پیچھے شجرہ شریف آگے

حضرت خواجہ محمد لعل شاہ ہمدانی

رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

از۔ مختار احمد کھوکھر

 

    یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہر دور میں بزرگان دین و اولیاء عظام نے دین متین کی ترویج و اشاعت میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا۔ بالخصوص برصغیر پاک و ہند تو ان بزرگان کا مرہون منت ہے کہ آج ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور یہ نورانیت و حقانیت کی نعمت ہمیں ان مقدس ہستیوں کے وسیلہ سے ہی ملی ہے۔ ان ہی ہستیوں کی بے لوث اور پرخلوص کوشش کی بدولت لوگوں کے قلوب و اذہان منور و معمور ہوئے۔ ان بلند ہمت اور صاحب کردار افراد نے بندگان خدا کے افکار کی تطہیر، کردار و اخلاق کی تعمیر اور معاشرے کی اصلاح کا نہایت کٹھن فریضہ پوری حکمت و بصیرت سے انجام دیا۔ کیونکہ یہی افراد انبیاء کرام علیہم السلام کے حقیقی وارث و جانشین ہوتے ہیں اور بارگاہ ایزدی میں قرب کے اس اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا منصب بھی اس کا تصور نہیں کرسکتا۔ ایسے ہی اللہ کے ایک مقرب بندے اور رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق حضرت سید بلال نے اپنے وطن ہمدان سے مخلوق خدا کی خدمت و بھلائی اور تبلیغ دین کے پیش نظر ہجرت فرمائی اور برصغیر میں خطۂ پنجاب کے علاقے دندہ میں رونق افروز ہوئے اور تشنگان معرفت الٰہیہ اپنی پیاس بجھانے جوق در جوق آپ کے گرد جمع ہونے لگے۔ یوں دندہ کا غیر معروف علاقہ بھی اہل محبت کی نگاہ انتخاب کا مرکز بنا اور آپ کی نسبت شریفہ کی وجہ سے لوگ اسے دندہ شاہ بلال کہتے ہیں۔

    ایسے صاحب تقویٰ مبلغ دین کے گھر میں اللہ رب العزت نے وہ فرزند سعید عطا فرمایا کہ جن کے فیوضات و برکات نے اس علاقے کو قیامت تک کے لئے زندہ جاوید بنادیا۔ صحیح معنوں میں آپ کی تاریخ پیدائش کا سراغ نہیں ملا مگر آپ کی جائے پیدائش ”دندہ“ ہی ہے۔ والدین نے آپ کا نام نامی اسم گرامی ”محمد لعل“ رکھا۔ چونکہ آپ کا حسب و نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملکر حضور سید عالم صلّی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے اور اہل پنجاب سادات گھرانے کو بہت زیادہ عزت و تکریم دیتے ہیں، اس لیے آپ لعل شاہ کے نام سے معروف ہوگئے۔

    ابتدائی تعلیم دندہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم و تربیت کے لیے حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ اہل دل عالم باعمل حضرت احمد دین انگوی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچے اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور تمام معقولات و منقولات اپنے استاد گرامی سے حاصل کئے۔ بعدہ اپنے استاد گرامی کے مدرسے ہی میں مدرس کی حیثیت سے درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے لگے۔ اور اس وقت تک استاد کی خدمت میں رہے جب تک استاد محترم بقید حیات رہے۔ چونکہ استاد محترم خود صاحب دل باتقویٰ عالم دین تھے اور حضرت حاجی دوست محمد قندھاری رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ تھے، جن کی صحبت بابرکت کی وجہ سے آپ میں بھی روحانی اوصاف بدرجہ اتم پیدا ہوگئے اور حصول معرفت الٰہی کا شوق بھی روز افزوں بڑھنے لگا، مگر درس و تدریس نے موقعہ نہ دیا۔ اب استاد محترم کے انتقال پرملال سے ایک خلا پیدا ہوگیا تو آپ نے بھی حضرت خواجہ حاجی دوست محمد رحمة اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں جانے کا قصد فرمایا۔ دامان کی طرف عازم سفر ہوئے۔ جب آپ دامان پہنچے تو موسم گرما کا آغاز ہوچکا تھا اور حضرت حاجی صاحب خود دامان سے خراسان جانے کی تیاریاں فرمارہے تھے۔ اس لیے آپ نے صرف حضرت حاجی صاحب کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی اور حاجی صاحب کے جانے تک وہیں رکے رہے۔ بعدہ آپ واپس اپنے وطن مالوف لوٹ آئے اور درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ جیسے ہی موسم گرما بیتا اور سرما کا آغاز ہوا، حضرت حاجی صاحب نے خراسان سے دامان میں نزول اجلال فرمایا تو آپ بھی فورًا دامان حضرت کی خدمت میں پہنچ گئے اور تقریبًا ایک ماہ آپ کی خدمت عالیہ میں رہ کر طریقۂ عالیہ کے اذکار و افکار میں مشغول رہے۔ اسی طرح دس برس تک آمد و رفت کا یہ سلسلہ جاری رہا اور آپ سلوک طے کرتے رہے۔ جب حضرت خواجہ حاجی دوست محمد صاحب رحمة اللہ علیہ زندگی مستعار کے آخری دنوں میں شدید علیل ہوگئے تو اس وقت حضرت سید لعل شاہ رحمة اللہ علیہ آپ کے پاس ہی تھے۔ جب مرض نے بہت زیادہ شدت اختیار کی تو مرشد مربی نے آپ کو اپنے قریب بلایا اور اپنا دست اقدس آپ کے سینے پر پھیرا۔ دست اقدس پھیرنے کی دیر تھی کہ آپ پر وجدانی کیفیت طاری ہوئی اور اسی وقت بے ہوش ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعد ہوش میں آئے تو رفقاء نے استفسار کیا تو آپ نے جواب دیا کہ بس حضرت قبلہ عالم کے دست مبارک پھیرنے کی برکت سے میرا سینہ ہر قسم کی کدورت و آلائش اور تمام خطرات و وساوس سے پاک ہوگیا ہے۔ اور میرا دل اب صاف شفاف شیشے کی طرح ہے۔

    چند دنوں میں ہی حضرت قبلہ حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ کا وصال ہوگیا تو حضرت حاجی صاحب کے متعین کردہ خلیفۂ اعظم حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی رحمة اللہ علیہ کی طرف مریدین و سالکین اور پیر بھائی متوجہ ہوئے اور تجدید بیعت کی۔ حضرت خواجہ لعل شاہ رحمة اللہ علیہ نے بھی تجدید بیعت کی اور آپ سے اپنا روحانی رابطہ استوار کیا۔ اور برسوں حضرت دامانی کی خدمت عالیہ میں آنے جانے کا سلسلہ رکھا۔ جو اسباق باطنیہ رہ گئے تھے آپ کی توجہ عالیہ سے طے کئے حتیٰ کہ آپ نے سلوک مکمل کیا۔ باطنی انوار کے مشاہدے کے استعداد سے بہرہ ور ہوکر ارفع و اعلیٰ منازل تک رسائی حاصل کی۔ مرشد مربی نے آپ کے افرع و اعلیٰ مقام کو دیکھ کر اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور یوں آپ مسند ارشاد پر متمکن ہوکر خلق خدا کی خدمت میں مشغول ہوگئے۔

    آپ بڑے عالم فاضل، صالح، متقی اور دائم الذکر و فکر صفات سے متصف تھے اور حلم و خلق اور سخاوت و توکل جیسی خوبیاں آپ کی فطرت کا حصہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کشف و کرامت میں بھی وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ حج بیت اللہ کے موقعے پر آپ کی کشف کی بدولت ہی لوگوں کو حضرت خواجہ مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ کے مقامات کا پتہ چلا تھا۔

    تشنگان علم معرفت کا جمگٹھا ہر وقت آپ کے پاس لگا رہتا۔ خاص کر اعوان قوم کے آپ مرشد مشہور تھے۔ یوں آپ مسلسل تیس برس تک طریقہ عالیہ اور خلق خدا کی بے لوث خدمت و ہدایت کے اہم کام میں مصروف رہے۔ بالآخر قدرت کے اٹل اصولوں کے مطابق آپ کا بھی عالم جاودانی کی طرف سفر کا آغاز ہوا۔ آپ کچھ عرصہ علیل رہے اور ۲۷ شعبان المعظم سنہ ۱۳۱۳ھ کو اس دار فانی سے دار البقا کی طرف عازم سفر ہوئے۔ یعنی جس محبوب کی رضاجوئی کے لیے زندگی تج دی اس سے واصل ہوگئے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔

    آپ کے وصال پرملال سے متلاشیان حق بڑے رنجیدہ خاطر ہوئے۔ بعدہ آپ کو غسل دیا گیا اور نماز جنازہ کے بعد آپ کے پدر بزرگوار کے مزار کے قریب ہی آپ کی آرام گاہ بنی۔ آپ دائمًا دندہ شاہ بلاول میں آسودہ ہیں اور ناآسودگان کے لیے مرجع عام ہیں۔