعید کے فرزند احمد سعید علم و عمل اور حفظِ قرآن مجید اور نسبت شریفہ کے احوال میں اپنے والد ماجد کے قریب ہیں“۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ جب حضرت شاہ نقشبند ثانی کا وقت واصل قریب آیا اور آپ نے حضرت شاہ ابوسعید رحمة اللہ علیہ کو بلوانے کے لئے مکتوب تحریر فرمایا تو اس میں لکھا کہ اپنی جگہ احمد سعید کو چھوڑ کر فورًا ہمارے پاس پہنچو۔ آپ کی توجہ نہایت زبردست تھی۔ جمادی الآخر 1249ھ میں جب آپ کے والد خواجہ ابوسعید رحمة اللہ علیہ حج کے لئے روانہ ہوئے تو خانقاہ شریف آپ کے حوالے فرمائی۔ چونکہ آپ حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کے منظور نظر تھے اور شاہ صاحب نے آپ کو آپ کے والد ماجد سے مانگ لیا تھا، اس لئے آپ کو حضرت قبلہ شاہ صاحب کی بنّوت کا مقام حاصل تھا اور اس بنّوت نے اس وقت رنگ دکھایا جب آپ کے والد ماجد نے خانقاہ شریفہ آپ کے سپرد فرمائی۔ اطراف و اکناف سے طالبین و سالکین کا ایک اژدہام ہر وقت رہتا اور آپ کی توجہ سے تشنگانِ روح قرار پاتے اور بحر معرفت کے غواصی درّ نایاب سے بہرہ ور ہوتے۔ انگریز تاجروں کے روپ میں ہندوستان وارد ہوئے، لیکن آہستہ آہستہ وہ اس خطے کے مالک بن بیٹھے اور مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جانے لگا۔ ان کی گردن میں طوقِ غلامی ڈالا جانے لگا۔ موجودہ پنجاب اور سرحد کا علاقہ سکھوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا تھا۔ اذان و نماز پر پابندی تھی۔ مسجدیں اصطبل کی صورت اختیار کرگئی تھیں۔ ان حالات میں علمائے حق نے فتویٰ جاری کیا کہ ہندوستان جو دار الاسلام تھا، اسلام دشمن قوتوں کے تسلط کی وجہ سے دار الحرب کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس لئے اہلِ اسلام کا فرض ہے کہ وہ کفر کی قوت کو ختم کرنے اور اسے دار الامن بنانے کے لئے عَلمِ جہاد بلند کریں۔ اس فتویٰ پر دستخط کرنے والوں میں حضرت شاہ احمد سعید رحمة اللہ علیہ کا اسمِ گرامی سر فہرست تھا۔ حالانکہ آپ فتوے نہیں دیتے تھے، مگر اس فتویٰ پر دستخط نے انگریزوں کو آپ کا دشمن بنادیا۔ باوجود اس کے آپ آزادی کے ان خونچکاں ہنگاموں میں دہلی ہی میں اقامت پذیر رہے۔ لیکن جب 1857ع کی جنگِ آزادی ناکام ہوگئی تو اس جنگ کے قائدین کے لئے دارورسن اور تباہی و بربادی کی مصیبتیں عام ہوگئیں۔ ایک روز آپ کو اطلاع ملی کہ آج آدھی رات کے بعد انگریزی فوج خانقاہ کا محاصرہ کرکے آپ کو اور آپ کے لواحقین اور مریدین کو گرفتار کرے گی۔ کیونکہ حکام کی تیار کردہ فہرست میں آپ کا اسمِ گرامی خطرناک باغیوں میں شامل تھا۔ اس ہنگامۂ داروگیر میں آپ نے پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حجاز مقدس کی نیت کرلی اور بعد نماز عشاء اہل و عیال اور فقراء و لواحقین کو لے کر آپ خانقاہ شریف سے صفدر جنگ یعنی مقبرۂ منصور روانہ ہوئے۔ منصور کے مقبرہ میں دو چار دن توقف فرماکر آپ نے مہرولی کا قصد فرمایا اور وہاں کے آستانۂ قطب الاقطاب میں قیام فرمایا۔ وہاں طاعون کے اثرات کی وجہ سے واپس صفدر جنگ تشریف لائے۔ اس دوران آپ کو ایک صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ امة الفاطمہ کی روحِ پاک بارگاہِ اقدس کو پرواز کرگئی، جن کی تدفین سید السادات جناب حضرت خواجہ نور محمد بدایونی رحمة اللہ علیہ کے مزار شریف کے جوار میں جانبِ مشرق ہوئی۔ حضرت خواجہ محمد مظہر علیہ الرحمة مناقبِ احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ دورانِ سفر جب سے ہم لوگ والد ماجد کے ہمراہ خانقاہ سے نکلے اور دیارِ محبوب رب العالمین صلّی اللہ علیہ وسلم میں پہنچے، حضرت کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حسبِ دستور اشغال بہ حلقہ و مراقبہ اور اوراد جاری رہتے۔ جس جگہ بھی فروکش ہوتے اذان و اقامت اور جماعت کے ساتھ نماز ادا فرماتے۔ ذکرِ سعیدین میں آپ کی ایک کرامت تحریر ہے کہ صفدر جنگ میں قیام کے دوران ایک انگریز افسر مع چند سواروں کے آیا اور آپ سے کہا کہ میں تم کو اپنے ساتھ لے جاکر پھانسی دوں گا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں۔ پھر آپ نے خادم سے فرمایا کہ ”سواری لاؤ اور اس میں وظیفہ کی کتاب اور اشیائے ضروری رکھو“۔ چنانچہ جب سواری آئی اور آپ سوار ہوئے، آپ کے برادر زادے اور تینوں صاحبزادے اور مؤلف ذکرِ سعیدین اور مریدین سواری کے چاروں طرف کھڑے تھے۔ انگریز افسر کھڑا اس منظر کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس پر ہیبت طاری ہوگئی اور خوفزدہ ہوکر اسی وقت یہ کہتے ہوئے روانہ ہوگیا کہ آپ ٹھہر جائیں۔ چنانچہ آپ سواری سے اتر کر معمولات شریفہ میں مشغول ہوگئے۔ اُدھر انگریز سپاہ آدھی رات کو خانقاہ پہنچی۔ محاصرہ کیا تو معلوم ہوا کہ خانقاہ خالی پڑی ہے، تو واپس جاکر انہوں نے رپورٹ کردی۔ انگریز افسر نے اپنے معتمدِ خاص میجر خان بہادر نورنگ خان گنڈہ پور کو حکم دیا کہ وہ اپنے ساتھ افعانی دستہ لیکر شاہ صاحب کا تعاقب کرے اور جہاں بھی ملیں انہیں ساتھیوں سمیت گرفتار کر لائے۔ چنانچہ وہ آپ کی تلاش میں روانہ ہوا۔ ادھر آپ صفدر جنگ سے مہرولی آئے۔ میجر نورنگ خان اپنے دستے کے ساتھ آپ کی تلاش میں عین اس وقت پہنچ گیا جب آپ مع مریدین مراقبے میں تھے، اور مراقبے میں اتنے محو تھے کہ انہیں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز بھی اپنی طرف متوجہ نہ کرسکی۔ میجر نورنگ خان اور دستے کے تمام سپاہی مسلمان اور اہل اللہ سے عقیدت رکھنے والے تھے، اس لئے وہ دور کھڑے ہوگئے۔ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اشغال اور ذکر اللہ میں مشغول ہستی کو کچھ کہیں۔ میجر نورنگ خان بھی پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگیا اور حیرت سے یہ منظر دیکھنے لگا۔ اچانک اس نے ایک سپاہی سے پوچھا کہ یہ شاہ صاحب کون ہیں؟ سپاہی نے جواب دیا کہ یہ دہلی والے بزرگ حضرت شاہ احمد سعید ہیں جو حضرت حاجی دوست محمد صاحب کے مرشد ہیں۔ یہ سننا تھا کہ میجر نورنگ خان کی حالت متغیر ہوگئی۔ اتنے میں حضرت والاتبار بھی مراقبے سے فارغ ہوئے تو پہلی پُرفیض نظر میجر نورنگ خان پر پڑی تو اس پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور عالمِ وجد میں وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا اور پھر روتے ہوئے اپنی دستار اس نے حضرت کے قدموں میں ڈال دی۔ سپاہی اپنے کمانڈر کی یہ حالت دیکھ کر متحیر رہ گئے، ان کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ میجر نے بارگاہ ولایت میں مؤدبانہ عرض کیا کہ حضرت آپ اس بے سر و سامانی کی حالت میں کہاں کا ارادہ رکھتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا ”ہم براستہ لاہور موسیٰ زئی حاجی دوست محمد کے پاس جائیں گے اور وہاں سے حجازِ مقدس“۔ اس نے عرض کیا کہ حضرت راستہ خاصا طویل اور پُرخطر ہے، میں واپس جاکر انگریزوں کو اعتماد میں لیکر آپ کے لئے فوجی دستہ ساتھ بھیجنے کے احکام لے کر واپس آتا ہوں، اور حضور میری یہ بھی کوشش ہوگی کہ آپ کے سفر کے تمام اخراجات و انتظامات سرکاری مد سے ہوں۔ میجر صاحب آپ کو مہرولی سے صفدر جنگ بحفاظت لائے اور خود انگریز فوج کے بڑے افسر کے پاس پہنچے۔ میجر نورنگ خان کو انگریزی حکومت میں بڑا اثر و رسوخ تھا۔ وہ حکومت کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ حضرت قبلہ شاہ صاحب ایک خدا رسیدہ بزرگ ہیں، وہ اپنے دینی جذبے کے تحت دیارِ مقدس کی طرف محوِ سفر ہیں، ان کی نقل و حرکت حکومت کے لئے کسی خطرے کا موجب نہیں۔ نیز روحانی لحاظ سے وہ اتنے بلند قامت ہیں کہ اس ملک کے لاکھوں مسلمان انہیں اپنا مربی پیشوا اور مرشد تسلیم کرتے ہیں۔ اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ ان کے ساتھ ادب و احترام کا سلوک روا رکھا جائے۔ یہ بات حکومتِ وقت کے حق میں مفید ہوگی۔ انگریز حکمرانوں کو میجر نورنگ خان کی یہ بات سمجھ آگئی اور وہ تین روز بعد سرکاری اجازت نامے اور حفاظتی دستے کے ساتھ حضرت والاتبار کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تین روز کی خدمت کے بعد میجر صاحب آپ کے قافلے کو لیکر روانہ ہوئے اور آپ کو لاہور جانے والے راستے پر روانہ کرکے آپ سے واپسی کی اجازت لی۔ جب آپ کا یہ مبارک قافلہ لاہور پہنچا تو آپ نے اپنے محبوب خلیفہ حضرت حاجی دوست محمد صاحب کو اپنی آمد کی اطلاع دی۔ حضرت حاجی صاحب نے فورًا منتظمین کی جماعت پیر و مرشد کے استقبال کے لئے لاہور روانہ فرمائی اور خود حضرت حاجی صاحب اپنے خلفاء و علماء کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان میں فروکش ہوگئے۔ نورانی قافلہ لاہور سے روانہ ہوا اور ڈیرہ اسماعیل خان سے تین منزل پر حضرت حاجی صاحب نے حضرت پیر و مرشد کا شاندار استقبال فرمایا اور قافلے کو لے کر اپنی خانقاہ موسیٰ زئی تشریف فرما ہوئے۔ حضرت حاجی صاحب نے بڑی نیازمندی سے ایک خطیر رقم اور خانقاہ کی پوری عمارت مع ساز و سامان کے بطورِ نذر اپنے مرشد گرامی کی نظر کی اور عرض کیا کہ حضور اب آپ یہاں مستقل سکونت اختیار فرمائیں تاکہ ہم آپ کی خدمت کرکے اپنی دنیوی و اخروی فلاح کو یقینی بنالیں۔ جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا ”فقیر کو آپ کا نذرانہ منظور ہے، رقم تو محض آپ کی دلجوئی کے لئے بطورِ ہدیہ منظور کرتا ہوں، مگر یہ خانقاہ اور دہلی کی خانقاہ آپ کو ہبّہ کرتا ہوں۔ یہ دونوں خانقاہیں میری ہیں اور آپ ان کے متولی ہیں۔ دہلی کی خانقاہ کی طرف خصوصی توجہ دینا کہ وہ میری زندگی کا ثمرہ ہے۔ آپ خود وہاں جاکر رہو یا اپنے کسی خلیفہ کو بھیج دو“۔ آپ نے موسیٰ زئی میں ایک دستاویز ہندوستان اور افعانستان کے مخلصین کے نام فارسی میں تحریر فرمائی۔ اس تحریر میں بعد حمد و صلواة کے لکھا ہے کہ مدت سے حرمین شریفین جانے کی خواہش دل میں تھی، اب اللہ تعالیٰ کا ارادہ شاملِ حال ہوا اور میں مع اہل و عیال وہاں جارہا ہوں۔ اللہ خیر سے پہنچائے۔ میں اپنے تمام مریدوں سے جو کہ ہندوستان اور افعانستان میں رہتے ہیں، یہ بات کہتا ہوں کہ وہ میرے خلیفہ، مقبول بارگاہ احد حاجی دوست محمد کو میرا قائم مقام سمجھیں اور ان سے توجہات لیں۔ وہ علی الاطلاق میرے خلیفہ ہیں۔ ان کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔ وہ شخص خوش نصیب ہے جو ان کی پیروی کرے، وہ جس کام کو کہیں اس کو کرے، اور ان کی مخالفت نہ کی جائے۔ میں دلی میں خانقاہ شریف و تسبیح خانہ اور دیگر مکانات حاجی صاحب کے حوالے کرتا ہوں۔ ان کو اختیار ہے کہ وہ خود جاکر وہاں قیام کریں یا اپنے کسی خلیفہ کو وہاں رکھیں۔ مندرجہ بالا تحریر آپ نے حضرت حاجی صاحب کے حوالے فرمائی۔ حضرت حاجی صاحب نے اپنے پاک باطن خلیفہ حضرت مولوی رحیم بخش پنجابی کو اپنے مرشد پاک کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ میں ان کو دلی کی خانقاہ شریف کی خدمت کے لئے مناسب سمجھتا ہوں۔ آپ نے بھی حاجی صاحب کی پسند کو سراہا اور حضرت مولوی رحیم بخش صاحب اسی وقت دلی کو روانہ ہوگئے۔ حضرت شاہ صاحب اٹھارہ 18 دن موسیٰ زئی شریف میں رونق افروز رہے۔ یہ دن اہلِ علاقہ کے لئے مسرت و شادمانی و کامیابی و کامرانی اور مسرت و انبساط کا پیغام لے کر آئے۔ خوش نصیب اور اہل دل و تشنگانِ معرفت نے پروانہ وار موسیٰ زئی شریف کی طرف رجوع کیا۔ آنے والوں کی ضیافت و خدمت کے لئے روزانہ دو بیل اور بیسیوں دُنبے ذبح کئے جاتے تھے۔ بالآخر ڈیرہ اسماعیل خان سے یہ مبارک قافلہ بذریعہ کشتی بمبئی پہنچا اور وہاں سے بادبانی جہاز میں شعبان کے مہینے میں جدّہ روانہ ہوا اور شوال المعظم کے آخر میں جدہ پہنچا۔ 1274ھ میں آپ نے حج فرمایا اور تین مہینے آپ مکہ مکرمہ میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران آپ کی زبانِ فیض ترجمان پر اکثر یہ اشعار ہوتے ز مہجوری بر آمد جانِ عالم ترحم یا نبی اللہ ترحم نہ آخر رحمة اللعالمینی ز مہجوراں چرا فارغ نشینی ماہِ ربیع الاول 1275ھ میں آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور آخر وقت تک پھر آپ کا قیام اس سرزمین پاک پر ہی رہا۔ اس سفرِ ہجرت میں آپ کا پورا خاندان آپ کے ساتھ تھا، جن میں سے آپ کے ایک لختِ جگر حضرت شاہ محمد عمر رحمة اللہ علیہ ایک مکتوب میں تحریر کرتے ہیں کہ ”ابتدائے سفر سے انتہائے سفر تک، یعنی پنجاب کی حدود سے مدینہ منورہ تک ہر جگہ کے عمائدین و علماء و شرفاء اور امراء و مشائخین آپ کی طرف رجوع ہوئے۔ بیشمار افراد آپ سے بیعت ہوئے۔ مدینہ منورہ میں ترک اور عرب سینکڑوں کی تعداد میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ عوام و خواص کے لئے آپ کی ذاتِ گرامی مرجع بن گئی تھی۔ آپ کی مقبولیت دیکھ کر لوگ متحیر رہ جاتے تھے“۔ آپ لکھتے ہیں کہ ”اگر آپ کی حیات وفا کرتی اور اس ملک میں کچھ عرصہ تک بقید حیات رہتے تو یقینًا آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی“۔ آپ کا قیام مدینہ منورہ علیٰ صاحبہا الصلواة والسلام میں صرف دو سال رہا اور ان دو سالوں میں جو مقبولیت آپ کو حاصل ہوئی وہ مندرجہ بالا عبارت سے عیاں ہے۔ دو (2) ربیع الاول 1277ھ کو آپ نے مدینہ منورہ میں وصال فرمایا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قریب آرام فرما ہیں۔ سیر الکاملین میں لکھا ہے کہ مدینہ منورہ کے پاشا (گورنر) اور کسرا تجہیز و تکفین کے لئے آئے۔ آپ کے جنازہ پر لوگوں کا اتنا بڑا اجتماع ہوا کہ اہلِ مدینہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے اتنی خلقت کسی کے جنازہ پر نہیں دیکھی۔ آپ کے شاگردوں میں بڑے بڑے نامور علماء ہوئے ہیں۔ حضرت شاہ محمد مظہر علیہ الرحمة نے مناقبِ احمدیہ میں آپ کے اسی خلفاء کے نام لکھے ہیں، اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ کہاں تک آپ کے خلفاء اور اصحابِ اجازت کے نام لکھوں، وہ بہت زیادہ ہیں۔ انساب الطاہرین میں آپ کے صاحبزادے حضرت شاہ محمد عمر علیہ الرحمة نے لکھا ہے کہ سینکڑوں افراد اجازت و خلافت سے مشرف ہوئے اور اپنی اپنی جگہ ہر ایک صاحب ارشاد ہے۔ آپ کے چار صاحبزادے تھے۔ حضرت عبدالرشید، حضرت عبدالحمید، حضرت محمد عمر، حضرت محمد مظہر اور ایک صاحبزادی محترمہ و مکرمہ روشن آراء رحمة اللہ علیہم۔ آپ صاحبِ تصانیف بزرگ تھے۔ آپ کے پانچ رسالے یا کتابیں محفوظ ہیں۔
آپ کے جلیل القدر خلیفہ حاجی دوست محمد قندھاری رحمة اللہ علیہ نے آپ کے ایک سو سینتیس (137) مکاتیب جمع کئے ہیں جو جناب ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صاحب نے تحفۂ زواریہ کے نام سے شائع کئے ہیں۔ ماخذات:
|