پیچھے شجرہ شریف آگے

حضرت شیخ المشائخ محبوب الٰہی خواجہ غریب نواز

پیر محمد فضل علی قریشی

رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

از۔ مختار احمد کھوکھر

 

    سن 1270ھ کے ایک روز سعید حضرت مراد علی شاہ کے گھر بہار کا سماں تھا۔ مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ خوشیوں سے چہرے دمک رہے تھے۔ شاہ صاحب نہایت خوش نصیب انسان تھے کہ خداوند قدوس نے انہیں فرزند ارجمند جیسی نعمت سے نوازا تھا۔ فرزند بہت سوں کے ہوتے ہیں، مگر شکرانِ نعمت کی بات یہ تھی کہ یہ لڑکا بہت خوبرو تھا کہ آثار ولایت اس کی پیشانی سے ہویدا تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ بچہ آگے چل کر ایک انقلاب آور شخصیت ثابت ہوگا اور ایک مخلوق اس کے سامنے جبہ سائی کرے گی اور اس کے فیض سے ایک عالم مستفیض ہوگا۔

    یہ سعید بخت بچہ جسے آگے چل کر رہنمائی کا فریضہ انجام دینا تھا، اس کے آباواجداد سرزمین عرب سے تعلق رکھتے تھے۔ حسب و نسب میں عالی نسب قریشی و ہاشمی تھے جو عباسیوں کی یلغار کے ساتھ سندھ اور وہاں سے ضلع میانوالی کی ایک بستی میں آباد ہوگئے۔ داؤد پوتے ہونے کی وجہ سے اس بستی کا نام داؤد خیل مشہور ہوگیا۔

    والد ماجد نے اس خوش نصیب بچے کا نام فضل علی شاہ رکھا۔ فضل علی شاہ جب سن شعور کو پہنچے تو والدین کو ان کی تعلیم و تربیت کی فکر ہوئی۔ چونکہ آپ کا ابتدائی زمانہ کالاباغ میں گذرا اسی لیے والدین نے مروجہ علوم کی تحصیل کے لیے داخل مدرسہ کیا جہاں انہوں نے مولانا قمر الدین صاحب کی زیر نگرانی عربی و فارسی علوم کی تحصیل کی۔ مزید علم کا شوق و جستجو لیے آپ مولانا احمد علی کی درسگاہ میں پہنچے جہاں آپ نے دورۂ حدیث مکمل فرمایا۔ داؤد خیل اور کالاباغ میں آپ کا خاندان قریشی کے لقب سے مشہور ہوگیا۔ لوگ آپ کے والد کو قریشی صاحب کے لقب سے ہی یاد کرتے تھے اس لیے آپ بھی اسی لقب سے مشہور ہوئے۔

    رب تعالیٰ شانہ نے ابتدا ہی سے آپ کے قلب میں محبت کا پاکیزہ جذبہ ودیعت فرمادیا تھا، جس کا ثبوت آپ کے مختصر فارسی، اردو کلام میں ملتا ہے جو نہایت پاکیزہ اشعار پر مشتمل ہے۔

    علوم مروجہ سے فراغت کے بعد فضل علی شاہ فارغ تھے مگر ایک جستجو، تڑپ اور کچھ کر گذرنے کا جذبہ آپ کی روح میں موجزن تھا، اس لیے ایک دن آپ کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ طوطا پالا جائے اور اسے اچھی اچھی باتیں سکھائی جائیں تو فورًا ہی ہاتف غیبی سے ندائے غیبی سنائی دی کہ طوطے کو پڑھانے سے اتنا فائدہ نہیں جنتا کہ مخلوق خدا کو محبت خداوندی کا درس پڑھانے سے ہے، پس قلب جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طوطا ہے اس کو ذکر خدا کی طرف لگاؤ۔ اس آواز کا سننا تھا کہ وہ بے چینی جو آپ اکثر محسوس کرتے تھے فراواں ہوئی اور آپ کے دل میں شیخ کامل کی بیعت کرنے کا جذبہ و جستجو پیدا ہوئی۔ اس وقت چار دانگ عالم میں حضرت خواجہ عثمان دامانی رحمۃ اللہ علیہ کا شہرہ تھا، اس لیے آپ بھی اس بارگاہ ولایت میں جا پہنچے اور بیعت کی درخواست کی۔ مگر مختلف عوارضات کی وجہ سے حضرت دامانی نے سلسلہ بیعت بند کر رکھا تھا۔ جو بھی طالب آتا آپ اسے اپنے خلیفۂ اعظم حضرت لعل شاہ رحمۃ اللہ علیہ یا اپنے فرزند ارجمند خواجہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کا امر فرماتے۔ جب آپ بیعت کے لئے درخواست گذار ہوئے تو اس عارف کامل نے دیکھ لیا کہ اس یکتا و یگانہ نوجوان کا حصہ حضرت لعل شاہ کے پاس ہے تو آپ سے مخاطب ہوکر قیوم العصر نے ارشاد فرمایا: ہم نے سلسلۂ بیعت بند کردیا ہے اور یہ کام اپنے خلیفۂ خاص لعل شاہ اور اپنے فرزند ارجمند سراج الدین کے سپرد کردیا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ کا حصہ فی الحال ہمارے خلیفۂ خاص لعل شاہ کے پاس ہے۔ اس لیے آپ دندہ شاہ بلاول پہنچ کر اکتساب فیض کریں۔ آپ کی تربیت کا ذمہ ان کے سپرد ہے۔ اب باوجود اس کے کہ آپ اس بات کے متمنی تھے کہ حضرت شیخ دامانی کے دست حق پرست پر بیعت ہوں مگر شیخ کامل کی تعمیل ارشاد میں آپ وہاں سے کشاں کشاں دندہ شاہ بلاول آئے اور حضرت سید لعل شاہ بلاولی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ گوہر شناس نے آپ کو خوب ہی پہچانا اور آپ پر خصوصی توجہات فرمائیں، جس سے آپ کا ذوق و شوق خوب فراواں ہوا۔

    آپ نے ابتدا میں کتابت بھی سیکھی تھی اس لیے آپ بہت اچھے خوش نویس تھے اور عمل کتابت کی وجہ سے لوگ آپ کو منشی صاحب بھی کہتے تھے۔ آپ نے ایک مرتبہ شجرۂ نقشنبدیہ مجددیہ نہایت خوشخط بزبان عربی لکھ کر مرشد مربی کی خدمت میں پیش کیا جسے دیکھ کر حضرت شاہ صاحب بہت خوش ہوئے اور زبان فیض ترجمان سے بے اختیار یہ الفاظ ارشاد فرمائے: واہ قریشی واہ قریشی! ان الفاظ مبارکہ کا آپ کی زبان سے نکلنا تھا کہ آپ پر جذبے کی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ بھی بصورت خندہ۔ آپ بے اختیار خندہ زن ہوئے۔ آپ نے اس کیفیت کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر ہنسی تھی کہ رکنے کا نام نہ لیتی تھی۔ آپ مجلس سے اٹھے خانقاہ سے باہر آئے اور قریب ہی ایک گھبیر نام کا نالہ تھا جو کہ اس وقت خشک تھا، اس میں آکر ریت پر لوٹنے لگے۔ ہنسے جاتے اور خود پر ریت اڑاتے۔ اہل محبت بھی کیا عجیب ہوتے ہیں، محبوب کس کس انداز سے انہیں اپنی جلوہ آرائیوں سے محظوظ کرتے ہیں۔ کہیں تو عاشق کو ناچنا پڑتا ہے اور کہیں سولی پر چڑھاکر محبوب خوش ہوتے ہیں اور کسی کو ریت مٹی میں لوٹا کر انداز محبت دیکھتے ہیں اور محبوب اس وقت یہی نظارہ کررہا تھا کہ میرا متوالا اور شیدائی کس طرح میری محبت کے نشے میں سرشار ریت میں لوٹ پوٹ رہا ہے۔ آخر شیخ کامل نے اپنی باطنی توجہ سے جب عاشق کو بے خود خاک اڑاتے دیکھا تو حاضرین مجلس سے دریافت فرمایا کہ قریشی کہاں ہے، اسے ڈھونڈ کر لاؤ۔ حکم سنتے ہی اہل محبت ادھر ادھر دوڑ پڑے۔ کسی نے آپ کو قہقہہ لگاتے اور ریت میں لوٹ پوٹ ہوتے دیکھا تو اپنے رفقاء کو آواز دی کہ قریشی یہاں ہے۔ اس کے بعد آپ کے نزدیک جاکر کہا قریشی صاحب! آپ کو حضرت شاہ صاحب یاد فرماتے ہیں۔ آپ پر تو وجدانی کیفیت طاری تھی، آپ ان کی طرف دیکھ کر قہقہہ لگاتے۔ آخر جب انہوں نے دیکھا کہ قریشی صاحب نہیں چل رہے تو آپ کو اٹھایا اور حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں آ حاضر ہوئے۔ وہاں بھی قریشی صاحب کی ہنسی جاری تھی۔ آخر شیخ کامل نے توجہ فرمائی تو قہقہوں میں بتدریج کمی آتی گئی اور کچھ دیر بعد آپ مکمل پرسکون دکھائی دینے لگے۔

    بیعت کے بعد آپ نے معمولات مشائخ پر عمل شروع کردیا جس سے آپ کو پیران کبار کی خصوصی توجہات حاصل ہوئیں اور آپ کے دل میں شوق زیارت حرمین شریفین فراواں ہوئی اور یہ آتش شوق اس قدر بڑھی کہ آپ نے اپنی جائیداد فروخت کی اور بھائیوں سے صلاح کرکے زمین مستاجری پر دے کر بھائیوں اور اہل خانہ کے ساتھ سفر حجاز کی تیاری فرمائی۔ آپ نے دریائی سفر کو پسند کرتے ہوئے ایک بڑی کشتی خریدی اور اپنے رفقاء کے ساتھ براستہ دریائے سندھ روانہ ہوئے۔ خیال یہی تھا کہ سکھر پہنچ کر کشتی فروخت کرکے بذریعہ ریل کراچی پہنچیں گے اور وہاں سے حجاز مقدس روانہ ہوجائیں گے۔ اس وقت دریائے سندھ شہر جتوئی ضلع مظفرگڑھ کے قریب سے گذرتا تھا۔ کشتی جب شہر جتوئی کے قریب پہنچی تو رات ہونے کو آئی۔ آپ نے رات گذارنے کے لیے دریا کے کنارے قیام فرمایا۔ شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس لیے تھکاوٹ کے باعث سب افراد سوگئے۔ رات کے کسی حصے میں کشتی چور لے اڑے۔ صبح آپ کو پتہ چلا تو آپ وہاں سے شہر جتوئی تشریف لائے۔ وہاں آپ کی ملاقات اپنے پرانے دوست و ہم سبق مولانا غوث بخش خطیب جامع مسجد سے ہوئی۔ حالات سننے کے بعد انہوں نے عرض کیا حضرت موسم سخت گرمی کا ہے اور دریا پورے جوبن پر ہے اور آپ کے ہمراہ خواتین و بچے بھی ہیں، اس لیے کچھ روز یہاں قیام فرمائیں۔ آپ کو یہ مشورہ پسند آیا تو مولوی صاحب نے آپ کی رہائش کے لیے دریا کے قریب جھلار مولوی غوث بخش میں انتظام کردیا۔ اس کے بعد آپ کے رفقاء میں سے کچھ افراد کشتی کی تلاش میں روانہ ہوئے اور سکھر جا پہنچے تو کشتی کے چوروں سے متعلق معلوم ہوا۔ انہیں پکڑا تو پتہ چلا کہ وہ کشتی بیچ کر کھاگئے ہیں، تاہم ان سے کچھ پیسے وصول کئے۔ اب کشتی والا معاملہ تو کھٹائی میں پڑگیا، اس لیے سفر حج ملتوی کرنا پڑا۔ آئندہ بھی آپ کا ہاتھ کبھی کشادہ نہ ہوا۔ اکثر قرض لے کر فقراء کی خدمت کی، اس لیے اتنا سرمایہ نہ ہوسکا کہ حج پر جاسکتے۔ شہر جتوئی میں قیام فرما ہونے سے اللہ نے اپنے محبوب بندے کی خوشبو ہرسو پھیلادی۔ لوگ دور و نزدیک سے دیدار کے لئے آنے لگے۔ آپ نے بھی لوگوں کے دینی فائدے کے پیش نظر اپنے آرام کو تج دیا۔ لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ حضرت ہم دین کی دولت سے محروم ہیں مہربانی فرماکر ہمیں دین سے متعلق سکھایا جائے۔ آپ چونکہ فارغ التحصیل عالم تھے اور صاحب معرفت بھی تھے اس لیے علماء کی ذمہ داریوں سے خوب آگاہ تھے۔ پھر تبلیغ کا ذوق و شوق بدرجہ اتم موجود تھا۔ اس لیے ان مختلف بستیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی گذارش پر مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے اپنے رفقاء سے فرمایا کہ سفر حج تو ملتوی ہوا، اب اللہ نے دین کی خدمت کا موقع دیا ہے تو مختلف افراد مختلف بستیوں میں چلے جائیں اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دیں۔ چنانچہ مختلف افراد مختلف بستیوں میں چلے گئے اور دین کی خدمت انجام دینے لگے۔ اسی اثناء میں معلوم ہوا کہ گورنمنٹ اس شرط پر جنگل دے رہی ہے کہ جب آباد ہوجائے گا تو آدھا تمہارا اور آدھا سرکار کا ہوگا۔ سب بھائیوں نے مل کر مشورہ دیا کہ کیوں نہ یہ اراضی حاصل کرلی جائے۔ چنانچہ باہمی مشورے سے جنگل لیا اور اسے آباد کرنا شروع کردیا۔ آباد ہونے کے بعد حکومت کی طرف سے آپ کو مالکانہ حقوق مل گئے۔ وہیں آپ نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی اور رہائش کے لیے کچھ گھروندے تیار کئے  اور اس بستی کا نام فقیر پور شریف رکھا، جو کہ قصبہ جتوئی ضلع مظفرگڑھ سے تین میل کوٹلہ رحم شاہ سے متصل واقع ہے۔ یہیں سے آپ اپنے مرشد مربی کے پاس دندہ شریف اور حضرت شاہ صاحب کے وصال کے بعد موسیٰ زئی شریف خواجہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔

    آپ کو بیعت ہوئے ابھی کچھ ہی مدت گذری کہ شیخ وقت حضرت خواجہ لعل شاہ ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ سن 1313ھ میں وصال فرماگئے۔ وصال سے قبل شیخ کامل نے مرید صادق کو یاد فرمایا مگر اس وقت آپ موجود نہ تھے۔ غالب گمان یہی ہے کہ شیخ آپ کو خرقۂ خلافت عطا فرمانا چاہتے تھے۔ مگر قدرت خداوندی ابھی مزید آپ کو نکھارنا چاہتی تھی، اس لیے جب آپ فقیر پور سے دندہ شریف پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرشد مربی کا وصال ہوگیا ہے۔ یہ سن کر آپ کی حالت غیر ہوگئی اور مرغ بسمل کی طرح کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ کو کسی پل قرار نہ تھا، گریہ اور آہ و بکا و زاری طاری تھی کہ قیوم وقت حضرت خواجہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ تعزیت کے لیے تشریف لائے۔ قیوم وقت نے گوہر یکتا کو پہچان لیا اور شفقت و مہربانی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا آپ موسیٰ زئی شریف آئیں۔ قیوم وقت کی شفقت و نظر عنایت سے آپ کو قرار آیا۔ کچھ دن دندہ شریف میں گذار کر آپ موسیٰ زئی شریف کی طرف عازم سفر ہوئے اور قیوم وقت کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت ثانی فرمائی۔ قیوم وقت نے آپ پر خصوصی توجہ فرمائی اور دائرہ لاتعین تک تمام سلوک طے کرادیا۔ آپ نے قیوم وقت کی معیت میں خاص وقت گذارا اور اسفار بھی آپ کے ساتھ کئے۔ جس سے آپ مثل کندن کے ہوگئے۔ ایک مرتبہ جب قیوم وقت دہلی میں خانقاہ مظہریہ تشریف لے گئے تو اس سفر میں چونکہ آپ شامل نہیں تھے، دہلی پہنچ کر قیوم وقت نے مرید صادق کو یاد فرمایا اور خط ارسال فرماکر آپ کو دہلی پہنچنے کی ہدایت فرمائی۔ نامہ مبارک ملتے ہی آپ فورًا دہلی کی طرف عازم سفر ہوئے اور دہلی پہنچ کر مرشد مربی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مرشد مربی نے نہایت شفقت فرمائی اور پیران کبار کی خصوصی توجہات اور حضرت خواجہ مرزا مظہر جان جاناں شہید، حضرت شاہ غلام علی دہلوی اور حضرت شاہ ابوسعید رحمۃ اللہ علیہم کے مزارات مقدسہ کے زیر سایہ آپ کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا۔ چونکہ اس وقت خلافت صرف پچاس افراد کو بیعت کرنے تک محدود ہوتی تھی، اس لیے جب یہ تعداد پوری ہوگئی تو آپ کو خلافت مطلقہ عنایت فرمادی۔ دہلی سے واپس آکر سیدھے فقیرپور شریف آئے اور بحکم شیخ سلسلۂ بیعت شروع فرمادیا اور سالکین راہ خدا آپ سے اکتساب فیض کرنے لگے۔

    آپ موجودہ دور کی ناقدری، فقراء کی سستی و غفلت پر عمومًا تنبیہ فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ اب طلب سچی نہ رہی، ورنہ ہم فقیر پور سے دو اڑھائی سو میل کا سفر پیدل کرکے مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے۔

    اہل اللہ ہمیشہ مخلوق خدا کی تکالیف کو پیش نظر رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا کی مخلوق کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ آپ نے بھی فقیر پور شریف کے قیام کے دوران یہ ملاحظہ فرمایا کہ راستے کی تکالیف زیادہ ہیں، لوگ بڑی دقت کے ساتھ پہنچتے ہیں تو آپ نے مخلوق خدا کی سہولت کے پیش نظر اس جگہ کو خیرباد کہا اور دریائے چناب کے قریب دریائے سندھ کی پرانی گذرگاہ کے پاس سکونت پذیر ہوگئے۔ قرض لے کر آپ نے جنگل کی زمین خریدی اور اسے صاف کرکے کاشتکاری و رہائش کے قابل بنایا۔ اس مقام کا نام مبارک مسکین پور شریف تجویز فرمایا۔ یہ مقام شہر سلطان سے تقریبًا چار میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اسی مقام پر آپ اپنے خاندان کے ساتھ آخر وقت تک قیام فرما رہے اور سلسلۂ رشد و ہدایت یہاں آکر بام عروج پر پہنچا۔

    ذریعہ معاش آپ نے کاشتکاری کو اختیار فرمایا۔ اسی سے لنگر کا خرچ نکالتے تھے۔ بظاہر تو یہ کاشتکاری تھی مگر درحقیقت یہ تزکیۂ نفس کا واحد ذریعہ اور تعلیم و تربیت کا مدرسہ تھا، جس میں سالکین کو علو ہمتی سکھائی جاتی تھی اور ریاضت و نفس کشی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ آپ کی اس خانقاہ کو دیکھ کر اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔ آپ مریدین کے ساتھ بہ نفس نفیس خانقاہ کی تعمیر اور لنگر کے کاموں میں شامل رہتے۔ آپ سے اکتساب فیض کرنے والوں میں عجمی و عربی سبھی شامل تھے۔ عرب ممالک میں بھی آپ کے فیض کا سورج چمک رہا تھا۔ جو بھی آپ کی صحبت میں آتا سنت و شریعت کا پابند ہوجاتا۔ آپ کے فیض کے اس بے کراں سمندر کو دیکھ کر زمانے نے آپ کو شیخ العرب والعجم کا لقب دیا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ مولوی و علماء صاحبان کی ایک کثیر تعداد آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوگئی جس کی وجہ سے عمومًا لوگ آپ کو مولویوں کا پیر بھی کہتے تھے۔ جب بھی کوئی عالم یا محدث آپ کے دست حق پرست پر بیعت ہوتا تو آپ انتہائی مسرت کا اظہار فرماتے، کیونکہ ایک عالم دین کی اصلاح سے معاشرے کے بہت بڑے طبقے کی اصلاح ہوتی ہے اور علماء سے آپ کے تبلیغی مشن میں بڑی آسانیاں پیدا ہوگئیں۔

    یہی نہیں بلکہ آپ کی نگاہ کرم نے ایسا رنگ دکھایا کہ علمائے دیوبند بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوکر ذکر الٰہی اور عشق مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کی شراب الست سے معمور ہوئے۔ آپ ان کے متعلق فرماتے تھے ”الحمدللہ بڑے مؤدب اور ذکر اللہ سے فیضیاب ہیں۔ یہ علماء اس قدر مؤدب ہیں کہ فقیر پور شریف جیسی تکلیف دہ زمین پر ننگے پاؤں چلتے ہیں۔“

    ان علماء کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ نہ صرف وہ خانقاہ کی حدود میں ننگے پاؤں چلتے تھے بلکہ مرشد خانہ کی طرف پیٹھ بھی نہ کرتے تھے۔

    آپ کی توجہ عالیہ میں وہ اثر تھا کہ بڑے سے بڑا منکر بھی اس نگاہ ناز کے زیر دام آتا تو ہوش و خرد سے بیگانہ ہوکر محبت خداوندی کے گُن گانے لگتا۔ ابتدا میں آپ کے حلقہ میں شدید جذبہ ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگ آپ کو جذبہ والا پیر کہا کرتے تھے۔ ایک بار آپ لوگوں کو ذکر کی تلقین فرما رہے تھے کہ جس بستی میں آپ رونق افروز تھے اس کا نمبردار جو آپ کا منکر تھا اسے جذبہ ہوگیا اور کچھ دن کے بعد اس کا بھائی آیا اور اس کی بھی یہی حالت ہوئی تو وہ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔ یوں بستی کے سردار کی وجہ سے آپ کی شہرت بہت دور دور تک پھیل گئی۔ آپ عمومًا ارشاد فرمایا کرتے کہ جس کے قلب پر یہ انگلی ایک مرتبہ لگ گئی وہ انشاء اللہ جذبہ یا ذکر الٰہی میں مرے گا۔ یہ نگاہ ناز ایک مرتبہ ایک گنوار کے بچے پر پڑگئی تو اس پر عالم جذب و مستی کی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ اسی عالم میں آٹھ روز تک ”انا الحق“ پکارتا رہا۔ کچھ کھاتا پیتا نہ تھا۔ لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ حضرت بچے کی حالت غیر ہورہی ہے تو آپ نے کچھ پڑھ کر دیا اور توجہ فرمائی تو وہ عالم بے خودی سے عالم ہوش و خرد میں آگیا۔

    آپ کی جماعت میں جذبہ کا یہ اثر تھا کہ آپ کی خانقاہ کی زمین جو کہ ایک بالشت چھوڑ کر نیچے سے ریتیلی تھی اس قسم کی زمین کا اوپر کا حصہ سیاہ نما اور سخت ہوتا ہے جس میں ہل چلانے پر مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے نکلتے ہیں۔ ان ڈھیلوں پر فقراء پر انوارات و تجلیات الٰہیہ کا نزول ہوتا اور وہ عالم بے خودی میں زمین پر لوٹنے لگتے یا رقص کرنے لگتے، جس کی وجہ سے ڈھیلے باریک مٹی بن جاتے۔ آپ عمومًا ہنس کر فرمایا کرتے ”مجھ بوڑھے کو ریڑھنے اور ہل سے ہموار کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اشرف المخلوقات سے اس کو باریک کرادیا۔“

    آپ عمومًا کھیتی باڑی کا کام اپنے ہاتھ سے کرتے۔ ہل چلاتے ہوئے ذکر بھی جاری رہتا اور زائرین آتے تو نگاہ دلنواز سے گھائل ہوجاتے اور فورًا بیعت ہوجاتے تھے۔

    ایک مرتبہ مولوی نذیر احمد، احمد پوری کو جذبہ ہوا تو اسی حالت میں بے اختیار حضرت قریشی رحمۃ اللہ علیہ کے گرد بصورت طواف چکر لگانے لگے اور چکر لگاتے ہوئے مولوی بشیر احمد، احمد پوری سے کہنے لگے کہ ارے بھائی ادھر آ، آج تک تو وہابیت کا مزہ چکھتے رہے اب کچھ چاشنی یہ بھی چکھیں۔ (کسی بھی بزرگ کے گرد اس طرح طواف کرنا شرعًا اور ادبًا جائز نہیں، لیکن مولانا موصوف کا یہ فعل بے خودی کے عالم میں تھا)۔

    اللہ تعالیٰ نے اولیاء کرام میں آپ کو نہایت بلند مقام عطا فرمایا تھا۔ اپنے مرشد مربی حضرت خواجہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کے فیض کے صحیح وارث و جانشین تھے۔ جب آپ کے پیر بھائی آپ کی جماعت کو دیکھتے تو رشک سے کہتے کہ قریشی کی جماعت بہت ہے، قریشی اپنے پیر بھائیوں میں سب سے آگے ہے۔ اسی لئے آپ انکساری سے اکثر فرماتے تھے کہ یہ مرشد خانہ میں فقراء کی جوتیوں کے پاس بیٹھنے کا صدقہ ہے۔ ایک فقیر جو کہ عالم دین بھی تھے نے بتایا کہ درگاہ فقیر پور شریف میں آپ فقراء کے جھرمٹ میں رونق افروز ہیں اور کلام دل پذیر سے ویران قلوب کو آباد فرمارہے ہیں کہ یکدم آپ کا چہرہ متغیر ہوا اور مثل سورج کے خوب چمکنے لگا۔ آنکھیں بالکل سرخ ہوگئیں کہ یکایک آپ کی زبان فیض ترجمان سے یہ الفاظ نکلے کہ ”من رآنی فقد رای الحق“ (جس نے مجھے دیکھا پس اس نے حق کو دیکھا)۔ کچھ دیر بعد طبع مبارک اعتدال پر آئی تو مولوی صاحب سے فرمایا کہ مجھے معذور رکھنا کہ یہ الفاظ بے خودی میں نکلے ہیں۔

    آپ کے صحیح جانشین اور پیارے خلیفہ حضرت خواجہ عبدالغفار المعروف پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ حضرت پیر قریشی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو الہام بکثرت ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو الہام ہوا کہ ”اے قریشی! میرے محبوب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت میں تین اولیاء ہیں جن کو میں نے اپنا محبوب بنایا ہے۔ ان میں سے پہلے محبوب شیخ عبدالقادر ہیں، دوسرے محبوب نظام الدین دہلوی ہیں، تیسرے محبوب اے قریشی تم ہو۔“ اس الہام کی کیفیت آپ نے خواص کو بتائی۔

    آپ مجلس ذکر میں رونق افروز ہیں اور نگاہ ناز سے مئے الست کے جام لنڈھا رہے ہیں کہ اسی اثنا میں ایک مرید آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ حضرت عاجز کی بیوی کو فوت ہوئے کچھ عرصہ گذر گیا ہے، اس دوران نفسانی خواہش نے مجھ پر اس قدر غلبہ کیا کہ میں زنا کے ارادے سے فاحشہ عورتوں کے بازار میں جا پہنچا۔ یکدم کیا دیکھتا ہوں کہ آپ میرے سامنے آگئے ہیں اور فرمایا کہ تجھے خدا سے شرم نہیں آتی؟ کیوں اپنے ایمان کو برباد کرنے چلا ہے۔ میں بہت نادم ہوا اور آپ کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا۔ آپ نے فرمایا فورًا توبہ کر، تجھے معافی مل جائے گی۔ میں صدق دل سے تائب ہوا۔ اس کے فورًا بعد آپ غائب ہوگئے۔ یہ سن کر آپ نے فقیر کو نصیحت فرمائی اور اسے دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انشاء اللہ اب تیری شادی جلدی ہوجائے گی۔

    مجلس معرفت قائم ہے اور تشنگان معرفت الٰہیہ خوب سیرات ہورہے ہیں کہ ایک فقیر نے دست بستہ ہوکر عرض کیا: حضرت عاجز نے رات خواب دیکھا کہ قیامت قائم ہوگئی ہے، مخلوقِ خدا میدان حشر میں عالم تحیر میں سرگرداں ہے، لیکن آپ کے مریدین جذبۂ ذکر میں مست ہیں کہ یکدم اللہ کی طرف سے منادی نے ندا دی کہ قریشی! بارگاہ خداوندی میں حاضری دو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکم ہوا کہ اے قریشی! تم اپنی جماعت لے کر بہشت میں داخل ہوجاؤ اپنے رب کے فضل سے۔ آپ جب مع مریدین جنت کی طرف روانہ ہوئے تو جماعت اہل ذکر میں جذبہ و جوش بڑھ گیا۔ ذکر کے شور و غل سے میدان حشر میں مخلوق حیران ہونے لگی۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء کرام فقراء کے جوش و جذبہ کو ملاحظہ فرماکر باہم گفت و شنید کررہے تھے اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرما رہے تھے کہ حساب کے خوف اور رب ذوالجلال کی جلالت سے ساری مخلوق سرگرداں ہے مگر اس جماعت کے رہنما کا وقار، جاہ و منزلت دیکھو کہ وہ اور اس کی جماعت بے فکر ہوکر اور عشق الٰہی میں مخمور ہوکر جنت کی طرف جا رہے ہیں۔  اور شہداء کرام آپس میں کہہ رہے تھے کہ شاید یہ کوئی پیغمبر ہوئے ہیں یا شہید۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی کہ اے میرے انبیاء اور شہیدو! یہ نہ نبی ہے نہ شہید بلکہ یہ شخص میرے محبوب نبی آخر الزماں صلّی اللہ علیہ وسلم کی امت کا ایک ولی اللہ ہے اور باقی یہ لوگ اس کے مرید ہیں۔ اتنا خواب دیکھ کر میں بیدار ہوگیا اور ایسا محبوب مرشد ملنے پر سجدۂ شکر بجا لایا۔ آپ نے خواب سن کر فرمایا کہ یہ خواب حدیث شریف کے مطابق بالکل سچا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آپس میں محبت رکھتے ہیں اور میل ملاقات اسی محبت کے ساتھ مشروط ہے تو وہ قیامت کے دن موتیوں کے ممبروں پر بیٹھے ہوں گے، ان پر لوگ رشک کریں گے حالانکہ نہ وہ انبیاء ہوں گے نہ شہید۔

    آپ نے اپنی ساری زندگی تبلیغ دین و اشاعت دین میں صرف فرمادی۔ آپ نے متعدد تبلیغی سفر فرمائے۔ کئی مرتبہ موجودہ ہندوستان تشریف لے گئے۔ کچھ اسفار تو اپنے شیخ طریقت حضرت خواجہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کی معیت میں کئے۔ آپ کے وصال کے بعد بھی آپ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں وفود کی شکل میں تشریف لے جاتے رہے۔ ایک سفر میں آپ اپنے خلفاء کرام کے ساتھ پیران کبار رحمہم اللہ اجمعین کے مزارات پر تشریف لے گئے، جن میں سرہند شریف میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پرانوار پر تشریف لے گئے اور بہت دیر تک مراقبے کی کیفیت میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے محو تکلم رہے۔ وہاں سے رخصت ہوکر دہلی میں حضرت خواجہ نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پرانوار پر تشریف لے گئے۔ حضرت خواجہ نور محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا مع جماعت کے ایسا استقبال کیا کہ تمام فقراء چوبیس گھنٹے تک عالم استغراق میں محو رہے۔ جب اس کیفیت میں کچھ افاقہ ہوا تو آپ نے حضرت خواجہ صاحب سے رخصت کی اجازت طلب کی تو حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ ابھی تو میری توجۂ باطنی کی دعوت باقی ہے۔ لہٰذا کچھ دیر اور میرے پاس رہو۔

    وہاں سے رخصت ہوکر آپ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر آئے اور خوب خوب فیوض و برکات حاصل کیے۔ اسی طرح دیگر پیران کبار، اولیاء کرام کے مزارات پر حاضری دیتے رہے۔ آپ نے دوران تبلیغ دیوبند کا سفر بھی فرمایا اور وہاں کے علماء کرام کو سنت و شریعت کی اہمیت کا احساس دلایا۔

    آپ کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ معاملات اور خرد و نوش میں بہت زیادہ احتیاط فرماتے۔ بازار کی کوئی تر چیز استعمال نہ فرماتے اور نہ بازاری گھی کی پکی ہوئی شے استعمال کرتے۔ فضول مباحات سے پرہیز کرتے اور انہی چیزوں سے بچنے کی دوسروں کو بھی تاکید فرماتے۔ آپ کبھی روزمرہ ضروریات کا بھی کسی سے سوال نہ کرتے۔ حتیٰ کہ گھروالوں سے کھانے کا بھی نہ فرماتے۔ کسی سے حاجت ظاہر نہ فرماتے۔ یعنی آپ مکمل طور پر فنا فی الرسول تھے۔ آپ کو دیکھ کر بے ساختہ زبان پر حمد و ثنا جاری ہوجاتی۔

    آپ کی مجلس علم و عرفان کا بحر بیکراں ہوتی۔ قرآن و حدیث کے متعلق وہ نکات اور رموز بیان فرماتے کہ اہل ظاہر علماء کو اس کی ہوا بھی نہ لگتی۔ ہر بات پراز حکمت اور حقائق و معارف سے لبریز ہوتی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جو شخص زہد اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی زبان و دل کو علم و حکمت سے بھردے گا، دنیا کے عیوب و امراض اور اس کے علاج پر مطلع فرمائے گا۔

    آپ کے معمولات میں وہ دعائیں شامل تھیں جو احادیث میں مختلف موقعوں کے لئے آتی ہیں۔ جملہ جماعت خصوخًا خلفاء کرام کو عمل کی تاکید فرماتے۔ نماز پنجگانہ کے علاوہ نوافل کی کثرت اور تہجد کا اہتمام تمام زندگی جاری رہا۔ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کا آپ عملی نمونہ تھے۔

    ایک فقیر نے شیطانی وساوس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا سترہ مرتبہ الم نشرح پوری سورۃ پڑھ کر سینہ پر دم کرکے سوجاؤ، انشاء اللہ فائدہ ہوگا۔

    ایک روز مسکین پور شریف میں کافی فقراء اہل ذکر جمع ہوگئے۔ اب لنگر کے لئے کوئی چیز نہ تھی۔ بس ایک مرغی کو لے کر ذبح کیا گیا۔ آپ کی توجہ سے اس میں خدا نے ایسی برکت پیدا کی کہ وہ ایک مرغی کثیر مہمانوں کے لیے کافی ہوگئی۔

    ایک مرتبہ حضرت پیر قریشی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے گندم صاف کرکے ڈھیر لگایا ہوا تھا جو کہ اندازًا تیرہ یا پندرہ من کے قریب تھی۔ دربار میں اس وقت پچاس ساٹھ فقراء موجود تھے۔ اشراق کے نوافل کے بعد تمام افراد مع حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ کے گندم اٹھانا شروع کردیا۔ حتیٰ کہ ظہر کا وقت ہوگیا۔ بعد نماز ظہر پھر سب گندم اٹھانے میں مصروف ہوگئے، حتیٰ کہ عصر کا وقت اور نماز عصر کے بعد مغرب ہوگئی۔ نماز مغرب کے بعد حضرت قریشی صاحب نے نماز نوافل اوابین شروع فرمائے تو جماعت کے بڑے بڑے فقراء نے گردن اور پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر مولانا عبدالمالک صاحب سے کہا کہ اب تو سب اعضاء درد کرنے لگے ہیں، حضرت سے کچھ عرض کرو۔ بعد نوافل مولانا صاحب نے دست بستہ عرض کیا کہ حضرت جو برکت باہر ظاہر ہورہی ہے کیا وہ لنگر خانہ میں نہیں ہوسکتی کیونکہ فقراء سخت تھک چکے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا ہاں ہوسکتی ہے۔ اتنا ارشاد فرماکر سب چل پڑے اور ایک ہی پھیرے میں گندم ختم ہوگئی، جسے سال بھر فقراء طالبین معتقدین کھاتے رہے۔

    موجودہ زمانے کی بے ذوقی اور کم ہمتی کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ اب سچی طلب نہیں رہی۔ خدا کے عشق میں اس قدر گھائل تھے کہ بہت کم بھوک لگتی تھی۔ عمومًا ایک ایک مہینہ دو یا چار سیر دانوں پر قناعت فرماتے۔ خلافت کے بعد ابتدا میں سخت افلاس و تنگدستی تھی۔ مگر آپ نے کبھی دست سوال دراز نہ فرمایا اور تقویٰ و پرہیزگاری کو پیش نظر رکھا۔ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو کبھی گاجروں کبھی چنوں پر گذارہ کرتے۔

    آپ کے عادات و اخلاق انتہائی کریمانہ تھے۔ کبھی اپنی ذات کے لیے کسی پر غصہ نہیں فرمایا، نہ ڈانٹا نہ جھڑکا۔ اگر کبھی تادیب بھی فرمائی تو دینی سستی و کمزوری پر فرمائی۔

    آپ نے تین شادیاں کیں۔ دو سے آپ کو اولاد بھی ہوئی، تیسری حرم محترم سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ حرم اول سے تین لڑکے اور آٹھ لڑکیاں پیدا ہوئیں اور حرم دوم سے پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ یوں آپ کے آٹھ صاحبزادے اور گیارہ صاحبزادیاں ہوئیں۔ تقریبًا 66 افراد کو خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا تھا، جن میں ہر فرد ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔ ان بزرگان کرام میں آپ کے طریقہ عالیہ کی صحیح اشاعت و ترویج آپ کے خلیفۂ خاص حضرت خواجہ محمد عبدالغفار المعروف پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے جس طرح سر انجام دی کسی اور کے حصہ میں نہ آئی۔

    آپ نے تمام عمر ارشاد و تلقین اور سنت و شریعت اور سلسلۂ عالیہ کی اشاعت و تبلیغ میں گذاری۔ عمر کے آخری زمانے میں ضعف اس قدر غالب آچکا تھا کہ سہارا دے کر اٹھایا جاتا۔ چند قدم چلنے پر آپ کا سانس پھول جاتا تھا۔ باوجود اس کے آپ نے کبھی سستی نہ دکھائی اور تبلیغی دورے آخر تک جاری رکھے۔ آپ عمومًا فرماتے تھے کہ مجھے نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قریشی دین ختم ہوتا جارہا ہے اور تم بیٹھے ہو۔ یہی چیز مجھے بیٹھنے نہیں دیتی۔ کثرت ذکر کے باعث آپ گرمی بہت زیادہ محسوس کرتے تھے، اس لیے ٹھنڈی چیزیں استعمال فرماتے جس وجہ سے ایک ہاتھ میں درد رہنے کے بعد بے حسی پیدا ہوگئی۔ اس کے باوجود آپ نے تبلیغی وفد تیار کیا اور بہ نفس نفیس خود اس وفد کی قیادت فرماکر دہلی کی طرف عازم سفر ہوئے۔ سیدی مرشدی، حضرت خواجہ الحاج اللہ بخش المعروف سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ (طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت قریشی علیہ الرحمۃ سے بیعت تھے اور آپ سے دو لطائف کی تعلیم حاصل کی تھی) فرماتے تھے کہ ہندوستان کے آخری سفر پر جاتے وقت آپ کی صحت کا یہ عالم تھا کہ آپ سے چلا نہ جاتا تھا، خلفاء کرام کے سہارے چل کر سواری میں بیٹھے تھے۔ اتنی تکالیف کی وجہ سے آخری عمر میں چلنا دشوار تھا۔ اس سفر میں درد نے فالج کی صورت اختیار کرلی۔ بیماری کی حالت میں ہی آپ کو مسکین پور شریف لایا گیا۔ جس نے سنا دوڑا آیا۔ فقراء و محبین کی خاصی تعداد دربار پر جمع ہوگئی۔ تقریبًا آدھا مہینہ آپ بیمار رہ کر چوراسی برس کی عمر مبارک میں بروز جمعرات چاند رات ماہ رمضان المبارک سنہ 1354ھ بمطابق 28 نومبر سنہ 1935ع کو واصل بحق ہوئے۔

    آپ کے وصال کی خبر محبین پر بجلی بن کر گری۔ جس نے سنا تڑپ کر رہ گیا۔ ہر ایک پریشان حال و بدحواس نظر آتا تھا۔ فالج کے باعث آپ کوئی وصیت بھی نہ فرماسکے۔ آپ کا جنازہ مبارک تیار کیا گیا اور مسکین پور شریف میں ہی مسجد سے متصل ایک حصہ میں آپ کا مزار پرانوار مرجع خاص و عام ہے۔

    آپ کے تبرکات میں آپ کا اپنا کتابت کیا ہوا نسخہ قرآن مجید نہایت خوشخط اور فقہ کی ایک کتاب جو عربی زبان میں تحریر ہے، لیکن معلوم نہ ہوسکا کہ یہ خود آپ کی تصنیف ہے یا کسی اور کی۔ حرمین شریفین سے محبت و عقیدت کے طور پر عربی رومال اور سر پر باندھنے والا عربوں کا خصوصی اسکارف اور حلقۂ ذکر کی موٹے دانوں والی تسبیح بھی شامل ہے جو آپ کے سجادہ نشین حضرت قبلہ رفیق احمد شاہ صاحب مدظلہ کے پاس موجود ہیں۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے طریقۂ عالیہ کو آپ کے خلیفۂ اجل اور سسر حضرت خواجہ محمد عبدالغفار رحمت پوری رحمۃ اللہ علیہ نے خوب پھیلایا اور پاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں جاکر بھی آپ کے متعلقین خلفاء کرام نے شریعت و طریقت کی تبلیغ کی۔