پیچھے شجرہ شریف آگے

حضرت شاہ شفقت ابر رحمت

خواجہ اللہ بخش عباسی المعروف سوہنا سائیں

رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

از۔ مختار احمد کھوکھر

 

تعارف | تعلیم و تربیت | بیعت اول | بیعت دوئم | خلافت اور بشارات | مراکز کا قیام | تبلیغی کاوشیں | کیفیات مجالس | آخری ایام اور وصال | آپ کے جانشین

 

تعارف اور پیدائش

    باشرع و صاحب تقویٰ، باکردار و باکمال، انتہائی سخی و ملنسار زندہ دل ولی، بزرگ صفت جنہیں لوگ مٹھل رحمۃ اللہ علیہ کے پیارے نام نامی اسم گرامی سے جانتے تھے۔ تحصیل کنڈیارو قصبہ خانواہن کے قریشی عباسی خاندان کے روشن چشم و چراغ تھے۔ آپ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک اور مالی مدد کے حوالہ سے علاقہ بھر میں مشہور تھے۔ ان کے آنگن میں مؤرخہ 10 مارچ 1910ء کو بہار آئی یعنی دو جڑواں بچوں نے جنم لیا، جن میں سے ایک کا نام مبارک (دادا کے نام پر) اللہ ابھایو رکھا گیا جو کہ کم عمری ہی میں داغ مفارقت دے گئے۔ دوسرے بچے کا نام اللہ بخش رکھا گیا۔ وہ اسم بامسمّیٰ ثابت ہوئے کہ جن کی پیشانی کی چمک نور ولایت کی عکاسی کر رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ علوم و معارف عطا فرمائے جن کی نظیر ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لوگ آپ کے اعلیٰ کردار و اخلاق کی بنا پر سوہنا سائیں کے حسین لقب سے یاد کرتے ہیں۔ جنہوں نے آگے چل کر دین متین کی خدمت اور عشق مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم میں وہ مقام حاصل کیا کہ ماسلف بزرگ جس پر فخر کریں اور آنے والے اسے مشعل راہ بنائیں۔

    جب تک یہ دھرتی قائم ہے، چاند و سورج روشن ہیں، جب تک ستاروں کی جگمگاہٹ قائم ہے لوگ انہیں یاد کرتے رہیں گے۔

سوہنی صورت سرّ الٰہی عام نہ سمجھیں سارے
خاصاں باہجھ محمد بخشاکون کرے نتارے

    نسبی لحاظ سے آپ اس خاندان کے روشن چراغ ہیں جس کے جد اعلیٰ صحابی رسول صلّی اللہ علیہ وسلم، مفسر قرآن، ترجمان القرآن، حبر الامت، حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس ہیں جو منبع رشد و ہدایت ہیں۔ انسانیت اپنی منزل کا سفر یہیں سے شروع کرتی ہے۔ مسلکًا آپ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ کی مناسبت سے حنفی ہیں تو مشربًا اس خاندان سے ہیں کہ جس کی نسبت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ہے، یعنی خاندان نقشبندیہ کہ جن کی نسبت بے مثل ہے۔ حضرت عارف جامی علیہ الرحمۃ نے کیا خراج عقیدت پیش کیا ہے کہ

نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند
کہ برند از رہِ پنہاں بحرم قافلہ را

از دل سالکِ رہ جاذبہ صحبت شاں
برو وسوسۂ خلوت و فکرِ چلہ را

ہمہ شیرانِ جہاں بستۂ ایں سلسلہ اند
روبہ از حیلہ چساں بگسار ایں سلسلہ را

    راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اکثر فرماتے تھے ”اے محمدی، صدیقی، نقشبندی، مجددی، فضلی، غفاری“ یہ فرماکر کہتے کہ ”یہ نام لیتے وقت ہمیں بڑا مزہ اور سرور حاصل ہوتا ہے“۔

[ اوپر ]

تعلیم و تربیت

    الغرض نسبًا و مشربًا ہر لحاظ سے بلند پایہ خاندانی نسبت رکھتے تھے۔ آپ کے والد ماجد کی تمنا تھی کہ میرے یہ فرزند عالم و عارف باللہ بنیں۔ اسی لئے اکثر آپ کی والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا سے فرماتے کہ ”مال کی فراوانی کی دعا نہ کرنا، بلکہ یہ دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ ان کو عالم و فاضل اور واصل باللہ بنائے تاکہ دینی امور میں لوگ ان کی طرف رجوع کریں“۔ اسی نہج پر بچوں کی تربیت کے متمنی تھے۔ ابھی آپ کا عہد طفولیت ہی تھا کہ شفقت پدری کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا اور تعلیم و تربیت کی اہم ذمہ داری والدہ ماجدہ کے کاندھوں پر آ پڑی۔ اس عظیم خاتون نے بھی اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادا کیا۔

    آپ کی والدہ ماجدہ اپنے وقت کی رابعہ بصری صفت خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تقویٰ و طہارت جیسی نورانی نعمت سے نوازا تھا۔ عمومًا بڑے بڑے اہل علم گھرانوں میں اس کا فقدان ہے مگر وہ زمانہ گر خاتون تھیں۔ اس لئے زمانہ شیر خوارگی ہی سے بچوں کی روحانی پاکیزگی کا اہتمام کرتی رہی تھیں۔ وہ اس طرح کہ ہمیشہ باوضو ہوکر بچوں کو دودھ پلاتی تھیں۔ جب کچھ ٹھوس غذا کھانے لگے تو بھی وضو کا اہتمام رہتا اور زبان ہر وقت تسبیح و تہلیل میں مشغول رہتی۔ شوہر کی جدائی گو ان کے لئے بہت بڑا المیہ تھی مگر اسے انہوں نے روگ جاں نہ بنایا اور خود کو بچوں کی تربیت کے لئے وقف کردیا۔ اس نیک دل پارسا خاتون کی نیکی و تقویٰ کا اثر بچوں پر یہ پڑا کہ سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ جیسے قطب الارشاد زمانے کے امام بنے۔

    آپ کی والد ماجد کو یا تو بشارات ملی تھیں یا پھر انہوں نے اپنی قلبی بصیرت سے آپ کے چہرہ انور پر سیادت و ولایت کے آثار دیکھ لئے تھے۔ اسی لئے دیگر بچوں کی بنسبت آپ پر خصوصی توجہ مرکوز کردی۔ دیگر بچوں کی دیکھ بھال ان کی پھوپھی صاحبہ کرتی تھیں۔ یاد رہے کہ آپ کی دو بہنیں بھی تھیں، اس طرح آپ چار بہن بھائی تھے۔ مگر سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کی جملہ ضروریات کا خیال آپ کی والدہ ماجدہ ہی رکھتی تھیں۔ آپ کی چارپائی پر کسی اور کو بیٹھنے نہ دیا جاتا، کھانا علیحدہ تیار کیا جاتا، پانی پینے کے لئے گھڑا الگ رکھ لیا تھا۔ اس طرح بچپن ہی سے سوہنا سائیں نیکی و تقویٰ کے ساتھ پروان چڑھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کا وضو کا برتن بھی الگ کیا ہوا تھا۔ یعنی اس بات کا مکمل خیال رکھا گیا کہ کسی دوسرے کے استعمال والے برتن آپ کے استعمال میں نہ آئیں اور یہ سب کچھ والدہ نے اپنی خوشی سے کیا۔ یہی نہیں بلکہ آپ کے تمام امور اپنے ہاتھ سے انجام دیتیں۔ یہی سبب ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی اہل خانہ کی اجازت و خواہش پر مسجد میں نماز کے لئے حی الصلوۃ کی دلنواز صدا بلند کرنے لگے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی سے اپنے نام پاک کی سربلندی کا کام آپ سے لینا شروع کردیا۔

    اگرچہ بچپن سب بچوں کا ایک جیسا ہوتا ہے مگر آپ کا بچپن سب سے بختلف نظر آتا ہے۔ نہ فضول باتوں کی طرف توجہ ہے نہ لغو امور میں انہماک، نہ بے فائدہ کاموں کی طرف رغبت ہے نہ ہی ایذا رسانی و تکلیف دہی کی عادت ہے۔ غرض یہ کہ نیک صالح، محنتی، متوجہ الی اللہ، صوم و صلوۃ کے پابند، ایک معصوم بچہ کی صورت میں آپ کا بچپن ہماری نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ بعض اوقات بچے زبردستی آپ کو اپنے ساتھ لے جاتے اور آپ ان کی دلجوئی کی خاطر ساتھ چلے بھی جاتے، مگر ان کے کھیلوں میں قطعًا شریک نہ ہوتے اور سب سے الگ تھلگ بیٹھ کر ذکر جاناں یعنی محبوب حقیقی پیارے پروردگار کے ساتھ لو لگاتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ کھیل کود کے دوران عمومًا زیادتی ہوجاتی ہے، انصاف قائم نہیں رہتا، تو مجھے ان تمام امور سے سخت تکلیف ہوتی تھی۔ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی دیکھی نہیں جاتی تھی۔ اس لئے ان چیزوں سے دور ہی رہے۔ سبحان اللہ یہ مقربین بارگاہ الٰہی کی شان ہے کہ ان کی زندگی کا ہر گوشہ، ہر دور، خواہ عہد طفولیت ہو، عہد شباب ہو یا عہد پیری، ان کا ہر عہد انوار ولایت سے جگمگا رہا ہوتا ہے۔ ان کے ہر دور میں آثار ولایت ہویدا ہوتے ہیں۔ سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ تو مادرزاد ولی اللہ تھے، آپ کی زندگی کا ہر عہد کیوں نہ انوار ولایت سے جگمگائے گا۔ اور یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ جنہوں نے سیرت رسول عربی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بغور مطالعہ کیا ہے وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اللہ جن لوگوں سے اپنے دین کا انقلابی و تجدیدی کام لینا چاہتا ہے، انہیں مخلوق میں منفرد حیثیت عطا فرماتا ہے اور وہ سب سے مختلف ہی نظر آتے ہیں۔

    ابتدائی قرآنی، دینی اور ذراعت میں فائنل تک کی تعلیم آپ نے اپنے قصبہ خانواہن میں ہی حاصل کی۔ صغر سنی سے ہی آپ نہایت مؤدب تھے۔ اسکول میں تمام اساتذہ و ہم سبق آپ کے ادب و اخلاق سے انتہائی متاثر تھے۔

    ابتدائی تعلیم کے بعد آپ کی خواہش تھی کہ مزید علم دین درسِ نظامی حاصل کریں، لیکن معاشی و مالی مشکلات کی وجہ سے آپ نے گھریلو ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اس کے باوجود آپ فارغ وقت میں شوق مطالعہ پورا کرتے رہے۔ آپ کی صاحب بصیرت والدہ نے آپ کے ذوق و شوق کو دیکھ کر آپ کو بخوشی اجازت عطا فرمائی کہ آپ مزید تعلیم حاصل کریں اور گھر کی فکر نہ کریں۔ چنانچہ قریبی علاقہ میں کوئی معقول مدرسہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے گیریلو ضلع لاڑکانہ کے مدرسہ میں داخلہ لے لیا جو کہ تعلیمی لحاظ سے اچھی شہرت رکھتا تھا، جس کے مدرس اعلیٰ حضرت الحاج مولانا رضا محمد صاحب تھے جو کہ علم، تقویٰ و بزرگی کے لحاظ سے وقت کے جنید و غزالی تھے۔

    چند ہی روز میں نووارد، خاموش طبع، سنجیدہ مزاج، سادگی پسند، انتہائی مؤدب شاگرد سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اساتذہ کے دل میں گھر کرلیا۔ مدرسہ کے تمام منتظمین، اساتذہ اور طلباء سبھی آپ کے اخلاق کریمانہ سے بہت متاثر ہوئے، بالخصوص حضرت علامہ مولانا رضا محمد رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اپنے بچوں کی طرح اپنالیا اور تعلیمی و تنظیمی امور میں آپ پر خصوصی توجہ و شفقت فرمانے لگے۔

    اہل اللہ کا ہر دور ایک مجاہدہ ہوتا ہے، کیونکہ قدرت کی طرف سے انہیں سونے سے کندن بناکر رہنمائی کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے۔ سوہنا سائیں کی تو پوری حیات طیبہ سراسر مجاہدہ ہے جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ دوران تدریس بھی آپ پر کافی آزمائشیں آئیں، مگر آپ کے پائے ثبات میں ذرا بھی لغزش نہ آئی بلکہ وہ تکالیف آپ کے عزم میں مزید اضافہ کا سبب بنیں۔ کئی کئی وقت آپ بھوکے رہتے لیکن آپ نے کبھی دست سوال دراز نہ فرمایا اور توکل کی اعلیٰ مثال قائم فرمادی۔

    گیریلو خانواہن سے بہت دور ہے جس کا راستہ بھی بہت دشوار گذار ہے جو کہ بیچ دریا سے جاتا ہے۔ اس مدرسہ میں پڑھتے ہوئے بھی والدہ ماجدہ کا پورا خیال رکھا۔ ان کی ضروریات کی تکمیل کے لئے آپ گاہ بگاہ تشریف لاتے تو متوکل علی اللہ والدہ ماجدہ بسم اللہ جیسے پاکیزہ کلمات سے آپ کا خیر مقدم کرتیں۔ آپ بڑھ کر قدمبوسی کے لئے جھکتے۔ پھر آپ ان کے سامنے مؤدب ہوکر بیٹھ جاتے تو خیر و عافیت معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کو خوب خوب دعاؤں سے نوازتیں کہ خدا تجھے عالم و فاضل بنائے، طویل عمر اور اولاد صالح عطا فرمائے۔ اسی لئے تو آپ کے پیر و مرشد قیوم زمان سیدنا حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ اکثر فرماتے تھے کہ ”مولوی صاحب (سوہنا سائیں) کو والدہ کی دعاؤں نے رنگ دیا ہے“۔

    آپ کے استاد مولانا رضا محمد صاحب جو کہ آپ کو اپنے بچوں کی طرح چاہتے تھے، گیریلو سے مستعفیٰ ہوکر کنڈیارو آگئے تو آپ کو اپنے ساتھ ہی لیتے آئے۔ اس طرح کنڈیارو سے بھریا گئے تو بھی آپ کے اپنے ساتھ ہی رکھا۔ اس طرح آپ کے تعلیمی تسلسل میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ بعد میں آپ کے استاد محترم حجاز مقدسہ تشریف لے گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار فرمالی۔ طویل عرصہ گذرنے کے بعد جب کہ آپ مسند ارشاد پر متمکن تھے اور سالکان راہ طریقت کے دلوں میں قرب خداوندی اور عشق رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کے چراغ روشن کررہے تھے، آپ (سوہنا سائیں) حج بیت اللہ شریف کے لئے تشریف لے گئے تو اپنے استاد محترم سے بھی ملے۔ باوجود پیر طریقت ہونے کے استاد کا احترام ملحوظ رکھا، مگر صاحب بصیرت استاد نے آپ کے روحانی مقام و مرتبہ کو دیکھ کر باوجود انکار کے پورے اہل خانہ سمیت آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور اہل ارادت میں شامل ہوگئے۔

    آپ کی پاکیزہ خیالی اور شرم و حیا کا یہ حال تھا کہ دوران تدریس بھی بستی کی گلیوں سے گذرتے ہوئے چادر مبارک اوڑھے رکھتے کہ کہیں کسی نامحرم پر نظر نہ پڑجائے۔ گویا کہ طریقۂ عالیہ نقشبندیہ کے سبق ’نظر در قدم‘ پر طریقۂ عالیہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی عامل تھے۔

[ اوپر ]

بیعت اول

    بچپن ہی سے طبیعت مبارک تصوف کی طرف مائل تھی، چنانچہ آپ خود ارشاد فرماتے تھے کہ ”دوران تعلیم ہی میں نے طریقہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے بزرگ شیخ العرب و العجم حضرت خواجہ فضل علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ کے فیوضات کی باتیں سنیں، دل میں ارادہ کرلیا کہ ظاہری تعلیم سے فراغ کے بعد فورًا ہی طریقۂ عالیہ میں داخل ہوجاؤں گا۔“ چنانچہ 1354 ہجری میں شیخ العرب والعجم حضرت پیر فضل علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ کا کنڈیارو کے نزدیک ورود مسعود ہوا تو آپ کے پڑوسی اور مخلص دوست قاضی دین محمد صاحب نے جو حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے سے بیعت تھے، آپ کو اطلاع دی۔ آپ میں شوق تو پہلے سے موجود تھا اور طلب حق کی خوشبو کے تو آپ جویا تھے، دعوت ملتے ہی قاضی صاحب کے ساتھ آپ ہالانی تشریف لے جاکر حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ بیعت ہوتے ہی آپ پر وجد و جذبہ کی کیفیت طاری ہوگئی جو کافی دیر تک رہی۔ اور کیوں نہ ہوتی کیونکہ آپ کی خمیر ہی محبت سے اٹھا تھا۔

کچھ ہوش نہیں کہ ہوں میں کس عالم میں
ساقی نے یہ کیا پلا دیا ہے مجھ کو

خدا اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

    طریقت میں یہ آپ کا پہلا قدم تھا۔ اسی سال پنجاب میں جلال پور پیروالہ کے جلسہ میں حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری بار زیارت و ملاقات ہوئی۔ حضرت صاحب کی باطنی نگاہوں نے اس گوہرہائے یکتہ کو پہچانا اور بلاکر آپ کو طریقہ عالیہ نقشبندیہ کا دوسرا سبق لطیفہ روح عطا فرمایا اور خوب خوب خصوصی روحانی توجہات سے نوازا۔ ؎

کیا بتاؤں کہ کیا لیا میں نے
کیا کہوں میں کہ کیا دیا تونے

بے طلب جو ملا، ملا مجھ کو
بے غرض دیا، جو دیا تونے

    اس ملاقات کے بعد جلد ہی رمضان المبارک چاند رات کو بروز جمعرات 1354 ہجری کو حضرت پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ واصل بحق ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ شیخ العرب والجعم سے گو آپ کی صرف دو ہی ملاقاتیں ہوئیں، مگر ان دو ملاقاتوں میں آپ نے بہت کچھ اخذ کرلیا اور اہل اللہ کی باطنی توجہ نے اس گوہر یکتہ کو خوب پہچانا۔ وصال سے قبل شیخ العرب والعجم نے اپنی جماعت کے جملہ خلفاء کرام میں سے سب سے بہتر اور پرفیض خلیفہ جناب حضرت خواجہ محمد عبدالغفار المعروف پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کو اس ارشاد کے ساتھ سندھ بھیجا کہ آپ وہاں جائیں، یقینًا گوہر ہائے یکتہ و یگانہ ہاتھ آئے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حضور پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار عالیہ مسکین پور شریف پر ایک سندھی خاتون زہد و عبادت کے ساتھ ساتھ لنگر کی بے لوث خدمات انجام دیتی تھی۔ اس کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اس کی بے لوث خدمات پر خوش ہوکر ایک مرتبہ پیر قریشی رحمۃ اللہ علیہ نے بلاکر ارشاد فرمایا کہ مائی آپ کے اولاد بھی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ حضور اولاد تو نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کل تمہیں تعویذ دیں گے، انشاء اللہ تیری یہ امید بھی پوری ہوگی۔ مائی صاحبہ نے روتے ہوئے عرض کیا کہ حضور اولاد کے لئے نہیں بلکہ یہ دعا کرانے آئی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا، محبت و معرفت حاصل ہو۔ آپ نے یہ سنا تو بہت خوش ہوئے اور اس خوشی و شادمانی کے طور پر حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ سے ارشاد فرمایا کہ جس دھرتی کی خاتون ایسی ہے یقینًا وہاں سے آپ کو گوہر مقصود بھی ملے گا۔

    حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرشد کے وہ عاشق صادق خلیفہ تھے کہ جن کی سندھ میں آمد سے قبل سندھ کے مشہور لوڑھائی بزرگ نے پیشن گوئی فرمادی تھی کہ پنجاب سے سحاب رحمت آکر سندھ کی دھرتی کو باران رحمت سے خوب سیراب کردے گا۔

[ اوپر ]

بیعت دوئم

    شیخ العرب والعجم کے وصال پرملال کے بعد آپ نے اس سحاب رحمت یعنی حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر تجدید بیعت کی۔ سلوک و احسان کی منازل طے کرتے ہوئے قرب کا وہ مقام حاصل کیا کہ آپ کے مرشد بھی کہہ اٹھے کہ ”یہ سوہنا سائیں ہیں“، یعنی ظاہری و باطنی ہر لحاظ سے سوہنے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ کے شیخ کامل قیوم زمان نے اپنی زبان گوہر افشاں سے اپنے مرید صادق کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا کہ ”میرا دل چاہتا ہے کہ سونے کا محل بنواؤں، اس کی کھڑکی کے پاس مولوی صاحب (سوہنا سائیں) کو بٹھاؤں اور انہیں محبت سے دیکھتا رہوں“۔ ایک مرید صادق کے لئے اپنے مرشد عظیم کے یہ کلمات دنیا ومافیہا سے زیادہ بہتر اور سرمایہ عظیم ہیں۔ آپ اپنے مرشد کامل کی ذات میں مکمل طور پر فنا تھے۔ آپ کی حیات مبارکہ محبت مرشد کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ آپ کی ہر ہر ادا میں اسی محبوب کی جلوہ گری تھی، بقول شخصے

اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا ثبوت زندگی
میرے سارے جسم و جاں میں کار فرما آپ ہیں

    محبت مرشد راہ سلوک میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ محبت قرب حق کا پہلا زینہ اور مسافران بحر عشق کا عظیم سفینہ ہے۔ اس کے بغیر گرداب بلا میں پھنسا ہوا بیڑا ہم آغوش ساحل نہیں ہوسکتا، بقول اقبال

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دین بتکدہ تصورات

    آپ نے اپنے مرشد کی محبت میں بہت زیادہ کلام بے بدل کہا جو سندھی شاعری میں ایک زبردست سرمایہ ہے، جو اس وقت ”کلام ولی“ کے نام سے کتابی صورت میں طاہری پبلیکیشن سے دستیاب ہے۔

    جملہ جماعت غفاریہ میں آپ نے ہی اپنے مرشد کے درد جو سمجھا، اسے اپنایا اور اسے عام کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادی اور اپنا سب کچھ جماعت کے لئے وقف کردیا۔ پوری جماعت آپ کے اخلاق نبوی، مرشد سے وفاداری، بے مثال قربانی، حلم و حیا، ادب، تڑپ، شوق اور صداقت کو دیکھ کر بڑے سائیں اور سوہنا سائیں کہتی، بلکہ آپ کے مرشد بھی آپ کو بڑے مولوی صاحب، بڑے خلیفہ صاحب کے نام سے یاد فرماتے۔ آپ نے اپنے مرشد کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں اور سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والا بے مثال کردار ادا کیا۔ مرشد سے آپ کے عشق و محبت اور فداکاری کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ قطب الارشاد حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ آپ درگاہ عاشق آباد چنی گوٹھ پنجاب چناب ایکسپریس میں جارہے تھے، اس وقت چناب ایکسپریس چنی گوٹھ پر نہیں رکتی تھی۔ چلتی ٹرین میں باہم گفتگو ہو رہی تھی کہ اب ڈیرہ نواب اسٹیشن اترکر پیدل درگاہ عاشق آباد تک جانا ہوگا۔ (پنجاب میں حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مرکز تھا) فاصلہ بھی کافی ہے اور حضور کے لئے سواری کا انتظام بھی نہیں۔ مرید صادق کے لئے اتنا زیادہ فاصلہ مرشد کا پیدل چل کر جانا کب گوارا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی ٹرین چنی گوٹھ اسٹیشن پر پہنچی تو مرید صادق سوہنا سائیں علیہ الرحمۃ نے یہ کہتے ہوئے کہ میں حضور کی سواری کا انتظام کرنے جارہا ہوں، تیز چلتی ٹرین سے نیچے چھلانگ لگادی اور رات کے اندھیرے میں گم ہوگئے۔ پوری حاضر جماعت آپ کی جان نثاری سے متاثر ہوئی، وہیں پریشان بھی تھی کہ تیز چلتی ٹرین سے چھلانگ لگاکر بچ جانا کار داد ہے۔ مگر جب جملہ جماعت ڈیرہ نواب اسٹیشن پر اتری تو رات باقی تھی، چنانچہ مسجد شریف چلے گئے۔ صبح نماز فجر پر سب نے دیکھا کہ جان نثار مرید صادق عاشق آباد سے اپنے شیخ کامل کے لئے سواری لے کر حاضر خدمت ہیں۔

[ اوپر ]

خلافت اور بشارات

    آپ کے مرشد کریم نے آپ کی فداکاری، جان نثاری، عظیم خدمات اور عظیم روحانی استعداد اور سلوک و احسان میں اعلیٰ ترین مقام کو دیکھتے ہوئے جملہ خلفاء میں سے صرف اور صرف آپ کو خلافت مطلقہ عطا فرمائی اور تحریرًا اجازت نامہ نقشبندیہ مجددیہ فضلیہ عطا فرمایا جو بہ زبان فارسی ہے۔ مگر استاد العلماء حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب مدیر رسالہ ’الطاہر‘ نے اس کا اردو ترجمہ فرمایا ہے۔ یہاں مختصرًا ایک آدھ پیرا دیا جاتا ہے۔

    ”پس اس عاجز لاشئ سے برادر طریقت جناب مولانا مولوی اللہ بخش صاحب عباسی سندھی نے علم سلوک، جذب حالات اور واردات صحیحہ حاصل کئے اور دائرہ لاتعین تک طریقہ عالیہ کی تعلیم کی تکمیل کی۔ میں نے ضرورت کے تحت طالبان مولا کے فائدہ اور اسلام کی تبلیغ کے لئے ان کو اسم ذات اور علم سلوک کی تعلیم کی اجازت مطلقہ دے دی ہے۔ یہ تبلیغی ادارہ محض رضائے الٰہی کے لئے قائم کیا گیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اگر میں (اس دنیا میں) نہ رہا، یہ رہیں گے۔ لہٰذا اس ادارہ کے قائم رکھنے کے لئے تمام حضرات خلفاء کرام میں سے مولانا موصوف کو زیادہ لائق، صاحب نسبت و اطاعت اور صاحب کمالات و برکات جان کر اپنے قائم مقام مقرر کرتا ہوں۔ چاہیئے کہ حضرات خلفاء کرام، جملہ جماعت ان سے بیعت ہوکر طریقہ عالیہ کے فیوض و برکات حاصل کریں اور رضائے الٰہی کی خاطر تبلیغ اور طریقہ عالیہ کی اشاعت کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔“

    اس کے علاوہ حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی موجودگی میں آپ کو اپنے مصلے پر کھڑا کیا اور خود ایک مقتدی کی حیثیت سے آپ کی امامت میں نماز ادا فرمائی۔ مزید ارشاد فرمایا کہ آپ ہی ہمیشہ امامت کرایا کریں۔ مگر لنگر کی خدمات اور تبلیغی مصروفیات کے پیش نظر آپ کی معذرت قبول فرمالی۔ یہی نہیں بلکہ کئی مواقع پر اپنی موجودگی میں آپ سے دوسروں کو ذکر بھی دلایا اور آپ سے حلقہ ذکر بھی کرایا۔

    حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تمام خلفاء کرام سے متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا کہ ”تم لوگوں پر ان مولوی صاحب (سوہنا سائیں) کا احسان ہے کہ یہ مجھے سندھ میں لائے“۔ اسی طرح آپ نے اپنے مرید عاشق صادق سے متعلق ارشاد فرمایا کہ”کل قیامت کے روز جب میرا پیر مجھ سے پوچھے گا کہ سندھ میں تم نے کیا کام کیا تو میں کہوں گا حضور میرا شکار (میری محنت کا ثمر) تو یہ مولوی صاحب (سوہنا سائیں) ہی ہیں“۔

    اسی طرح جناب خلیفہ سید محمد مٹھل صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ ایک مرتبہ پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ مولوی صاحب (سوہنا سائیں) نے اپنی محبت کے جال میں مجھے پھنسا لیا ہے، یہ میرے وفادار ساتھی ہیں، یہ طریقت کے شیر ہیں، میں ان کی وجہ سے یہاں سندھ میں ٹھہرا ہوا ہوں، میرے بعد یہی طریقہ عالیہ کو چلائیں گے“۔ اور یہ سب مقام و مرتبہ بے لوث خدمت کی وجہ سے ہی آپ کو حاصلہ ہوا۔

    جہاں مرشد کی خدمت قرب خداوندی کا ذریعہ بنی وہیں آپ نے فقراء کی خدمت بھی سعادت سمجھ کر کی۔ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ بعد نماز عشاء جب سب لیٹ جاتے، آپ اٹھ کر مسجد میں آتے اور بوڑھے ضعیف مسافروں کے ہاتھ پاؤں دباتے تاکہ انہیں آرام ملے۔ فارسی کا مقولہ ہے کہ ”ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد“ یعنی جو خدمت کرتا ہے وہی مخدوم بنتا ہے۔ چونکہ آپ نے خدمت کو شعار بنایا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخدومیت عطا فرمائی۔ ہم متعلقین صاحبان نسبت فقراء کے لئے مقام فکر ہے کہ مرشد کے طریقہ کو اپنائیں اور خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔

    آپ تیس برس تک اپنے مرشد کی صحبت بابرکت میں رہے اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج طے کئے۔ حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد پوری جماعت غفاریہ کے لئے آپ سحاب رحمت ثابت ہوئے۔ جمیع جماعت نے آپ کے دست حق پرست پر تجدید بیعت کرکے اس غفاری قافلے کو جاری و ساری رکھا۔ بعد وصال مرشد بھی آپ نے اپنے پیر خانہ کا ادب ملحوظ رکھا۔ آپ کے پیارے خلیفہ جناب فتح محمد بیدار مورائی صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک فقیر نے عصا کا نچلا حصہیعنی اس کی نوک زمین پر رکھتے ہوئے بے خیالی میں رحمت پور شریف کی طرف کردی۔ آپ نے جلدی سے اس کا رخ موڑ کر فرمایا کہ اس طرف میرے شیخ کا مزار ہے۔ اس سمت نوک کرنا ہمیں گوارا نہیں۔

    آپ نے اپنے مرشد مربی کے فیض کو عام کرنے کے لئے جس خوش اسلوبی سے شریعت و طریقت کی خدمت کی، دور حاضر میں اس کی مثال ملنا محال ہے۔ استاذ العلماء حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب مدظلہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’سیرتِ ولیِ کامل‘ میں تحریر فرماتے ہیں ”حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت قبلہ سوہنا سائیں کو شروع ہی سے متبع سنت، مشائخ طریقت سے بیعت، صحبت، باطنی علوم و معارف اور اعلیٰ تربیت ارزاں فرماکر تبلیغ و اشاعت اسلام اور اصلاح امت کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ مزید برآں کہ اس اہم ذمہ داری کو سنبھالنے سے پہلے حضرت قبلہ پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ کئی سال تک مسلسل تبلیغ کے ساتھ ساتھ جماعت کے انتظامی امور میں کمال تجربہ و مہارت سے نواز کر آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں کو اجاگر فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی مسند نشینی کی صورت میں غیر معمولی تبلیغی اصلاحی ذمہ داریاں آپ کے ذمہ عائد ہوئیں، تو آپ نے نہ فقط یہ کہ حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے جاری کردہ تبلیغی و اصلاحی مشن کو جاری رکھا بلکہ اس قدر حسن و خوبی سے اس میں عمدہ اور مفید اضافے فرمائے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے“۔

    آپ نے ہر قسم کے ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات سے بالاتر ہوکر تمام نوع انسانی کے لئے محبت و شفقت اور توجہ و عنایت کے پرفیض چشمے جاری کئے جو الحمدللہ اب بھی جاری ہیں اور ہمیشہ جاری و ساری رہیں گے۔

نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے

    آپ کو اللہ تعالیٰ نے خوب نوازا تھا۔ ارباب اقتدار و ثروت کاسۂ گدائی لئے آپ کے در پر موجود رہتے، مگر آپ نے اہل دنیا و دنیا کو پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں دی۔ بلکہ ببانگ دہل بڑے بڑے اجتماعات میں آپ ارشاد فرماتے کہ ہمیں تمہاری دنیا کی ضرورت نہیں، ہمیں نوٹ، ووٹ اور روٹ (روٹی) نہیں چاہیئے، ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے، ہم نے دنیا کو سو طلاقیں دے دی ہیں۔ آپ ہمیشہ عام لوگوں کے ساتھ رہے، ان کے دکھ کو اپنا دکھ اور ان کے سکھ کو اپنا سکھ سمجھا۔ اپنا رہن سہن اور بود وباش بھی عام فقراء سے کبھی بلند نہ کیا۔ سادگی آپ کی فطرت سلیمہ تھی۔ تمام حالات و معاملات میں سادگی کا پہلو نمایاں نظر آتا تھا۔ آپ عمومًا ٹرین سے سفر کرنا پسند فرماتے تھے اور وہ بھی عام بوگی میں جو اس وقت تھرڈ کلاس کہلاتی تھی۔ ایک مرتبہ نوڈیرو سے واپسی پر ٹرین میں بہت زیادہ رش تھا جب کہ آپ کے ساتھ کافی فقراء بھی تھے۔ باوجود کوشش کے آپ کے بیٹھنے کے لئے سیٹ نہ ملی، بالآخر بمشکل برتھ پر بیٹھنے کی جگہ ملی اور آپ اس پر تشریف فرما ہوگئے۔ فقراء کو اس بات کا افسوس ہورہا تھا کہ حضور قبلہ عالم کو سیٹ نہ مل سکی۔ جب ٹرین لاڑکانہ اسٹیشن پہنچی تو آپ کے لئے سیکنڈ کلاس کی ٹکٹ حاصل کی گئی اور آپ سے گذارش کی گئی کہ حضور تشریف لے چلیں۔ بمشکل آپ رضامند ہوئے اور سیکنڈ کلاس میں تشریف فرما ہونے کے بعد ارشاد فرمایا پہلے والا ڈبہ غریبوں، مسکینوں کا تھا، میرے آقا و مولیٰ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم غریبوں کے ساتھ بیٹھنے کو زیادہ پسند فرماتے تھے۔ اس لئے اس عاجز کو بھی غریبوں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے فرحت و راحت محسوس ہوتی ہے۔ آپ حضرات کے مجبور کرنے پر یہاں آیا ہوں ورنہ عاجز بڑے آدمیوں کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔

    آپ کی دعوت کے محور جہاں عوام الناس تھے وہیں آپ نے خواص بالخصوص علماء کے گروہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ کیونکہ آپ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ جہاں عمائدین سلطنت کی اصلاح معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے تو علماء کی اصلاح اس سے کہیں زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے دینی مراکز و مدارس قائم کئے۔ علماء کے ساتھ ساتھ اساتذہ پر بھی توجہ مرکوز کی کیونکہ یہ بھی اصلاح معاشرہ میں اہم حیثیت کے حامل ہیں۔ اور نوجوان تو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، معاشرے کی تعمیر و تخریب میں نوجوانوں کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ ہر طبقہ نے نوجوانوں کو محض اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا، مگر آپ نے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر نہایت درد مندی اور دلسوزی کے ساتھ نوجوانوں پر اپنی خاص توجہ مرکوز کی تو انہیں شمع محمدی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پروانہ بنادیا۔ ان کے قلوب کو عشق خدا و مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم سے گرمایا تو نوجوان آپ کے لشکر کا ہراول دستہ قرار پائے۔ روحانی طلبہ جماعت کے نام سے تنظیم قائم کرکے انہیں ایک مربوط نظام عطا کردیا۔

[ اوپر ]

مراکز کا قیام

   حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ نے فقراء کو مرکزیت فراہم کرنے اور ان کی روحانی و اخلاقی بالیدگی کے لئے ایسے مرکز کی ضرورت محسوس کی جہاں پہنچنا ہر ایک کے لئے ممکن ہو۔ چونکہ آپ کی تبلیغ سب سے زیادہ اندرون سندھ تھی، بالخصوص اپنے علاقے کی طرف، اس لئے مرکز کی جستجو بھی اسی طرف ہوئی اور متفقہ فیصلے کے بعد ثواب پور تحصیل کنڈیارو کے قریب مرکز بنانے کا فیصلہ ہوا۔ مگر ابھی عملی جامہ پہنانا تھا کہ درگاہ رحمت پور شریف پر محترم خلیفہ حضرت مولانا عبدالرحمان لانگری صاحب کو حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی، آپ نے ارشاد فرمایا کہ مولوی صاحب سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کو میرا پیغام پہنچائیں کہ رادھن میں قیام کریں، ہمارے پاس آنے جانے میں سہولت رہے گی۔ مرشد پاک کا ارشاد سنتے ہی آپ نے اس علاقہ میں رادھن کے قریب سن 1384 ہجری میں درگاہ فقیرپور شریف کی بنیاد رکھی جو کہ خالص تقویٰ اور رضائے الٰہی پر رکھی گئی۔ اس لئے اس کی تعمیر میں حضور قبلہ عالم سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ آپ کے خلفاء کرام، فقراء حضرات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حضور قبلہ عالم خود گارے کی تغاری سر مبارک اٹھاتے۔ فقراء عرض کرتے کہ حضور آپ تشریف رکھیں ہم کام کر لیں گے، مگر آپ ارشاد فرماتے کہ کیا آپ لوگوں کو ثواب کی زیادہ ضرورت ہے مجھے نہیں؟ ہاں یہی تو سیرت و سنت نبوی کا عملی نمونہ ہے، یہی قیادت تو انتہائی مؤثر ہوتی ہے۔ مسجد کے ساتھ ساتھ فقراء اہل ذکر کے مکانات بھی بنے جو کچے تھے۔ ساتھ ہی آپ کے لئے بھی مکان بنایا گیا جو کچا ہی تھا، تا ہنوز اسی صورت میں موجود ہے۔

    درگاہ کی تعمیر کے وقت کئی کرامات کا ظہور ہوا، جن میں سے ایک یہ ہے کہ درگاہ کے قریب عارف شہید رحمۃ اللہ علیہ قبرستان ہے جہاں وقت کے کامل بزرگ حضرت عارف شہید رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک ہے۔ اس کا مجاور فقراء کو بہت تنگ کرتا، نازیبا کلمات کہتا اور نماز پڑھنے سے بھی روکتا۔ فقیر چاہتے کہ اسے جواب دیں مگر آپ نے خاموشی کا امر فرمایا۔ بالآخر اس کی نازیبا حرکات شدت اختیار کرگئیں۔ ایک روز فقیروں نے دیکھا کہ وہ زخمی ہے، بدن پر مار کے نشانات بھی ہیں، وہ درگاہ پر آیا اور حضور کا پوچھا۔ آپ اس وقت بسلسلہ تبلیغ کھوندی نام کی بستی میں گئے ہوئے تھے۔ فقیروں نے اسے بتایا تو اس نے پاؤں پر پٹی باندھی اور سیدھا کھوندی پہنچ کر حضور قبلہ عالم کے قدموں میں گرا اور معافی مانگتے ہوئے کہنے لگا یہی بزرگ تھے جو مجھے چھڑا رہے تھے۔ پھر اس نے بتایا کہ حضور میں رات کو سویا تو حضرت عارف شہید رحمۃ اللہ علیہ آپ کے ساتھ تشریف لائے، ان کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا جس سے انہوں نے میری پٹائی شروع کردی اور فرماتے جاتے کہ میں ہی عارف شہید ہوں، یہ میرے پڑوس میں آباد ہوئے ہیں، تم ان کو تنگ کرتے ہو۔ ساتھ ہی فرمایا کہ اگر ان حرکتوں سے باز نہیں آئے تو مزید سزا دی جائے گی۔ حضور وہ بزرگ فرماتے ہیں تو آپ چھڑاتے ہیں، اسی میں میری آنکھ کھل جاتی ہے، دیکھتا ہوں کہ بدن پر مار کے نشانات ہیں۔ صبح کو اٹھ کر لکڑیاں کاٹنے جاتا ہوں تو کلہاڑا اچٹ کر پاؤں پر پڑتا ہے جس سے پاؤں شدید زخمی ہوجاتا ہے، حضور مجھے معاف فرمائیں اور غلامی میں داخل فرمائیں۔ یہ کہہ کر دست بیعت ہوا۔

    جس طرح درگاہ رحمت پور شریف کے لئے قواعد و ضوابط بنائے گئے تھے، درگاہ فقیر پور شریف کے لئے بھی وہی رکھے گئے۔ آپ نے یہاں ہر مہینے گیارہویں شریف کا جلسہ رکھا جو کہ تاہنوز جاری ہے۔ اسی طرح دو عرسوں میں سے ایک عرس بھی حسب معمول وہاں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنی زیر قیادت دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی جس میں درس نظامی کی تحصیل ہوتی ہے۔ مدرسہ کو شروع کرنے کے لئے باقاعدہ عالم کا انتظام کیا گیا جنہوں نے محض رضائے الٰہی کی بنا پر اس سادہ اور پرخلوص ماحول میں علم کی آبیاری کی۔ چونکہ اس کی بنیاد خالص للٰہیت پر قائم تھی تو تائید خداوندی کے ساتھ اس سادہ سے مدرسہ سے فارغ ہونے والے علماء کرام اہل تقویٰ و باخدا بنے اور کئی افراد کو باخدا بنارہے ہیں۔ اس مرکز سے آپ کا رابطہ اندرون سندھ مستحکم ہوا، ریلوے لائین نے اس میں مزید آسانی پیدا کردی۔ یہیں سے آپ نے اپنے کام کو مرکزیت بخشی۔ اس کے باوجود دور والوں کے لئے مسئلہ بنا تھا کہ وہ جلد جلد نہیں جاسکتے تھے۔ آپ بھی اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ مذکورہ علاقوں میں جہاں مسلمان دین سے بے بہرہ ہیں وہیں غیر مسلم و بے دین قوتیں ہوشیار و بیدار ہیں اور اپنی اخلاقی طاقت و سرمائے سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں سرگرم ہیں۔ آپ شروع سے ہی ان علاقوں میں بسلسلہ تبلیغ آتے رہتے تھے اور حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بھی تشریف لائے۔ بالخصوص ٹنڈوالہیار سے 9 کلومیٹر دور چمبڑ روڈ پر واقع خان محمد بوزدار نامی بستی اور اس کے گرد و نواح کے علاقے کو حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے معتدل آب و ہوا کی وجہ سے پسند فرمایا تھا۔ آپ بھی بغرض تبلیغ بوزدار فقراء کی بستی تشریف لائے۔ یہاں کے احباب اہل ذکر بڑی محبت والے تھے، انہوں نے یہاں کی غریب آبادی کو دیکھتے ہوئے مرکز کی تجویز پیش کی تاکہ عام و خاص سبھی مستفیض ہو سکیں۔ آپ نے ان کے اخلاص اور محبت کو دیکھتے ہوئے بالخصوص اس بات کے پیش نظر کہ یہاں مرکز کے قیام سے کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص، بدین، سانگھڑ اور گرد و نواح کے علاقہ جات میں سلسلہ عالیہ کا کام زیادہ بہتر انداز سے ہوگا، مرکز کے قیام کی منظوری دے دی۔ چمبڑ روڈ سے متصل جارکی موری کے بالمقابل 1392 ہجری کو مرکز عالیہ طاہر آباد شریف کا قیام عمل میں آیا جہان آپ اخیر عمر مبارک تک ہر سال جون تا اگست تشریف فرما ہوتے۔ ہر پندرہ دن بعد باقاعدہ جلسہ ہوتا، قرب و جوار کی کثیر جماعت شریک ہوتی۔ یہاں بھی آپ نے دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی تاکہ اس علاقے کے لوگ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں۔ آج بھی آپ کے حقیقی وارث و جانشین حضرت سجن سائیں مدظلہ گاہ بگاہ یہاں تشریف فرما ہوتے ہیں۔

    اسی طرح نوابشاہ، قاضی احمد، مورو، سکھر، جیکب آباد، شکارپور، کوئٹہ، بلوچستان اور  پنجاب کی پوری پٹی سرحد تک آپ کی نظر میں تھی۔ آپ کا آبائی علاقہ خانواہن بھی اسی پٹی پر تھا۔ ابتدا میں اسی پٹی پر مرکز بنانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ یہاں کے فقراء اہل ذکر بڑی محبت والے تھے، ان کی بڑی خواہش تھی کہ یہاں مرکز بنے۔ بالآخر ان کی پر خلوص کوشش رنگ لائی۔ آپ کے مخلص ساتھی اور خلیفہ جناب محترم ڈاکٹر عبداللطیف چنہ رحمۃ اللہ علیہ نے استدعا کی تو دیگر خلفاء کرام سے مشورہ کے بعد کنڈیارو شہر سے متصل قومی شاہراہ کے ساتھ مرکز بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور اللہ آباد شریف کے نام سے اس کی بنیاد رکھی گئی، جو الحمد للہ اس وقت حضرت صاحب کے سب سے بڑے مرکز کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ یہاں کے مدرسہ کی خوبصورت عمارت طلباء میں پڑھنے کا شوق پیدا کرتی ہے۔ ہر سال یہاں سے سالانہ عرس مبارک کے موقع پر کئی علماء و حفاظ کی دستاربندی ہوتی ہے، جو ملک کے طول و عرض میں پھیل کر اشاعت سلسلہ عالیہ و تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اس مرکز سے آپ کے پیغام کو زبردست تقویت حاصل ہوئی۔ کراچی سے خیبر تک کا کثیر حصہ اس کے زیر اثر آگیا۔

[ اوپر ]

تبلیغی کاوشیں

    ان مراکز کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں آپ نے خلفاء و مبلغین کے وفود بھیجے جنہوں نے نبوی میراث تقسیم کرنے کا فریضہ انجام دیا اور دے رہے ہیں۔ انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں مراکز و مدارس قائم کئے جہاں سے مخلوق خدا کسب فیض کررہی ہے، جہاں مکمل نظام مصطفیٰ نافذ ہے۔ بین الاقوامی شہر کراچی کہ جس کو ہر ایک نے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، میرے مرشد نے وہاں کے مختلف علاقوں میں مراکز قائم فرماکر محبت خداوندی کے پیاسوں کے لئے سامان کردیا۔ اپنے قائم شدہ مراکز پر رونق افروز ہوکر آپ نے مخلوق خدا کی جس طرح رہنمائی فرمائی، اس نے ماسلف مشائخ کی یاد تازہ کردی۔ یہاں تشنگان معرفت روزانہ بیسیوں کی تعداد میں جوق در جوق آتے اور کسب کمال حاصل کرتے، جن کے لنگر کا انتظام مرکز کی طرف سے ہوتا ہے جو للہ فی اللہ جاری و ساری ہے۔ ان مراکز سے آپ نے ملک و بیرون ملک خلفاء و مبلغین کے مختلف وفود وقتًا فوقتًا روانہ کرنے شروع کردیئے، جن کو ہدایات بذریعہ خط و کتابت دی جاتیں اور وہ وفود بالمشافہ با بذریعہ خط و کتابت حالات، واقعات و فوائد سے آگاہ کرتے۔ اگر کوئی مبلغ بذات خود تبلیغی کاوشوں سے آگاہ کررہا ہوتا تو آپ کا چہرہ مبارک خوشی سے دمک رہا ہوتا۔ آپ اکثر فرماتے کہ تبلیغی حالات بیشک تفصیل سے لکھا کریں، اس میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں۔ ان مبلغین کو ایک مربوط نظام دینے کے لئے وقت کے تقاضوں کے عین مطابق آپ نے 1971ء کو ادارہ تبلیغ روحانیہ و جماعت اصلاح المسلمین کے نام سے تنظیم قائم فرمائی، جسے ملکی قوانین کے تحت رجسٹرڈ بھی کرایا گیا، جو الحمد للہ اب بھی حضور محبوب سجن سائیں دامت برکاتہم العالیہ کی زیر قیادت ترقی کررہی ہے۔

    اسی طرح آپ کے قائم کردہ مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کو ”جمعیت علماء روحانیہ غفاریہ“ نامی تنظیم کے ذریعے منظم فرمایا جو کہ تاحال ملک کے مختلف علاقوں میں اصلاح امت کا کام کررہے ہیں۔

    جدید علوم و فنون سے بہرہ ور کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء پر خصوصی توجہ عنایت فرمائی، کیونکہ معاشرے میں ان کا کردار بہت زیادہ اہم ہے۔ جب نوجوانوں نے آپ کی پردرد صدا سنی تو لبیک کہتے ہوئے دیوانہ وار لپکے اور آپ کے زیر سایہ عشق مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کے اسلحہ سے لیس ہوکر روحانی طلبہ جماعت کے پلیٹ فارم سے باطل قوتوں کے خلاف برسر پیکار ہوگئے اور ہیں۔

    آپ کو اپنے رب سے خاص تعلق تھا، کوئی لمحہ بھی اس مالک حقیقی کی یاد سے خالی نہ گذرتا۔ آپ اپنی ہر محفل و مجلس میں فرماتے ”جو دم غافل وہ دم کافر“۔ اکثر فرماتے

میں ذاکر ہوں خدا کے نام پر گردن کٹادوں گا
جہاں سے ظلمت و باطل کو یکسر سے مٹادوں گا

    اسی تعلق مع اللہ اور عشق مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت نے آپ کے قلب و نظر میں کشش و جاذبیت اور تسخیر و تاثیر کی بے پناہ کیمیا اثر خاصیت پیدا کردی تھی۔ اسی نگاہ کیمیا اثر سے آپ نے ہزاروں قلوب کو معرفت خداوندی کے نور سے معمور کردیا۔ ؎

نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

    ہزاروں فاسق و فاجر، چور، ڈاکو، زانی آئے۔ آپ کی نگاہ کیمیا اثر کی تاثیر سے ان کی زندگی کا نقشہ بدل گیا۔ آج الحمد للہ وہ مبلغ اسلام و تہجد گذار ہیں۔ کئی افراد ان کی نیکی و تقویٰ کی وجہ سے برائیوں سے تائب ہوکر نیکوکار بن چکے ہیں۔

    آپ کا طریقۂ ذکر یہ تھا کہ مردوں کے قلوب پر انگلی رکھ کر انہیں ذکر قلبی کی تلقین فرماتے اور خواتین کو صرف لاؤڈ اسپیکر پر مسجد میں بیٹھ کر نصیحت فرماتے۔ آپ پردے کے سخت پابند تھے اور یہ پابندی آپ کی قائم کردہ بستیوں میں بھی تھی۔ کوئی سات سال سے زیادہ عمر کی بچی بے پردہ نظر نہ آتی اور نہ ہی کوئی سات آٹھ سال سے زیادہ عمر کا بچہ عورتوں میں جاسکتا۔ آج بھی یہی طریقہ رائج ہے۔

    آپ ذکر کا طریقہ بتا رہے ہیں کہ نووارد افراد میں سے ایک نے بے باکی سے عرض کیا کہ حضرت یہ دل تو انتہائی سخت ہے، اس پر تو کلہاڑی کے وار کئے جائیں تو شاید کچھ اثر ہو، انگلی اس پر کیا اثر کرے گی؟ آپ نے چشم کرم سے اس کی طرف دیکھا، نصیحت فرمائی اور اپنے دولت خانہ پر تشریف لے گئے۔ بس آپ کے جاتے ہی اس نووارد پر گریہ کی کیفیت طاری ہوئی اور بڑی شدت سے ہوئی، جو کافی دیر تک رہی۔ جب اسے کچھ قرار آیا تو اس کے دل کی دنیا بدل چکی تھی۔ وہ دل جو بے انتہا سخت تھا، خدا و رسول کی محبت کے درد سے لبریز ہوگیا تھا۔ کسی ساتھی نے کہا کہ بتاؤ بھئی انگلی نے اثر کیا یا نہیں؟ اس نے کہا سائیں انگلی نے تو کلہاڑی سے بھی زیادہ اثر کیا۔ بعد میں اس نے بتایا کہ میں تو ایک ڈاکو تھا، میرے ہاتھوں کئی افراد قتل ہوئے، میرا دل انتہائی سخت ہوچکا تھا۔ آج الحمدللہ وہ تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دے رہا ہے، ؎

تیری نگاہ سے پتھر کے دل پگھل جائیں
جو آنکھ اٹھائے تو شام و سحر بدل جائیں

    یہ تو عاجز نے ایک واقعہ رقم کیا ہے ورنہ اس قسم کے واقعات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کئی دفتر تیار ہوجائیں۔

    آپ کثیر الکرامت ہستی تھے۔ آپ کی سب سے بڑی کرامت تو یہ تھی کہ جو بھی آپ کی صحبت، مجلس میں آیا، اسے ذکر و فکر کی لذت سے آشنا کردیا۔ بے شمار فاسق و فاجر تائب ہوکر مؤمنانہ زندگی گذارنے لگے جن کو دیکھ کر اور افراد بھی فسق و فجور سے تائب ہوئے۔ یعنی آپ نے لوہے کو سونا نہیں بلکہ پارس بنادیا۔ ہزاروں گم گشتگان راہ کو صراط مستقیم پر گامزن کردیا۔ کئی غیر مسلموں کو اپنی نگاہ ناز سے دولت اسلام سے مشرف فرمادیا۔ کئی بدعقیدہ افراد اپنے برے عقائد سے تائب ہوکر صحیح العقیدہ زندگی گذارنے لگے۔ بارہا جسمانی عوارضات آپ کے آڑے آئے مگر آپ کسی کو خاطر میں نہ لائے۔ آپ کے کانوں میں مسلسل رسالت مآب صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز آتی کہ قریشی! اٹھو میری امت کی خبر لو۔ آپ کی شبانہ روز کاوشوں کا یہ ثمر ملا کہ رسالت مآب صلّی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ بشارت ملی کہ ہم آپ کے کام سے بہت خوش ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کی کاوشوں کو قبول فرمالیا ہے اور آپ کی جماعت کو بخشش کا پروانہ دے دیا گیا ہے۔

    حضور کے پیارے خلیفہ حضرت حاجی خیر محمد عباسی صاحب بتاتے ہیں کہ عاجز جب عمرہ و حج کے لئے گیا اور مدینہ منورہ مسجد نبوی میں روضۂ رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کئے بیٹھا تھا کہ اسی دوران غنودگی طاری ہوگئی۔ دیکھتا ہوں کہ روضہ انور کا دروازہ کھلا ہے اور میرے مرشد محبوب سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ اندر تشریف لے جارہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ باہر تشریف لائے اور مجھے بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔ اندر نورانی تخت پر حضور صلّی اللہ علیہ وسلم مع اپنے خلفاء کے رونق افروز ہیں اور ایک کثیر مجمع ہے۔ ہر ایک اپنی کارکردگی حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرتا ہے۔ آپ انہیں ملاحظہ فرماتے ہیں اور ان پر نوٹ لگاکر اپنے دستخط فرماتے ہیں۔ جب حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کی باری آئی تو آپ نے بڑے بڑے بنڈل حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے۔ آپ نے بغیر جانچے کھولے ان پر دستخط فرمادیئے اور فرمایا کہ ”ہم آپ سے اور آپ کی جماعت سے بہت خوش ہیں، اس لئے یہ سب قبول کئے جاتے ہیں“۔ اس کے بعد حاجی صاحب کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ آپ بڑے خوش ہوئے اور حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کو اس خواب کی مکمل تفصیل لکھی۔

    ایک مرتبہ آپ سول اسپتال جامشورو میں داخل تھے، جہاں آپ کا آپریشن ہوا تھا۔ بعد آپریشن جیسے ہی ہوش میں آئے نماز کے متعلق پوچھا اور اس حالت میں بھی آپ نے رفقاء کی مدد سے نماز باجماعت اور عمامہ کی سنت کو ادا فرمایا۔ آپ کی تاثیر دعا کا یہ عالم تھا کہ جس کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اس کی تقدیر بدل گئی۔ اسی ہسپتال کے دوسرے کمرے میں کوئی اور مریض زیر علاج تھا۔ ایک روز اس کمرے سے رونے کی آواز آئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ ہمارا مریض سخت تکلیف میں ہے، برائے کرم آپ چل کر اس کے لئے دعا فرمائیں۔ رفقاء میں سے ایک نے اس شخص سے کہا کہ حضرت کا آپریشن ہوا ہے، ڈاکٹروں نے بستر سے اٹھنے سے بھی منع کردیا ہے، آپ حضرت صاحب کو تکلیف نہ دیں۔ آپ نے فرمایا نہیں ہم اس کے پاس جائیں گے، اور آپ اپنی تکلیف فراموش کرکے دو فقراء کا سہارا لے کر پاؤں گھسٹنے کی سی کیفیت میں اس کے کمرے میں آئے اور اس کے لئے دعا فرمائی، حتیٰ کہ اس شخص کی تکلیف رفع ہوگئی۔

    آپ کی بے شمار کرامات میں سے ایک یہ بھی کرامت تھی کہ کوئی  کیسا بھی نشہ باز ہو، نیا خواہ پرانا، آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا، ذکر قلبی لیتا، آپ چھوٹی الائچی دم کرکے دیتے اور فرماتے کہ جب نشے کی طلب ہو تو اسے کھالینا۔ وہ طلب کی صورت میں الائچی استعمال کرتا تو حیرت انگیز طریقے سے اسے نشہ سے نفرت ہوجاتی۔ کئی نشہ باز کثرت نشہ کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن  چکے تھے، زندگی ان کے لئے کسی عذاب سے کم نہ تھی، مگر آپ کی نگاہ کرم سے غلیظ و ناپاک نشے سے تائب ہوکر نشۂ عشق خدا و عشق مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم میں سرشار ہوگئے۔ ہمارے دوست دلدار بھٹی، کثرت سگریٹ نوشی کی وجہ سے نفسیاتی مریض اور گھر والوں کے لئے پریشانی کا باعث بن گئے تھے۔ اپنی زندگی سے بہت ہی بیزار تھے۔ فقیر عبدالسلام نے انہیں اس مرد قلندر کا تعارف کرایا، بس آپ کی صحبت بابرکت میں جانے کی دیر تھی کہ سگریٹ سے نفرت ہوگئی۔ آج ماشاء اللہ تبلیغ کررہے ہیں۔ کئی افراد تو محض حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کا دیدار کرنے سے ہی نشہ سے تائب ہوجاتے۔

    آپ کا حلقہ ذکر و مراقبہ عجیب روحانی کیفیت و سرور کا مرقع ہوتا اور دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ جو خوش نصیب اس حلقہ ذکر میں شامل ہوجائے، انہوں نے بارہا دیکھا کہ آپ کی توجہ سے کئی نیم بسمل ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہوتے۔

    بیعت کا مقصد تزکیہ نفس و اصلاح احوال ہوتا ہے اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں یہ مقصد ذکر الٰہی، مراقبہ کی کثرت اور رابطہ و صحبت شیخ کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لئے آپ کے دربار عالیہ پر طالبان حق کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ فقراء اہل ذکر جانتے ہیں کہ آپ کی نگاہ حق بین جس پر پڑ جاتی، اس کے حالات میں حیران کن تغیر آجاتا اور غیر محسوس طریقے سے پہلی ہی صحبت میں اسے ذوق و شوق کی روح پرور کیفیت حاصل ہوجاتی۔ اسے گناہوں سے نفرت اور نیکیوں کی طرف رغبت پیدا ہوجاتی۔ ؎

رہبری سے تری گمراہ بھی رہِ حق پر آکر
کوئی کعبہ گیا اور کوئی مدینہ پہنچا

[ اوپر ]

کیفیات مجالس

    آپ کی ہر محفل ذکر خدا و رسول صلّی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ عطر بیز رہا کرتی تھی۔ خلوت ہو یا جلوت، سفر ہو یا حضر، گھر میں ہوں یا باہر، آباء و اصدقا کے ساتھ ہوں یا اعزاء و اقرباء کے دلوں کو ایقان و عرفان اور ایمان کو ذکر محبوب سے تازہ کردینا آپ کا نشان امتیاز بن گیا تھا۔ آپ کی مجالس میں توحید، ذکراللہ، عشق و محبت اور اتباع رسول صلّی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم، ماسلف بزرگان دین کے حالات و واقعات، تصوف و سلوک کے اسرار و رموز، دنیا کی حقیقت، آخرت کا بیان، اسی مناسبت سے تاریخی واقعات، نصیحت آموز لطیفے بھی پرلطف انداز میں بیان کئے جاتے۔ ان کے علاوہ ملکی صورتحال، بیرونی حالات، وقتی تقاضوں کے مطابق دیگر دنیاوی حالات و معاملات سے متعلق بھی بے تکلف گفتگو فرماتے۔ آپ کی مجالس کی یہ خصوصیت قابل ذکر ہے کہ نجی محفل ہوتی یا مجلس وعظ و نصیحت، کبھی کسی کی غیبت نہ کی جاتی۔ اگر کوئی دوسرا آدمی اس قسم کی بات کرتا تو اسے روک کر کوئی دوسری بات کرنے کا امر فرماتے۔ اس کے باوجود پندرہ شعبان المعظم شب برات اور شب قدر و عیدین کی صبح جملہ جماعت سے معذرت خواہ ہوتے تھے کہ احتیاط کے باوجود شاید کبھی مجھ سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہو، جب کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، مگر آپ کی کسر نفسی اور اعلیٰ ظرفی تھی اور یہ بھی آقائے نامدار صلّی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی۔ اسی لئے تو کسی نے خوب کہا ؎

صحبت مجلس پیر میرے دی، بہتر نفل نمازاں
اک اک سخن شریف انہاں دا کردا محرم رازاں

    آپ کی مجالس کے روزانہ تین اوقات مقرر تھے۔ صبح بعد نماز فجر ایک سے دو گھنٹہ، بعد نماز ظہر تقریبًا ایک ڈیڑھ گھنٹہ اور بعد نماز عصر تا مغرب۔ بعد نماز مغرب آپ گھر مبارک میں تشریف لے جاتے۔ ان مجالس میں روزانہ مقامی و بیرونی فقراء و مسافر شامل ہوتے رہتے جن کو حسب ضرورت ذکر کی تلقین، وعظ و نصیحت فرماتے، کبھی کسی مبلغ کو تبلیغی احوال سنانے کا امر فرماتے یا پھر تبلیغی خطوط سماعت فرماتے اور مبلغین کے لئے خصوصی دعائیں فرماتے۔

    باوجود یہ کہ آپ متبحر عالم دین تھے، کبھی بھی تصنع اور تکلفات سے کام نہیں لیا، جیسا کہ آج کل کے علماء ظاہر اپنے علم کا سکہ بٹھانے کے لئے خوب علمی نکات بیان کرتے ہیں، خوب لفاظی سے کام لیتے ہیں۔ آپ ہمیشہ ان تکلفات سے دور رہے۔ دوران تقریر قرآن و حدیث کے علاوہ حکایات واقعات اس ذوق و شوق اور پرتاثیر انداز میں بیان فرماتے کہ حاضرین پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ راقم نے بچشم خود دیکھا کہ جوش و جذبے میں جب آپ اللہ کے پاک نام کی ضرب لگاتے تو دہن مبارک سے نوری شعاعیں نکلتیں جو اہل مجلس کے قلوب میں جاکر جذبہ و وجد کی کیفیت طاری کردیتیں۔

    آپ کی تربیت کا انداز منفرد اور جداگانہ تھا، جو وقت کے تقاضوں اور سیرت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق تھا۔ آپ ہر شخص سے اس کی طبیعت، مزاج اور ذہنی استعداد کے مطابق گفتگو فرماتے اور اپنی نورانی توجہ سے نوازتے، جس سے آنے والا بہت بتاثر ہوتا۔ آپ ”حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم“ کی نبوی صفت سے عشق مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کی بدولت متصف تھے۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ ”کاش ہمارے پاس کوئی ایسی مشین ہوتی کہ ایک طرف سے بندے کو داخل کیا جاتا تو دوسری طرف سے ولی بن کر عالم دین بن کر نکلتا۔ آپ کے تصوف سے متعلق ارشاد گرامی ہے جو عاجز نے خود سنا کہ ”تصوف سے مراد ادارہ خدمت خلق ہے“۔ کتنا جامع ترین فرمان ہے کہ جس پر پوری کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔

    اللہ تعالیٰ نے اولاد نرینہ میں آپ کو صرف ایک ہی لخت جگر نور نظر عطا فرمایا جس کا نام مبارک آپ نے محمد طاہر رکھا، جو حقیقتًا ظاہری و باطنی پاکیزگی و طہارت اور نفاست کے پیکر ہیں۔ آپ نے اپنے اس لخت جگر کے لئے اپنی آہ سحر گاہی کو وقف کردیا۔ ہر جلسے و مجلس میں جہاں آپ اپنے روحانی فرزندوں کے لئے دعائیں فرماتے وہیں اپنے نسبی و روحانی لخت جگر کے لئے بھی بارگاہ ربوبیت میں فریاد کناں ہوتے اور جملہ جماعت اہل ذکر سے فرماتے کہ آپ لوگ بھی محمد طاہر کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں نیک اور صالح بنائے۔ آپ کے پیارے خلیفہ اور مخلص ترین دوست مولانا جان محمد سولنگی رحمۃ اللہ علیہ بتاتے ہیں کہ آپ جہاں اپنے ولولہ انگیز بیان سے اپنے مرشد کے فیض کا چرچا کرتے اور رو رو کر بارگاہ رب العزت اور بارگاہ رسالت میں فریاد کرتے وہیں جناب صاحبزادہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے لئے بارگاہ قدس میں فریاد کناں ہوتے، جماعت اہل ذکر آمین کی صداؤں سے بارگاہ صمدیت کا دروازہ کھٹکھٹاتی اور رحمت باری کا در یوں وا ہوتا کہ فیض کی جھڑی لگ جاتی اور جماعت پر وجد و گریہ کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ آپ نے اپنے لخت جگر کی تربیت میں کوئی کسی نہ چھوڑی اور نبوی میراث کے حصول میں انہیں اپنی توجہات سے خوب نوازا۔ صاحبزادہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے جہاں مختلف مدارس میں قرآن و حدیث پر مشتمل علوم و فنون حاصل کئے وہیں آپ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ عربیہ غفاریہ میں دورہ حدیث کی تکمیل جو کہ بعض مدارس میں صرف بخاری شریف کے ختم پر مکمل کرادیا جاتا ہے، لیکن جامعہ غفاریہ میں دورہ حدیث کی مکمل کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ دورہ حدیث کی تکمیل کے بعد اسی مدرسہ میں بطور مدرس و منتظم کے فرائض انجام دینے لگے اور ساتھ ہی آپ سے باطنی توجہات و سلسلہ عالیہ کے اسباق بھی حاصل کرتے رہے۔ تاوقتیکہ آپ روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز المرام ہوئے۔ تبلیغی فراغت کے بعد مرشد کریم نے جلد ہی آپ مدظلہ کو خلافت سے نوازا اور تبلیغی وفود تشکیل دے کر آپ کی قیادت میں مختلف علاقوں میں بھیجا گیا، جہاں آپ کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ کثیر تعداد میں لوگ شامل ہوتے۔ جماعت کو صرف آپ ہی ذکر دیتے اور مراقبہ کراتے۔ یہ سب کچھ محض اس لئے تھا کہ مستقبل کا راوی دیکھ لے کہ کل کو آپ کی برپا کی ہوئی روحانی تحریک کی قیادت آپ ہی نے انجام دینی ہے۔ ساتھ ہی آپ کی تبلیغی حرص اتنی زیادہ تھی کہ اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ مختلف عوارضات کے باوجود آپ یہ فریضہ بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ ہر نووارد دربار کی حدود میں آتے ہی باران رحمت الٰہی محسوس کرنے لگتا۔ وجع المفاصل کی وجہ سے آپ نماز کے لئے وہیل چیئر پر تشریف لاتے۔ صف میں آپ کے لئے لکڑی کی کرسی موجود ہوتی اور سامنے ڈیسک نما میز ہوتی جس پر جائے نماز بچھادی جاتی۔ آپ اسی پر سجدہ فرماتے۔ اتنے عوارضات کے بعد بھی آپ کا تبلیغی ذوق و شوق ہمیشہ جواں ہی رہا، یہاں تک کہ سن 1400 ہجری میں آپ نے مسلسل اٹھائیس دن کا پنجاب و سرحد کا تبلیغی دورہ فرمایا۔ اس کے بعد اتنا طویل دورہ کبھی نہ فرماسکے۔ وصال مبارکہ سے چند ماہ قبل بلوچستان کا دورہ نہایت ہی حیرت انگیز اور فکر آمیز ہے کہ باوجود اس کے کہ معمولی فاصلہ تک بھی چل جانے کی سکت نہ تھی، اس حالت میں بھی تبلیغی سفر فرمایا۔ حتیٰ کہ جب اوتھل سے لسبیلہ کی طرف جارہے تھے تو راستے میں پہاڑی ندی انتہائی شدت کے ساتھ بہہ رہی تھی۔ ایسے ندی نالے اپنے ساتھ ٹرک تک بہاکر لے جاتے ہیں۔ اس موقع پر فقراء نے عرض کیا کہ حضور راستہ خراب ہے، لیکن آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہاں لوگ ہمارا انتظار کررہے ہوں گے اس لئے ہم ضرور جائیں گے۔ لہٰذا فقراء نے آپ کو چارپائی پر بٹھایا اور چاروں طرف سے چارپائی اٹھاکر اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اللہ اللہ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے اس طوفانی نالے سے پار ہوئے اور جلسہ گاہ میں پہنچے تو لوگ آپ کی دینی فکر و اہمیت کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور ان پر جذب و وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ اس سفر سے واپسی کے بعد عوارضات میں شدید اضافہ ہوگیا۔

[ اوپر ]

آخری ایام اور وصال مبارک

    مؤرخہ یکم ربیع الاول 1404 ہجری بدھ کی رات کو گیارہ بجے کے قریب آپ کی طبیعت مبارک معمول سے زیادہ ناساز ہوگئی اور آپ پر نیم خوابی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ اسی کیفیت میں آپ نے اردو میں تقریر کرنا شروع کردی، دوران تقریر فرمایا ”اب ہم جاتے ہیں، مولوی محمد طاہر صاحب سے ذکر سیکھ لو“ اس کے بعد سندھی میں ارشاد فرمایا ”اچھا بھلا گھر کون ہلنداسیں؟“ (کیا گھر نہیں چلیں گے؟) چار مرتبہ یہی الفاظ مبارکہ دہرائے۔ ہر مرتبہ حضرت قبلہ سجن سائیں مدظلہ عرض کرتے رہے کہ حضور اپنے ہی گھر میں ہیں۔ شاید یہ اشارہ وطن آخرت کی طرف ہو جو مؤمنین کا اصلی گھر ہے۔

    یہ کیفیت دیکھ کر جناب ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب کو اطلاع دی گئی جو آپ کے خادم اور معالج خصوصی تھے۔ بروقت علاج سے قدرے فائدہ ہوا، تاہم نماز فجر پر مسجد میں تشریف فرما نہ ہوسکے جس سے عاشقین فقراء میں بے چینی پھیل گئی اور یہ خبر اور فقراء تک بھی پہنچ گئی۔ جس نے سنا فورًا دربار عالیہ پہنچا، مگر آپ نماز ظہر پر تشریف لے آئے۔ آپ کو رونق محفل دیکھ کر فقراء کے حوصلے بلند ہوئے۔

    مؤرخہ 5 ربیع الاول کو بعد نماز عصر تا مغرب مسجد شریف ہی میں جلوہ افروز رہے۔ پہلے تبلیغی خطوط سماعت فرمائے، نئے واردین کو طریقہ عالیہ میں داخل کرکے اذان مغرب تک نصیحت فرماتے رہے۔ نماز عشاء بھی مسجد شریف میں باجماعت ادا کی۔ رات کو معمول کے مطابق تہجد پڑھنے کے لئے اٹھے تو شدید تکلیف محسوس کرکے اہل خانہ کو بتایا۔ اسی وقت حضرت قبلہ صاحبزاہ صاحب مدظلہ العالی نے بذریعہ فون ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب کو اطلاع دی۔ آپ ڈاکٹر صاحب کی آمد تک وضو کرکے تہجد پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ ہاں یہ مقربین الٰہی کا ہی حوصلہ ہوتا ہے کہ شدید تکلیف میں بھی نہایت اطمینان سے اپنے خالق سے لو لگالیتے ہیں، انہیں زبردست سکون قلبی میسر ہوتا ہے۔ ابھی آپ نے دو نفل ہی ادا فرمائے تھے کہ ڈاکٹر صاحب انجکشن لئے حاضر خدمت ہوئے۔ آپ نے ڈاکٹر صاحب کو دیکھا تو فرمایا ”نہیں، اب اس کی ضرورت نہیں، اب اس کا وقت نہیں رہا“۔ یہ فرماکر روحانی و جسمانی کعبہ کی طرف متوجہ ہوکر لیٹ گئے اور ذکر بتانے کے طریقے پر ہاتھ اٹھاکر اللہ اللہ فرماتے ہوئے بروز پیر 6 ربیع الاول سن 1404 ہجری بمطابق 12 دسمبر 1983ء رات دو بج کر چالیس منٹ پر اپنے محبوب و معبود و مذکور خالق و مالک عزوجل کے ذکر کی انوار و تجلیات کے محویت کے عالم میں اس کے حضور جا پہنچے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ؎

آہ حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
روئے گل سیر ندیدم و بہار آخر شد

کیا کریں شکوہ کسی سے اپنی ویرانی کا ہم
اٹھ گیا سر سے ہمارے دوستو ظل ہما

    یہ جانکاہ خبر جس نے سنی مبہوت ہوکر رہ گیا اور اٹھ کر دربار عالیہ کی طرف دوڑ پڑا۔ بڑی عجیب کیفیت تھی اور نہایت رقت آنگیز منظر تھا۔ کئی دیوانے بیہوش تھے تو کئی جذب و وجد کی کیفیت میں تڑپ رہے تھے، کئی صبر کا پیکر بنے چادر ڈالے اپنے محبوب کی جدائی پر آنسو بہارہے تھے۔ ؎

بے کسی دیکھی نہیں جاتی تیرے خدّام کی
بے قراری سے کلیجہ شق ہوا جاتا ہے آج

    نماز فجر پر جب اپنے محبوب کا دلربا چہرہ نظر نہ آیا تو آہ سرد نے کلیجوں کو ہلادیا۔ حضرت قبلہ صاحبزادہ صاحب مدظلہ نے بڑی رقت کے ساتھ نماز فجر پڑھائی۔

    غسل دینے والے حضرات تجہیز و تکفین کے لئے جب جسد اطہر لینے خوابگاہ پر پہنچے تو آپ کے نورانی چہرہ سے پرکشش روشنی پھوٹ رہی تھی۔ نماز جنازہ کے لئے ظہر کا وقت مقرر ہوا تاکہ دور دراز سے آنے والے اپنے مرشد کی آخری زیارت کرسکیں۔ ظہر نماز تک سیکڑوں اہل دل و اہل عقیدت آنسوؤں کے نذرانوں کے ساتھ جمع ہوگئے تھے۔ تقریبًا دو بجے کے قریب آپ کا جسد اطہر باہر لایا گیا تو فقراء کی بے تابی دیکھی نہیں جاتی تھی۔ نماز ظہر کے بھی صاحبزادہ صاحب مدظلہ نے نہایت رقت قلبی کے ساتھ پڑھائی۔ آہ سرد سے مسجد کی فضا سوگوار ہورہی تھی۔ بعد نماز ظہر نماز جنازہ قبلہ صاحبزادہ صاحب برکاتہم العالیہ نے پڑھائی۔ دعا کے بعد زیارت عام کی اجازت دی گئی۔ بڑا ہی عجیب منظر تھا، مگر آپ کی صحبت کا فیضان یہاں کام آیا، کوئی بھی بآواز بلند روتا نظر نہ آیا، ہر ایک کی زبان پر اللہ اللہ کی دلنواز صدا جاری تھی۔ کئی فقراء مرشد کی جدائی کے تصور سے نماز جنازہ کے ساتھ ہی بے ہوش ہوگئے تھے۔ ؎

غمزدہ پایا اسے، اس کو ہراساں دیکھا
جس کو دیکھا اسے صد چاک گریباں دیکھا

جس طرف اٹھی نظر یاس کا ساماں دیکھا
نگہہ جس پر بھی پڑی اس کو ہی گریاں دیکھا

    جب آپ کا جسد اطہر مرقد انور میں اتارا جارہا تھا تو محبین کی آہ سرد سے آسمان کا کلیجہ شق ہوا جاتا تھا۔ ؎

دلبر دے وچھوڑے کولوں اجے رہیا میں زندہ
یس گناہوں آخر توڑیں سدا رہاں شرمندہ

    بالآخر عصر کے قریب تدفین کا عمل مکمل ہوا۔ آپ کا مزار پرانوار درگاہ اللہ آباد شریف میں پرانے مدرسہ کی جگہ پر مرجع خلائق عام ہے۔

[ اوپر ]

آپ کے جانشین

    آپ کے وصال سے گو ایک بہت بڑا خلا محسوس ہورہا تھا لیکن جلد ہی جمیع خلفاء کرام و علماء عظام کے مشورہ اور حضور قبلہ عالم امام الاولیاء سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات کی روشنی میں متفقہ طور پر بعد نماز فجر حضرت قبلہ صاحبزاہ مولانا محمد طاہر المعروف سجن سائیں مدظلہ العالی سے تجدید بیعت کا فیصلہ کیا گیا۔ نماز فجر کے بعد جب تمام خلفاء و علماء اور فقراء تجدید بیعت کے لئے آگے بڑھے تو حضرت قبلہ صاحبزادہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے بمشکل گریہ ضبط کرتے ہوئے بیعت لینے سے معذرت چاہی، تاہم جلیل القدر خلفاء کرام و علماء کرام کے اصرار پر ہاتھ آگے بڑھاکر بیعت لی۔ اس میں بھی پیش نظر یہی تھا کہ جماعت متحد و مستحکم رہے۔ یہ اسی اتحاد و اتفاق کی برکت ہے کہ الحمدللہ حضور کے فیض کا سورج نصف النہار پر چمک رہا ہے۔

    حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کی رات مورو کے دوست محترم غلام اکبر میمن نے بتایا کہ بروز پیر چھ ربیع الاول کی رات خواب میں دیکھا کہ حضور شمس العارفین محبوب سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ بڑے پیار و محبت کے انداز میں اپنے پیارے لخت جگر نور نظر صاحبزادہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو گلے لگاکر اپنے منہ مبارک سے ان کے منہ میں کوئی چیز ڈال رہے ہیں۔ چند بار یہی عجیب و غریب منظر نظر آیا کہ یکدم دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز پر میری آنکھ کھل گئی۔ باہر آنے پر معلوم ہوا کہ درگاہ سے فون آیا ہے کہ آفتاب رشد و ہدایت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ وصال فرما گئے ہیں۔

    اسی طرح بعد از وصال بھی حضور قبلہ عالم سیدی و مرشدی محبوبی سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے خواب اور بحالت کشف بھی کئی فقراء کو حضرت صاحبزادہ محبوب سجن سائیں مدظلہ العالی سے اکتساب فیض کرنے کی تلقین فرمائی، بلکہ بعض خوش قسمت افراد کو خود حضور سید عالم صلّی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حضرت صاحبزادہ صاحب مدظلہ العالی سے اکتساب فیض کرنے کی تاکید فرمائی۔ مولانا انوار المصطفیٰ صاحب نے بتایا کہ نوابشاہ میں نانا جان فقیر عبدالرحمان اور دو فقراء نے ایک ہی خواب ملاحظہ کیا کہ حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ چند اونٹنیاں لے کر درگاہ اللہ آباد شریف تشریف لائے اور فقیر عبدالرحمان صاحب کو فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب سجن سائیں مدظلہ العالی کو بلائیں بارگاہ نبوی سے فرمان ہوا ہے کہ انہیں پیش کیا جائے۔ پیغام ملتے ہی حضرت صاحبزادہ محبوب سجن سائیں مدظلہ فورًا حاضر ہوگئے۔ حضور سیدی و مرشدی کے گھر مبارک کے چند افراد اور کچھ دوسرے فقراء بھی اس قافلے کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوگئے جہاں حضور پرنور صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صاحبزادہ صاحب مدظلہ کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا، پھر یکے بعد دیگرے وہاں موجود اولیاء کرام نے ہار ڈالے یہاں تک کہ آپ کی گردن مبارک چہرہ مبارک تک پھولوں میں چھپ گئے۔ اس وقت  حضور سید عالم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اب اس فیض کو چلانے والا اور پھیلانے والا یہی نوجوان ہوگا“۔

    الغرض اس قسم کے کئی واقعات ہیں۔ مذکورہ بالا صرف نمونہ از خروارے کے طور پر رقم کئے گئے ہیں۔ حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں تنہا نہ چھوڑا اور بہترین قائد بلکہ ایک طرح سے پھر آپ جوانی میں آکر ساقی کوثر صلّی اللہ علیہ وسلم کا فیض تقسیم فرما رہے ہیں۔ بزرگ بعد از وصال دو دھاری تلوار کی مثل ہوجاتے ہیں، ان کی توجہات فیوض و برکات پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہ آپ کا ہی فیضان ہے کہ جماعت اب دن دونی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ محبوب سجن سائیں مدظلہ العالی کو خوب نوازا ہے۔ اپنے محبوب مرشد کے فیض کو تقسیم کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ الحمدللہ یہ فیض پاکستان کے علاوہ اب بیرونی دنیا میں بھی متعارف ہوچکا ہے۔ اسی طرح میرے محبوب مرشد کے فیض کا سورج نصف النہار پر چمکتا دمکتا رہے گا۔

اسی بیڑی دا پور ہمیشہ شالا صحیح سلامت
دنیا اتے موجاں مانے سکھی روز قیامت

ہر دم رہے ملاح سرے تے رکھے ہر گردابوں
پار چڑھاوے پور اساڈا بچیئے سبھ عذابوں

    اللہ تعالیٰ اس خانوادے کو  اپنے بہترین انعاماتو فیوضات سے نوازے۔ آمین۔

[ اوپر ]