پیچھے | شجرہ شریف | آگے |
حضرت خواجہ عثمان دامانیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاز۔ مختار احمد کھوکھر
فہرستتعلیم و تربیت فرید العصر، مظہر فیض رحمان حضرت خواجۂ خواجگان حضرت حاجی محمد عثمان دامانی رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت سنہ ۱۲۴۴ھ سلسلہ کوہ سلمان دیرہ اسماعیل خان کے دامن میں واقع قصبہ لونی میں ہوئی۔ یہ قصبہ افغانوں کے مشہور قبیلہ گنڈہ پور کا شہر ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب چار واسطوں سے قاضی قضاة قندھار قاضی ملا شمس الدین المعرف ملا شمس سے جا ملتا ہے۔ جناب ملا شمس جنگ پانی پت کے مشہور غازی احمد شاہ ابدالی کے دور حکومت میں قاضی القضاة کے منصب جلیلہ پر فائض تھے۔ حضرت عثمان دامانی رحمة اللہ علیہ کا ننھیال نہ صرف دینی و علمی امتیاز کا مالک تھا بلکہ روحانی اور غیر فانی ذوق کا بھی مالک تھا۔ بالآخر یہی ننھیالی رشتہ فیضان بے پایاں کا سبب بھی بنا یعنی آپ کو حضرت حاجی دوست محمد قندھاری رحمة اللہ علیہ تک رسائی اپنے ماموں مولانا نظام الدین صاحب جو حضرت حاجی صاحب کے سرپرست تھے کے ذریعے ہوئی۔ تعلیم و تربیتآپ دو بھائی تھے۔ حضرت مولانا محمد عثمان دامانی اور حضرت مولوی محمد سعید عیلہم الرحمة۔ حضرت عثمان دامانی رحمة اللہ علیہ کی عمر ابھی بمشکل پانچ چھے برس ہوئی کہ آپ کے والد بزرگوار مولانا محمد جان راہی عالم بقا ہوئے۔ جب سر سے سایہ پدری اٹھ گیا تو آپ کی والدہ صاحبہ نے اپنی مکمل توجہ ان دو بچوں کی پرورش کے لئے وقف کردی اور کفالت کا ذمہ آپ کے ماموں صاحبان نے اٹھایا۔ جب حضرت دامانی علیہ الرحمة سن شعور کو پہنچے تو ایک دینی مدرسہ میں آپ کو داخل فرمادیا گیا۔ یہاں آپ نے قرآن حکیم اور مروج ابتدائی دینی علوم صرف نحو، اصول فقہ اور تفسیر کی کتابیں پڑھیں۔ جب کہ آپ کے چھوٹے بھائی محمد سعید اپنے ماموں جو قوم استرانہ میں قاضی و مفتی تھے کے زیر سایہ حصول علم میں مشغول تھے۔ حاضری مرشدحسن اتفاق سے ایک بار حضرت دامانی علیہ الرحمة اپنے چھوٹے بھائی کو پہننے کے کپڑے دینے کی غرض سے کھوئے بہارہ جہاں آپ کے ماموں مدرس تھے، تشریف لے گئے۔ واپسی میں ماموں صاحب نے کہا کہ چودھواں کا قصبہ تمہارے راستے میں پڑتا ہے، یہاں میرے پیر و مرشد حضرت حاجی دوست محمد قندھاری رحمة اللہ علیہ قیام پذیر ہیں، تم ان کی خدمت میں میرے نیاز مندانہ تسلیمات عرض کرنا اور یہ بھی عرض کرنا کہ آنجناب قبلہ کے درویش جس کام کی غرض سے میرے پاس آئے تھے وہ کل واپس خدمت اقدس میں حاضر ہوجائیں گے۔ چنانچہ واپسی میں حضرت دامانی قصبہ چودھواں میں مقیم حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں ایک راہ چلتے مسافر کی طرح حاضر ہوئے اور اپنے ماموں کا پیغام گوش گذار کرکے واپس اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ اگرچہ اس حاضری کا مقصد صرف پیغام رسانی تھی نہ کہ عقیدت و ارادت مندی اور اخلاص و زیارت، مگر یہ مختصر سی حاضری بھی وہ رنگ لائی کہ دنیا دنگ رہ گئی اور آقائے دوجہاں صلّی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی زندہ تفسیر بن گئی کہ ”اہل اللہ کا ہمنشین محروم نہیں رہتا۔“ چنانچہ حضرت دامانی رحمة اللہ علیہ واپس مدرسہ تشریف لاکر حصول علم میں مشغول ہوگئے۔ لیکن نگاہ ولی کامل کی تاثیر رنگ لائی اور آپ کا علم ظاہری سے دل اچاٹ ہوگیا۔ ذوق و شوق الٰہیہ نے آپ کو گھیر لیا اور ہر وقت استغراق کی حالت طاری ہونے لگی کہ کتاب و مطالعہ یکسر ختم ہوگئے۔ اس حالت میں آپ اپنے استاد محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا عرض کردیا اور یہ بھی عرض کردیا کہ اب مجھ سے تحصیل علم نہیں ہوسکتی۔ محبت الٰہیہ کا بہت غلبہ ہے، میں نے مصتمم ارادہ کرلیا ہے کہ کسی اہل اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت سے مشرف ہوجاؤں۔ استاد صاحب نے فرمایا کہ ہدایہ ابھی تھوڑا باقی ہے، کچھ دن توقف کرلیں کہ کتاب ہدایہ ختم ہوجائے تو پھر دونوں اکٹھے چلیں گے اور ایک ساتھ ہی ایک ہی شیخ کے دست حق پرست پر بیعت کریں گے۔ لیکن حضرت دامانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ککہ ہدایہ ختم ہونے میں کچھ دیر ہے اور مجھ میں یارائے صبر نہیں۔ میرا اضطراب حد درجہ بڑھ چکا ہے، ہر وقت استغراق اور محویت طاری رہتی ہے، میں کل بفضلہ تعالیٰ روانہ ہوجاؤں گا۔ اس گفتگو کے بعد سبق اور درس چھوڑ کر دوسرے دن آپ بیعت کے ارادے سے چودھواں کی جانب روانہ ہوئے۔ جب موسیٰ زئی شریف کی نہر کے کنارے پہنچے تو نسبت باطنی کا اتنا شدید غلبہ ہوا کہ سارے جسم میں بسبب حرارت ذکر سخت گرمی پیدا ہوگئی جو ناقابل برداشت تھی۔ جوں ہی نہر پر پہنچے تو کپڑوں سمیت نہر میں کود پڑے اور کافی دیر تک نہر کے پانی میں بیٹھے رہے تاکہ کچھ ٹھنڈا ہوکر چودھواں تک چلنے کے قابل ہوجائیں۔ بالآخر ۸ جمادی الثانی سنہ ۱۲۶۶ھ بوقت عصر حضرت حاجی دوست محمد قندھاری رحمة اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں پہنچے۔ قدمبوسی کے بعد بیعت کی درخواست کی۔ آپ قبلہ نے انکار فرمایا کہ فقیری اختیار کرنا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن پھر حضرت دامانی کے مسلسل اصرار پر بعد نماز مغرب آپ کو بیعت فرمایا۔ بیعت کے وقت آپ پر عجیب و غریب حالت طاری ہوئی کہ زبان بیان سے قاصر ہے۔ بیعت سے پہلے اگرچہ آپ مروجہ علوم سے فارغ ہوچکے تھے مگر پھر بھی بیعت کے بعد حضرت دامانی علیہ الرحمة نے اپنے پیر و مرشد سے علم حدیث میں مشکواة اور صحاح ستہ، علم اخلاق میں احیاء العلوم کامل، علم تصوف میں مکتوبات امام ربانی اور مکتوبات حضرت عروة الوثقیٰ خواجہ معصوم کی تینوں جلدیں اور دیگر تصوف کی مستند اور مروج کتابیں بھی کماحقہ اور اجازت کامل کے ساتھ حضرت حاجی دوست محمد قندھاری رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں۔ کبھی کبھار حضرت حاجی صاحب حضرت دامانی سے فرمایا کرتے ”تمہارے لیے مناسب ہے کہ حسب ضرورت علم منطق بھی پڑھ لو۔“ تو حضرت دامانی عرض کرتے ”بندہ کا دل علم منطق نہیں پڑھنا چاہتا، جیسا کہ مولانا روم مثنوی شریف میں فرماتے ہیں گر باستدلال کار دیں بودے
فخر رازی رازدار دیں بودے جب امام فخر الدین رازی علیہ الرحمة اس قدر معقولی اور منطقی ہونے کے باوجود دین متین کے رازدار نہیں بن سکے تو بندہ کو علم منطق پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس جواب کے کچھ دنوں بعد حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ سفید ریش (حضرت خواجہ خضر علیہ السلام) فقیر کو فرماتے ہیں کہ عثمان جی کو علم منطق پڑھنے پر مجبور نہیں کرو، کیونکہ اس کا مقصود صرف خدائے پاک کا دیدار ہے۔ حضرت حاجی صاحب کے دست حق پرست پر بیعت ہونے کے بعد حضرت دامانی علیہ الرحمة نے تمام امور دنیا سے منہ موڑ لیا اور پوری تندہی کے ساتھ اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کوئی ضروری کام ڈیرہ اسماعیل خان میں کرنا ہوتا تو آپ ہی اس خدمت کے انجام دینے میں سعادت سمجھتے اور بصد خوشی آپ موسیٰ زئی شریف سے روانہ ہوتے اور خدمت سرانجام دیکر شام تک واپس خدمت عالیہ میں حاضر ہوجاتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت حاجی صاحب کی دوائی ختم ہوگئی۔ ظہر کی نماز سے پہلے آپ موسیٰ زئی شریف سے روانہ ہوئے اور مغرب کی نماز ڈیرہ اسماعیل خان سے باہر چھ میل کے فاصلے پر شہر ٹیکن پر پڑھی اور جب ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے تو نماز عشاء کا وقت تھا، اکثر دکانیں بند ہوگئی تھیں۔ ہندو پنساری جس سے آپ ہمیشہ دوائی لیا کرتے تھے وہ بھی دکان بند کررہا تھا۔ مگر جونہی آپ پر نظر پڑی، فورًا آپ کے ہاتھ سے بوتل لیکر جو دوائیاں درکار تھیں آپ کو دوائیاں بناکر دے دیں اور آپ فورًا واپس موسیٰ زئی شریف کی جانب روانہ ہوگئے۔ جب رودلونی جو ڈیرہ سے بیس میل کے فاصلے پر ہے پہنچے تو رودلونی کو پانی سے بھرا پایا جو اتنی تیزی سے بہہ رہا تھا کہ قدم زمین پر لگنے نہ دیتا اور جس میں اونٹ بھی ڈوب جاتے۔ آپ کی طبیعت بڑی غمگین ہوئی کیونکہ آپ کا ہمیشہ کا معمول رہا تھا کہ پہلے آپ اپنے پیر و مرشد کو وضو کرواتے اور پھر دونوں اکٹھے نوافل تہجد ادا فرماتے۔ چنانچہ بے اختیار ہوکر اپنے پیر و مرشد کا رابطہ پکڑا اور پاؤں رودلونی میں توکل علی اللہ کرکے ڈال دیا تو ساری رودلونی میں چلتے رہے اور پانی ٹخنہ سے اوپر تک اور چھوٹی پنڈلی تک پہنچتا رہا، اس سے اوپر پانی نہیں چڑھا۔ یہاں تک کہ رودلونی کے پار پہنچ گئے۔ دوڑتے اور کہیں تیز چلتے ہوئے تین بجے رات کے بفضلہ تعالیٰ خانقاہ شریف پہنچ گئے۔ ابھی تسبیح خانے کے باہر ٹھہرے ہی تھے کہ حضرت حاجی صاحب نے اندر سے آواز دی کہ مولی عثمان جی! کیا آپ ڈیرہ سے آگئے ہیں؟ آپ نے باہر سے عرض کی کہ حضور آگیا ہوں۔ حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نے دروازہ کھولا اور حسب معمول آپ نے اپنے پیر و مرشد کو وضو کروایا اور پھر دونوں نے نماز تہجد اکٹھی ادا کی۔ نماز تہجد سے فارغ ہوکر حضرت حاجی صاحب نے آپ کی طرف منہ پھیر کر فرمایا ”مولوی عثمان جی! کیا سفر خیریت سے گذرا اور جب آپ رودلونی پر پہنچے تو رودلونی بھری بہہ رہی تھی؟ اور آپ نے فقیر کا رابطہ پکڑا اور رودلونی سے پار پہنچ گئے؟“ اور یہ فرماکر حضرت حاجی صاحب جوش میں آگئے اور زبان درافشاں سے فرمانے لگے ”قسم ہے اس خدائے ذوالجلال کی کہ فقیر نے جو تمہارے ساتھ کوشش کی ہے اور توجہات دیئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے طفیل آپ میں اتنی برکت رکھی ہے کہ اگر کوہ سلیمان کو توجہ فرماؤ تو وہ بھی آپ کی توجہ برداشت نہ کرسکے اور اس میں آگ لگ جائے، تم کو ہمارا رابطہ پکڑنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔“ خلافت و اجازتاگرچہ حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ کے خدا شناس خلفاء کی کمی نہ تھی لیکن حضرت حاجی صاحب کا قلبی تعلق اور روحانی اعتماد اور باطنی رسوخ حضرت دامانی علیہ الرحمة سے اس قدر زیادہ تھا کہ علم حدیث و علم تفسیر اور علم اخلاق و علم سیر اور علم تصوف کی مخصوص کتابیں خصوصی تربیت کے ساتھ آپ کو پڑھائیں اور ساتھ ہی ان کی سند اپنی مہر خاص سے مزین فرماکر حضرت دامانی کو دی۔ سلوک اور تصوف کے تمام مقامات تفصیل و تحقیق کے ساتھ خصوصی عنایت سے طے کروائے اور فیوضات و برکات سے مالامال فرمایا اور تمام مشہور اور سلسلہ ہائے طرق عالیہ میں اجازت مطلقہ عنایت فرماکر خلافت کے بلند ترین اعزاز سے مشرف فرمایا۔ اس موقع پر حضرت حاجی صاحب علیہ الرحمة نے جو اجازت نامہ اور اپنی تینوں خانقاہوں (خانقاہ موسیٰ زئی شریف، خانقاہ دہلی شریف اور خانقاہ شریف غنڈاں افغانستان) کا تولیت نامہ اپنی مہر خاص سے مزین فرماکر حضرت دامانی کو عنایت فرمایا، وہ بطور تبرک درج ذیل نقل ہے۔ ”بعد از حمد و صلواة، جملہ خاص و عام مریدین و مسلکین طریقہ شریفہ پر پوشیدہ نہ رہے کہ میرے بھائی جامع کمالات ظاہری و باطنی مولانا محمد عثمان صاحب نے فقیر دوست محمد سے جو لوگوں میں حاجی صاحب کے نام سے مشہور ہیں، طریقہ نقشبندیہ مجددیہ معصومیہ مظہریہ میں بیعت کی۔ پھر فقیر نے ان کے لطیفہ قلب پر بلکہ عالم امر کے پانچوں لطائف پر (لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سر، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفیٰ) علیحدہ علیحدہ توجہ کی تو ان کو بفضلہ تعالیٰ ان لطائف کے انوار و اسرار نے ایسا گھیرا کہ ان کو جذبات قویہ اور حضور و جمعیت اور سرور و استغراق و محویت حاصل ہوئیں اور ببرکات مشائخ و پیران عظام بحمد للہ تعالیٰ فناء فی اللہ اور بقا باللہ جیسا بلند مقام ان کو حاصل ہوا۔ پھر فقیر نے ان کو ولایت ثلاثہ (صغریٰ، کبریٰ، علیا) کے سب دائروں میں توجہ کی تو ان کو بحمدللہ اولیاء، انبیاء اور ملائکہ اعلیٰ کے جملہ روحانی مقامات حاصل ہوئے۔ پھر فقیر نے ان کو کمالات ثلاثہ اور حقائق سبعہ و حب صرفہ اور دائرہ لاتعین و سیف قاطع میں توجہات کیے تو ببرکات مشائخ کرام اور پیران عظام ہر ایک مقام سے ان کو کامل حصہ نصیب ہوا۔ اور ان کو احوال گوناگوں اور تجلیات بوقلموں حاصل ہوئے۔ پھر فقیر نے ان کو دوبارہ، سہ بارہ ہر ہر مقام میں توجہات عالیہ سے نوازا۔ اور ساتھ ہی انہوں نے سفر و حضر میں فقیر کی بے حد خدمات سرانجام دیں اور فقیر کی سترہ (۱۷) سال صحبت ان کو میسر رہی۔ خداوند کریم ان کو جزائے خیر سے نوازے۔ تو فقیر ان کو سلاسل ثانیہ (یعنی آٹھوں طریقوں) طریقۂ نقشبندیہ مجددیہ معصومیہ مظہریہ، طریقۂ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ، شطاریہ، مداریہ، کبرویہ اور قلندریہ (اللہ تعالیٰ ان کے صاحبوں کو رحمتہائے بے شمار مرحمت فرمائے) کی اجازت مطلقہ دیتا ہے۔ پس وہ خلفائے مجددیہ میں ممتاز خلیفے ہیں اور سب طرق صوفیائے کرام میں پیشوائے کامل ہیں۔ جس طریقے پر طالب مولیٰ جل شانہ کو چلانا چاہیں بفضلہ تعالیٰ ان کو مہارت کاملہ حاصل ہے اور وہ میرے بھی خلیفے ہیں۔ فقیر ان کو خلافت دیتا ہے۔ ان کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے اور ان کا مقبول میرا مقبول ہے اور ان کا مردود میرا مردود۔ سو خوش ہوں وہ لوگ جن کو ان کی پیروی کامل حاصل ہو اور جن کو ان سے فیضان صحبت حاصل ہو اور ان کے لئے مبارک صد مبارک ہو۔ اللہ کریم ان کو پرہیزگاروں کا امام بنائے اور ان کو اللہ پاک کا خاص قرب اور حبیب پاک کا نصیب ہو۔ پس ان پر لازم ہے کہ طریقۂ شریفہ نقشبندیہ مجددیہ کے رواج دینے میں کوشش کریں اور طالبان مولیٰ کو توجہات دینے اور نسبت شریفہ ان کے دلوں میں القاء کرنے میں کوشش کریں۔ اللہ کریم ان کے طفیل طالبان حق کے دلوں کو انوار و تجلیات الٰہیہ سے بھردیں۔ فقیر ان کو وصیت کرتا ہے کہ دوام ذکر اور مراقبہ اور خلوت اور انزواء اور لوگوں سے ناامیدی اور خالق پر مدام بھروسہ اور صبر و قناعت، تسلیم و رضا بالقضا اور تفویض و توکل اور اپنے مشائخ کرام کے توسل سے اپنی ہر مشکل کے لیے التجا کرنے کو اپنا شیوہ بنائیں۔ اجازت کی شرط استقامت شریعت غراء اور اتباع سنت بیضا ہے اور ساتھ ہی اپنے مشائخ کرام کی محبت اس کی شرط اولین ہے۔ اے اللہ! تو ان کو عابد اور زاہد بنا اور اپنی ذات کا سچا عاشق بنا اور ان کو اپنے (اللہ پاک) پر کمال توکل عنایت فرما اور ان کی عمر اور ارشاد میں بے حساب برکت عطا فرما اور ان کے جملہ امور میں آپ کی ذات کفیل ہو اور تو ان کا حافظ و مددگار ہو۔ آمین یا رب العالمین۔ اور فقیر نے ان کو اپنے ضمن (ضمنیت بھی مقامات تصوف میں ایک مقام ہے) میں ایسا داخل کیا ہے جیسا کہ میرے پیر و مرشد حضرت شاہ احمد سعید صاحب نے اپنے ضمن میں داخل فرمایا تھا اور ان کو ان کے شیخ شاہ عبداللہ المعروف شاہ غلام علی شاہ نے داخل فرمایا تھا۔ پس قسام ازل نے ان کا مقسوم ہی عجیب مقرر فرمایا ہے۔ ذالک فضل اللہ یعطیہ من یشاء“ وصال مرشد اور سفر حرمین شریفین۲۲ شوال المکرم سنہ ۱۲۸۴ھ کو حضرت حاجی دوست محمد قندھاری رحمة اللہ علیہ اس عالم فانی کو الوداع کہہ کر عالم جاودانی کی جانب روانہ ہوئے تو حضرت خواجہ عثمان دامانی علیہ الرحمة مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے۔ مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہونے کے تین سال بعد ہی آپ کے دل میں حرمین شریفین کی زیارت اور حج مبارک ادا کرنے کا شوق دامنگیر ہوا۔ چنانچہ تقریبًا ۱۲۸۸ھ میں حضرت دامانی چند رفقاء سمیت عازم زیارت حرمین شریفین ہوئے۔ حج بیت اللہ سے فارغ ہوکر جب مدینة الرسول صلّی اللہ علیہ وسلم میں وارد ہوئے تو رابطہ محبت اور غلبہ شوق اس قدر طاری ہوا کہ در و دیوار سے صورت محبوب مشاہدہ ہونے لگی۔ آپ مدینے پاک میں کم و بیش گیارہ روز رہے۔ ادب و احترام کا یہ عالم تھا کہ کھانا پینا یکسر ترک کردیا کہ قضاء حاجت کی ضرورت نہ پڑے، کیونکہ مدینہ پاک کی مبارک سرزمین پر ہر کہیں سرکار دو عالم صلّی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک لگے ہوئے ہیں۔ الغرض جب زیارت بیت اللہ شریف و گنبذ خضراء سے فیضیاب ہوکر واپس اپنے پیر و مرشد کے آستانہ عالیہ خانقاہ احمدیہ سعیدیہ موسیٰ زئی شریف پہنچے تو پیر و مرشد کے مسند رشد و ہدایت پر جلوہ افروز ہوئے اور برصغیر پاک و ہند، افغانستان اور دیگر ممالک کے ہزاروں لوگوں کو داخل سلسلہ فرمایا۔ شریعت کی پابندیسلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی بنیاد ہی شریعت مطہرہ کی کمال پابندی اور سنت نبویہ کی پیروی کامل پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت دامانی علیہ الرحمة نے شریعت پر کمال پابندی اور سنت نبویہ کے کمال اتباع کو اپنا نصب العین اور دستور زندگی ایسا بنایا کہ کردار و گفتار، نشست و برخواست اور خورد و نوش، وضع قطع اور لباس وغیرہ غرض کی زندگی کے ہر شعبہ میں شرعی احکام اور سنت نبویہ کی پابندی اور کامل اتباع کو لازم قرار دیا، یہاں تک کہ بال بھر بھی انحراف کو حرام سمجھتے اور اس سے تجاوز نہ فرماتے۔ انکسار و تواضعانکسار و تواضع کا یہ عالم تھا کہ حضرت والا کے عقیدتمندوں اور خدام کی تعداد ہزاروں سے تجاوز تھی، اس کے باوجود آپ فرمایا کرتے کہ میں بزرگی اور پیری کا دعویٰ ہرگز نہیں کرتا بلکہ میں تو اپنے پیر و مرشد حضرت قبلہ حاجی صاحب کے مزار پر انوار کا جاروب کش اور زائرین و واردین کا خدمت گذار ہوں۔ ایک افغانی سائل کی چرب زبانی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ”دنیا میں ہماری دولتمندی اور غناء مشہور ہے اور یہ برکت میرے پیر و مرشد کی ہے، ورنہ مجھ جیسا مسکین کوئی نہیں۔“ توکل علی اللہباوجودیکہ ظاہری طور پر کوئی ذریعہ بھی دنیا کے حصول کا آپ کے پاس نہ تھا اور نہ کوئی دنیاوی اسباب تھے، مگر زائرین اور واردین کی کفالت اس کے باوجود آپ کے ذمہ تھی۔ خانقاہ شریف میں مستقل قیام پذیر مردوں اور عورتوں کی تعداد لگ بھگ ایک سو بیس تھی۔ ان سب کے جملہ اخراجات آپ کے ذمہ تھے۔ ملفوطات شریفذیل میں مجموعہ فوائد عثمانیہ مرتبہ حضرت اکبر علی شاہ دہلوی علیہ الرحمة سے چند ایک ملفوظات مبارک ہدیہ ناظرین کیے جاتے ہیں۔ ۱۔ ارشاد فرمایا کہ فقیروں کے وہ کمالات جو بزرگوں نے کتابوں میں لکھے ہیں، اس زمانہ میں وہ نایاب ہیں۔ ہر شخص اپنے حوصلہ اور ہمت کے مطابق کوشاں ہے۔ یہ بھی غنیمت ہے مگر اب جن نام نہاد پیروں نے پیری مریدی کی دکان سجا رکھی ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسے پیروں سے بچائے۔ ۲۔ فرمایا کہ ارباب تصوف کا ارشاد ہے کہ جو دس روز شیخ کی صحبت میں رہتا ہے واردین میں سے ہے اور جو شخص صحبت شیخ میں ایک ماہ رہتا ہے، وہ زائرین میں سے ہے اور جو شخص اپنے آپ کو اپنے شیخ کے حوالے کرتا ہے (ایسا جیسا کہ المیت فی ید الغسال، جس طرح مردہ نہلانے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے) اور سپرد کرتا ہے وہ شخص مریدین میں سے ہے۔ ۳۔ خوشحالی اور فکر و فاقہ ہر حال میں اللہ اللہ کا ورد کرو۔ وہ آدمی ابن الوقت ہے جو خوشی اور فرصت کی حالت میں تو اللہ کو یاد کرتا ہے اور دیگر اوقات میں نہیں۔ ہر عبادت کے لئے وقت مقرر ہے لیکن ذکر کے لئے وقت مقرر نہیں، ہر وقت ذکر کا وقت ہے، ذکر ہمیشہ کرنا چاہئے۔ ۴۔ نماز کی سب سے بڑی تاثیر یہ ہے کہ اس کے ادا کرنے سے عبادت و بندگی کے ساتھ محبت و رغبت زیادہ ہوتی ہے اور عبادت کے فوت ہونے اور گناہوں کے صدور و ارتکاب سے رنج و غم حاصل ہوتا ہے۔ ۵۔ جس وقت بندہ اپنے صفات و اعمال کو اپنے آپ سے نفی اور سلب سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیتا ہے اس کے بعد وہ جو نیکی بھی کرتا ہے تو اس کے دل میں کوئی خیال نہیں گذرتا، جیسا کہ ایک غلام اپنے آقا کی رضامندی سے کوئی مال تقسیم کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ خیال نہیں گذرتا کہ میں اس شے کو اپنی طرف سے تقسیم کررہا ہوں، بلکہ وہ اسے اپنے آقا کی طرف سے سمجھتا ہے۔ ۶۔ خانقاہ شریف ذکر کا مقام ہے، ناکہ مطالعہ کتب کی جگہ۔ مطالعہ کتب گھر پر کرنا چاہئے۔ اگر کتاب کا تعلق اس معاملہ ذکر کے ساتھ ہو تو پھر اسے مطالعہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ذکر بہت کریں یہاں تک کہ اس کی عادت پڑجائے۔ علالت و وصالحضرت دامانی علیہ الرحمة کئی امراض کے دائمی مریض تھے۔ آپ ان امراض کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ یہ بیماریاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوازم ہیں جو فقیر پر مسلط کی گئی ہیں۔ اکثر فرمایا کرتے ”اب تو میرا جی چاہتا ہے کہ خلوت گذینی اور گوشہ نشینی اختیار کروں کیونکہ عمر اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔ لیکن میں کیا کروں؟ لوگ فیض باطنی کے استفادہ کے لئے دور دراز سے چل کر اور راستے کی تکالیف کو جھیل کر آتے ہیں۔ مجھے مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ ان سے روگردانی کروں۔ کبھی کبھار فرماتے میری مثال ایسی ہے گویا قبر کے کنارے پاؤں لٹکائے بیٹھا ہوں۔ وصال سے ایک سال پہلے جو احباب و مریدین زیارت و ملاقات کے لئے حاضر ہوتے تو ان سے اکثر فرماتے ”فقیر کی اس ملاقات کو آخری ملاقات سمجھو، کیونکہ حیات مستعار پر کوئی اعتبار نہیں۔ آپ صاحبان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اوقات کو ذکر و فکر، اطاعت و عبادت میں صرف کرو۔ کیونکہ یہی چیز ظاہری اور باطنی برکات کا پیش خیمہ ہے۔ ہر روز صبح کے وقت نماز ادا کرنے کے لئے مسجد تشریف لے جاتے تو ضعف اور نقاہت کی وجہ سے اس مختصر راستے میں اس قدر تھک جاتے کہ تین بار سستانے کو بیٹھ جاتے۔ لیکن صبح کی نماز مسنون طویل قرات کے ساتھ کھڑے ہوکر ادا فرماتے۔ ختم شریف اور حلقہ شریف بھی (دوران بیماری) معمول کے مطابق انجام دیتے۔ دوران بیماری یونانی اور ڈاکٹری علاج کروائے گئے لیکن افاقہ نہ ہوا۔ وفات سے قبل ایک مجمع جو حضرت قبلہ کی عیادت و مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوا تھا، سے فرمایا۔ ”میں ان تمام لوگوں کے حق میں جو اس طریقہ عالیہ نقشبندیہ سے منسلک ہیں یا اس فقیر سے تعلق رکھتے ہیں خواہ وہ اس وقت یہاں موجود ہیں یا بیماری پرسی اور عیادت کرکے واپس چلے گئے ہیں یا بیماری و علالت سے خبردار نہ ہونے کی وجہ سے یہاں نہیں آسکے ہیں، دعائے خیر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس دربار کے فیوض و برکات سے محروم نہ فرمائے اور انہیں ہر دوجہاں کے مرادات سے حظ وافر عطا فرمائے۔ آمین۔ یہ ملاقات فقیر کی آخری ملاقات ہے، خدا پر توکل رکھیں۔“ وصال سے ایک رات پہلے اپنے فرزند ارشد و اسعد سراج الاولیاء حضرت خواجہ سراج الدین رحمة اللہ علیہ اور اپنے برادر عزیز حضرت خواجہ محمد سعید صاحب علیہ الرحمة اور اپنے خلیفہ حضرت مولانا مولوی شیرازی علیہ الرحمة کو بعد از وفات غسل دینے کی اجازت فرمائی۔ ۲۲ شعبان سنہ ۱۳۱۴ھ کو منگل کے روز بوقت اشراق حضرت قبلہ عثمان دامانی رحمة اللہ علیہ اس عالم ناپائیدار سے تعلق توڑ کر خالق حقیقی کی جانب عازم سفر ہوئے۔ وصال کے وقت کثرت تہلیل (لا الٰہ الا اللہ) سے تمام وجود جنبش کررہا تھا۔ اور آخری سانسوں میں کلمہ طیبہ ورد زبان تھا۔ بوقت جنازہ لوگوں کا بے پناہ ہجوم جمع ہوچکا تھا۔ یہاں تک کہ خانقاہ شریف کے باہر صفیں ہی صفیں تھیں۔ نماز جنازہ حضرت دامانی کے فرزند صالح و رشید حضرت قبلہ خواجہ محمد سراج الدین رحمة اللہ علیہ نے پڑھائی۔ ظہر کی نماز کے بعد حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی رحمة اللہ علیہ کے وجود مبارک کو حضرت قبلہ حاجی دوست محمد قندھاری رحمة اللہ علیہ کے مبارک قدموں کے عین سامنے سپرد خاک کیا گیا۔ حضرت قبلہ دامانی کے خادم جناب حقداد خان ترین جو آپ کے انتقال پرملال کے موقع پر موجود نہ تھے، آپ کے انتقال کی خبر سن کر شدید صدمے سے مندرجہ ذیل ابیات ان کی زبان پر جاری ہوئے۔ ترجمہ۔ تیرے ماتم میں ابر فضا روتا ہے، اور سیہ بختی پر شام بلد روتی ہے دن تو دن ہیں مگر رات بھی اندھاری ہے، دل جدا نالہ کناں آنکھ جدا روتی ہے ہائے افسوس نہ دیکھا رخ انور ہم نے، جس کی فرقت پر اک خلق خدا روتی ہے مدت العمر اگر روؤں ہے لائق میرے، جس کو مارے ہے فلک وہ آنکھ ابدا روتی ہے
|