پیچھے | شجرہ شریف | آگے |
حضرت قطب الاولیاء امام العارفینخواجہ محمد عبدالغفار المعروف پیر مٹھارحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاز۔ مختار احمد کھوکھر
”عزیزا ذکر کے بالمقابل کوئی اور طریقہ نجات کا آج تک نظر نہیں آیا اور دارین کی فلاح اور نجات اس میں مندرج ہے اور راس الرؤس نیکیوں کا اس میں مندرج ہے۔ ذکر کرتے کرتے دیوانہ ہوجاؤ اور ایسے عقل کی کوئی ضرورت نہیں جو ذکر کا مانع اور یاد حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ سے غافل کرے اور ایسے عقل سے توبہ توبہ اور لاکھ بار توبہ۔“ مندرجہ بالا نورانی اور عرفانی کلمات اس ہستی کے تحریر کردہ ہیں جس نے خدا کے دین کے اہم رموز کو سیکھنے، اسوۂ نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونے دیکھنے اور مصلحین امت کی خدمت اقدس میں پہنچ کر اکتساب فیض کرنے اور بندگان خدا کی رشد و ہدایت کے لئے انہیں شریعت مطہرہ کے اتباع اور معرفت خداوندی کا درس دینے میں اپنی پوری زندگی صرف کردی۔ انہوں نے اپنے مقصد کی لگن میں دور دراز علاقوں کے سفر کئے اور زندگی کے سکھ و چین کو تج کر مشکلات و تکالیف برداشت کیں اور مخلوق خدا کی دنیا و عقبیٰ کو سنوارا۔ وہ بزرگ جو شرع متین کے حامی، بدعت و ضلالت کے دشمن اور محبت الٰہی کی چاشنی و حلاوت سے انسانی دلوں کی ویران اور اجڑی ہوئی بستیوں کو رونق بخشنے والے، تاریک قلوب کو منور کرنے والے، مردہ دلوں کو زندہ کرنے والے، عاشق صادق، فنا فی اللہ و بقا باللہ کے اعلیٰ مقام کے حامل، حضرت مولانا یار محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نور نظر لخت جگر خواجۂ خواجگان قیوم زمان حضرت خواجہ محمد عبدالغفار المعروف پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ 1880ع میں جلال پور پیروالہ کے قریبی گاؤں لنگر شریف کے عالم باعمل صاحب تقویٰ بزرگ حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ کے گھرانے میں خوشیوں کا سماں ہے کہ جن کی بشارتیں مختلف صورتوں میں مل رہی تھیں۔ لخت جگر نورِ نظر بن کر تولد ہوا ہے، عجب پیاری اور من موہنی صورت ہے کہ ہر فرد فریفتہ ہورہا ہے اور مبارکبادی کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ حضرت مولانا ہر مبارکبادی پر حمد و ثنا باری تعالیٰ بجا لارہے ہیں۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے چار بھائیوں میں آپ کو منفرد کیا، اس لئے تربیت کی ابتدا بھی اسی نہج پر ہوئی۔ اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ ظاہری ابتدائی تعلیم بھی والد ماجد سے ہی شروع کی۔ کیونکہ آپ کے والد ماجد اور چاروں برادران جید عالم تھے، اس لئے آپ نے اس باغ سے خوب خوشہ چینی کی۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد آپ نے حضرت مولانا امام الدین صاحب اور مولانا محمد اشرف صاحب جو کہ آپ کے بڑے بھائی تھے، سے حاصل کی۔ مولانا محمد اشرف صاحب حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ کے خلیفہ مولانا محمد عاقل رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے، آپ نے مولانا عاقل صاحب سے عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ علوم عربیہ سے فراغت کے بعد حضرت قاری مطیع اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو طویل مدت تک حرم شریف میں قرات کی تعلیم دیتے رہے تھے، سے فن تجوید و قرات کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے کچھ عرصہ ڈیرہ نواب میں مولوی نظام الدین سے بھی پڑھا، مگر وہ تصوف و سلوک کے منکر اور صوفیاء کرام کے گستاخ تھے، اس لئے آپ کے والد ماجد معلوم ہونے پر آپ کو یہ کہہ کر واپس لے گئے کہ ”بدعقیدہ عالم کے یہاں پڑھنےسے بہتر ہے کہ آدمی ان پڑھ ہی رہ جائے“۔ خاصان خدا تو پالنے میں ہی پہچان لیے جاتے ہیں۔ آپ کے مقرب خدا ہونے کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ابھی آپ سن شعور کو نہیں پہنچے تھے اور عمر کے اس حصے میں تھے جس میں بچے گولیاں کھیلتے ہیں۔ مگر آپ کی طبیعت مبارکہ عجیب درویشانہ تھی، کبھی بچوں میں گھل مل کر نہ کھیلتے اور عمومًا الگ تھلگ رہتے تھے۔ ایک مرتبہ بچے گولیاں کھیل رہے تھے اور آپ ان سے جدا کھڑے تھے کہ ایک وڈیرہ آیا۔ اس نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ آپ بہت نیک بزرگوں کی اولاد ہیں، میرے لئے دعا فرمائیے کہ اللہ سائیں مجھے بھی اولاد عطا فرمائے۔ آپ نے یہ سن کر بچوں کی گولیوں میں سے ایک گولی لے کر ان کو دی اور فرمایا کہ اسے دھوکر خود بھی پیو اور اپنی بیوی صاحبہ کو بھی پلاؤ۔ اس نے انتہائی عقیدت سے وہ گولی لی اور آپ کی ہدایت پر عمل کیا۔ خدا کی شان کہ اللہ نے اسے ایک سال کے بعد اولاد نرینہ عطا فرمائی اور حیرت کی بات یہ کہ اس بچے کی جلد کا رنگ بعینہ گولی کے رنگ کی مانند تھا۔ اس وڈیرے نے اس واقعے کا تذکرہ لوگوں سے کیا، پھر کیا تھا لوگ دور دور سے اس مقرب بچے کی زیارت کے لئے آنے لگے اور آپ کا شہرہ بچپن ہی میں دور دور تک پہنچ گیا۔ دوران تعلیم بھی آپ نے کمال صبر و استقامت اور تقویٰ کا اظہار فرمایا۔ کبھی کسی سے سوال نہیں کیا۔ کئی کئی دن فاقے سے گذر جاتے مگر آپ سوال کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ اس طرح ظاہری تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کی باطنی تربیت بھی ہورہی تھی۔ دوران تعلیم ہی جبکہ مشغلہ علم آپ کا اوڑھنا بچھونا بنا ہوا تھا، آپ کو باطنی علوم کا انتہائی شوق ہوا اور یہ شوق بڑھتا ہی چلا گیا۔ آپ اپنے قریبی علاقہ جلال پور پیروالا کے ایک صاحب تقویٰ و مستجاب الدعوات بزرگ حضرت حافظ فتح محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔ کچھ ہی مدت گذری تھی کہ حضرت والا کا وصال پرملال ہوگیا جس کا آپ کو بہت زبردست صدمہ ہوا۔ وہ نگاہ ناز کی عشوہ طرازیاں، وہ صحبت کا سوز و گداز اور لذت و سرور، وہ فیض کی بارانی کی قیمتی گھڑیاں مستور ہوئیں تو عشق الٰہی کی تڑپ بڑھ گئی۔ اس تپش میں مزید اضافہ ہوا اور یہ بعینہ اس دعا کا نتیجہ تھا جو آپ کے شیخ حضرت حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کی تھی۔ جب آپ نے مرشد کے فرمان پر ”معتمد اور ریا“ کا قصہ بزبان سرائیکی قصۂ زلیخا کی طرز پر لکھ کر مرشد کی خدمت میں پیش کیا اور سنایا تو حضرت حافظ صاحب بہت مسرور ہوئے اور بے اختیار ارشاد فرمایا کہ آج عبدالغفار نے ہمیں نہایت خوش کیا ہے۔ اس خوشی میں آپ نے مرید صادق کو تحفتًا چند چیزیں عطا فرمائیں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا برگ سبز کو تحفہ درویش جاننا چاہیئے۔ آپ نے ان رحمت بھری گھڑیوں سے فائدہ اٹھایا اور عرض کیا کہ بندہ کے لئے خاص دعا فرمائیں۔ شیخ نے فرمایا اچھا جا، میں تیرے لئے ایسی دعا مانگوں گا کہ تجھے خود ہی معلوم ہوجائے گا۔ وہ دعا جسے شرف قبولیت حاصل ہوچکا تھا۔ اس کے لئے آپ کو تیار کیا جارہا تھا۔ آپ نے حافظ صاحب کے وصال کے بعد اس تپش شوق کو مزید فراواں کرنے کے لئے مختلف بزرگوں اور گدی نشینوں کی طرف رخ کیا، مگر کوئی بھی آپ کی بے چینی اور بے کلی کا علاج نہ کرسکا۔ کہیں تو رسمی پیری چل رہی تھی اور کہیں وہ مقام و مرتبہ نہ تھا۔ آپ کے گھر والے بھی آپ کی اس حالت زار کے متحمل نہ ہوسکے، پھر بھی ان کی دعائیں آپ کے ساتھ تھیں۔ دوست احباب، رشتہ دار بھی آپ کا ساتھ نہ دے سکے، آپ بھی ہر طرف سے مایوس ہوکر دریائے ستلج کے کنارے اپنے ایک دوست علی گوہر لانگاہ کے پاس آگئے اور اس کے گھر کے قریب قائم مسجد میں سکونت اختیار فرمالی اور ہر وقت رب ذوالجلال والاکرام سے ملتجی رہنے لگے۔ نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا خیال، نہ بستر کی فکر نہ نیند کا پتہ۔ جب بندے کی طلب سچی ہو، خدا کی محبت و معرفت میں مخلص ہو تو آزمائش کی گھڑیاں جلد رخصت ہوجاتی ہیں۔ جب محبوب دیکھ لیتا ہے کہ مجھے چاہنے والا پختہ ہے تو رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ آپ اسی طرح رب العزت کی بارگاہ میں فریاد کن تھے کہ مولانا الٰہی بخش فرشتہ بن کر آئے۔ آپ مولوی صاحب سے واقف تھے اس لئے بات چیت ہوئی۔ دوران گفتگو مولوی صاحب نے آپ کو بتایا کہ مولوی اللہ دتہ عمرپوری کا بڑا عجیب حال ہوگیا ہے۔ اس کے پاس موٹے دانوں والی ایک تسبیح ہے جو ہر وقت کھڑکاتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ لوگوں سے گفتگو کے دوران بھی تسبیح بجتی رہتی ہے۔ نماز پڑھتے پڑھتے اس کے بدن پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ لوگ اس پر ہنستے اور اعتراض کرتے ہیں، مگر مولوی صاحب کسی کو کوئی جواب نہیں دیتے۔ آپ نے پوچھا کہ یہ طریقہ مولوی صاحب نے کہاں سے حاصل کیا ہے؟ مولوی صاحب نے بتایا کہ ضلع مظفر گڑھ کے ایک گاؤں جتوئی میں ایک بزرگ خدا معلوم کہاں سے آئے ہیں، وہاں سے حاصل کیا ہے اور میرا ان بزرگ کی خدمت میں جانے کا اتفاق ہوا، بڑے متقی سادہ روش اور بے ریا نظر آتے ہیں۔ اور مولوی اللہ دتہ تو بڑے عالم اور محدث ہیں، تدریس کرتے کرتے بوڑھے ہوگئے ہیں اور نہ صرف بہت بڑے عالم ہیں بلکہ اپنے علاقے کے وڈیرے بھی۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ تو اولیاء کرام کی کرامات کے بھی منکر تھے۔ وہ بزرگ یقینًا باکمال کامل اور اکمل ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کی گفتگو اور بزرگ کا حل سن کر میری رگ رگ میں تاثیر اور محبت کی نئی دھن پیدا ہوئی۔ اشتیاق دیدار پرانوار نے میرا تمام صبر و قرار چھین لیا۔ شوق مافوق نے میرے سینہ کو گنجینہ اور خزینہ ذوق بنادیا۔ آپ نے اس عالم شوق میں رخت سفر باندھا اور دریائے چناب سے گذر کر شہر سلطان اور وہاں سے کوٹلہ رحم شاہ پہنچے اور سیدھے مسجد میں داخل ہوئے۔ رحم علی شاہ صاحب کے چھوٹے بھائی کرم علی شاہ نے آپ کو دیکھ کر اپنے پاس بلایا، آپ نے بالکل بے تکلفانہ انداز میں سلام کیا۔ شاہ صاحب نے نہایت نرم و ملائم اور شیریں لہجے میں جواب دیتے ہوئے حال احوال معلوم کیا۔ آپ نے اول سے آخر تک تمام حال بتایا، جسے سن کر شاہ صاحب نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا کہ آپ نہایت خوش نصیب انسان ہیں۔ حضرت غوث الاعظم کا یہاں تشریف لانا ہمارے لئے نجات کا ذریعہ بن گیا ہے۔ یہاں سے ایک میل پر آپ کا قیام ہے۔ مولوی اللہ دتہ کو بھی ہم نے ہی شوق دلایا تھا۔ حضرت والا کا اسم گرامی فضل علی قریشی ہے۔ حضرت خواجہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز ہیں۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ سے تعلق ہے۔ سب سے پہلے ذکر قلبی بتاتے ہیں۔ آپ کی توجہ میں وہ تاثیر ہے کہ کیسا ہی پتھر دل آدمی ہو آنًا فانًا کانپنے لگ جاتا ہے۔ کسب حلال و صدق مقال آپ کا پیشہ ہے اور مریدین کو بھی اسی پر مامور فرماتے ہیں۔ اس کے بعد آپ رات کوٹلہ رحم شاہ میں گذار کر علی الفجر اٹھے اور فجر نماز دوسرے گاؤں میں ادا فرمائی۔ وہاں سے راستہ معلوم کرکے سیدھے حضرت والا کی مسجد میں پہنچے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مصلے پر اس طرح تشریف فرما ہیں جیسے کسی کے انتظار میں ہوں۔ یہ فقیر خدمت عالیہ میں پہنچا اور قدم بوسی کا شرف حاصل کیا۔ آپ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ ایک سفارشی خط شاہ صاحب نے دیا تھا میں نے خدمت عالیہ میں پیش کیا۔ آپ خط پڑھتے جاتے اور مسکراتے جاتے۔ خط پڑھ کر آپ نے فرمایا یہاں کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہے اور عاجز سے مختصر سا حال احوال لیا اور حویلی مبارکہ میں تشریف لے گئے۔ بعد نماز ظہر بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ فرماتے ہیں کہ بیعت کے بعد سلطان الاذکار تک میرے تمام لطائف جاری ہوگئے۔ میں اسی وقت رخصت لے کر گھر پہنچا۔ مگر عجیب حالت ہورہی تھی، نیند کا پتہ نہ تھا، جسم میں سخت گرمی، بدن پر کپکپی طاری اور دماغ پر غیر معمولی بوجھ۔ گھبرا کر تیسرے دن ہی پھر حضرت قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوکر صورت حال عرض کی۔ جوابًا آپ نے قرآن مجید کی آیت ”انا عرضنا الامانۃ ۔۔۔ جھولا“ (سورۃ احزاب) تلاوت فرماکر ارشاد فرمایا اس امانت سے ذکر اسم ذات ہی مراد ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں، درد محسوس کریں تو سر پر مکھن کی مالش کریں اور شدت گرمی محسوس ہو تو ٹھنڈے پانی سے نہالیا کریں۔ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور تمام خیالات و خطرات سے فارغ البال ہوگیا۔ مگر پھر بھی جذب کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات وجد و بے خودی کے عالم میں بے اختیار دستار زمین پر پھینک دیتا، قمیص اتاردیتا، تہبند کے علاوہ بدن پر کوئی کپڑا نہ ہوتا اور ننگے پاؤں اِدھر اُدھر دوڑتا پھرتا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت سیدی و مرشدی رحمۃ اللہ علیہ مسکرا کر فرماتے ”مولوی صاحب! کپڑے دھوبی کو دے آئے ہو کیا؟“ الغرض آپ کی قلبی بے قراریوں کو قرار آگیا اور ایک بار پھر نگاہ ناز کے لطف اٹھانے لگے اور مے محبت کے جام چڑھانے لگے۔ پیر و مرشد قطب الارشاد سے والہانہ محبت کا اظہار اشعار کی صورت میں منقبت بن کر آپ کی زبان سے جاری ہونے لگا۔ مرشد کی شان اور محبت میں وہ کلام کہا کہ کیا ہی حضرت امیر خسرو نے حضرت محبوب الٰہی کے لئے کہا ہوگا۔ آپ جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ آپ نے عربی، فارسی، اردو اور سرائیکی میں حمد و نعت کے ساتھ اپنے پیر و مرشد کی محبت میں والہانہ کلام کہا۔ آپ پر ابتدائی تین سال تک جذب و بیخودی کا عالم بہت زیادہ طاری رہتا تھا۔ بیخودی کے عالم میں نعرہ ہائے مستانہ سے فضا گونجتی رہتی تھی۔ بقول اکبر کیا کہوں بیخود ہوا میں کس نگاہِ
مست سے آپ کی پیر سے محبت، عشق اور مشک کی طرح ظاہر ظہور تھی۔ آپ نے خلیفہ اول یار غار و مزار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح اپنا مال و ملکیت دھن دولت اپنے مرشد مربی پر قربان کردی اور جو بھی آبائی ملکیت باغ اور زمین ورثے میں ملی، حضرت پیر قریشی کے لنگر کے لئے وقف کردی۔ یہی نہیں بلکہ اپنی دختر نیک اختر بھی حضرت صاحب کی زوجیت میں دے دی۔ آپ کے ادب کا یہ حال تھا کہ کبھی بھی پیر کے دربار عالیہ پر جوتے پہن کر نہیں چلے اور قضائے حاجت کے لئے تو دربار سے بہت دور نکل جاتے تھے۔ استنجے کے لئے بھی درگاہ کی مٹی کے ڈھیلے استعمال نہ فرماتے تھے۔ حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی آپ پر بڑی عنایات تھیں، جملہ جماعت کی بہ نسبت آپ قرب خاص سے مشرف تھے۔ آپ کی والہانہ محبت، خلوص و للٰہیت، تبلیغی ذوق و شوق، عشق الٰہی کی تڑپ دیکھ کر حضرت محبوب الٰہی پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو خلافت مطلقہ عنایت فرمائی اور امر فرمایا کہ آپ سندھ تشریف لے جائیں اور وہاں تبلیغی مشن سرانجام دیں۔ سندھ میں آپ کا تبلیغ کے لئے آنا آپ کی خواہش کے عین مطابق تھا۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور مولانا عبدالمالک صاحب جو کہ حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے، آپس میں باتیں کررہے تھے۔ دوران گفتگو مولانا عبدالمالک صاحب نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ کاش حضور پیر قریشی مجھے تبلیغ کے لئے ہندوستان کا امر فرمائیں، کیونکہ وہاں اہل علم زیادہ ہیں وہ اس نعمت کی زیادہ قدر کریں گے، جس پر میں نے کہا کہ مولانا صاحب میری تو یہ تمنا ہے کہ حضور مجھے سندھ کے لئے تبلیغ کا حکم فرمائیں، کیونکہ سندھی اللہ والوں کے بڑے عاشق ہیں۔ بچپن میں دیکھتا تھا کہ سندھی مرد اور عورتیں پیادہ، ننگے پاؤں حضرت غوث بہاء الحق رحمۃ اللہ علیہ کے عرس میں شرکت کے لئے ملتان جاتے تھے۔ چونکہ ہمارا گاؤں دریا کے کنارے واقع تھا اس لئے وہ لوگ رات کو ہمارے گاؤں میں قیام کرتے تھے۔ میرے والد صاحب میزبانی فرماتے تھے اور میں خود روٹیاں سر پر رکھ کر لے جاتا اور انہیں کھلاتا تھا۔ اس لئے انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ پاؤں پھٹ جاتے، خون جاری ہوجاتا مگر پٹیاں باندھ کر بھی سفر جاری رکھتے تھے۔ اجازت کے بعد تو تبلیغ کے ذوق و شوق میں دو چند اضافہ ہوگیا۔ آپ نے تبلیغ دین کو اوڑھنا بچھونا بنالیا اور گھر والوں کو بھی اس نعمت عظمیٰ سے سرفراز کرنے کے لئے انہیں بھی ترغیب و شوق دلایا۔ اپنے چھوٹے بھائی مولانا عبدالستار صاحب کو لے کر حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں پہنچے اور انہیں بیعت کروایا۔ بعدہ اپنے گاؤں میں حضرت پیر قریشی علیہ الرحمۃ کی دعوت کی جہاں آپ کے والد ماجد اور بڑے بھائی مولانا محمد اشرف طریقۂ عالیہ میں داخل ہوئے۔ الغرض اغیار کے ساتھ ساتھ اپنوں کے حق کو بھی خوب نبھایا۔ والد ماجد اور بڑے بھائی کو طریقۂ عالیہ میں داخل ہوئے کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ ان کا وصال ہوگیا۔ حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ جب دوسری مرتبہ آپ کے گاؤں تشریف لائے تو آپ کے چھوٹے بھائی مولانا عبدالستار صاحب کو بھی خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ عمومًا فرماتے رہتے تھے کہ ہم نے کبھی دو بھائیوں کو ایک ساتھ تبلیغ و اشاعت سلسلہ عالیہ کی اجازت نہیں دی، مگر مولانا صاحب کی خوش نصیبی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے بھائی کو بھی اجازت ملی۔ اسی پر اکتفا نہ فرمایا بلکہ مزید ارشاد فرمایا کہ آپ کے خاندان کو دیکھ کر تو دل چاہتا ہے کہ ”اگر آپ کے والد اور بڑے بھائی مولانا محمد اشرف صاحب زندہ ہوتے تو انہیں بھی اجازت ذکر عطا فرما دیتے۔“ آپ نے سندھ میں تبلیغ کے ساتھ اپنے علاقے کو فراموش نہیں فرمایا بلکہ سب سے پہلے اپنے آبائی علاقے میں عاشق آباد کے نام سے ایک مستقل مرکز قائم فرمایا جہاں حضرت قریشی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف فرما ہوتے تھے۔ اس مرکز کی تعمیر میں اور فقراء کے ساتھ ساتھ سندھ سے بھی کافی تعداد میں اہل ذکر حضرات نے شرکت کی جس میں سیدی مرشدی حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ پیش پیش رہے۔ آپ نے اپنے شیخ حضرت پیر قریشی کے ساتھ متعدد تبلیغی سفر فرمائے۔ نہ صرف سندھ پنجاب میں، بلکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھی تشریف لے گئے جن میں سرہند شریف (دربار حضرت مجدد الف ثانی)، دہلی میں پیران کبار کے مزارات پر حاضری، اجمیر شریف کے اسفار قابل ذکر ہیں۔ ان اسفار سے آپ نے بہت کچھ حاصل کیا، بالخصوص حضرت مجدد الف ثانی کے مزار پرانوار سے وہ فیوضات حاصل کئے کہ جن کا اندازہ صرف آپ ہی کو ہوگا۔ روحانی کیفیات کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ اندرون ملک آپ نے مختلف علاقوں کے سفر فرمائے اور مختلف بزرگان دین اور پیران کبار کے مزارات پر بھی تشریف لے گئے اور اکتساب فیض کیا۔ آپ کی مادری زبان سرائیکی تھی۔ سرائیکی زبان سندھی و پنجابی کا حسین سنگم ہے اور نہایت میٹھی و پیاری زبان ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کے لہجے اور اخلاق کریمانہ کے باعث آپ کا انداز گفتگو اس قدر دلنشین و دل کو موہ لینے والا ہوتا کہ گویا منہ سے پھول جھڑتے ہوں۔ جو ایک بار سنتا اسے دوبارہ سننے کی آرزو رہتی تھی۔ اسی بنا پر لوگ آپ کو پیار سے پیر مٹھا کہنے لگے۔ اس نام میں عجب تاثیر تھی کہ کسی بھی کڑوی ترش اور پھیکی چیز پر حق پیر مٹھا کہا جاتا تو خدا کے فضل سے فورًا میٹھی ہوجاتی تھی۔ اس کرامت کے عینی شاہدین آج بھی خدا کے فضل سے موجود ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیاروں کو بہت شرف بخشا ہے۔ آپ کے ایک مخلص مرید اور درس نظامی کے فارغ مولوی اللہ ورایو کے پاس کچھ مخالفین آئے اور کہنے لگے کہ مولوی صاحب اگر آپ کا پیر کامل ہے اور ان کا نام لینے سے کڑوی چیز میٹھی ہوجاتی ہے تو یہ ہمارے کدو کڑوے ہیں انہیں میٹھے کرکے دکھاؤ۔ مولوی صاحب نے کدؤوں پر یہ الفاط دم کئے ”پیر مٹھا کدؤوں کو کر مٹھا“۔ دو تین مرتبہ اس طرح کیا پھر انہیں کہا کہ اب آپ انہیں استعمال کریں یہ میٹھے ہوگئے ہیں۔ ان مخالفین نے چکھ کر دیکھے تو کدو واقعی میٹھے ہوچکے تھے۔ پھر مولوی صاحب وہ کدو لے کر آپ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور آپ کے حضور اس کرامت کا ذکر کیا۔ سندھ میں آپ کے کام کو بڑی وسعت ملی۔ سندھ سے بکثرت لوگ عاشق آباد شریف تشریف لاتے اور برکات و فیوضات حاصل کرتے۔ اس کے باوجود آپ کے منظور نظر خلیفۂ اجل قطب الارشاد حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کی شدید خواہش تھی کہ حضرت قیوم زمان پیر مٹھا سائیں سندھ میں مستقل سکونت اختیار فرمائیں۔ اس سلسلے میں حضرت سیدی و مرشدی سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر آپ چند مرتبہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے مقیم فقراء کے یہاں تشریف فرما ہوئے جو کہ مختلف بستیوں سے نقل مکانی کرکے محض ذکر و فکر اور شریعت پر عمل کرنے کی خاطر چھوٹی سی بستی بناکر رہ رہے تھے۔ فقراء کی محبت، شریعت مطہرہ پر عمل اور استقامت دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئے اور پنجاب سے نقل مکانی کرکے وہاں آکر قیام پذیر ہوئے اور اس بستی کا نام دین پور تجویز کیا۔ یاد رہے کہ اس مرکز کے قیام میں حضرت سوہنا سائیں کا کردار سب سے اہم تھا کیونکہ یہاں آپ کی تبلیغ تھی۔ اس قیام کے دوران کئی مرتبہ ناری نامی سادات کی بستی تشریف لائے اور کئی کئی روز وہاں قیام فرمایا، جس سے سادات حضرات خوب فیضیاب ہوئے اور اس بستی کا نام بدل کر نورپور رکھ دیا۔ بارہا آپ حیدرآباد کے قریب انڑ پور (نزد پٹارو) بھی تشریف لائے۔ ایک بار آپ نے انڑ پور میں مسلسل ایک ماہ تک قیام فرمایا۔ واپسی میں دین پور شریف جانے کے لئے جب آپ رادھن اسٹیشن پہنچے تو دریائی سیلاب کی وجہ سے کچھ دن وہیں قیام فرما ہوئے۔ لاڑکانہ کے فقراء نے موقع دیکھ کر دعوت عرض کی، آپ دعوت قبول فرماتے ہوئے لاڑکانہ تشریف لے گئے۔ مرکزی شہر ہونے کی وجہ سے وہاں تبلیغ کا کام خوب ہوا۔ دور و نزدیک کے فقراء مسلسل آتے رہے، جس سے آپ کو بے پناہ مسرت ہوئی۔ مقامی فقراء نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت یہ بڑا شہر ہے، آمد و رفت کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ دین پور سے زیادہ یہاں دین کا کام ہوسکتا ہے، اس لئے اگر حضور یہاں مستقل قیام فرما ہوں تو کام میں وسعت پیدا ہوگی۔ چونکہ یہ تجویز نہایت مخلصانہ اور للٰہیت پر مبنی تھی اور دین کی ترویج اور اشاعت آپ کا مقصد زندگی تھا اس لئے آپ نے حامی بھرلی۔ جگہ کے انتخاب میں آپ نے اس بات پر خاص توجہ دی کہ مسافروں کو تکلیف نہ ہو، اس لئے لاڑکانہ اسٹیشن کے قریب بستی کا قیام عمل میں آیا۔ چونکہ آپ کے وجود مسعود سے سرزمین سندھ پر بارانی رحمت ہوئی اور گمراہوں، بے دینوں، فاسقوں اور فاجروں کو ہدایت ملی اور رحمت خداوندی نے اپنا در وا کیا، بالخصوص لاڑکانہ میں آپ کے مستقل قیام کی خوشی میں فقراء نے اس بستی کا نام رحمت پور تجویز کیا، جسے آپ نے پسند فرمایا۔ اس بستی کی زمین خریدنے پر جو بھی اخراجات آئے سب کے سب سیدی و مرشدی حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جیب سے ادا فرمائے۔ لنگر کے اخراجات کی مد میں جو کچھ خرچ ہوتا تھا، حضور سیدی و مرشدی سوہنا سائیں خود ہی انتظام فرماتے تھے۔ سندھ میں آپ کی آمد سے کئی برس قبل یہاں کے ایک مشہور صاحب کمال بزرگ حضرت عبدالرحیم گرہوڑی رحمۃ اللہ علیہ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ سندھ میں ایک رحمت کا بادل شمال کی جانب سے آئے گا جو سرزمین سندھ کی ویران زمینوں کو آباد کرے گا۔ نیز فرمایا کہ جو سکھر اور لاڑکانہ کے قریب ہوگا، بائیں آنکھ کے قریب نشان ہوگا اور پاؤں کے تلوے پر گلابی رنگ کا نشان ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ مختلف فقراء نے مختلف مواقع پر ان نشانیوں کو بچشم خود ملاحظہ کیا۔ جناب ڈاکٹر عبداللطیف صاحب جو آپ کے معالج خاص تھے بتاتے تھے کہ حضرت گرہوڑی صاحب کی بیان کردہ باقی نشانیاں تو میں نے دیکھ لیں مگر دل میں شدید خواہش تھی کہ کسی صورت میں پاؤں والی نشانی دیکھوں۔ ایک مرتبہ میری خواہش بڑی شدت اختیار کرچکی تھی وہ اس طرح پوری ہوئی کہ تخلیہ میں جب حضور سیدی و مرشدی اور عاجز موجود تھے تو آپ نے اپنا دایاں پاؤں سیدھا کیا تو میں نے دیکھا کہ پاؤں مبارک پر گلاب کی پنکھڑی کا سا نشان ہے اور اس قدر خوبصورت کہ بے اختیار بوسہ لینے کو دل کھنچے۔ سندھ میں آپ کے ورود سے قبل دین کی حالت غیر ہوچکی تھی۔ لوگ نماز روزہ اور قرآن سے منہ موڑ چکے تھے۔ مسجدیں ویران اور پرندوں کا مسکن بن چکی تھیں۔ بلکہ کئی ایک مساجد میں کتوں نے رہنا اور بچوں کو جنم دینا شروع کردیا تھا۔ الغرض بے دینی کا ایک سیلاب تھا جو بہائے لئے جارہا تھا کہ رحمت خداوندی کو رحم آیا اور اپنے عبد مکرم قیوم زمان کو یہاں بھیجا۔ آپ کی آمد کے ساتھ ہی نقشہ بدل گیا، طاغوتی قوتیں کمزور ہوئیں اور دین کو خوب تقویت ملی۔ سنت و شریعت کی پابندی ذوق و شوق سے کی جانے لگی۔ نماز تہجد، داڑھی، دستار اور مسواک کی اتنی سخت پابندی ہوئی کہ یہ غفاری جماعت کی پہچان بن گئی۔ ایک فقیر جنگل سے گذر رہا تھا کہ اسے چوروں نے گھیر لیا۔ فقیر نے کہا کہ میں غفاری ہوں اور میرا پیر کامل ہے، تم نقصان اٹھاؤ گے۔ تو چوروں نے کہا کہ تمہاری نشانیاں داڑھی اور پگڑی تو ہے، اگر تمہارے پاس مسواک ہے تو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ فقیر نے جھٹ مسواک نکال کر دکھائی تو چور اسے چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ ذکر قلبی عطا فرماتے جس کی تاثیر اور آپ کی توجہ کے اثر سے ایک عظیم انقلاب رونما ہوتا۔ جعل ساز پیر جو مریدوں کے چندوں اور نذر و نیاز پر پل رہے تھے، ان کے سینے پر تو سانپ لوٹ گیا۔ انہوں نے آپ کے راستے میں بیشمار رکاوٹیں کھڑی کیں اور آپ پر جھوٹے کیس بنائے، جادوگر ہونے کا الزام لگایا مگر آپ نے اپنے کام سے غرض رکھی۔ جتنی شدت سے مخالفت کی جاتی آپ اس سے زیادہ شد و مد سے دین حق کی ترویج و اشاعت کے لئے سعی فرماتے۔ نتیجتًا وہ تمام مخالفین اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ بعض تو آپ کی غلامی میں داخل ہوگئے اور سنت و شریعت کے مکمل پابند ہوگئے۔ رحمت پور شریف کے مستقل مرکز بن جانے سے جہاں طاغوتی قوتوں پر زد پڑی وہیں آپ کے کام کو بڑی وسعت بھی ملی۔ سینکڑوں افراد کا روزانہ تانتا بندھا رہتا تھا۔ تقریبًا ہر روز دو تین سو افراد ہوتے ہی تھے جو اکتساب فیض کی غرض سے آتے۔ اس کے علاوہ ایک ماہانہ بڑا پروگرام گیارہویں شریف کے نام سے ہوتا جس میں ہزاروں افراد کا جم غفیر ہوتا، ذکر و فکر کی محفل گرم ہوتی اور فیض محمدی صلّی اللہ علیہ وسلم کے جام لنڈھائے جاتے۔ یہاں سے مبلغین کی کھیپ تیار ہوتی جنہیں مختلف علاقوں میں روانہ کیا جاتا۔ آپ نے اپنی کمال توجہ اور مہربانی سے ایسے افراد تیار کئے جن کا باطن نہایت پاکیزہ ہوچکا تھا اور قرب خداوندی کے حامل ہوچکے تھے۔ انہیں آپ نے ذکر و اشاعت سلسلہ عالیہ کی اجازت عطا فرماکر مختلف علاقوں کی طرف روانہ فرمایا۔ ایک مبلغ کو مشرقی پاکستان، موجودہ بنگلادیش روانہ فرمایا، جہاں اس مرد مجاہد کی محنت سے سینکڑوں بنگالی طریقہ عالیہ میں داخل ہوئے اور یہاں سے آپ کی خدمت میں پہنچ کر اکتساب فیض کرنے لگے۔ ایک ایرانی مولوی صاحب آپ کی خدمت عالیہ میں آیا اور آپ کا اسیر ہوکر رہ گیا۔ کافی دن آپ کی صحبت عالیہ میں رہا۔ آپ کی صحبت کی تاثیر سے اس کی تقدیر بدلی، آپ نے اسے اجازت عطا فرماکر ایران روانہ فرمایا۔ اسی طرح سرحد، بلوچستان اور پنجاب میں بھی آپ نے مبلغین روانہ فرمائے۔ سندھ میں بھی مختلف علاقوں اور شہروں میں آپ کے مبلغین نے انقلاب پیدا فرمادیا۔ بالخصوص آپ کے منظور نظر خلیفہ جنہیں آپ نے جمیع خلفاء سے صرف آپ کو خلافت مطلقہ عطا فرمائی تھی، سیدی و مرشدی حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے بہت زیادہ سعی فرمائی اور سندھ کے وسیع رقبے پر بلکہ سندھ سے باہر بھی مرشد کے پیغام کو پہنچایا۔ آج جو فقراء کی اتنی بڑی جماعت نظر آتی ہے یہ سب حضرت سیدی و مرشدی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جس طرح حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان میں سلسلہ عالیہ کی داغ بیل ڈالی، بالکل اسی طرح سندھ میں حضرت پیر مٹھا سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ متعارف ہوا۔ آپ ہر وقت دین کی تبلیغ میں مصروف رہتے۔ امت محمدیہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح کی فکر اس قدر دامن گیر تھی کہ جب اس درد میں ڈوب کر نصیحت فرماتے تو اپنی کسی بیماری اور تکلیف کر پرواہ نہ کرتے اور گھنٹوں پند و نصائح کی محفل جاری رہتی۔ لوگوں کے ذوق و شوق کا یہ عالم کہ وہاں سے ہلتے بھی نہیں تھے اور پوری توجہ و دلچسپی سے سنتے رہتے تھے۔ سخت سردی کے موسم میں آپ کے گھر میں انگیٹھی جل رہی تھی اور آپ وضو فرما رہے تھے کہ یکدم بھرا ہوا لوٹا آپ نے انگیٹھی پر ڈال دیا جس سے آگ بجھ گئی۔ حرم پاک نے پوچھا کہ آپ نے انگیٹھی کیوں بجھا دی؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے تو فقیر کے گھر کی آگ بجھائی ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ایک فقیر کے گھر کو آگ لگ گئی۔ در و دیوار تمام لکڑیوں کے تھے، نزدیک نہ کوئی فائر برگیڈ اور نہ ہی کوئی پانی کا چشمہ تھا۔ لکڑیوں نے آگ پکڑلی۔ فقراء پانی بھر بھر کر ڈالتے جاتے تھے، لیکن آگ تھی کہ بجھنے کا نام نہ لیتی تھی اور بڑھتی ہی جارہی تھی۔ فقیر نے یہ دیکھ کر روتے ہوئے کہا حق پیر مٹھا آگ بجھادو۔ بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ یکدم آگ بجھ گئی جیسے کسی نے زبردست پانی انڈیل دیا ہو۔ (وہ فقیر بنام عبدالغفور میمن آج بھی زندہ ہے اور اس کرامت کا چشم دید گواہ ہے، لاڑکانہ میں درگاہ غریب آباد شریف میں اس کی رہائش ہے) اسی طرح ایک فقیر جنگل میں سے گذر رہا تھا کہ اسے لٹیروں نے گھیر لیا۔ فقیر نے ڈر کر زور زور سے پکارنا شروع کردیا۔ حق پیر مٹھا آج بچاؤ ہم لٹ رہے ہیں۔ یکدم اس نے دیکھا کہ ایک گھڑ سوار پولیس ڈریس میں بندوق لئے ہوئے آیا اور بلند آواز سے کہا پکڑو چور کو، یہ کہنا تھا کہ چور ڈر کے مارے بھاگ گئے۔ اس کے بعد اس نے فقیر سے کہا کہ تم اس راستے سے جاؤ کچھ نہیں ہوگا۔ فقیر نے پوچھا تم کون ہو، اس نے جواب دیا کہ مجھے بھیجنے والے نے بھیجا تم لٹنے سے بچ گئے، اس لئے اس بات سے غرض مت رکھو۔ آپ نہایت متوکل انسان تھے۔ سوال چندہ کے سخت خلاف تھے اور مبلغین کو بھی یہ تاکید تھی کہ کسی سے کسی بھی قسم کی چیز کا سوال نہ کیا جائے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو مدنظر رکھا جائے۔ اپنے ارادے اور نیتیں درست ہوں گی تو تائید خداوندی حاصل ہوگی۔ آپ عمومًا تبلیغ و تقریر کے دوران یہ آیت شریفہ پڑھتے۔ ”و ما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی اللہ رب العالمین“ میں تم سے اس وعظ و نصیحت کا کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس ذات پاک کے ذمہ ہے جو دو جہانوں کا پالنے والا ہے۔ آپ فرماتے تھے کہ اس طریقہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں ترقی اور باطنی اصلاح کا دارومدار سنت عالیہ علیٰ صاحبھا الصلوات والسلام پر عمل کرنے میں ہے۔ آپ غیر شرعی رسم و رواج کے سخت مخالف تھے اور اس سے سختی سے منع فرماتے تھے۔ آپ کی جماعت کا یہ طرۂ امتیاز بن گیا کہ شادی ہو یا غمی، شریعت کے تقدس کو ملحوظ رکھا جاتا، اسی طرح پردے کی سخت پابندی کی جاتی، آپ خواتین کو باپردہ خطاب فرماتے۔ آپ نے اللہ کے سوا کسی سے کبھی خوف نہیں کھایا اور کسی بھی بڑے سے بڑے دنیادار سے متاثر نہ ہوئے۔ ذکر کا یہ عالم کہ سخت سردیوں میں بھی یخ پانی سے غسل فرماتے اور ململ کا کرتہ زیب تن فرماتے۔ حسن و جمال کا نقشہ الفاظ میں کھینچنا محال ہے۔ جناب مولانا بخش علی صاحب نے عاجز کو بتایا کہ آپ کی طرف نظر بھر کر دیکھنا بہت مشکل تھا، بدن مبارک ایسا جیسا کہ نور کی شعائیں نکل رہی ہوں۔ جو بھی آپ کی طرف دیکھتا بے خود ہوجاتا۔ لباس نہایت قیمتی زیب تن فرماتے۔ دستار مبارک سفید، فیروزی، سبز، کالی اور نیلی آسمانی کلر جیسی استعمال فرماتے۔ دستار جب کلہ مبارکہ پر باندھتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ شاہی تاج سر اقدس پر رکھا ہوا ہے۔ گو کہ آپ درمیانہ قد تھے مگر مجمع میں ہوتے یا کسی بھی طویل قد بندے کے ساتھ ہوتے تو ہمیشہ آپ اس بندے سے بلند نظر آتے۔ یہ اللہ نے اولیاء اللہ میں آپ کو خاص امتیاز بخشا تھا۔ عشق الٰہی کے غلبہ اور ذکر کی کثرت کے سبب آپ کو بھوک بہت کم لگتی تھی، اس لئے کئی کئی روز بغیر کھائے پیئے گذر جاتے۔ اس کے باوجود خدا کے فضل سے آپ کی صحت قابل رشک تھی۔ حویلی مبارکہ کی طرف جاتے ہوئے اگر کوئی مسئلہ معلوم کرتا تو گویا کہ ایک دبستان کھل گیا ہے۔ آپ بڑی وضاحت سے مسئلہ بتاتے اور ساتھ ہی تبلیغ فرماتے حتیٰ کہ اس حالت میں تہجد کا وقت تک ہوجاتا تھا۔ بلکہ کئی بار تو ایسا ہوا کہ نصیحت فرماتے ہوئے فجر کی اذان ہونے لگتی تو آپ وہیں سے واپس مسجد میں آکر اسی وضو سے فجر کی نماز ادا فرماتے اور حلقہ ذکر کراتے۔ اگرچہ آپ کا معمول تھا کہ فجر اور عصر کے بعد وعظ و نصیحت فرماتے مگر بعض مرتبہ اس قدر وعظ و نصیحت میں محو ہوجاتے کہ وقت کا احساس ختم ہوجاتا۔ حتیٰ کہ ظہر کا وقت ہوجاتا، نہ آپ تھکتے نہ ہی لوگ سیر ہوتے۔ آپ عمومًا فرماتے کہ لوگوں کی تکلیف کا احساس اور نماز کا فریضہ مجھے اٹھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ آپ کو کمال کا کشف ہوتا تھا۔ جو کوئی بھی سائل آتا، سوال کرنے سے پہلے ہی دوران نصیحت اسے جواب مل جاتا۔ لوگ نہایت متعجب ہوتے مگر اہل اللہ کو اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی۔ قیومیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے کے باوجود آپ نے کبھی اس قسم کا دعویٰ نہیں کیا جس سے اپنی بڑائی مقصود ہو بلکہ آپ انتہائی متواضع شخصیت کے مالک تھے۔ کبھی آپ نے خود کو پیر مٹھا نہیں سمجھا، بلکہ آپ یہی فرماتے ”پیر مٹھا تو میڈے مرشد ہیں، تساں پیر مٹھا آکھ تہ ڈیکھو، کتنا شیریں اور پیارا ناں ہے، انشاء اللہ میڈے پیر دی مدد اتھئیں پہنچ ویسی ہر مشکل آسان تھی ویسی“۔ ایک مرتبہ آپ نے جمیع خلفاء کرام کو جمع کرکے حضرت سیدی و مرشدی سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کرائی اور ارشاد فرمایا ”ہمارے بعد ہمارے جانشین یہ ہوں گے۔ آپ سب نے ان سے تعاون کرنا ہے۔ ہمارا فیض آپ کو اس جوان کے ذریعے ہی ملے گا“۔ آپ نے سب سے وعدہ لیا اور انہیں اس بات کا پابند بنایا۔ آخری عمر میں عوارضات اور انتھک تبلیغ دین کے باعث کافی کمزوری ہوگئی اور غذا تو بالکل ہی ختم ہوگئی۔ وصال مبارکہ سے آٹھ دس روز قبل ماہ رجب المرجب سنہ 1384ھ کی آخری تاریخوں میں بعد نماز عصر جبکہ درگاہ شریف پر فقراء و خلفاء کا جم غفیر موجود تھا۔ آپ نے نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کیا ہم نے آپ کو شریعت اور طریقت کے مطابق حق پہنچایا ہے یا نہیں؟ ساری جماعت نے اعتراف کیا کہ بیشک آپ نے حق ادا کردیا۔ اس کے بعد آپ نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا ”یا اللہ! تو گواہ رہنا کہ میں نے تیرے بندوں کو حق پہنچایا ہے۔“ اس کے ساتھ ہی جملہ جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ”اس کے بعد اگر کوئی فرد ہمارے کہنے پر نہ چلا اور طریقہ عالیہ کی خلاف ورزی کی تو بروز قیامت ہم اس شخص سے بری اور بیزار ہیں“۔ راقم الحروف نے جب یہ الفاظ مبارکہ پڑھے تو آپ کے شفقت و محبت بھرے وہ الفاظ بھی یاد آئے جو آپ نے ایک کلام میں فرمائے ہیں۔ جو ہیں در دا مرید
ہووے، نت شفقت مزید ہووے اہل اللہ وقت آخر سے باخبر ہوتے ہیں اور اشاروں میں آگاہ بھی کردیتے ہیں۔ صاحب اسرار جان بھی لیتے ہیں۔ آپ نے بھی اشارہ دے دیا، سمجھنے والوں میں بے قراری کی لہر دوڑ گئی۔ آپ کی مسجد میں، بیرونِ حویلی یہ آخری مجلس تھی۔ اس کے بعد عوارضات کا غلبہ بہت زیادہ ہوگیا۔ سنت کے مطابق علاج معالجہ جاری رہا۔ ڈاکٹر عبداللطیف چنہ ہر وقت ساتھ ہوتے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جب مقربین و کاملین کا وقت آخر جیسے جیسے قریب آتا جاتا ہے ان پر محویت کا غلبہ زیادہ ہوتا جاتا ہے، وہ یاد حق سبحانہ میں اس قدر محو ہوجاتے ہیں جیسے وصال کی مدہوشی۔ آپ پر بھی اب استغراق کی کیفیت بہت زیادہ طاری رہنے لگی۔ کھانا پینا تو مکمل طور پر چھوڑ ہی دیا، اس کے علاوہ بات چیت بھی بند کردی۔ بس کسی کسی وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بزبان فارسی نہایت ہی پرسوز ابیات مناجات کی صورت میں زبان حق ترجمان پر جاری ہوجاتے۔ نماز بھی تیمم کرکے اشارے سے ادا فرماتے، مگر یہ افعال بھی استغراق کی کیفیت میں ہی ادا فرماتے۔ آخر محبوب حقیقی سے واصل ہونے کی گھڑی اور عزیز و اقرباء دوست و احباب سے جدائی کے جان گسل لمحات آ پہنچے۔ شعبان المعظم کی 8 تاریخ سنہ 1384ھ بمطابق 1964ع بروز اتوار رات ساڑھے گیارہ بجے 84 برس کی عمر مبارک میں اس دار فانی سے عالم بقا کی طرف عازم سفر ہوکر واصل بحق ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون درگاہ رحمت پور شریف لاڑکانہ ہی آپ کی آخری آرام گاہ قرار پائی، جو آج بھی مرجع خاص و عام ہیں۔ سیدی و مرشدی حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف مراکز قائم فرماکر آپ کے سلسلہ کو جاری و ساری رکھا اور اب بھی الحمد للہ یہ فیض اللہ آباد شریف میں آپ کے جانشین حضرت خواجہ محمد طاہر المعروف سجن سائیں مدظلہ علینا کی صورت موجیں ماررہا ہے اور اہل ہمت اپنی ہمت کے مطابق غواصی کرکے جواہر ریزے حاصل کررہے ہیں۔ ماخذات: 1۔ گوہر حیات غفاریہ، از بیدار مورائی صاحب 2۔ ملفوظات غفاریہ، از مولانا حبیب الرحمٰن صاحب 3۔ الطاہر پیر مٹھا نمبر
|